Friday 19 July 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ

0 comments
درسِ قرآن موضوع آیت : قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرْجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ۔ ﴿سورہ کہف آیت نمبر 110﴾
ترجمہ : تو فرماؤ ظاہر صورتِ بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔

قُلْ:تم فرماؤ ۔ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عاجزی کی تعلیم دی اور انہیں یہ کہنے کا حکم دیا کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں (یعنی جیسے تم انسان ہو اسی طرح میں بھی انسان ہوں) البتہ مجھے (تم پر) یہ خصوصیت حاصل ہے کہ میری طرف وحی آتی ہے اور وحی کے سبب اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے اعلیٰ مقام عطا کیا ہے ۔ (خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳/۲۲۸)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (کافر) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا سا بشر مانتے تھے اس لئے ان کی رسالت سے منکر تھے کہ ’’مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنْ اَنۡتُمْ اِلَّا تَکْذِبُوۡنَ‘‘ ۔ (یس:۱۵) ، تم تو ہمارے جیسے آدمی ہواور رحمن نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم صرف جھوٹ بول رہے ہو ۔
واقعی جب ان خُبَثاء کے نزدیک وحی ِنبوت باطل تھی تو انہیں اپنی اسی بشریت کے سواکیا نظر آتا ؟ لیکن اِن سے زیادہ دل کے اندھے وہ (ہیں جو) کہ وحی ونبوت کا اقرار کریں اور پھر انہیں ( یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو) اپنا ہی سا بشر جانیں ، زید کو’’قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ‘‘ سوجھا اور ’’یُوۡحٰۤی اِلَیَّ‘‘ نہ سوجھا جو غیر متناہی فرق ظاہر کرتا ہے ، زید نے اتنا ہی ٹکڑا لیا جوکافر لیتے تھے ، انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشریت جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَلکیت سے اعلیٰ ہے ، وہ ظاہری صورت میں ظاہر بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں جس سے مقصود خلق کا اِن سے اُنس حاصل کرنا اور ان سے فیض پانا (ہے) ولہٰذا ارشاد فرماتا ہے : ’’وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلْبِسُوۡنَ‘‘ ۔ (انعام:۹)
اور اگرہم فرشتے کو رسول کرکے بھیجتے تو ضرور اسے مردہی کی شکل میں بھیجتے اور ضرور انھیں اسی شبہ میں رکھتے جس دھوکے میں اب ہیں ۔
(اس سے) ظاہر ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی ظاہری صورت دیکھ کر انھیں اوروں کی مثل سمجھنا ان کی بشریت کو اپنا سا جاننا، ظاہر بینوں (اور) کور باطنوں کا دھوکا ہے (اور) یہ شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں ۔۔۔ ان کا کھانا پینا سونا یہ افعالِ بشری اس لئے نہیں کہ وہ ان کےمحتاج ہیں، حاشا (یعنی ہر گز نہیں ، آپ تو ارشاد فرماتے ہیں) ’’لَسْتُ کَاَحَدِکُمْ اَنِّیْ اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ‘‘ میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات بسرکرتاہوں وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے ۔ (ت) (بلکہ) ان کے یہ افعال بھی اقامتِ سنت وتعلیمِ امت کے لئے تھے کہ ہر بات میں طریقۂ محمودہ لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں ، جیسے ان کا سَہو و نِسیان ۔حدیث میں ہے ’’اِنِّیْ لَااَنْسیٰ وَلٰکِنْ اُنْسیٰ لِیَسْتَنَّ بِیْ ‘‘میں بھولتا نہیں بھلایا جاتا ہوں تاکہ حالتِ سہو میں امت کوطریقۂ سنت معلوم ہو۔ عمرو نے سچ کہا کہ یہ قول (اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی طرف سے نہ فرمایا بلکہ اس کے فرمانے پر مامور ہوئے، جس کی حکمت تعلیمِ تواضع، وتانیسِ اُمت، و سدِّغُلُوِّنصرانیت (یعنی عاجزی کی تعلیم،امت کے لئے اُنسیت کا حصول اور عیسائی جیسے اپنے نبی کی شان بیان کرنے میں حد سے بڑھ گئے مسلمانوں کو اس سے روکنا) ہے، اول ،دوم ظاہر، اور سوم یہ کہ مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امت نے ان کے فضائل پر خدا اور خدا کا بیٹا کہا ،پھر فضائل ِمحمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّحِیَّۃ کی عظمت ِشان کا اندازہ کون کرسکتا ہے ، یہاں اس غلو کے سدِّباب (روکنے) کے لئے تعلیم فرمائی گئی کہ کہو’’ میں تم جیسا بشرہوں خدا یا خدا کا بیٹا نہیں، ہاں ’’ یُوْحٰٓی اِلَیَّ‘‘ رسول ہوں، دفعِ اِفراطِ نصرانیت کے لئے پہلا کلمہ تھا اور دفعِ تفریط ِابلیسیَّت کے لئے دوسرا کلمہ، اسی کی نظیر ہے جو دوسری جگہ ارشادہوا ’’قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا‘‘ ۔ (بنی اسرائیل:۹۳)
تم فرمادو پاکی ہے میرے رب کومیں خدا نہیں،میں تو ا نسان رسول ہوں ۔
اِنہیں دونوں کے دفع کو کلمہ ٔشہادت میں دونوں لفظِ کریم جمع فرمائے گئے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہْ‘‘ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ (ت) بندے ہیں خدا نہیں ، رسول ہیں خدا سے جدا نہیں ، شَیْطَنَت اس کی کہ دوسرا کلمہ امتیازِ اعلیٰ چھوڑ کرپہلے کلمہ تواضع پر اِقتصار کرے ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۶۶۲-۶۶۵،چشتی)

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:’’صورتِ خاصہ میں کوئی بھی آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا مثل نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلیٰ و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) اوصافِ بشر سے اعلیٰ ہیں، جیسا کہ شفاء قاضی عیاض (قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’شفاء‘‘) میں ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے اَجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور اُن کے اَرواح و بَواطن بشریت سے بالا اور مَلاءِ اعلیٰ سے متعلق ہیں ۔ شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے سورئہ والضُّحیٰ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلا ًنہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر علی الدَّوام حاصل ہو ۔ بہرحال آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی ذات و کمالات میں آپ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریہ کے بیان کا اظہارِ تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا ، یہی فرمایا ہے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ۔ (خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۵۶۹)

ترا مسند ِناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے روحِ امیں
تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

پہلی بات یہ کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر کہے کیونکہ جو کلمات عزت و عظمت والے اصحاب عاجزی کے طور پر فرماتے ہیں انہیں کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا ۔ حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’واضح رہے کہ یہاں ایک ادب او رقاعدہ ہے جسے بعض اَصفیا اور اہل ِتحقیق نے بیان کیا ہے اور اسے جان لینا اور اس پر عمل پیرا ہونا مشکلات سے نکلنے کا حل اور سلامت رہنے کا سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خطاب ، عتاب، رعب و دبدبہ کا اظہار یا بے نیازی کا وقوع ہو مثلاً آپ ہدایت نہیں دے سکتے ، آپ کے اعمال ختم ہوجائیں گے ، آپ کے لئے کوئی شے نہیں ، آپ حیاتِ دُنْیَوی کی زینت چاہتے ہیں ، اور اس کی مثل دیگر مقامات ، یا کسی جگہ نبی کی طرف سے عبدیَّت، انکساری ، محتاجی و عاجزی اور مسکینی کا ذکر آئے مثلاً میں تمہاری طرح بشر ہوں ، مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے عبد کو آتا ہے اور میں نہیں جانتا اس دیوار کے اُدھر کیا ہے، میں نہیں جانتا میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا ، اور اس کی مثل دیگر مقامات۔ ہم امتیوں اور غلاموں کو جائز نہیں کہ ان معاملات میں مداخلت کریں، ان میں اِشتراک کریں اور اسے کھیل بنائیں، بلکہ ہمیں پاسِ ادب کرتے ہوئے خاموشی وسکوت اور تَوَقُّف کرنا لازم ہے ، مالک کا حق ہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے، اس پر اپنی بلندی و غلبہ کا اظہار کرے، بندے کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے مالک کے سامنے بندگی اور عاجزی کا اظہار کرے، دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے اور حدِّ ادب سے باہر نکلنے کی کوشش کرے، اس مقام پر بہت سے کمزور اور جاہل لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں جس سے وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ محفوظ رکھنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم ۔ (مدارج النبوت، باب سوم در بیان فضل وشرافت، وصل در ازالۂ شبہات، ۱/۸۳-۸۴،چشتی)

دوسری بات یہ کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ نے فضائلِ جلیلہ اور مَراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں ، اُس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے عام وصف سے اس کا ذکر کرنا جو ہر خاص و عام میں پایا جائے ، اُن کمالات کو نہ ماننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لئے سلامتی اسی میں ہے کہ فضیلت و مرتبے پر فائز ہستی کا ذکر اس کے فضائل اور ان اوصاف کے ساتھ کیا جائے جن کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز ہے اور یہی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا طریقہ ہے ، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبرستان میں تشریف لے گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ بے شک اگر اللّٰہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں ، میری خواہش ہے کہ ہم اپنے (دینی) بھائیوں کو دیکھیں ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم آپ کے (دینی ) بھائی نہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’( دینی بھائی ہونے کے ساتھ تمہاری خصوصیت یہ ہے کہ) تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے (صرف دینی) بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے ۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرّۃ والتحجیل فی الوضوئ، ص۱۵۰، الحدیث: ۳۹(۲۴۹))
اسی طرح حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جب تم رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود بھیجا کرو تو اچھی طرح بھیجا کرو، تمہیں کیا پتہ کہ شاید وہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پیش کیا جاتا ہو ۔ لوگوں نے عرض کی : تو ہمیں سکھا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا : یوں پڑھا کرو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلَا تَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَا تِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًایَغْبِطُہُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘ . (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۱/۴۸۹، الحدیث: ۹۰۶، مسند ابی یعلی، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود، ۴/۴۳۸، الحدیث: ۵۲۴۵)
اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بشر کہنے میں راہِ سلامت یہ ہے کہ نہ تو آپ کی بشریت کا مُطْلَقاً انکار کیا جائے اور نہ ہی کسی امتیازی وصف کے بغیر آپ کی بشریت کا ذکر کیا جائے بلکہ جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشریت کا ذکر کیا جائے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو افضل البشر یا سیّد البشر کہا جائے یا یوں کہا جائے کہ آپ کی ظاہری صورت بشری ہے اور باطنی حقیقت بشریَّت سے اعلیٰ ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو یہ کہے کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی صورتِ ظاہری بشری ہے (اور) حقیقت ِباطنی بشریت سے ارفع واعلیٰ ہے ، یا یہ (کہے) کہ حضور اوروں کی مثل بشر نہیں ،وہ سچ کہتا ہے اور جو مُطْلَقاً حضور سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے ، قال تعالٰی ’’قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا‘‘ ۔ (بنی اسرائیل:۹۳) ، تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے میں تو صرف اللّٰہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۴/۳۵۸،چشتی)

تیسری بات یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کفار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے جیسا بشرکہتے تھے اور اسی سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے لہٰذا جس مسلمان کے دل میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی ادنیٰ رمق بھی باقی ہے ا س پر لازم ہے کہ وہ کفار کا طریقہ اختیار کرنے سے بچے اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے جیسا بشر سمجھ کر گمراہوں کی صف میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے ہم جیسے بشر ہونے نہ ہونے کی صورتیں اوران کی پہچان اور آپ نے اپنی بشریت کا اعلان کیوں کیا ؟

(1) جن آیتو ں میں نبی سے کہلوایا گیا ہے کہ ہم تم جیسے بشر ہیں وہاں مطلب یہ ہے کہ خالص بندے ہونے میں تم جیسے بشر ہیں کہ جیسے تم نہ خدا ہو نہ خدا کے بیٹے،نہ خداکے ساجھی،شریک ایسے ہی ہم نہ خداہیں نہ اس کے بیٹے نہ اس کے ساجھی۔ خالص بندے ہیں ۔

(2) جن آیتوں میں نبی کو بشر کہنے پر کفر کا فتوے دیا گیا ہے اور انہیں بشرکہنے والوں کو کافر کہا گیا ہے ان کامطلب یہ ہے کہ جونبی کی ہمسری اور برابر ی کا دعوی کرتے ہوئے انہیں بشر کہے یا ان کی اہانت کرنے کے لئے بشر کہے یا یوں کہے کہ جیسے ہم محض بشر ہیں نبی نہیں ایسے ہی تم نبوت سے خالی ہو محض بشر ہو ۔ وہ کافر ہے ۔

(1) کی مثال یہ ہے : قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۔
ترجمہ : فرمادو کہ میں تم جیسا بشر ہوں کہ میری طر ف وحی کی گئی ۔ (پ16،الکھف:110)

(2) قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنۡ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۔
ترجمہ : ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ ہم تو تمہاری طر ح انسا ن ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے ۔ (پ13،ابرٰھیم:11)
ان جیسی تمام آیات میں یہی مراد ہے کہ ہم'' اِلٰہ'' نہ ہونے میں اور خالص بندہ ہونے میں تم جیسے بشر ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عام انسان پیغمبر کے برابر ہوجاویں ۔ ان آیات کی تائیدان آیتوں سے ہورہی ہے ۔

(1) وَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمۡ ۔
ترجمہ : اورنہیں ہے کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پر ندہ کہ اپنے پروں پر اڑتا ہو مگر تم جیسی امتیں ہیں ۔ (پ7،الانعام:38)

(2) مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصْبَاحٌ ۔
ترجمہ : اللہ کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے ۔ (پ18،النور:35)
ان آیتو ں میں تمام جانوروں کو انسانوں کی مثل فرمایا گیا حالانکہ انسا ن اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو طاق اور چراغ سے مثال دی گئی ۔ حالانکہ کہاں طا ق اور چراغ اور کہاں رب کا نورجیسے ان دونوں آیتوں کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتاکہ ہم جانوروں کی طرح یارب کانور طاق اور چراغ کی طر ح ۔اسی طرح نہیں کہا جاسکتاکہ ہم نبی کے برابریاان کی طر ح ہیں ۔ یہ تمثیل فقط سمجھانے کیلئے ہے

''ب'' کی مثال یہ ہے :

(1) فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسْتَغْنَی اللہُ ۔
ترجمہ : ۔ پس کافر بولے کیا بشر ہمیں ہدایت کریگا لہٰذا وہ کافر ہوگئے پھر وہ پھر گئے اور اللہ بے پرواہ ہے ۔(پ28،التغابن:6)

(2) قَالَ لَمْ اَکُنۡ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنۡ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ۔ (پ14،الحجر:33)
ترجمہ : ۔ شیطان نے کہا مجھے زیبا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ لیسدار گارے سے تھی ۔

(3) فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۔ (پ18،المؤمنون:24)
ترجمہ : ۔ تو جس قوم کے سرداروں نے کفر کیا وہ بولے یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی ۔

(4) وَلَئِنْ اَطَعْتُمۡ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ ۙ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ۔ (پ18،المؤمنون:34)

ترجمہ : کفار نے کہا کہ اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کروگے تو تم ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

(5) فَقَالُوۡۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾
ترجمہ : ۔ فرعونی بولے کیا ہم ایمان لائیں اپنے جیسے دو آدمیوں پر اور ان کی قوم ہماری بندگی کر رہی ہے ۔

ان جیسی تمام آیتو ں میں فرمایا گیا کہ پیغمبر کو بشر کہنا اولاً شیطان کا کام تھا پھر ہمیشہ کفار نے کہا مومنوں نے یہ کبھی نہ کہا اور ان کفار کے کفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام سے برابری کے دعویدار ہوکر انہیں اپنی طر ح بشر کہتے تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری مثل ہرگز نہیں ہوں

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی.مُتَّفَقٌٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيُِّ.

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صومِ وِصال (سحری و اِفطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں ہرگز تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے تو (اپنے رب کے ہاں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔

أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الصوم، باب: الوصال ومن قال: ليس فی اللّيلِ صيامٌ، 2/ 693، الرقم: 1861، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الصيام، باب: النهی عن الوصال فی الصوم، 2/ 774، الرقم: 1102، وأبوداود فی السنن، کتاب: الصوم، باب: فی الوصال، 2/ 306، الرقم: 2360، والنسائی فی السنن الکبری، 2/ 241، الرقم: 3263، ومالک فی الموطأ، 1/ 300، الرقم: 667، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 102، الرقم: 5795، وابن حبان فی الصحيح، 8/ 341، الرقم: 3575، وابن أبی شيبة فی المصنف، 2/ 330، الرقم: 9587، وعبد الرزاق فی المصنف، 4/ 268، الرقم: 7755، والبيهقی فی السنن الکبری، 4/ 282، الرقم: 8157)


نوٹ : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا بارہا اپنی بندگی اور بشریت کا اعلان کرنا اس لئے تھا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام میں دو معجزے دیکھ کر انہیں خدا کا بیٹا کہہ دیا ، ایک توان کا بغیر باپ پیدا ہونا اور دوسرے مردے زندہ کرنا مسلمانوں نے صدہا معجزے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے دیکھے ، چاند پھٹتا ہوا ۔ سورج لوٹتا ہوا دیکھا کنکر کلمہ پڑھتے دیکھے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہتے دیکھے ۔ اندیشہ تھا کہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دیں ۔ اس احتیاط کے لئے بار بار اپنی بشریت کا اعلان فرمایا ۔ (پ18،المؤمنون:47) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