حضرت امیر معاویہ کی بیوی کے غیر مردوں سے ناجائز تعلقات تھے کا جواب
محترم قارئینِ کرام : شیعہ رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضی الزام لگاتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے غیر مردوں سے ناجائز تعلقات تھے ۔ (معاذاللہ) ۔ (شیعہ کتاب حیات ایوان)
محترم قارئینِ کرام : اس الزام کے الفاظ نوٹ فرما لیں اور ذرا اپنے ہی ضمیر سے پوچھ لیں کہ یہ عنوان کون شخص اپنے لئے برداشت کرنے کی ہمت رکھتا ہے ؟ لیکن پہلے آپ عربی عبارت کا اردو میں ترجمہ ملاحظہ فرمائیں تا کہ وطن عزیز کے امن کو برباد کرنے والوں کے بھیانک چہرے آپ صاف دیکھ سکیں ۔
شیعہ لکھتا ہے : طرطوشی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ امیر معاویہ بن ابوسفیان (رضی اللہ عنہما) کے زمانے میں ایک ہاتھی دمشق شہر میں آگیا لوگ اس کو دیکھنے کیلئے شہر سے باہر چلے گئے کہ انہوں نے اتنا بڑا ہاتھی کبھی نہ دیکھا تھا ۔ اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے محل کی چھت پر چڑھ گئے۔ پس جب گھر پر نظر پڑی تو ایک شخص ان کی باندیوں کے پاس موجود نظر آیا تو وہ گھر کی طرف اتر آئے اور دروازہ کھٹ کھٹایا ۔ پوچھا گیا کہ دروازہ کھٹکھٹانے والا کون ہے تو آپ نے فرمایا امیر المومنین لہٰذا دروازہ کھولا گیا وہ اندر داخل ہوئے اور اس آدمی کے سر کے پاس جا کر کھڑے ہوئے وہ شرم و ندامت سے سر کو جھکائے ہوئے تھا ۔ امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : اے شخص تو میرے محل میں داخل ہو کر میرے حرم (باندیوں) کے پاس کیسے آیا کیا تجھے میرے انتقام کا ڈر نہیں تھا یا میری گرفت کا خوف نہیں تھا تجھے کس چیز نے برانگیختہ کیا یہاں آنے پر تو وہ کہنے لگا مجھے آپ کی بردباری نے اس کام پر ابھارا ۔۔۔۔ آپ نے اس سے درگزر کیا الخ ۔ (شیعہ کتاب حیات ایوان)
اس واقعہ کو پھر اپنی زبان میں ملاحظہ فرمائے اور غور کیجئے وہ شخص
(1) باندیوں کے پاس نظر آیا ۔ یہاں پر لفظ حطایا ہے جو جمع ہے الحطیئہ کی ، جس کا معنی ہے باندیاں ، نوکرانیاں ، اس کی مؤنث الحطی آتی ہے بمعنی بادشاہ کی معزز باندی ۔ (المنجد ۱۳۷،چشتی)
(2) وہ نوکرانیاں وغیرہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے الگ جگہ رہتی تھیں جہاں امیر المومنین کا عام طورپر آنا جانا نہ تها ۔
(3) چھت پر چڑھے تو نظر پڑ گئی فورا تشریف لائے اور اس معاملہ کی تحقیق وتفتیش کی ۔
(4) یہ واقعہ امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بردباری پر دلالت کرتا ہے کہ باوجود اختیار کے سزا دینے کی بجائے معاف کر دیا اور درگزر سے کام لیا۔
إن احوال کو سامنے رکھیں اور اب وہ عنوان جو رافضیوں نے قائم کیا ہے اسے بھی پیش نظر رکھیئے ۔
کیا کتاب میں بیویوں کا ذکر ہے جہاں اچانک کوئی شخص داخل ہوا ؟
اگر ایسا نہیں بلکہ وہ نوکرانیاں تھیں جس طرف کو وہ شخص آیا تھا تو پھر بیوی کے غیر مردوں سے تعلقات ، کا عنوان اختیار کرنا شیعہ رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کے دجل اور ان کی فکری غلاظت پر دلالت نہیں کرتا ؟
کیا اب بھی لوگ یہی راگ الاپیں گے کہ اجی شیعہ تو کسی کو کچھ نہیں کہتے ۔
ایسا جملہ کسی بھی غیرت مند آدمی کو کہا جائے تو کیا وہ زبان بند کر کے خاموشی سے سب کچھ برداشت کر جائے گا ؟
کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ کس کو صدا دی جائے اور کون اس ملت دشمنی کا مداوا کرے ۔
شیعہ رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضی سانپ قومی املاک سے پرورش پاتے اور وطن کی پاک مٹی سے حاصل شده قیمتی اثاثے سے پالے پوسے جارہے ہیں اور لبالب بھرے دودھ کے پیالے پلا کر انہیں موٹا تازہ اور طاقتور کیا جا رہا ہے تا کہ وہ ملی نظریات اور قومی خیالات کے خوبصورت جسم کو ڈس ڈس کر موت کے گھاٹ اتار دیں تا کہ وطن عزیز کا نظریہ زہریلے اثرات سے مسلسل مفلوج کیا جاتا رہے اور یہاں کا کوئی باسی اپنے نظریاتی سرمایہ کو محفوظ نہ رکھ سکے ۔
کاش کلیجہ کے کٹتے پیس کوئی محسوس کر سکتا ۔ کوئی نہیں ملک کا وارث ، پاکستان کا محافظ ، پاک مٹی کا محبت اور حقیقی محبت کرنے والا جو اس پاک مٹی کا نظریہ اور اسلای اثاثہ بچا سکے ۔
اے وطن عزیز کے آزاد لوگو یہ پاک وطن لا الہ الا اللہ کی خوبصورت آواز پر معرض وجود میں آیا ہے اور یہ پاکیزه نعرہ حضرت امیر معاویہ سمیت تمام صحابہ و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی قربانیوں کا ثمرہ اور ان کی امانت ہے اور وہ قوم بھی عزت و وقار کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکتی جو اپنے اسلاف کی عزت و امانت کی پاسبان و پاسداری نہ کر سکے ۔ کیا ہے کوئی صدائے ضعیف کو سنے والا ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment