لو جی وہابیوں کا اقرار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سخی داتا تھے
غیرمقلد وہابیوں کا محدث نواب وحید الزماں حیدر آبادی لکھتا ہے کہ : لوگ معاویہ کے پاس جب آتے تو گویا ایک کشادہ میدان کے کناروں پر آتے ۔ مطلب یہ کہ وہ بڑے متحمّل بردبار اور سخی داتا تھے ۔ یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ۔ (لغات الحدیث کتاب "ر" صفحہ نمبر 49 مطبوعہ نور محمد کتب خانہ مرکز علم و ادب آرام باغ کراچی)
اگر حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو داتا کہنا جائز ہے تو حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ المعروف داتا گنج بخش کو بھی داتا کہنا جائز ہے ۔
وہابی بتائیں کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی کو داتا ماننا شرک ہے تو آپ کے محدث نواب وحید الزماں حیدر آبادی مشرک ہوئے کہ نہیں ؟
اور ایک مشرک کو اپنا محدث ماننا کیسا ؟
لفظ داتا پر اعتراض آخر کیوں ؟ شرک کے ٹھیکیدارو ایک نظر اِدھر بھی
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیِّدُنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت کم وبیش ۴۰۰ ہجری میں غزنی شہر(مشرقی افغانستان) کے محلہ جلّاب میں ہوئی ۔ کچھ عرصے بعد آپ کا خاندان محلہ ہجویر میں منتقل ہوگیا ۔ آپ کی کُنیت ابوالحسن ، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب اس طرح ہے : حضرت سیِّد علی بن عثمان بن سیّد علی بن عبدالرحمن بن شاہ شُجاع بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سیِّدزید شہید بن حضرت امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بن علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر 8 تا 11 ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور،چشتی)
لفظ داتا : داتا آسماء الحسنیٰ میں نہیں ہے ، نہ قرآن میں نہیں ہے ، حدیث میں بھی تلاش کیا مگر نہ اردو نہ عربی میں ملا ۔
لغت میں اردو ۔ عربی ، داتا کے معنی اور تراجم : فلان أخْضَرُ (عام) (اسم ) ۔ فلاں شخص بہت داد و دہش کرنے والا ہے ، سخی اور داتا ہے ۔
لفظ اللہ اور رحمن کے علاوہ اللہ کے باقی صفاتی نام مجازی طور پر غیر اللہ پر بول سکتے ہیں کچھ الفاظ اللہ نے قرآن مجید میں خود بھی استعمال کئے ۔ اسی طرح آج کل شور ہے کہ داتا صرف اللہ ہے گنج بخش کو داتا کہنا شرک ہے ۔ داتا ہندی کا لفظ ہے معنی ہے دینے والا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پہلے مریدار رائے راجو جن کا نام شیخ ہندی رحمتہ اللہ علیہ رکھا انہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے صدقے ایمان کی دولت نصیب ہوئی تو انہوں نے داتا کہا سورہ یوسف آپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یوسف علیہ السلام قید خانہ میں گئے تو دو قیدی بھی ساتھ داخل ہوئے ۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ شراب نچوڑ رہاہوں آپ نے فرمایا یسقی ربہ خمرا وہ اپنے رب کو شراب پلائے گا ۔۔۔ لفظ رب نبی استعمال کررہا ہے بادشاہ مصر کے لئے تو مجھے کہنے دیجئے اگر کافر شرابی بادشاہ کے لئے یوسف علیہ السلام لفظ رب مجازی طور پر استعمال کریں تو شرک نہیں اگر ہم ولی کامل عالم دین آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مجازی طور پر داتا کا لفظ استعمال کردیں تو بھی شرک نہیں ہے ۔ کیا داتا لفظ بڑا ہے یا رب ؟
داتا کا مطلب دینے والا ہے ۔ دینا خدا کی صفت ہے اور اللہ جس کو چاہے اپنی صفات ، شجاعت ، سخاوت ودیعت کر دے ۔ یہ عطائی صفات ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی یہی صفت یعنی سخاوت حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ میں بدرجہ اتم موجود تھی ، وہ پوری زندگی ایسا کرتے رہے ، دیکھنے والے صاحبِ ثروت لوگوں نے بھی اس راہ پر چلنے کی کوشش کی ۔ داتا دربار سے گنج بخشی کا سلسلہ ظاہری ، باطنی اور روحانی طور پر جاری ہے ۔ سرچشمۂ نور و ہدایت تو ذاتِ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، آفتاب تو رسالت مآب ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غلام آفتاب رسالت کے نور سے مستیز ہو کر رشد و ہدایت کی کرنیں بکھیرتے ہیں ۔
