Tuesday, 8 October 2019

سبز عمامہ اور سبز چادر اوڑھنے والے دجال کے پیروکار ہیں کا جواب دوم

سبز عمامہ اور سبز چادر اوڑھنے والے دجال کے پیروکار ہیں کا جواب دوم

محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سبز عمامہ اور سبز چادر اوڑھنے والے دجال کے پیروکار ہیں اس کا جواب ہم اس سے پہلے بھی عرضی کر چکے ہیں آیئے اب جواب دوم پڑھتے ہیں ۔

عن سلیمان بن ابی عبد اللّٰہ قال ادرکت المہاجرین الاولین یعتمون بعمائم کرابیس سود و بیض و حمر و خضر و صفر یضع احدھم العمامۃ علی راسہ ویضع القلنسوۃ فوقھا ثم یدیر العمامۃ ھکذا یعنی علی کورہ ، لایخرجھا من تحت ذقنہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 343)،(مصنف ابن ابی شیبہ عربی جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 241) ، (شرح مسلم جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 363)
ترجمہ : سلیمان بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مہاجرین اولین رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ سیاہ ، سفید ، سرخ ، سبز اور زرد رنگ کا عمامہ پہنتے پایا ۔ ان میں کا ایک شخص عمامہ کو اپنے سر پر رکھتا ، پھر عمامہ کو یوں گھماتا ، یعنی اس کے پیچ پر ، اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے سے نہ نکالتا ۔

اس حدیث پاک سے مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کا سبز عمامہ ثابت ہوتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے کسی کام کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاموشی اختیار فرمانا سنت تقریری کہلاتا ہے ۔اے مسلکی و جماعتی تعصب کی وجہ سے سبز عمامہ مبارک کا مذاق اڑانے والو مہاجرین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی مذاق اڑاؤ گے ؟

محترم قارئینِ کرام : احادیث طیبہ کثیرہ صحیحہ میں عمامہ کے بے شمار فضائل وارد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

