شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر والی حدیث پر اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے : أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح ۔ وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا ۔
ترجمہ : شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا ۔
ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے
النَّسَائِيُّ کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .
ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں : لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.
أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے . يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں . عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں ، الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا ۔
پہلے ہم روایت پر بات کر لیں ۔ روایت یوں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا کہ آپ کی امت امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرے گی ، اور پھر وہ کربلا سے مٹی لے کر آئے ۔
بڑی مزے کی بات یہ کہ محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ، سلسلہ احادیث صحیحیہ کے جلد 2، صفحہ 464 پر یہ حدیث باب کے طور پر لکھی
821 - " أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
ترجمہ : جبریل میرے پاس آئے اور خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے یعنی حسین کو قتل کرے گ ے۔ اور پھر میرے لیے سرخ مٹی لے کر آئے ۔
اگلا باب محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کے ساتھ باندھا
822 - " لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها ".
ترجمہ : ایک فرشتہ گھر میں داخل ہوا، جب پہلے کبھی داخل نہیں ہوا تھا۔ اور اس نے کہا کہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل ہو گا۔ اگر آپ چاہیں، تو میں آپ کو وہاں کی مٹی لا کر دکھا سکتا ہوں ۔
اسی طرح کی ایک روایت مسند احمد، ج 44، ص 144 پر ہے ۔ شیخ شعیب نے اسے حسن حدیث قرار دیا ۔ نیز فضائل الصحابہ ، از امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، ج 2، ص 965، روایت 1357 پر بھی ہے ۔ اور کتاب کے محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے سند کو صحیح قرار دیا ۔
جلد 3، صفحہ 159 پر محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی اس حدیث سے باب قائم کرتے ہیں : 1171 - " قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات ".
ترجمہ : جبریل میرے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کہ امام حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا ۔
محترم قارئین : یاد رہے کہ ان ساری احادیث پر محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ مستند ہے ۔
میں تو صرف آپ کو اس کا لب لباب دے رہا ہوں تاکہ نواصب اور یزید پلید کے حواریوں کی حقیقت آشکارہ ہو ۔
ایک روایت امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد، ج 9، ص 120 پر تحریر فرمائی ہے : 15116 - عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل ۔ صفحہ نمبر . 303 ، قال : ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.،چشتی)
15117- وفي رواية: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
ترجمہ : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے گھر میں بیٹھے تھے ۔ مجھ سے فرمایا کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دو ۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رونے کی آواز سنی ۔ میں داخل ہوئی ، اور کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ کب داخل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ جبریل میرے پاس اس گھر میں تھے ۔ اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس دنیا میں ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ان کق کربلا نامی زمین میں قتل کر دے گی۔ پھر جبریل وہاں سے مٹی لائے۔ پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ قتل ہونے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اس زمین کا کیا نام ہے ؟ بتایا گیا : کربلا ۔ انہوں نے کہا اللہ و رسول نے سچ کہا ، کرب و بلا ، اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول نے سچ کہا کرب و بلا ، طبرانی نے اسے مختلف سندوں کے ساتھ لکھا ، اور ایک کے راوی ثقہ ہیں ۔
تو جناب من : یہ ہے آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کے ارشادات ہیں اور دوسری طرف یہ یزید کے وکیل ناصبی و خارجی ہیں کہ کسی ہر صورت دھوکہ دینے کے چکرمیں ہیں ۔
جہاں تک سوال ہے شہر ابن حوشب کا ، تو بڑے بڑے علماء نے انہیں ثقہ کہا
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں کہ یہ مسلم ، اور 4 کتب یعنی ابن ماجہ، ابی داؤد ، نسائی ، اور ترمذی کے راوی ہیں ۔ نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ شہر ابن حوشب حسن الحدیث ہیں ، اور اپنے امر میں قائم ہیں ۔ یحیی ابن معین نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ یعقوب ابن شیبہ نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ یعقوب بن سفیان نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ ابو زرعہ نے کہا ان میں کوئی برائی نہیں ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ کوئی برائی نہیں ، اسی طرح انہوں نے خود امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا قول لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ لیس بالقوی تھے ۔یاد رہے کہ لیس بالقوی اور لیس بقوی میں فرق ہے ۔ لیس بالقوی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ راوی ضعیف ہے ۔
مشہور عالم ، معلمی اپنی کتاب التنكيل لما في تأنيب الكوثري من أباطيل، ج 1، ص 442 پر لکھتے ہیں : أقول : عبارة النسائي: «ليس بالقوي» وبين العبارتين فرق لا أراه يخفي على الأستاذ ولا على عارف بالعربية، فكلمة «ليس بقوي» تنفي القوة مطلقاً وأن لم تثبت الضعف مطلقاً، وكلمة «ليس بالقوي» إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة، والنسائي يراعي هذا الفرق فقد قال هذه الكلمة في جماعة أقوياء منهم عبد ربه بن نافع وعبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل فبين ابن حجر في ترجمتيها من (مقدمة الفتح) أن المقصود بذلك أنهما ليسا في درجة الأكابر من أقراهما، وقال في ترجمة الحسن بن الصباح : «وثقه أحمد وأبو حاتم، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب (السنن) إلا ابن ماجة ولم يكثر عنه البخاري» .،چشتی)
ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ نسائی کے لیس بالقوی کہنے، اور لیس بقوی کہنے میں فرق ہے---لیس بقوی راوی کی قوت کی مکمل نفی کرتا ہے، مگر اس میں قطعی ضعف ثابت نہیں کرتا، جبکہ لیس بالقوی کامل قوت کے درجے سے راوی کی نفی کرتا ہے۔ نسائی ان دونوں لفظوں میں فرق کرتے تھے، اور اس وجہ سے اس جماعت کے لیے بھی استعمال کیا جو کہ کافی قوی تھے جیسے کہ عبد ربہ، عبدالرحمن ۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کسی کے بارے میں کہیں لیس بالقوی ، اس سے یہ سامنے آتا ہے کہ وہ اس قدر بھی قوی نہیں ، اگرچہ ثقہ ہے ، مگر اس درجے تک قوت کے نہیں پہنچاتا لیس بقوی قوت کی مکمل نفی کر دیتا ہے ۔
امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ، ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق
، یعنی وہ لوگ کہ جن کے بارے میں کلام کیا گیا ، مگر وہ ثقہ ہیں ۔ اس کے صفحہ 100، راوی نمبر 161 پر انہوں نے شہر بن حوشب کا نام درج کیا ۔ نیز، ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں اپنی تقریب التہذیب، ج 1، ص 269 پر صدوق مگر وہمی کہا ۔ خیر ، جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے ، آپ البانی کی کتاب پڑھ لیں ، اس میں کئی سندیں درج ہیں کہ جن میں شہر ابن حوشب نہیں ہے ۔ (بقیہ بعد میں ان شاء اللہ)
نوٹ : شہادت کی خبر والی احادیث پر مزید تحقیقی جواب بھی پیش کیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment