Tuesday, 24 September 2019

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر شراب پینے کے الزام کا جواب حصّہ اوّل

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر شراب پینے کے الزام کا جواب حصّہ اوّل

محترم قارئین : رافضیوں اور اور تفضیلی رافضیوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ : معاویه شرابی تھا اور صحابہ کو بھی اپنے ساتھ پلانا چاہتا تھا احمد نے اپنی مسند میں با سند صحیح روایت کیا ہے ۔ (ﻣﺴﻨﺪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﺎﻗﻲ ﻣﺴﻨﺪ ﺍﻷﻧﺼﺎﺭ ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﺍﻷﺳﻠﻤﻲ 22432 ﺣﺪﺛﻨﺎ : ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺒﺎﺏ ، ﺣﺪﺛﻨﻲ : ﺣﺴﻴﻦ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ : ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﻗﺎﻝ : ﺩﺧﻠﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺃﺑﻲ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻓﺄﺟﻠﺴﻨﺎ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻔﺮﺵ ﺛﻢ ﺃﺗﻴﻨﺎ ﺑﺎﻟﻄﻌﺎﻡ ﻓﺄﻛﻠﻨﺎ ، ﺛﻢ ﺃﺗﻴﻨﺎ ﺑﺎﻟﺸﺮﺍﺏ ﻓﺸﺮﺏ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ، ﺛﻢ ﻧﺎﻭﻝ ﺃﺑﻲ ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ : ﻣﺎ ﺷﺮﺑﺘﻪ ﻣﻨﺬ ﺣﺮﻣﻪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ، ﻗﺎﻝ : ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻛﻨﺖ ﺃﺟﻤﻞ ﺷﺒﺎﺏ ﻗﺮﻳﺶ ﻭﺃﺟﻮﺩﻩ ﺛﻐﺮﺍً ﻭﻣﺎ ﺷﻲﺀ ﻛﻨﺖ ﺃﺟﺪ ﻟﻪ ﻟﺬﺓ ﻛﻤﺎ ﻛﻨﺖ ﺃﺟﺪﻩ ﻭﺃﻧﺎ ﺷﺎﺏ ﻏﻴﺮ ﺍﻟﻠﺒﻦ ﺃﻭﺇﻧﺴﺎﻥ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻳﺤﺪﺛﻨﻲ .

اس اعتراض کا جواب : سب سے پہلے یہ روایت مع تخریج ملاحظہ ہو : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِينَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلْنَا، ثُمَّ " أُتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ: مَا شَرِبْتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ثُمَّ قَالَ مُعَاوِيَةُ: كُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيْشٍ وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا، وَمَا شَيْءٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَابٌّ غَيْرُ اللَّبَنِ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي ۔ (مسند أحمد ط الرسالة 38/ 26 واخرجہ ایضا أبو زرعة الدمشقي في تاريخه١/ ١٠٢، وعنہ ابن عساكر٢٧/١٢٧من طريق احمدبہ)
ترجمہ : صحابی رسول عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھر ہمارے سامنے کھانا حاضر کیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا : میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔

محترم قارئین : مذکورہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکر وضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی زیدبن حباب صدوق و حسن الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اوہام واخطاء تھے جیسا کہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے ، مثلا امام احمد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : كَانَ رجل صَالح مَا نفذ فِي الحَدِيث إِلَّا بالصلاح لِأَنَّهُ كَانَ كثير الْخَطَأ قلت لَهُ من هُوَ قَالَ زيد بن الْحباب[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 2/ 96]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نقل کرتے ہیں : سمعت أحمد قال زيد بن الحباب كان صدوقا وكان يضبط الألفاظ عن معاوية بن صالح ولكن كان كثير الخطأ ۔ [سؤالات أبي داود لأحمد ص: 319،چشتی]

معلوم ہوا کہ زید بن حباب کے صدوق و حسن الحدیث ہونے کے باوجود بھی ان سے اوہام و اخطاء کا صدور ہوتا تھا ، لہذا عام حالات میں ان کی مرویات حسن ہوں گی لیکن اگرکسی خاص روایت کے بارے میں محدثین کی صراحت یا قرائن وشواہد مل جائیں کہ یہاں موصوف سے چوک ہوئی ہے تو وہ خاص روایت ضعیف ہوگی ۔
اورمذکورہ روایت کا بھی یہی حال ہے کیونکہ زید بن حباب نے ابن ابی شیبہ سے اسی روایت کو اس طرح بیان کیا ہے : امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235) نے کہا : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَ أَبِي عَلَى السَّرِيرِ وَأَتَى بِالطَّعَامِ فَأَطْعَمَنَا، وَأَتَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ وَالْحَدِيثُ الْحَسَنُ ۔ [مصنف ابن أبي شيبة: 6/ 188،چشتی]
ترجمہ : صحابی رسول عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چارپائی پربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھانا لائے جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی،اورآج بھی میرا یہی حال ہے ۔

غورکریں یہ روایت بھی ’’زید بن حباب ‘‘ ہی کی بیان کردہ ہے لیکن اس میں وہ منکرجملہ قطعا نہیں ہے جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے ، معلوم ہوا کہ زیدبن حباب نے کبھی اس روایت کو صحیح طورسے بیان کیا ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، اورکبھی ان سے چوک ہوگئی ہے جیساکہ مسند احمد کی روایت میں ہے ۔ اورچونکہ مسنداحمد کی روایت میں ایک بے جوڑ اوربے موقع ومحل جملہ ہے اس لئے یہی روایت منکرقرار پائے گی ۔

چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی جب اس روایت کومجمع الزوائدمیں درج کیا تو منکرجملہ کو چھوڑدیا، امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807) نے لکھا:عن عبد الله بن بريدة قال: دخلت مع أبي على معاوية فأجلسنا على الفراش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال معاوية: كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغراً وما من شيء أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن وإنسان حسن الحديث يحدثني.رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح وفي كلام معاوية شيء تركته، [مجمع الزوائد للهيثمي: 5/ 55]۔
فائدہ : اس روایت کی تخریج کرنے والے امام احمدرحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو منکرقراردیاہے،چنانچہ:امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:حسين بن واقد , له أشياء مناكير. [سؤالات المیمونی:444،چشتی]۔
ایک اورموقع پرکہا : ما أنكر حديث حسين بن واقد وأبي المنيب عن بن بريدة [العلل ومعرفة الرجال 1/ 301]۔
نیز فرمایا:عبد الله بن بريدة الذي روى عنه حسين بن واقد ما أنكرها وأبو المنيب أيضا يقولون كأنها من قبل هؤلاء [العلل ومعرفة الرجال 2/ 22]۔

عرض ہے کہ حسین بن واقد ثقہ راوی ہیں اوران کی مذکورہ روایت ابن ابی شیبہ کے یہاں جن الفاظ میں ہے اس میں کوئی نکارت نہیں ہے لہٰذا وہ روایت صحیح ہے جب کہ مسند احمد کی زیربحث روایت ضعیف ہے کیونکہ اسے امام احمدنے روایت کیا ہے اورآپ نے حسین بن واقد کی مرویات کو منکرقراردیاہے ۔

ہمارے نزدیک راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیربحث روایت میں نکارت کا ذمہ دار حسین بن واقد نہیں بلکہ زید بن الحباب ہے کما مضٰی ۔

متن روایت کا مفہوم

اس حدیث کے منکر و ضعیف ہونے کے باوجود بھی گرچہ اس میں ایک بے جوڑ اور بے موقع و محل جملہ ہے، پھربھی اس جملہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا شراب پینا قطعا ثابت نہیں ہوتا ۔ واضح رہے کہ معترضین نے زیربحث روایت کا جو ترجمہ پیش کرتے ہیں وہ قطعا درست نہیں ، اس میں درج ذیل غلطیاں ہیں :

پہلی غلطی : متن حدیث میں مذکور ’’شراب‘‘ کا ترجمہ اردو والے شراب سے کرنا غلط ہے کیونکہ اردو میں جسے شراب کہتے ہیں اس کے لئے عربی میں ’’خمر‘‘ کالفظ استعمال ہوتا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ ’’شراب‘‘ کا ترجمہ ’’مشروب‘‘ سے کیا جائے یعنی پینے کی کوئی چیز ۔

دوسری غلطی : متن کا یہ جملہ ’’جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا‘‘ صحابی رسول بریدہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ نہیں ہے جیساکہ سائل کے پیش کردہ ترجمہ میں ہے بلکہ یہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے جیساکہ سیاق سے صاف ظاہر ہے ۔

ان دونوں غلطیوں کی اصلاح کے بعد حدیث مذکور کا صحیح ترجمہ اس طرح ہوگا : صحابی رسول عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھاناحاضرکیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا : میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔

مشروب یعنی پینے والی چیز کیا تھی ؟

مذکورہ روایت میں ’’شراب‘‘ سے مراد کوئی حلال مشروب یعنی پینے والی چیز تھی اس سے اردو والا شراب یعنی ’’خمر‘‘ مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ، نہ سیاق وسباق کے لحاظ سے اس کی گنجائش ہے اورنہ ہی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی امید ہے ۔
بلکہ اردو والا شراب یعنی ’’خمر‘‘ مراد لینے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بریدہ رضی اللہ عنہ پربھی حرف آتا ہے کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہا تھوں ایسے مشروب کو کیوں لیا جو حرام تھا ، بلکہ ایسے دسترخوان پر بیٹھنا بھی کیونکرگوارا کیا جس پرشراب (خمر) کا دور چلتاہو، کیونکہ ایسے دسترخوان پربیٹھنا کسی عام مسلمان کے شایان شان نہیں چہ جائے کہ ایک صحابی اسے گوارکریں ۔
مزیدیہ کہ ایسے دسترخوان پربیٹھنے کی ممانعت بھی واردہوئی ہے اس سلسلے کی مرفوع حدیث (ترمذی2801 وغیرہ) گرچہ ضعیف ہے لیکن خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے موقوفا یہ ممانعت بسندصحیح منقول ہے ، چنانچہ : امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211 ) نے کہا : أخبرنا معمر عن زيد بن رفيع عن حرام بن معاوية قال كتب إلينا عمر بن الخطاب لا يجاورنكم خنزير ولا يرفع فيكم صليب ولا تأكلوا على مائدة يشرب عليها الخمر وأدبوا الخيل وامشوا بين الغرضين ۔ [مصنف عبد الرزاق: 6/ 61 واسنادہ صحیح]

معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت میں مشروب سے خمر مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔ اسی طرح اس سے نبیذ مراد لینا بھی درست نہیں بہرحال ’’شراب‘‘ُ کاترجمہ نبیذ سے کرنا غلط ہے کیونکہ اول شراب کا معنی نبیذ نہیں ہوتا ، دوم روایت کے سیاق وسباق میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ پینے والی چیز نبیذ تھی ۔ بلکہ روایت کے اخیر میں دودھ کا ذکر ہے اورامیرمعایہ رضی اللہ عنہ نے دودھ اپنا پسندیدہ مشروب بتلایا ہے اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ ہی پیا تھا یعنی شراب سے مراد دودھ ہی ہے ۔ چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو نقل کرکے اس پر یہ باب قائم کیا ہے : باب ما جاء في اللبن ۔ [مجمع الزوائد للهيثمي: 5/ 55،چشتی]

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی؟

مذکورہ روایت کی بیچ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی جو یہ وضاحت ہے کی کہ :
میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ۔

اس وضاحت میں جس چیز کے پینے کی بات ہورہی ہے وہ خمر یعنی شراب ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اسے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے۔
اور’’ما شربته ‘‘ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع محذوف ہے اور وہ خمر ہے ، اہل عرب کبھی کبھی ضمیر کے مرجع کو حذف کردیتے ہیں ، بلاغت کی اصطلاح میں اسے ’’ الإِضمار في مقام الإِظهار ‘‘ کہتے ہیں یعنی جس ضمیرکا مرجع معلوم ہو اس مرجع کو بعض مقاصد کے تحت حذف کردینا ، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہاں ضمیرکے مرجع خمرکو حذف کیا ہے ، اورمقصد خمر کی قباحت و شناعت کا بیان ہے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خمر سے اتنی نفرت تھی کہ آپ نے اس کانام تک نہیں لیا ۔ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اورشراب سے ان کی نفرت ظاہر ہوتی ہے ۔ اورشراب سے نفرت کا اظہار کرکے معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ کواپنا پسندیدہ مشروب قرار دیا،اس سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ بلکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ بھی وضاحت کہ قبل ازاسلام بھی ان کے نزدیک دودھ ہی سب سے پسندیدہ مشروب تھا ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ، بلکہ اس کے بجائے وہ دودھ ہی نوش فرماتے تھے ۔

یاد رہے کہ شبِ معراج میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شراب اور دودھ پیش کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کو منتخب کیا ، بخاری کے الفاظ ہیں : ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ: فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، فَقَالَ: اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ: أَخَذْتَ الفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ۔ [بخاری رقم 3394]
معلوم ہوا کہ دودھ کو پسند کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ فطرت پر تھے یہ چیز بھی ان کے فضائل میں سے ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی ؟ تو عرض ہے کہ مذکورہ روایت میں اس کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے اسی لئے ہم نے شروع میں کہا کہ یہ وضاحت محمود ہونے کے باوجود بھی بے موقع و محل ہے ۔

عربی متن میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ سیدنا بریدہ نے یہ کہا تھا : ’’جب سے اس مشروب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے، تب سے میں نے کبھی اسے نوش نہیں کیا ۔‘‘ عربی متن میں صرف یہ موجود ہے کہ ’’اُس‘‘ نے یہ کہا اور یہ ’’اُس‘‘ سے مراد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ تو حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مشروب پینے کے بعد برتن سیدنا بریدہ کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ ’’جب سے اُس مشروب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ، تب سے میں نے کبھی اُسے نوش نہیں کیا ۔‘‘ اور یہاں ’’اس‘‘ سے مراد ’’اُس‘‘ ہے ۔

اب اس حدیث کو سمجھیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر جس برتن سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا تھا ، اس میں شراب ہوتی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبھی یہ نہ کہتے کہ ’’جب سے اُس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حرام کیا‘‘ کیونکہ شراب کو قرآن مجید نے حرام کیا ہے ، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کھجور کے شربت کی بعض صورتوں سے منع کیا تھا کہ جسے ’’نبیذ‘‘ کہتے ہیں۔ تو اس حدیث میں مشروب سے مراد ’’نبیذ‘‘ یعنی کھجور کا مشروب ہے کہ جس میں کچھ خمار آ چکا ہو ۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ان کے مخالفین نے الزام لگایا تھا ، شراب نوشی کا نہیں ، اتنی جرات نہیں تھی کسی میں ، بلکہ نبیذ پینے کا الزام تھا ۔ اور نبیذ اصلا جائز تھی جیسا کہ آگے روایت آ رہی ہے کہ عرب پانی میں کھجور یا انگور ڈال کر رکھ لیتے تھے تا کہ میٹھا شربت بن جائے لیکن بعض اوقات ایک خاص وقت کے بعد اس مشروب میں سکر یعنی مدہوشی آ جاتی تو اسے پینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا تھا ۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس مشروب کو پیا ، وہ دودھ تھا جیسا کہ اسی روایت کے آخر میں دودھ کا لفظوں میں ذکر موجود ہے ۔ اور اسی دودھ کے برتن کو سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھاتے ہوئے یہ بات کہی کہ ’’جب سے اس مشروب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حرام قرار دیا ہے ، تب سے میں نے کبھی اسے نوش نہیں کیا۔‘‘ یعنی اے بریدہ، یہ دیکھ لیں کہ میرے گھر میں میرے دستر خوان پر وہ چیز نہیں پی جاتی کہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع کیا ہے اور میرے بارے یہ باتیں درست نہیں ہیں جو بعض لوگ پھیلا رہے ہیں کہ میں مدہوش کر دینے والی نبیذ پیتا ہوں۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ اپنی صفائی میں کہا ہے ۔ یہ جملہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے ۔ اسے بلاغت میں اصطلاحا استطراد کہتے ہیں ۔

روایت کا آخری حصہ بتلاتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تو دور جاہلیت میں بھی دودھ کا شوقین تھا تو اے بریدہ ، اسلام لانے کے بعد نبیذ میرا پسندیدہ مشروب کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ» [مصنف ابن أبي شيبة (6/ 188)،چشتی]
ترجمہ : امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے جوانی میں بھی دودھ سے زیادہ کچھ پسند نہ تھا اور آج بھی میں، دودھ ہی لے رہا ہوں جیسا کہ آج سے پہلے بھی میں دودھ ہی لیتا تھا ۔ تو مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت میں اس مشروب کے لیے ’’دودھ‘‘ کے الفاظ واضح طور موجود ہیں۔ تو اتنے واضح الفاظ کے بعد کہ میں آج کے دن دودھ پی رہا ہوں، صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا طعن کہ وہ شراب پیتے تھے، معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ، اور دلیل کیا ہے کہ اس روایت میں ’’شراب‘‘ کا لفظ ہے ۔

اور عربی زبان میں شراب کے لیے ’’خمر‘‘ کا لفظ آتا ہے نہ کہ ’’شراب‘‘ کا ۔ اردو میں شراب کے لیے ’’شراب‘‘ کا لفظ ہے۔ عربی میں شراب کسے کہتے ہیں؟ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "لَقَدْ سَقَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحِي هَذَا الشَّرَابَ كُلَّهُ: الْعَسَلَ وَالنَّبِيذَ، وَالْمَاءَ وَاللَّبَنَ"۔ [صحيح مسلم (3/ 1591)]
ترجمہ : میں نے اپنے اس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی شراب یعنی مشروب پلایا ہے ؛ شہد بھی ، نبیذ بھی ، پانی بھی اور دودھ بھی ۔ یہ تو اس روایت کا صحیح مفہوم ہوا ۔ اور جہاں تک اس کی سند کی بات ہے تو اس کی صحت میں بھی اختلاف ہے جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے ۔ (جاری ہے ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

  1. اپ نے بہت خوبصورت وضاحت کی مگر مگر قابل اطمینان نہیں یہاں ذکر ہے پینے کے بعد کہا کہ جب جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام کیا کیا ہے تو میں نے نہیں پیا اب اپ اپ کہہ رہے ہیں کہ وہ دودھ تھا تو پھر اس بات کی کیا ضرورت تھی جب س جب حرام کیا ہے تو نہیں پیا کیا

    ReplyDelete

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...