سنن ابی داؤد میں ہے : فرق ما بیننا و بین المشرکین العمائم علی القلانس ۔۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ہم میں اور مشرکوں میں فرق ٹوپیوں پر عمامے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد،باب العمائم،٦:١١٧،رقم الحدیث:٤٠٧٨،مطبوعہ:دار الرسالۃ العالمیہ)
کنز العمال میں ہے : العمامۃ علی القلنسوۃ فصل ما بیننا وبین المشرکین یعطی یوم القٰیمۃ بکل کورۃ یدروھا علی راسہ نورا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ٹوپی پر عمامہ ہمارا اور مشرکین کا فرق ہے ہر پیچ کہ مسلمان اپنے سر پر دے گا ا س پر روزِ قیامت ایک نور عطا کیا جائے گا ۔ (کنز العمال،حرف المیم ،کتاب المعیشۃ،الباب الثالث،الفصل الاول ،فرع فی العمائم،١٥،٣٠٥،الحدیث :٤١١٣٤،مؤسسۃ الرسالۃ)
کنز العمال میں ہے : العمائم تیجان العرب فاذا وضعواالعمائم وضعواعزھم وفی لفظ وضع اﷲ عزھم ۔
ترجمہ : عمامے عرب کے تاج ہیں جب عمامہ چھوڑ دیں تو اپنی عزت اُتار دیں گے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالٰی ان کی عزت اتار دے گا ۔ (کنز العمال،حرف المیم ،کتاب المعیشۃ،الباب الثالث،الفصل الاول ،فرع فی العمائم،١٥،٣٠٥،الحدیث ٤١١٣٢،مؤسسۃ الرسالۃ)
طبرانی معجم کبیرمیں ہے : اعتموا تزدادوا حلما۔ صححہ الحاکم ۔
ترجمہ : عمامہ باندھو تمہارا حلم بڑھے گا ۔ امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ۔ (المعجم الکبیر ،باب ماجاء فی لبس العمائم الخ،چشتی)
بیہقی شعب الایمان میں ہے : اعتمواتزدادواحلماوالعمائم تیجان العرب ۔
ترجمہ : عمامہ باندھو وقار زیادہ ہوگا اور عمامے عرب کے تاج ہیں ۔ (شعب الایمان)
کنز العمال میں ہے : لاتزال امتی علی الفطرۃ مالبسواالعمائم علی القلانس ۔
ترجمہ : میری امّت ہمیشہ دینِ حق پر رہے گی جب تک وہ ٹوپیوں پر عمامے باندھیں ۔ (کنز العمال،حرف المیم ،کتاب المعیشۃ،الباب الثالث،الفصل الاول ،فرع فی العمائم،١٥،٣٠٥،الحدیث :٤١١٤٨،مؤسسۃ الرسالۃ)
السنن الکبری للبہیقی ہے : ان ﷲامدنی یوم بدروحنین بملٰئکۃ یعتمون ھذہ العمۃ وقال ان العمامۃ حاجزۃ بین الکفر والایمان ۔
ترجمہ : بیشک ﷲ عزوجل نے بدروحنین کے دن ایسے ملائکہ سے میری مدد فرمائی جو اس طرز کا عمامہ باندھتے ہیں بیشک عمامہ کفر و ایمان میں فارق ہے ۔ (السنن الکبرٰی للبیہقی باب التحریض علی الرمی،١٠:٢٤،١٩٧٣٦،الناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت - لبنات)
کنز العمال میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عمامہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : ھکذا تکون تیجان الملٰئکۃ ۔
ترجمہ : فرشتوں کے تاج ایسے ہوتے ہیں ۔ (کنز العمال،حرف المیم ،کتاب المعیشۃآداب التعمم ، ،١٥،٤٨٤،الحدیث :٤١٩١٤،مؤسسۃ الرسالۃ)
کنز العمال میں ہے : ان ﷲ تعالٰی اکرم ھذہ الامۃ بالعصائب ۔
ترجمہ : بیشک ﷲ تعالٰی نے اس امّت کو عماموں سے مکرم فرمایا ۔ (کنز العمال،حرف المیم ،کتاب المعیشۃ،الباب الثالث،الفصل الاول ، فرع فی العمائم ،١٥:٣٠٧،الحدیث :٤١١٤٣،مؤسسۃ الرسالۃ)
کنزالعمال میں ہے : اعتمواخالفواعلی الامم قبلکم ۔
ترجمہ : عمامے باندھو اگلی امتوں یعنی یہود و نصارٰی کی مخالفت کرو کہ وہ عمامہ نہیں باندھتے ۔ (کنزالعمال،حرف المیم ،کتاب المعیشۃ،الباب الثالث،الفصل الاول ،فرع فی العمائم،١٥،٣٠٦،الحدیث :٤١١٣٧،مؤسسۃ الرسالۃ)

احادیث طیبہ کثیرہ سے عمامہ کے فضائل ثابت ہوچکنے کے باوجود عمامہ باندھنے کو لمحہ فکریہ کہنا یقینا کہنے والے کے لمحہ فکریہ ہے ۔

اب ہم آتے ہیں کیئے جانے والے اعراض کے جواب کی طرف : واضح رہے ایک حدیث میں سیجان مذکور ہے ، اور ایک میں سیجان کی جگہ طیالسہ وارد ہے دونوں کے متعلق معتمد کتبِ لغت سے شواہد ملاحظہ ہوں کہ جن میں واضح بیان ہے کہ حدیث مذکور میں'' السیجان'' کا ترجمہ سبز عمامہ کرنا بددیانتی پر مبنی ہے ۔

کتب ِلغت سے طیالسہ کے معنیٰ ملاحظہ ہوں

المعجم الوسیط میں ہے : (الطالسان) ضرب من الأوشحۃ یلبس علی الْکَتف أَو یُحِیط بِالْبدنِ خَال عَن التفصل والخیاطۃ أَو ہُوَ مَا یعرف فِی العامیۃ المصریۃ بالشال (فَارسی مُعرب تالسان أَو تالشان ۔
ترجمہ : طالسان ایک قسم کا لباس ہے جو زینت کے لیے کندھے پر استعمال کیا جاتا ہے یا اس سے بدن کو ڈھانپا جاتا ہے جو تفصیل اور سلائی سے خالی ہے (مثلاً : یوں کہ یہ حصہ آستین کے لیے ہے یا یہ حصہ پیٹ کے لیے ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اور بغیر سلا ہوا ہے) یا وہ جسے مصر میں عام لوگ شال کہتے ہیں ۔ یہ لفظ در اصل فارسی کا ہے اور تالسان یا تالشان تھا جسے عربی میں طالسان بنالیا گیا یعنی یہ لفظ معرب ہے ۔ (المعجم الوسیط،باب الضاد،٢:٥٦١،مطبوعہ: دار الدعوۃ،چشتی)
المعجم الوسیط میں ہے : الطلس من الثِّیَاب الْوَسخ أَو مَا فِی لَونہ طلسۃ ۔
ترجمہ : جس کپڑے میں میل یا جس کا رنگ طلسہ ہو اسے اطلس کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الوسیط،باب الضاد،٢:٥٦٢،مطبوعہ: دار الدعوۃ)
المعجم الوسیط میں ہے : (الطلسۃ) الغبرۃ إِلَی السوَاد وَمَا رق من السَّحَاب ۔
ترجمہ : طلسہ کہتے ہیں وہ مٹیالا رنگ جو سیاہی مائل ہو اوروہ رنگ جو پتلے بادلوں کا ہوتا ہے ۔ (المعجم الوسیط،باب الضاد،٢:٥٦٢،مطبوعہ: دار الدعوۃ)
المنجد میں ہے : طلسۃ: خاکستری مائل بہ سیاہی ہونا ۔ الطَلس :کالی چادر ۔ الطِلس : مٹایا ہوا کاغذ ، میلا کپڑا ۔ (المنجد'' عربی اردو''،س۔و۔ج، صفحہ #٥١٨، مطبوعہ : خزینہ علم و ادب)

الغرض : واضح ہوا کہ طیالسہ کا معنیٰ چادر یا شال کے ہیں جسکا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے ۔

کتب لغت سے سیجان کے معنیٰ ملاحظہ ہوں

لسان العرب میں ہے : وتصغیر الساج: سویج، والجمع سیجان . ابن الأعرابی : السیجان الطیالسۃ السود، واحدہا ساج ۔ ساج کی تصغیر سویج ہے اور جمع سیجان ۔ ابن عربی نے کہا : سیجان سیاہ رنگ کی چادریں ہیں جسکا واحد ساج ہے ۔
اسی میں ہے وقیل : الطیلسان المقور ینسج کذلک ، اور کہا گیا ہے سیجان اس طیلسان ''چادر'' کو کہتے ہیں جس پرسیاہ رنگ کی تارکول لگایا گیا ہو ۔ (لسان العرب لجمال الدین ابن منظور الانصاری الافریقی،فصل الشین المعجمۃ،٢:٣٠٣ ،مطبوعہ:دار صادر بیروت)
تاج العروس میں ہے : السیجان الطیالسۃ السود ، واحدہا ساج ۔ سیجان سیاہ رنگ کی چادریں ہیں جسکا واحد ساج ہے ۔ (تاج العروس،سوج ،٦:٥٠،مطبوعہ:دارالھدایۃ)
المعجم الوسیط میں ہے : (الساج) ضرب من الشّجر یعظم جدا وَیذْہب طولا وعرضا وَلہ ورق کَبِیر (ج) سیجان ۔ ساج ایک بڑا درخت ہے جو لمبائی ، چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے اور اسکے بڑے بڑے پتے ہوتے ہیں ۔ ساج کی جمع سیجان ہے ۔ (المعجم الوسیط،باب السین،:٤٦٠،مطبوعہ: دار الدعوۃ)
تاج العروس میں ہے : (و) الساج: (الطیلسان الأخضر) وبہ صدر فی النہایۃ ، أو الضخم الغلیظ، (أو الأسود) ، أو المقور ینسج کذالک ۔ ساج سبز رنگ کی چادر کو کہا جاتا ہے اور نہایہ میں اسی کے ساتھ ابتدا کی گئی یا ساج : موٹا کپڑا (لحاف)ہے یا سیاہ رنگ کی چادر ہے،ساج تارکول والے سیاہ داگے سے بنے ہوئے کپڑے کو بھی کہا جاتا ہے ۔ (تاج العروس،س۔و۔ج،٦:٥٠،مطبوعہ:دارالھدایۃ،چشتی)
عربی اردو لغت کی مشہور کتاب ''المنجد '' میں ہے : الساج:ساکھو کا درخت ، ج (جمع) : سیجان ، واحد ، (ساجۃ) کشادہ گول چادر،کساء (مسوج)گول کیا ہو کمبل ۔
تاج العروس میں ہے : وقیل الساج: الطیلسان المدور، ویطلق مجازا علی الکساء المربع . اور بیان کیا گیا ہے کہ ساج گول چادر کو کہا جاتا ہے اوربہ طور مجاز چورس چادر پر بھی اطلاق کیا جاتا ہے ۔ (تاج العروس،س۔و۔ج،٦:٥٠،مطبوعہ:دارالھدایۃ)

واضح ہواسیجان سے سبز عمامہ مراد لینا نہ حقیقتاً درست ہے نہ ہی مجازا ً۔ رہی بات چادر کی تومجازا مربع چادر مراد لی جاسکتی ہے لیکن دعوت اسلامی والوں کی چادریں تو سفید ہیں نہ کہ سبز۔

الغرض : سیجان : سیاہ رنگ کی چادر ، تارکول ملے ہوئے داگہ سے بنی ہوئی چادر یا ایک قول کے مطابق سبز رنگ کی چادر ہے ۔ جیسا کہ معتمد کتبِ لغت سے تصریح کی گئی ۔ لہٰذا سیجان کا ترجمہ محض سبز عمامہ یا چادریں کرنا بد دیانتی ہے ۔
نیز واضح رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سفید لباس کے بعد سبز رنگ کا لباس نہایت پسند تھا ، نیز سبز رنگ کی چادر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے استعمال فرمائی ، لہٰذاجس لباس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع نہیں فرمایا نہیں حرمت و کراہت کی کوئی وجہ ہو ، بلکہ استعمال فرمایا ہو اُسے حرام کہنا جرم عظیم ہے ۔
تفسیرِ مظہری میں ہے : عن انس قال کان أحب الألوان الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخضرۃ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کورنگوں میں سب سے زیادہ پسند سبز رنگ تھا ۔ (تفسیر مظہری ، ج:٦،ص:٣٢ مطبوعہ:مکتبۃ الرشیدیہ الباکستان)
صحیح البخاری میں ہے : عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: کان أحب الثیاب إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم أن یلبسہا الحبرۃ ۔
ترجمہ : انس بن مالک سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یمنی دھاریدار لباس پہننا پسند فرماتے تھے ۔ (صحیح البخاری،کتاب اللباس، باب البرود والحبلۃوالشمل)
شرح سفر السعادۃ میں ہے : ابن عباس گفت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم را بر منبر دیدم کہ خطبہ میکرد وبردھائے سبز پوشیدہ بود ۔ (شرح سفر السعادۃ)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے پیغمر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو منبر پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خطبہ دے رہے تھے اور سبز رنگ کی چادر آپ کے زیب تن تھی ۔

الغرض : سبز رنگ کی چادر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے استعمال فرمائی جس پر اعتراض کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لباس شریف پر اعتراض کرنا ہے ۔ (نعوذ باللہ من ھذا )

نیز یہ وعید جو حدیث مبارکہ میں ہے جسے لے کر اعتراض کیا جاتا ہے یھود کے متعلق ہے جو کہ اصبہان یا اصفہان کے ہونگے ، مسلمانوں پر اس کا اطلاق بلاشبہ مسلمانوں کے ساتھ عداوت کی واضح دلیل ہے ۔
جیسا کہ المعجم الاوسط میں ہے : عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یخرج الدجال من یہودیۃ اصبہان ومعہ سبعون الفا من الیہود علیہم السیجان ۔
ترجمہ : حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا یھود اصبھان سے دجال نکلے گا اس کے ساتھ سترہزار یھود ہونگے جن پر سبز ''یا کالی '' چادریں ہونگی ۔ (المعجم الاوسط،من اسمہ الفضل ،٥:١٥٦،الحدیث٤٩٣٠،مطبوعہ : دارالحرمین ،القاھرۃ)
کنز العمال میں ہے : عن ابن عباس قال: الدجال أول من یتبعہ سبعون ألفا من الیہود علیہا السیجان ۔
ترجمہ : عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا دجال کی سب سے پہلے ستر ہزار یھود پیروی کریں گے جن پر سیجان ہونگی ۔ (کنز العمال ،کتاب القیامۃ ،نزول عیسی علیہ السلام ،١٤:٧٠٠،الحدیث ٣٩٧٢٦،مطبوعہ:مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)
مرقاۃالمفاتیح میں ہے : (یتبع الدجال من أمتی ") أی: أمۃ الإجابۃ أو الدعوۃ وہو الأظہر لما سبق أنہم من یہود أصفہان ۔
ترجمہ : میری امت دجال کی پیروی کریں گے : یعنی امت اجابۃ یا امت دعوۃ اور وہی زیادہ اظھر ہے کے پہلے گذرا کہ وہ یھود اصفہان سے ہیں ۔ (کتاب الفتن،باب العلامات بین یدی الساعۃو ذکر الدجال ،٨:٣٤٨١،الحدیث:٥٤٩٠،دار الفکر بیروت،لبنان،چشتی)
واضح رہے دجال کی پیروی کرنے والوں کے متعلق دو طرح کی حدیثیں ہیں ایک مطلق اور دوسری مقید کہ جس میں تصریح ہے کہ دجال کے پیروکار یہودِ اصفہان ہوںگے ۔ نیز مقید حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ دجال کی تابعداری کرنے والے اصفہان کے یہود ہونگے وہ حدیث بہ لحاظِ سند قوی ہے جبکہ دوسری حدیث کے ایک راوی بہ نام ابو ہارون متروک ہے جس کی وجہ سے مطلق حدیث میں ضعف ہے ۔
مذکور حدیث کے راوی ابو ہارون کے متروک ہونے کے متعلق مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے : قیل: فی سندہ أبو ہارون وہو متروک ۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ،کتاب الفتن،باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال،٨:٣٤٨١،رقم الحدیث:٥٤٩٠،الناشر: دار الفکر، بیروت - لبنان)

امت اِجابت ، امت دعوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کفار و مسلمانوں ہر دو کو احکام کی تبلیغ کی ، پیغامِ حق پہچانے اور راہِ حق کی دعوت دینے کے لحاظ سے آپ کی امت کو امت ِ دعوت کہا جاتا ہے جسمیں کافر بھی داخل ہیں ، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشادات کو فقط مسلمانوں نے تسلیم کیا اس لحاظ سے امتِ مسلمہ کو امتِ اجابت کہا جاتا ہے اور حدیث مذکور میں جو امت مذکور ہے اس میں دو احتمال ہیں ، امتِ اجابت ، امتِ دعوت ، صحیح یہ ہے کہ مراد امت ِ دعوت ہے جو کفار کو بھی شامل ہے جیسا کہ المعجم الاوسط اور کنز العمال میں مذکور مندرجہ بالا احادیث سے ظاہر ہے ۔

نیز مرقاۃ میں ہے : أی: أمۃ الإجابۃ أو الدعوۃ وہو الأظہر لما سبق أنہم من یہود أصفہان ۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ،کتاب الفتن،باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال،٨:٣٤٨١،رقم الحدیث:٥٤٩٠،الناشر: دار الفکر، بیروت - لبنان)

حدیث مذکور کا مصداق مسلمانوں کی عظیم روحانی و دعوتی تنظیم کو ٹھرانا حدیث شریف پر بد ترین تہمت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...