نبی کریم کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ (ترمذی عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اَللّٰہُ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ الْغَفَّارُ الْقَھَّارُ الْوَھَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ الْحَکَمُ الْعَدْلُ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ الْحَلِیْمُ الْعَظِیْمُ الْغَفُوْرُ الشَّکُوْرُ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ الْحَفِیْظُ الْمُقِیْتُ الْحَسِیْبُ الْجَلِیْلُ الْکَرِیْمُ الرَّقِیْبُ الْمُجِیْبُ الْوَاسِعُ الْحَکِیْمُ الْوَدُوْدُ الْمَجِیْدُ الْبَاعِثُ الشَّھِیْدُ الْحَقُّ الْوَکِیْلُ الْقَوِیُّ الْمَتِیْنُ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ الْمُحْصِی الْمُبْدِیُٔ الْمُعِیْدُ الْمُحْییِ الْمُمِیْتُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْاَوَّلُ الْاٰخِرُ الظَّاھِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِیُ الْمُتَعَالُ الْبَرُّ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُوُّ الرَّئُوْفُ مَالِکُ الْمُلْکِ
ذُوالْجَلَالِوَالْاِکْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِیُّ الْمُغْنِی الْمَانِعُ الضَّآرُّ النَّافِعُ النُّوْرُ الْھَادِیُ الْبَدِیْعُ الْبَاقِی الْوَارِثُ الرَّشِیْدُ الصَّبُوْرُ ۔
“العلی” آسماء الحسنیٰ میں شامل ہے اور یہ نام “علی” استعمال میں عام مقبول ہے ۔ اسی طرح اکثر آسماء الحسنیٰ پر نام رکھے جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کے صفاتی نام ہیں جب “ال” لگایا جاتا ہے تو اللہ سے مخصوص ہوجاتا ہے ، لامحدود معنی میں ، ورنہ سادہ محدود عربی نام رہ جاتا ہے ۔۔ کسی انسان کا نام مجازی معنی میں ہوتا ہے ۔۔
اللہ ، ذاتی نام ہے اللہ کا ، اس کا کوئی مجازی مطلب نہی ۔ صرف اللہ کےلئیے مخصوص ہے ، اللہ ، نام کوئی مسلمان نہیں رکھتا جب تک کوئی اور نام ساتھ نہ ہو ۔۔ جیسے عبد اللہ ، اللہ کا غلام ۔۔۔ اگر کوئی اللہ پکارا جائیے تو شرک بن جاتا ہے ۔۔۔ مگر علی ، کہیں تو شرک نہیں سمجھا جاتا ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے صفاتی ناموں پر (محدود) نام رکھنا “ال” کے بغیر جائز سمجھا جاتا ہے ۔
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ ﴿سورہ فاتحہ﴾
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے ۔
قرآن مجید میں رب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ افراد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہِ مصر کے بارے میں کہا : وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ .
ترجمہ : اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے ۔ (سورہ يُوْسُف، 12: 42)
دوسرے مقام پر فرمایا : وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ .
ترجمہ : اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو (فورًا) میرے پاس لے آؤ، پس جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سورہ يُوْسُف، 12: 50،چشتی)
مذکورہ بالا آیات میں ’رب‘ کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ درج ذیل آیت میں رب کا لفظ بیک وقت اللہ تعالیٰ اور والدین کے لیے آیا ہے ۔
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا .
ترجمہ : اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (ﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو : اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا ۔ (سورہ بَنِيْ إِسْرَآئِيْل، 17: 24)
مطلقاً رب کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی مستعمل ہے کیونکہ وہی ذات حقیقی مربی و مالک ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات پر علیٰ الاطلاق ہے ۔ مگر مجازاً رب کا لفظ تربیت دینے والے ، پرورش کرنے والے اور بادشاہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے .
داتا تو اسماء الحسنیٰ میں سے نہیں ہے ۔۔ اس کے کئی مطلب ہیں ، دینے والا ، سخی ، فیاض ، رازق ، درویش ، فقیر، سائیں ۔۔ اب اس کا استعمال ، نیت اور سیاق و سباق سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ کس معنی میں استعمال ہو رہا ہے ۔
نیت تو صرف اللہ کو معلوم ہے ۔ مگر استعمال کرنے والا اگر واضح ہے کہ وہ اللہ کے لئیے نہیں بلکہ عام دوسرے معنی میں استعمال کر رہا ہے تو اس پر شرک کا فتوی لگانا کیا درست ہوگا ؟
یہ تکفیری ، خوارج دہشت گردوں شرک کے ٹھیکیداروں کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی تاویل ، و تفسیر دوسروں پر تھوپ کر کفر ، مرتد ، مشرک واجب القتل قرار دے کر خود کش حملے کرتے ہیں ۔۔ قتل کرتے ہیں ۔
مسلمان ہر نماز میں اقرار کرتے ہیں کہ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔ ﴿سورہ فاتحہ﴾
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔
ایسے شخص کو مشرک کیسے کہ سکتے ہیں ؟
شرک خفی میں کوئی بھی مبتلا ہو سکتا ہے مگر مسلسل استغفار اور ذکر اس کا علاج موجود ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے ۔ (بخاری ومسلم)
دوسری روایت میں ہے : حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا ۔ (صحیح مسلم جلد اول حدیث نمبر 219 ،چشتی)
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
”داتا گنج“ کے معنی خزانوں کا لٹانے والا، مراد اس سے اللہ تعالیٰ ہے، اس کے آگے بخش لگانے کے بعد حاصل یہ نکلا ”اللہ بخش“ غالباً حضرت شیخ علی ہجویری اسی لقب کے ساتھ مشہور تھے ، اس لیے اس نام میں کوئی حرج نہیں ، اور غوث کا لفظ عرف میں قطب اور بہت بڑے ولی کے لیے بولا جاتا ہے ، اس لیے اونچے مقام والے ولی کو غوث بھی کہہ سکتے ہیں ۔ (اس اسکین ہم ساتھ پیش کر رہے ہیں)
داتا،غریب نواز یا غوث کہنا کیسا ؟
محترم قارئینِ کرام : اکثر شرک کے ٹھیکیداروں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اللہ داتا ہے اس لئے داتا سیّد علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کہنا شرک ہے ، کبھی کہتے ہیں اللہ غوث الاعظم ہے اس لئے غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہنا شرک ہے ۔ کبھی کہتے ہیں اللہ غریب نواز ہے اس لئے غریب نواز سیّد معین الدین چشیے اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کہنا شرک ہے ۔
یہ القاب ، عزت افزائی کے لئے ان ناموں کے ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالےٰ حاکم ہے اور احکم الحاکمین بھی ہے ، اللہ تعالےٰ مالک ہے اور مالک الملک بھی ہے ۔ جو اللہ کو احکم الحاکمین تو مانے لیکن اس کے تابع کسی حاکم کو نہ مانے ، جو اللہ کو مالک الملک تو مانے لیکن اس کے تابع کسی مالک نہ مانے تو اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے ۔
اللہ اکبر کا مطلب ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ باقی سب حاکم ، سب مالک ، سب غوث ، سب قطب ، اس کے بندے ہیں اور ان بندوں کو یہ اعزازات اس اللہ اکبر نے ہی عطا فرمائے ہیں :
(1) رحیم خدا کا اسم ہے ۔
ان ربک لھو العزیز الرحیم
ترجمہ: تمھارا رب عزیز اور رحیم ہے ۔
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی رحیم ہیں ۔
لقد جآءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمو منین رو ءف رحیم
ترجمہ: تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئے تمہاری تکلیف ان کو گراں گزرتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں کے لئے روف اور رحیم ہیں ۔
(2) اللہ کا نام بھی روف ہے ۔
ان ربک لروف الرحیم ۔ (نحل ۔7)
ترجمہ: تمہارا رب روف اور رحیم ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی روف ہے
وبالمو منین رئوف رحیم ۔ (توبہ۔128)
ترجمہ: اور مو منوں کے لئے وہ رؤف (تکلیف دہ امور ہٹانے والے ) اور رحیم (راحت رساں امور پہنچانے والے ہیں) ۔
(3) اللہ کا نام مومن ہے ۔
لا الہ الا ھو ۔ المک القدوس السلام المومن (حشر ۔ 23)
ترجمہ: اللہ کے سواکوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ قدوس ہے سلام ہے اور مومن ہے
بندے بھی مومن ہیں ۔
الذین یقیمون الصلوۃ ومما رز قنھم ینفقون او لئک ھم المو منون حقا
ترجمہ: وہ نماز قائم کرتے ہیں اللہ کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں وہی سچے مومن ہیں ۔
(4) اللہ کا نام ولی ہے ۔
ام اتخذوا من دونہ اولیآء فااللہ ھو ا لولہ ۔ (شوریٰ۔9)
ترجمہ : کیا انہوں نے اس کے سوا کار ساز بنالئے ہیں ؟ولی تو خدا ہے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ولی ہیں ۔
انما ولیکم اللہ ورسولہ ۔ (مائدہ)
ترجمہ : تمہارا ولی اللہ ہے ۔ اس کا رسول ۔
(5) علیم اللہ ہے ۔
نرفع درجت من نشاء ان ربک حکیم علیم ۔ (انعام ۔83،چشتی)
ترجمہ: ہم جسے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں بے شک تمہارا رب حکیم اور علیم ہے ۔
یوسف علیہ السلام کا نام بھی علیم ہے ۔
قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ۔ (یوسف ۔ 58 )
ترجمہ:۔ یوسف علیہ السلام نے کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجئے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا علیم ہوں ۔
ان حوالہ جات کاخلاصہ ملاحظہ ہو
رب بھی رحیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی رحیم
رب بھی رؤف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصطفٰےصلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف
اللہ مومن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی مومن
اللہ ولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی ولی
اللہ علیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی علیم
اللہ حفیظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی حفیظ
اللہ سمیع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی سمیع
دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے میں نے پوچھا : بون آف کنٹنشن کیا ہے ؟ کہنے لگا یہ علی کو مشکل کشاء کہتا ہے مشکل کشاء صرف اللہ ہے ، حاجت روا صرف اللہ ہے میں نے پوچھا جناب کیا مشکل صرف اللہ دور کرتا ہے ؟ بولے ہاں میں نے کہاں بھوک لگی تھی آپ گھر گئے ۔ فورا بیوی نے روٹی پکا کردی ۔ آپ نے کھائی ۔ جان میں جان آئی ۔ ایک مشکل تو آپ کی بیوی نے بھی حل کردی آپ دیوالیہ ہونے لگے ، آپ کی کروڑوں کی جائیداد بکنے لگی ۔ مگر ایک دوست نے آپ کی مطلوبہ رقم پینچادی اتنی بڑی مشکل کشاء پکاراٹھے تو کیا قیامت ہے ؟ وہ مجھے کہنے لگے مشکل کشاء صرف اللہ کو کہیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے اب اپنے بیان پر قائم رہنا ۔ جو اللہ ہے وہ بندہ نہیں ہو سکتا یہی ہے ناں تمہارا مطلب ؟ وہ بولا ہاں ۔
