Sunday 1 January 2017

آج کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ معلومات کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے

0 comments
آج کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ معلومات کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہے کہ جس کی بدولت ظالم دنیا کے سامنے مظلوم بن جاتا ہے اور مظلوم کا خون رائیگاں جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال عراق پر امریکہ کا حملہ ہے کہ آج خود اپنی غلطی تسلیم کی بھی تو لاکھوں لاکھ عراقی مسلمانوں کی تذلیل و بے توقیری پر ایک حرف بھی معذرت کا نہ کہا۔ تاریخ اپنے اندر ایسے کئی واقعات کو سموئے ہوئے ہے کہ وقت نے جن پر گرد ڈال تو دی لیکن وہ آج بھی تاریخ کے جھروکوں سے چیخ چیخ کر خود پر ہونے والے مظالم کی داستان سناتے ہیں۔ انہی میں سے ایک آل سعود کا حجاز مقدس پر قبضہ اور جنت البقیع کا انہدام ہے۔

خلافت عثمانیہ کے اختتام پر یہود و نصاری کی آشیرباد سے آل سعود 1920ء کی دھائی میں حجاز مقدس پر قابض ہوئے۔ اس سے پہلے وہاں پر ترک عوام سلطنت عثمانیہ ہی کے زیر انتظام حجاز مقدس کی خدمات کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ چند ہزار افراد کے ساتھ آل سعود نے حرمین کریمین پر مسلح چڑھائی کی، مسجد نبوی کے امام کو مصلی امامت پر شہید کیا، طواف کرتے ہوئے مسلمانوں کی گردنیں اڑائیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرتے ہوئے حرمین کریمین پر قابض ہوئے۔ ترک عوام اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھنے والے تھے سو حرمین کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے مزاحمت سے گریز کیا اور شہادت کا جام پینا پسند کیا۔

اس سے قبل حرم پاک خانۂ کعبہ شریف میں چاروں آئمہ فقہ کے مقامات ہوا کرتے تھے اور وہ اپنے مقلدین کی رہمنائی کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوتے تھے۔

آل سعود نے نہ صرف اجماع امت کی مخالف کرتے ہوئے اس نظام کو تبدیل کر کے خود ساختہ مذہب کی نفاذ کی کوششیں شروع کیں بلکہ جنت البقع شریف میں موجود تقریباً دس ہزار اصحاب رسول رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کی قبور کو مسمار کیا۔ اس ناپاک جسارت پر پوری مسلم امہ بلبلا اٹھی اور مختلف وفود نے حجاز مقدس کا رخ کیا۔ سعودیوں نے وقت کے دامن میں وسعت حاصل کرنے کے لئے کچھ قول و قرار تو کئے کہ جن پر عمل پیرا ہونے کا ان کو کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہاں، اتنا فائدہ ہوا کہ آج جو یادگیری جنت البقیع شریف میں ملتی ہے کہ فلاں مقام پر فلاں فلاں صحابی کی قبر انور ہے، یہ ان وفود ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

آج کہ جب سعودی قبضہ مافیہ کو حجاز مقدس پر قابض ہوئے ایک صدی ہونے کو ہے، انہیں اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے کہ جو انہوں نے خود ترک حکومت کے لئے کھڑی کی تھیں۔ دنیا جانتی ہے کہ جب پاکستان میں خود کش حملوں کا دور دورا تھا تو ان خود کش حملہ آوروں کی بولیاں (نجد) ریاض کے ہوٹلوں میں لگا کرتی تھیں۔ انہی سعودیوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم کی الیکشن مہم چلائی، وہی ملک کے جو بلا شبہ لاکھوں مسلمانوں کو بلا واسطہ یا بلواسطہ قاتل ہے۔ انہی سعودیوں نے ہر مشکل وقت میں امریکہ کی پشت پناہی کی اور نہ صرف پشت پناہی کی بلکہ انہی اپنے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا۔ اور انہی نے داعش کو مضبوط کرنے میں ایک اہم کردار ادا کہ جب وہ سر زمین شام میں اھل بیت و صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کے مزارات کو شہید کر رہے تھے۔ بہت زیادہ غور و حوض کرنے کی ضرورت نہیں، داعش اور سعودیوں میں کئی قدریں مشترک نظر آئیں گی، جن میں سے ایک اپنے سوا دوسرے کو مشرک جاننا اور دوسرا مزارات کا انہدام ہے۔

آج جب خود کی بھڑکائی ہوئی آگ اپنی ہی سرحدوں پر آن پہنچی ہے تو سعودی مفتی اعظم نے اپنے حج کے فتوے میں داعش کو اسلام کے چہرے پر بد نما داغ قرار دے دیا۔ مفتی صاحب! کیا داعش کے مظالم ایک سال تک ہی محیط ہیں؟ جب یہی داعش لاکھوں مسلمانوں کے قتل میں براہ راست ملوث تھی تو تب اپ نے اس کی مخالفت کیوں نہ کی؟ کیا آپ داعش کی پشت پناہی کرنے والے عناصر سے بے خبر ہیں؟ اگر نہیں تو کیا آپ نام لے کر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بیان دے سکتے ہیں؟ درحقیقت ان پشت پناہی کرنے والے عناصر میں سے ایک عنصر خود آپ ہی کے حاکم ہیں۔

آج جب مسجد نبوی شریف کے انتہائی قریب خود کش حملہ ہوتا ہے تو بتاؤ اب جگہ محفوظ کونسی رہ گئی ہے؟ وہ مبارک مقام کہ جہاں سید الملائکہ بھی انتہائی ادب سے حاضری دیتے ہیں اور ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے رات میں حاضری کے لئے آتے ہیں اور جو ایک بار آتا ہے دوبارہ قیامت تک اس کی باری نہیں آئے گی اور جہاں عشاق اپنی سانسیں بھی تھام تھام کے چلتے ہیں کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے، کہیں عمر بھر کی محنت اکارت نہ چلی جائے، وہاں کس نے یہ ناپاک جسارت کی کہ خود کو دھماکے سے اڑا دیا؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ کس نے ذہن سازی کی ان لوگوں کی کہ حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے میں بھی انہوں نے کوئی عار نہ جانا؟ کس ان کی مالی و تکنیکی اعانت کی؟

یہ سوالات اپنی جگہ اب یہ بتائیے کہ وہ کون لوگ ہیں کہ جو لگاتار گنبد حضریٰ کے نعوذ باللّه انہدام کے فتوے جاری کر رہے ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں کہ جو مسجد نبوی شریف میں توسیع کے نام پر گنبد حضریٰ کی طرف ناپاک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں؟ وہ کون ہیں کہ جنہوں نے گنبد حضریٰ کے انہدام سے صرف اس لئے باز ہیں کہ انہیں فتنے کا اندیشہ ہے؟ کیا مسلم امہ ان سے بے خبر ہے؟ وہ کون ہیں کہ جو اپنی لچھے دار تقریروں میں گنبد حضریٰ کے انہدام کا عندیہ دے چکے ہیں؟ کیا مسلم امہ ان سے بے خبر ہے؟ کیا اب بھی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنے تئیں خاکے تراشے اور شائع کیے اور گستاخی در گستاخی کی تو تمام مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوتے اور مطالبہ کرتے کہ تحفظ ناموس رسالت کا قانون اقوام متحدہ میں پاس کیا جائے کہ آئندہ کوئی بھی یہ ناپاک جسارت نہ کر سکے اور مطالبہ کرتے کہ ان گستاخان کو ہمارے حوالے کرو کہ دین و مذہب کی رعایت کے بغیر ان کا حکم صرف اور صرف قتل ہے۔ لیکن ان بے دین اور بکاؤ حکمرانوں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا کہ مدینہ شریف حاضری دیتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اللّه! صلی اللّه علیك وسلم ہم، ہمارے والدین، ہمارے آل اولاد سب آپ پر قربان ۔ ۔ ۔ ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آپ کی ناموس کا پہرہ نہ دے لیں۔ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم ہماری تو ساری بہار ہی آپ سے ہے۔ ہمارا قرار آپ سے ہے ۔ ۔ ۔ لیکن افسوس کہ ہم سے اتنا بھی نہ ہو سکا۔

آج تجدید وفا کا وقت ہے، ضرورت ہے اس امر کی کہ تمام وہ فتوے واپس لئے جائیں کہ جن میں گنبد حضریٰ کے خلاف بکواس کی گئی اور ان تمام مقررین کو بین کیا جائے کہ جنہوں نے گنبد حضریٰ کے خلاف تقریریں کی اور پھر عملی طور پر حرمین کریمین کے تحفظ کے لئے ان مسلم ممالک کی خدمات حاصل کی جائیں کہ جو پیشہ وارانہ صلاحیت کی حامل ہیں۔ سعودیوں نے ان سو سالوں میں گدھے سے محل تک کا سفر تو طے کیا لیکن وہ اس قابل نہ ہو سکے کہ حرمین کے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر لائحہ عمل تیار کر سکیں۔ حق یہ ہے کہ مالک یہ شرف و منزلت کسی کسی کو ہی نصیب کرتا ہے۔ اللّه کے گھر پر قبضہ کر لینے سے اللّه نہیں ملتا اور نہ ہی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دربار کے سامنے ڈیرہ ڈالنے سے حضور ﷺ ملتے ہیں ۔ ۔ ۔ نہیں یقین کو مشرکین مکہ کی مثال سے ہی سمجھ لو۔

کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا

دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