Thursday, 26 September 2019

امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے شہید نہیں کروایا کہنے والوں کو جواب

امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے شہید نہیں کروایا کہنے والوں کو جواب

محترم قارئینِ کرام : آج کل یزید لعین کے وکیلوں اور دلاّلوں نے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے اور یزید پلید کا محبّ بنانے کےلیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اُن کے بھونڈے دلائل میں سے ایک مضبوط ترین دلیل یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے شہید نہیں کروایا اور نہ اس کا حکم دیا آیئے یزید پلید و ذلیل کے ان ذلیل و پلید وکیلوں کی منافقت کو دلائل کی روشنی میں بے نقاب کرتے ہیں ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس سے قبل بھی اس موضوع پر مختلف انداز میں لکھا ہے اور یزید کے وکیلوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے اس موضوع پر خاص کر لکھنے کےلیئے کافی احباب کے بار بار میسجز آئے تاخیر کی وجہ فقیر کی کچھ دنوں سے طبیعت ناساز ہونا اور مصروفیات کی کثرت تھی خیر دیر آید درست آید کے مصداق کم وقت میں یہ مختصر مدلّل موضوع پیش خدمت ہے پڑھیئے اور اس فقیر کو اپنی پُر خلوص دعاؤں میں یاد رکھیئے گا جزاکم اللہ خیرا آمین ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے امت کو آگاہ فرما دیا تھا ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يُقْتَلُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنهما عَلٰی رَأْسِ سِتِّيْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَزَادَ فِيْهِ: حِيْنَ يَعْلُو الْقَتِيْرُ، الْقَتِيْرُ: الشَّيْبُ ۔
ترجمہ : حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا ۔ اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 105، رقم: 2807، الموصل: مکتبة الزهراء)

ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی يَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ. رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَةَ. يُقَالُ لَهُ يَزِيْدُ ۔
ترجمہ : میری امت دین و انصاف کی قدریں قائم رہیں گی ، حتیٰ کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا۔ یہ پہلا شخص جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا ۔ (أبو يعلی، المسند، 2: 176، رقم: 871، دمشق: دار المأمون للتراث)،(تاریخ دمشق، جلد نمبر 65 صفحہ نمبر 249-250، طبع دار الفکر،چشتی)

نام نہاد اہلحدیثوں غیر مقلد وہابیوں یزید کے وکیلوں کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی نے اس روایت کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (تحقیقی، اصطلاحی اور علمی مقالات جات جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 356-357 طبع الکتاب انٹرنیشنل دہلی انڈیا)

مشہور اہلحدیث غیر مقلد محقق ابو جابر عبد اللہ دامانوی لکھتے ہیں : ناصبی حضرات نے یزید کو جنّتی ثابت کرنے کےلیئے نئی تحقیق کا نام دے کر یزید کو بے گناہ و جنّتی ثابت کرنے کی کوشش کی اور ان کی اس نئی تحقیق کے نام پر بعض اہلحدیث گمراہ ہوئے جبکہ یزید قاتل اہلبیت و صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ۔ (یزید بن معاویہ اور جیش مغفور صفحہ 8 مشہور اہلحدیث غیر مقلد محقق ابو جابر عبد اللہ دامانوی)

مام الناقدین امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللّٰہ علیہ ، یزید پلید کے بارے لکھتے ہیں : وكان ناصبيّاً ، فظاً غليظاً ، جلفاً ، يتناول المسكر ، ويفعل المنكر ، افتتح دولته بمقتل الشهيد الحسين (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) ، واختتمها بواقعة الحرّة ، فمقته الناس ، ولمْ يبارك في عمره ، وخرج عليه غير واحد بعد الحسين (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) كأهل المدينة .
ترجمہ : یزید ناصبی ، سنگدل بد زبان ، غلیظ ، جفاء کار مئے نوش ، بدکار ، تھا اس نے اپنی حکومت کا افتتاح امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کے قتل سے کیا ، اور واقعہ حرّہ (مدینہ پر حملہ) پر اس کا احتتام کیا ، اسی لئے لوگوں نے اس پر پھٹکار بھیجی ، اور اس کی عمر میں برکت نہ ہو سکی ، امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد بہت سے حضرات نے محض فی سبیل اللہ خروج کیا جیسے حضرات اہلِ مدینہ ۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 4، صفحہ37، 38، مطبوعہ موسسة الرسالة بیروت،چشتی)

ابن عثم کوفی نقل کرتے ہیں کہ یزید نے والی مدینہ کو خط لکھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو شھید کرنے کا حکم دیا تھا : وليكن مع جوابك إليّ رأس الحسين بن عليّ، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنّة الخيل، ولك عندي الجائزةّ والحظّ الأوفرّ والنعمة واحدة والسلام ۔
ترجمہ : اس خط کے جواب کے ساتھ حسین رضی اللہ عنہ کا سر بھی ہونا چاہیے اگر تم نے ایسا کر دیا تو ہماری طرف سے بڑے انعام کے حقدار بنو گے والسلام ۔ (الفتوح ، ج 3، جزء 5، ص 18)

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ عبید الله ابن زیاد نے اتنا بڑا ظلم ( قتل امام حسین رضی اللہ عنہ) کیوں کیا ، اسی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : أما قتلي الحسين فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي فاخترت قتله ۔
ترجمہ : مجھ کو یزید نے میرے قتل ہونے اور حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کے درمیان اختیار دیا تھا (یا مجھ عبید اللہ بن زیاد کا قتل ہو گا یا حسین کا) اور میں نے ان دونوں میں سے حسین کے قتل کا انتخاب کیا ۔ (أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني الوفاة: 630هـ ، الكامل في التاريخ ج 3 ، ص 474 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ ، الطبعة: ط2 ، تحقيق: عبد الله القاضي)

علاّمہ قرمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یزید نے عبید الله ابن زياد کو حکم دیا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دے : و بلغ الخبر الي يزيد فولي العراق عبيد الله بن زياد و امره بقتال الحسين .
ترجمہ : یزید نے والی عراق عبید اللہ ابن زیاد کو حکم دیا تھا کہ حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کو قتل کر دے ۔ (القرماني، احمد بن يوسف، المتوفي:‌ 1019، اخبار الدول و آثار الاُوَل في التاريخ، ج 1، ص 320، تحقيق: احمد حطيط – فهمي سعد، ناشر: عالم الكتب)

ابن اعثم كوفی نے بھی اس واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : فكتب عبيد الله بن زياد إلى الحسين: أما بعد يا حسين ! فقد بلغني نزولك بكربلاء ، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد بن معاوية أن لا أتوسد الوثير ولا أشبع من الخبز ، أو ألحقك باللطيف الخبير أو ترجع إلى حكمي وحكم يزيد بن معاوية – والسلام ۔
ترجمہ : عبيد الله ابن زياد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط میں لکھا : اما بعد ، اے حسین مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کربلا میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ یزید ابن معاویہ نے مجھے لکھا ہے کہ میں آرام سے نہ بیٹھوں اور سیر ہو کے کھانا نہ کھاؤں (اس بات سے کنایہ ہے کہ آپ کے بارے میں جلد از جلد فیصلہ کروں) یہاں تک کہ آپ کو رضی اللہ عنہ خدا سے ملحق کر دوں یا پھر میرے اور یزید کے حکم کو تسلیم کر لیں والسلام ۔(الفتوح - أحمد بن أعثم الكوفي - ج 5 ص 84- 85،چشتی)(مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (رضی اللہ عنہم) - محمد بن طلحة الشافعي - ص 400)

یزید کا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر فخر ومباہات کرنا

علاّمہ ابن اثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں : واقعہ کربلا کے بعد جب یزید نے عمومی ملاقات کی اجازت دی اور لوگ مجلس میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اقدس اس کے سامنے رکھا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے کہ جس کےساتھ وہ امام رضی اللہ عنہ کے گلے کی بے حرمتی کر رہا ہے اور کچھ اشعار کو گنگنا رہا تھا کہ جو امام رضی اللہ عنہ کے قتل پر فخر و مباہات پر دلالت کر رہے تھے ۔ (کامل ابن اثیر، ج3 ص 298)

اسی مطلب کو امام سیوطی ، سبط ابن جوزی علیہما الرّحمہ نے بھی نقل کیا ہے کہ: یزید امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر کی توہین کرتے ہوئے ابن زبعری کے اشعار کو گنگنا رہا تھا جن کا مضمون کچھ یوں تھا کہ : ہم نے بنی ہاشم کے بزرگان کو بدر کے مقتولین کے بدلے کے طور پر قتل کیا ہے ۔ (تذکرۃ الخواص، ص 235)

یزید لعین کے کفریہ اشعار

محترم قارئینِ کرام : یزید نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو دربار میں اسیروں کی حالت میں حاضر کر کے کفر آمیز اشعار کہ کر واقعہ کربلا کو اپنے لیے افتخار شمار کیا ہے :

ليت أشياخي ببدر شهدوا ۔۔۔۔ جزع الخزرج من وقع الاسل

قد قتلنا الكثير من أشياخهم ۔۔۔۔ وعد لناه ببدر فاعتدل

لست من خندف إن لم أنتقم ۔۔۔۔ من بنی أحمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا ۔۔۔۔ خبر جاء ولا وحی نزل

ترجمہ اشعار : اے کاش ہمارے وہ آباء و اجداد (کفّار) جو بدر میں مارے گئے ، وہ زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ آل احمد سے ہم نے کیسے انتقام لیا ۔ ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کر کے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے ۔ اگر آل احمد سے بدلہ نہ لیا ، تو میں بنی خندف سے نہیں ہوں ، بنی ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے ان پر نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی فرشتہ اتر آیا ہے ۔ (ابن جوزی، المنتظم ،ج 2،ص 199)(ابو الفرج اصبہانی، مقاتل الطالبيين ،ج 1 ،ص 34)(ابن المطهر ،البدء والتاريخ ،ج 1،ص 331)(الدولة الأموية للصلابي ،ج 2،ص 256)(البداية والنهاية ،ج 8،ص 192)(تاريخ الطبري ،ج 8،ص 187)(تاريخ الطبري - ،ج 8 ،ص 188)

یزید کے وکلیو اور یزید کے دلاّلو اب بھی وقت ہے یزید کی وکالت و حمایت سے توبہ کر لو ایسے بدبخت کی حمایت کرتے ہو قاتلِ اہلبیت رضی اللہ عنہم اور مدینۃ المنورہ کی بے حرمتی کرنے والے خبیث پلید کی حمایت کرتے ہو کچھ شرم و حیاء کرو جن کا کملہ پڑھتے ہو انہیں کی آل کے قاتل کی حمایت کرتے ہو ۔

مہتمم دارالعلوم دیوبند جناب قاری محمد طیب دیوبندی صاحب کی گواہی یزید فاسق و فاجر تھا اور امام حسین و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا قتل اسی کے حکم پر ہوا اور وہ اس پر راضی تھا ۔ (شہید کربلا صفحہ 126 قاری محمد طیب دیوبند مہتمم دیوبند)

یزید کے سگے بیٹے کی گواہی یزید شرابی اور قاتلِ اہلبیت تھا

یزید کے بیٹے نے چند دن حکومت میں رہ کر حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ : إن هذه الخلافة حبل الله وإن جدي معاوية نازع الامر أهله ومن هو أحق به منه علي بن أبي طالب وركب بكم ما تعلمون حتی أتته منيته فصار في قبره رهينا بذنوبه ثم قلد أبي الامر وكان غير أهل له ونازع ابن بنت رسول الله ثم بكی وقال إن من أعظم الامور علينا علمنا بسوء مصرعه وبئيس منقلبه وقد قتل عترة رسول الله وأباح الحرم وخرب الكعبة ۔
ترجمہ : میرے باپ یزید نے حکومت سنبھالی حالانکہ وہ اس قابل نہ تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے امام حسین سے اس نے جنگ کی اور اس کی عمر کم ہوگئی ، اور وہ اپنے گناہوں کو لیکر قبر میں جا پھنسا ، پھر یزید کا بیٹا روپڑ ا، کہا ہمارے لئے بڑ ا صدمہ یزید کے برے انجام کا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قتل کیا ، شراب کو حلال کیا ، کعبہ کو تباہ کیا ۔ (الصواعق المحرقہ عربی صفحہ نمبر 642 اور مترجم کے صفحات نمبرز 740 ، 741)
یزید پلید کے وکیل آج بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ امیر یزید بن معاویہ بے گناہ ہے ، وہ قتل حسین میں ملوّث نہیں ۔ جبکہ محدثین کرام علیہم الرّحمہ لکھتے آرہے ہیں کہ یزید پلید ہی نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے اور ان کے ساتھ لڑائی کے احکامات جاری کیے تھے ۔

یزید نے کوفہ کے گورنر کو لکھا تھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تیرے شہر میں آنے کو منتخب کیا ہے ، اب یہ تیرے اوپر منحصر ہے کہ تو آزاد زندگی گذارنا چاہتا ہے یا غلامی کی زندگی ، اور کوفہ کے گورنر ملعون ابن زیاد نے اپنی زندگی گذارنے کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل (شہید) کرکے سر یزید کے پاس بھیج دیا ۔

امام ذهبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کا انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بھیجا ۔ (شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام ج 5 ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء ج 3 ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي،چشتی) ، یہی بات امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل ہے ہے : تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614)

علامہ امام جلال الدین سيوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں : فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله ۔
ترجمہ : يزيد نے عبيد الله بن زياد کہ جو والی عراق تھا کو امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا ۔ (تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت)

ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ : أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله ۔
ترجمہ : میں نے حسین (رضی اللہ عنہ) کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین (رضی اللہ عنہ) کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا تھا اور میں نے ان دونوں میں سے حسین (رضی اللہ عنہ) کو قتل کرنے کو انتخاب کیا ۔ (الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324. لابن اثیر)

ابن زياد نے امام حسين (رضی اللہ عنہ) کو خط لکھا کہ : قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام ۔
ترجمہ : مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلا میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں ۔ (الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324. لابن اثیر،چشتی)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق یزید شرابی و کافر ہے اور اس پر لعنت کرنا جائز ہے ۔ قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1225 ھ) جو کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "اپنے دور کا بیہقی" ہونے کا لقب دیا، اپنی کتاب تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں : یزید اور اس کے ساتھیوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہل ِبیت کی دشمنی کا جھنڈا انہوں نے بلند کیا اور حضرت حسین کو انہوں نے ظلماً شہید کردیا اور یزید نے دین ِمحمدی کا ہی انکار کردیا اور حضرت حسین کو شہید کرچکا تو چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ تھا کہ آج میرے اسلاف ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے آل ِمحمد اور بنی ہاشم سے ان کا کیسا بدلہ لیا ۔ یزید نے جو اشعار کہے تھی ان میں آخری شعر یہ تھا : احمد نے جو کچھ (ہمارے بزرگوں کے ساتھ بدر میں) کیا اگر اولاد سے میں نے اس کا انتقام نہ لیا تو میں بنی جندب سے نہیں ہوں ۔
یزید نے شراب کو بھی حلال قرار دے دیا تھا۔ شراب کی تعریف میں چند شعر کہنے کے بعد آخری شعر میں اس نے کہا تھا : اگر شراب دین ِاحمد میں حرام ہیں تو (ہونے دو) مسیح بن مریم کے دین (یعنی عیسایت) کے مطابق تم اس کو(حلال سمجھ کر) لے لو ۔ یزید اور اس کے ساتھیوں اور جانشینوں کے یہ مزے ایک ہزار مہینے تک رہے، اس کے بعد ان میں سے کوئی نہ بچا ۔ (تفسیر مظہری عربی ، ج 5 ص 271 سورہ 14 آیت 29)،(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327،چشتی)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یزید بد بخت نے امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کروایا اور اسے بدر والے مقتول کفار کا بدلہ قرار دیا،یزید شرابی کو حلال جنات،حرمت کعبۃ اللہ و مدینۃ المنوّرہ پامال کی غرض کونسا جرم ہے جو اس نے نہ کیا ۔ (تفسیر مظری پنجم ص 645)

ہمیشہ کی طرح دیوبندیوں نے دارالاشاعت کراچی کے ترجمہ میں ڈنڈی مار ہے اور یزید کے اشعار جو قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیئے ہیں وہ مکمل طور پر نقل نہیں کئے ۔

سورہ نمبر 24 آیت 55 کی تفسیر میں بھی قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت "ومن كفر بعد ذلك" میں یزید بن معاویہ کی طرف اشارہ ہو۔ یزید نے رسول اللہ کے نواسے کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ یہ ساتھی خاندان ِنبوت کے ارکان تھے، عزت ِرسول کی بےعزتی کی اور اس پر فخر کیا اور کہنے لگا آج بدر کے دن کا انتقام ہوگیا، اسی نے مدینۃ الرسول پر لشکر کشی کی اوت حرہ کے واقع میں مدینہ کو غارت کیا اور وہ مسجد میں جس کی بناء تقویٰ پر قائم کی گئی تھی اور جس کے جنت کو باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے اس کی بے حرمتی کی، اس نے بیت اللہ پر سنگباری کے لئے منجیقیں نصب کرایئں اور اس نے اول خلیفہ رسول حضرت ابو بکر کے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرایا اور ایسی ایسی نازیبا حرکتیں کیں کہ آخر اللہ کے دین کا منکر ہوگیا اور اللہ کی حرام کی ہوئی شراب کو حلال کردیا ۔ (تفسیر مظہری، ج 8 ص 268،چشتی)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ السّیف المسلول میں فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنا جائز ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے ثابت کیا ہے اور جو اللہ کو مانتا ہے وہ یزید سے دوستی نہیں کرے علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید پر لعنت ہے ، اور یزید کا کفرِ صریح یہ ہے کہ اس نے سرِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی اور کفریہ اشعار پڑھےایسوں پر اللہ ، تمام فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ۔ (السیّف المسلول 488تا490)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا : غرض یہ کہ یزید کافر معتبر روایت سے ثابت ہے۔ پس وہ مستحق ِلعنت ہے اگرچہ لعنت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن الحب فی اللہ البغض فی اللہ اس کا متقاضی ہے ۔ (المکتوبات، ص 203)

نوٹ : قضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کو دیوبندی اپنا رہنما کہتے ہیں اب بعض دیوبندی جو یزید کی حمایت کرتے ہیں ان کےلیئے لمحہ فکریہ جو اسے تابعی ثات کرنا چاہتے ہیں ان کےلیئے جواب ہے کہ جب کفر کرلیا یزید نے تو تابیعت کیا فائدہ دے گی اسے کیا اس کفر کے بعد بھی اس کی تابیعت باقی رہی ؟ ۔

امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یزید بد تمیز، ناصبی ، نشہ کرنے والا ، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل اور مدینۃُ المنورہ کی بے حرمتی کرنے والا تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء صفحہ 37 ، 38)

تاریخ ، علم ، نقل اور عقل اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو یزید نے ہی شہید کرایا ۔ واقعہ کربلا کوئی اچانک پیش آنے والا حادثہ نہیں تھا ۔ ملوکیت کی سوچ کو پروان چڑھانے اور دین کی اقدار کو پامال کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کی گئی تھی ، جس میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ اقتدار کے حصول کے لیے خون بہانے سے بھی دریغ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حاکم کی نگاہ میں کھٹکنے والے چند افراد میں امام حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔ اسی سوچ نے واقعہ کربلا کی بربریت کو جنم دیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ بیتِ رسول علیہم السّلام کے دشمن اور یزید کے حامی روزِ اوّل ہی سے یزید کو معصوم ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کرتے رہے ہیں ۔ وہ اہلِ بیت کے خونِ ناحق کا بدنما دھبہ یزید کے دامن سے دھونا چاہتے ہیں ۔ اس لیے کبھی وہ واقعہ کربلا کی روایت کو مشکوک بناتے ہیں اور کبھی امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کا الزام ان کا ذکر کرنے والوں پر دھرتے ہیں ۔ مگر یہ کوششیں نہ کبھی پہلے بارآور ہوئی ہیں اور نہ ہی اب ان سے کسی فائدے کی امید ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)











No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...