اللہ رحیم ہے تو بندہ رحیم
اللہ مومن ہے بندہ بھی مومن
اللہ کو ولی کہتے ہی بندہ کو بھی ولی کہتے ہیں
بولو کہنے والا مشرک ہوگا ؟
رحیم اللہ کا نام ہے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیا تو کہنے والا مشرک ہوگا ؟ میں نے آیات بھی پڑھیں وہ خاموش ہو گیا میں نے کہا سن تجھے بتاؤں :
اللہ رحیم ہے ذاتی طور ہر ۔۔۔۔۔ بندہ رحیم عطائی طور پر
اللہ ولی ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ ولی ہے عطائی طور پر
اللہ علیم ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ علیم ہے عطائی طور پر
اللہ حفیظ ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ حفیظ ہے عطائی طور پر
فرق ہوگیا ناں ؟ اگر کوئی آدمی بندے کو مجازی طور پر مشکل کشاء کہنے سے کافر ہوجاتا ہے کیونکہ مشکل کشاء اللہ ہے تو پھر رحیم نبی کو کہا تو بھی کافر ہوناچاہیے ۔ علیم کہو تو کافر ، ولی کہنے سے بھی کافر ، اگر کافر ہو گا تو پھر اللہ نے رحیم ، علیم ، حفیظ ، سمیع ، ولی ، مومن باوجودیکہ اس کے نام ہیں بندوں کو ان ناموں سے کیوں مخاطب کیا ہے ؟ اگر غیر اللہ کو علیم ، حکیم ، حلیم ، کریم ، حفیظ ، سمیع ولی ، مومن کے اسماء سے پکارنے والا کافر نہیں ہوتا تو اسی طرح مجازی طور پر کسی کو مشکل کشاء کہنے سے بھی آدمی کافر نہیں ہوتا ۔
اسی طرح عدد ایک بھی ہے ۔ کوئی پوچھے اللہ کتنے ہیں ؟ آپ فورا کہتے ہیں اللہ ایک ہے اور یہی ایک آپ باپ کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں جب کوئی پوچھے کہ تمہارے باپ کتنے ہیں تو آپ کہتے ہی ایک ہے باپ ایک ہے کیا آپ کے نزدیک مشرک نہ ہوگا ؟
رسول اکرم شفیع اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا ابو امامہ صحابی رضی اللہ عنہ کو فرمایا : لاتجالس قدریا ولامرجیا ولاخارجیا انھم یکفون الدین کما یکفاء الاناء و یغلون کما غلت الیھود والنصاریٰ ۔
ترجمہ : اے ابو امامہ تو کسی قدری ، کسی مرجی ، کسی خارجی کے پاس مت بیٹھ (یہ تینوں اسلام کا دعویٰ کرنے والے کلمہ پڑھنے والے گمراہ فرقوں کے نام ہیں) اور فرمایا یہ مسلمان کہلانے والے گمراہ لوگ یہ دین کو یوں الٹ دیتے ہیں جیسے کہ برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور یہ بد مذہب لوگ دین میں ایسا غلو کرتے ہیں جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا ہے ۔
یہودیوں نے جو دین میں غلو کیا اس کی ایک مثال جیسے قرآن مجید میں ہے : وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء ۔ (سورۃ مائدہ)
ترجمہ : یہودی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں ان یہودیوں کے ہاتھ بند ہو جائیں اور ان پر ایسا کہنے کی بنا پر لعنت ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں دست کرم کھلے ہیں وہ جس کو چاہے جتنا چاہے عطا کرے ۔
یوں ہی ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں نہ وہ کسی کو غوث بنا سکتا ہے نہ داتا گنج بخش بنا سکتا ہے نہ کسی کو گنج شکر بنا سکتا ہے نہ کسی کو غریب نواز بنا سکتا ہے اللہ تعالٰٰی مسلمانوں کو ایسا دین میں غلو کرنے والوں سے بچائے رکھے آمین ۔
خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔
خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ .
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔
یعنی جیسے کافروں بت پرستوں کے معبود بت نکمے ناکارے کچھ نہیں کر سکتے یوں ہی ولی نبی کچھ نہیں کر سکتے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment