Monday, 15 July 2019

دیوبندیوں کا اقرار علمِ غیب دو قسم کا ہے ذاتی و عطائی

دیوبندیوں کا اقرار علمِ غیب دو قسم کا ہے ذاتی و عطائی

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی لکھتے ہیں : علمِ غیب کے دو معنیٰ ہیں حقیقی اور اِضافی (یعنی ذاتی و عطائی) حقیقی علم غیب اللہ کے سوا کسی کےلیئے نہیں اور اِضافی (یعنی عطائی) اللہ کی عطاء سے حاصل ہوتا ہے،اور تصرفات انبیاء و اولیاء کے اختیار میں ہوتے ہیں ۔ (اِمدادُ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ 158 مطبوعہ مکتبہ دارُالعلوم کراچی)

محترم قارئین کرام : دیوبندی ، وہابی اور غیر مقلدین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم غیب عطائی کو بھی شرک قرار دیتے ہیں ۔ علم غیب عطائی ماننے والے کو ابوجہل جیسا مشرک کہتے ہیں ۔

اہلسنّت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے اوّلین اور آخرین کے حالات جاننے والا اور غیب کی باتیں بتانے والا کہتے ہیں ۔

الحمد للہ ہم اہلسنّت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ عز و جل کی عطاء سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم علم غیب جانتے ہیں ۔

محترم قارئین : ’’غیب ‘‘ وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اور ہم اپنے حواس جیسے دیکھنے ، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں ۔

لفظ نبی کا معنیٰ ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں

چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ۔
ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے ۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الجزء الاول صفحہ ١٥٧ القاضی ابی الفضل عیاض مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥٤٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،چشتی)(النسختہ الثانیہ صفحہ ١٦٩ مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ (مصر)(کتاب الشفاء (اردو) جلد اول صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور (پاکستان)۔(دوسرا نسخہ حصہ اول صفحہ 178 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور (پاکستان)

شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : (والمعنیٰ) ای معنیٰ النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ ۔
ترجمہ : علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ : ﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الجزء الثالث صفحہ ٣٤١ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری (متوفی ١٠٦٩) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

معلوم ہوا کہ لفظ نبی کا ترجمہ غیب کی خبریں بتانے والا  یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے ۔

غیب کی دو قسمیں ہیں

(1) جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو ۔ یہ علم غیب ذاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں غیرُاللہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔

(2) جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، گزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات و غیرہ کا علم ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی غیرُاللہ کیلئے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے ۔ (تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱/۲۶،چشتی)

اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کیلئے ایک ذرے کا علمِ غیب ماننا قطعی کفر ہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں جیسے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم پر ’’غیب ‘‘ کے دروازے کھولتا ہے جیسا کہ خود قرآن و حدیث میں ہے ۔

قرآن کریم میں ارشادات باری تعالیٰ ہیں

(1) مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمْ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الْخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤْمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ۔ (پ 4 ، ال عمران : 179)
ترجمہ : اللہ مسلمانوں کو اسی حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔

مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمْ عَلَیۡ : اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر (ابھی) تم ہو ۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ، یہ حال نہیں رہے گا کہ منافق و مومن ملے جلے رہیں بلکہ عنقریب اللہ تعالیٰ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ذریعے مسلمانوں اور منافقوں کو جدا جدا کردے گا ۔ اس آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں ۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے ، قرآن کے امام و پیشوا ہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے معافی چاہتے ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے ؟ کیا تم باز آؤ گے ؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱/۳۲۸،چشتی)

(2) عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿26﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ﴿27﴾ ۔ (پ 29 ، الجن:26 ، 27)
ترجمہ : غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔

(3) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ۔ ﴿24﴾ (پ 30 ، التکویر : 24)
ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ، پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا’’تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا’’سالم مولی شیبہ ہے ۔ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف توبہ کرتے ہیں ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱/۵۱، الحدیث: ۹۲)

دوسری روایت یوں ہے : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ سورج ڈھلنے پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ باہر تشریف لائے اور نماز ظہر پڑھی ، پھر منبر پر کھڑے ہو کر قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے امور ہیں ۔ پھر فرمایا’’جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھو گے مگر میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا ، پس لوگ بہت زیادہ روئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’تمہارا باپ حذافہ ہے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا’’ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ، میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)

آیت میں فرمایا گیا کہ’’ اے عام لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے اوران برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ، انہیں سب سے بڑھ کر غیب کا علم عطا فرمایا گیا ہے ۔ اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے اور غیبوں کا علم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ’’ اے لوگو ! تمہیں غیب کا علم نہیں دیا جاتا ، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ ، جس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات کی تصدیق کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے ۔

حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکو دیکھا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا ، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)

سنن ترمذی میں ہی حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا ۔
(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے ا پنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیئے روشن فرمائی جیسے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ) سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیئے روشن کی تھی ۔ (حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب،۶/۱۰۷، الحدیث:۷۹۷۹،چشتی)

حضرت حذیفہ بن اُسید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانتاہے ۔(معجم الکبیر، حذیفہ بن اسید۔۔۔ الخ، ۳/۱۸۱، الحدیث: ۳۰۵۴)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتّٰی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جہنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا ۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲/۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۲ )

مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ ارشاد فرمایا ، بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا اس میں وہ سب کچھ ہم سے بیان فرما دیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا اور ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا ۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعۃ، ص ۱۵۴۶، الحدیث: ۲۵ (۹۲ ۲۸ ))

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اُحد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی تھے ، ناگاہ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اسے فرمایا : اے احد !ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذاً خلیلاً، ۲/۵۲۴، الحدیث: ۳۶۷۵)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ہمیں اہلِ بدر کے گرنے یعنی مرنے کی جگہیں دکھائیں اور فرمایا :کل فلاں شخص کے گرنے یعنی مرنے کی یہ جگہ ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : جو نشان رسول اللہ صَلَّیاللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جس کے لئے لگایا تھا وہ اسی پر گرا ۔ (مسلم ، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶(۲۸۷۳))

حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ دو ایسی قبروں کے پاس سے گذرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو ، ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا ۔ (بخاری، کتاب الوضوئ، ۵۹-باب، ۱/۹۶، الحدیث: ۲۱۸)

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : صلح حدیبیہ سے واپسی پر ایک جگہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اونٹ مُنتَشِر ہو گئے ، سب اپنے اپنے اونٹ واپس لے آئے لیکن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اونٹنی نہ ملی ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ وہاں سے اونٹنی لے آؤ ، تو میں نے اونٹنی کو اسی حال میں پکڑ لیا جیسا مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا ۔ (معجم الکبیر، ۱۰/۲۲۵، الحدیث: ۱۰۵۴۸)

محترم قارئین : ان قرآنی آیات و اَحادیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب پہ اعتراض کرنا منافقین کا طریقہ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...