Thursday, 5 September 2019

اہلبیت کون ہیں ؟ کیا ازواجِ مطہرات اہلبیت کا حصّہ ہیں ؟ (رضی اللہ عنہم)

اہلبیت کون ہیں ؟ کیا ازواجِ مطہرات اہلبیت کا حصّہ ہیں ؟ (رضی اللہ عنہم)

محترم قارئینِ کرام : بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں ۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے ۔

1. بیت نسب

2. بیت مسکن یا بیت سکنٰی

3. بیت ولادت

اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں ۔

1. اہل بیت نسب

2. اہل بیت سکنٰی

3. اہل بیت ولادت

اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں انکی نسبی اولاد مثلاً چچا، تایا،اور ان سے چلنے والی نسبی اولاد قیامت تک اور پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں ۔

اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی ۔

اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے ۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا ۔

انَّمَا یْرِیدْ الله لِیْذہبَ عَنکْمْ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَیْطَهِّرَکْم تَطیهِرًا ۔ (الاحزاب آیت 33)
ترجمہ : اللہ تو یہی چاہتا ہے ، اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے ۔

جب انسان متعصب ہوجاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے .

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق ہونا ، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539،چشتی)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انصاف کررہے ہیں ؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے ۔

یہ بات قابل غور ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی کام رد عمل کے طور پر شروع ہوگا اس میں اعتدال وتوازن نہیں ہوگا۔ اس میں افراط و تفریط اور انتہا پسندی ہوگی۔ وہ کام اعتدال اور میانہ روی کے اس تصور سے ہٹ کر ہوگا جس کا اسلام نے درس دیا ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم اعتدال اور میانہ روی ہے ۔ امت مسلمہ کو امت وسط بھی دراصل اسی لئے کہا جاتا ہے کہ باری تعالیٰ نے امت مصطفوی کو وہ وقار اور کردار عطا کیا ہے جو توسط و اعتدال پر مبنی ہے ۔

انَّمَا یْرِیدْ الله لِیْذہبَ عَنکْمْ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَیْطَهِّرَکْم تَطیهِرًا ۔ (الاحزاب، 33 : 33)
ترجمہ : اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دْور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔
اس کے مصداق وہ ہوسکتے ہیں جن میں مرد شامل ہوں اور وہ ہیں علی ، فاطمہ ، حسن ،حسین رضی اللہ عنہم ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ نے فرمایا دیکھیے جناب ان آیات مبارکہ میں بائیس ضمیریں ہیں جو جمع مؤنث مخاطبات کی ہیں اور ان آیات میں تین '' نداء '' ہیں ۔ جن میں دو '' نداء '' ازواج مطہرات سے متعلق ہیں ۔ اس سیاق و سباق سے واضح ہوتاہے کہ روئے سخن ازواج مطہرات کی طرف ہے اور ان سب آیات میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جو حصول تطہیر کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہےکہ اس اعزاز کی اصل حقدار ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ البتہ اس جملہ میں ضمیر مذکر مخاطبین وارد ہے تو عرض ہے کہ یہ انداز تخاطب قرآن پاک میں دیگر مواقع پر بھی بیوی کے لئے آیا ہے سورہ ہود میں ہے : أتعجبين من أمرالله رحمة الله وبركاته عليكم أهل البيت إنه حميد مجيد ۔
ترجمہ : کیا آپ اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہیں اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکات ہیں وہ یقینا تعریف والا اور بزرگی والا ہے ۔

اس خطاب میں حضرت إبراہیم کی زوجہ محترمہ مراد ہیں اس میں '' علیکم '' ضمیر مذکر ہے اس کی دو وجوہ ہیں :

1۔ پہلے خطاب کا تعلق زوجہ سے ہے اس لئے ضمیر مؤنث ہے اور دوسرے میں ابراہیم علیہ السلام بھی شریک ہیں ، تغلیب مذکر کی وجہ سے ضمیر مذکر ہے ۔

2۔ جب کسی عورت سےخطاب ہو اور اس خطاب میں احترام مقصود ہو تو واحد مؤنث کے لئے بھی جمع مذکر کی ضمیر سے خطاب کیا جاتا ہے ، عرب شعراء کے کلام میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ایک حماسی شاعر جعفر الحارثی کہتا ہے :

عجبت لمسراها وأنى تخلصت إلي وباب السجن دوني مغلق
ألمّت فحيّت ثم قامت فودعت فلما تولت كادت النفس تزهق
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم لشيئ ولا أني من الموت أفرق

ان آیات کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ أمہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس میں شامل ہیں ۔ کسی عامی آدمی کو بھی ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ یہاں اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں شامل ہیں ۔
اس پورے رکوع کو آپ اس آیت سے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد پڑھ لیں سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المؤمنین ہیں بلکہ یہی آیت اس کو شروع سے پڑھ لیں
و قرن فی بیوتکن ۔۔۔اس میں خطاب مؤنث کے صیغے کے ساتھ ہے ۔
اور پھر اس سے بعد والی آیت بھی واذکرن سے شروع ہورہی ہے جو خطاب جمع مؤنث کے لیے ہے ۔
جبکہ انَّمَا یْرِیدْ الله لِیْذہبَ عَنکْمْ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَیْطَهِّرَکْم تَطیهِرًا ۔ میں یہ نکتہ ہے ۔ واللہ أعلم ۔ تاکہ امہات المؤمنین کے ساتھ دیگر اہل بیت کی شمولیت کا بھی امکان باقی رہے ۔ یہی وجہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو علی و فاطمہ حسن وحسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو بطور خاص اہل بیت میں شامل کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ سیاق سباق تو امہات المؤمنین کے لیے ہے یہ چار ہستیاں اس میں کیسے شامل ہیں ۔
اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن چونکہ اس سے پہلے بنص قرآن اس میں شامل تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ یہ تو ایک قسم کا تحصیل حاصل تھا ۔
اور ویسے بھی معروف بات ہے کہ اہل بیت کے واقعے والی اس حدیث میں یہ تو ذکر ہے کہ چار ہستیاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن باقیوں کی نفی کہیں بھی نہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو کہا تھا کہ یہ چار میرے اہل بیت ہے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔

رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہنا کہ : انت علی خیر أنت علی مکانک ۔یعنی تم بھلائی پر ہو اور اپنی جگہ پر اس سے مراد یہی ہے کہ تم تو پہلے ہی اہل بیت میں سے ہو ۔
اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ وہ اہل بیت میں سے نہیں تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کہہ دیتے کہ نہیں تم اس مقام و مرتبے کا استحقاق نہیں رکھتی ۔

سیدھی سے بات ہے جب کسی کے گھر والوں کا پوچھا جاتا ہے تو اس میں آدمی کی بیوی یابیویاں شامل ہوتی ہیں ۔ بلکہ آج کل تو لوگ ’’ بچے ‘‘ بول کر بھی بیوی مراد لیتے ہیں ۔

خلاصہ کلام : جس کو آپ علمی تفسیر کہہ رہے ہیں اس میں چار کا اثبات ہے دیگر کی نفی نہیں ۔ قرآن مجید کے جس رکوع میں یہ آیت آئی دیگر قارئین کے لیے میں مکمل نقل کرتا ہوں کیونکہ یہ اتنا واضح مسئلہ ہے کہ گہرے فہم کی ضرورت نہیں مجرد پڑھنے سے حق بات معلوم ہوجاتی ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (29) يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30) وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا (31) يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (32) وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (34)

صرف اسی ایک آیت میں (جس کا آخری ایک ٹکڑا یہ ہے : انَّمَا یْرِیدْ الله لِیْذہبَ عَنکْمْ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَیْطَهِّرَکْم تَطیهِرًا ۔

اللہ تعالی نے چھے بار ایسا خطاب کیا ہے جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہے ۔ جبکہ اس کے بعد صرف دو ضمیریں ایسی لائی گئی ہیں جس میں مردو عورت دونوں شامل ہوسکتے ہیں اور اس کے بعد پھر دو ضمیریں ایسی ہیں جو خالصتا عورتوں کے لیے ہیں ۔

لیکن اس کے باوجود اہل بیت میں سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن و أرضاہ کو نکالنے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ اور وہ بھی ایسی دلیل کی بنیاد پر جس میں اس مسئلے پر (امہات المؤمنین کی نفی من اہل بیت ) سرے سے دلالت ہی نہیں ہے ۔

پہلی تو یہ کہ آیت تطہیر صراحت کے ساتھ ازواج کو اہل بیت میں شامل کر رہی ہے، اس سے آپ کو بھی انکار نہیں۔ ہاں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کی بنا پر اس کا انکار فرماتے ہیں، نا کہ آیت کی بنا پر ۔ (چشتی)

دوسری بات یہ کہ جب قرآن نے بصراحت بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے گندگی کو اہلبیت سے دور کر دیا ہے۔ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت کو چادر میں جمع کر کے پھر وہی دعا اللہ سے مانگنے کا کیا معنیٰ؟ یعنی اللہ تو کہہ رہا ہے کہ میں نے اہل بیت سے گندگی دور کر دی۔ اور اس کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سے اللہ تعالیٰ سے سوال کر رہے ہیں کہ یا اللہ ان سے گندگی دور کر دے؟ چہ معنی دارد۔ لہٰذا یہاں یہ اہم بات ثابت ہوتی ہے کہ : اس آیت میں چونکہ ازواج النبی پہلے ہی سے شامل تھیں، اور جن کے بارے تطہیر کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نازل فرما چکے تھے، لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کے علاوہ اہل بیت کوچادر میں شامل کر کے اللہ سے دعا کی کہ جیسے تو نے ازواج کو طہارت بخشی ہے، میرے ان اہل بیت کی بھی تطہیر فرما دیجئے ۔

پھر یہ بھی نوٹ کیجئے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے نامحرم تھیں ۔ ایک ہی چادر میں ان کو جمع کرنا محال تھا ۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ کہا کہ تم خیر پر ہو ، سے مراد وہی ہے جس کی جانب اشارہ کیا کہ تم تو پہلے ہی آیت تطہیر کی رو سے اس مقام کو حاصل کر چکی ہو ۔ صرف پانچ افراد کو اہلبیت مراد لینے سے آخر میں سوال یہ ہے کہ اگر آپ لوگوں کے بقول اس آیت کی اس تفسیر کی رو سے فقط یہی پانچ لوگ اہل بیت میں شامل ہیں ، تو آپ لوگ جنہیں ائمہ معصومین کہتے ہیں ان کو کیسے اہل بیت میں شامل کریں گے ؟ چادر والی روایت میں حصر ہے ہی نہیں ، آپ کے اصول پر حصر ہے ، تو بھی فقط اہل سنت کی مخالفت کے لئے ، ورنہ اس حصر کے عملاً قائل آپ بھی نہیں ۔

راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کے لئے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مبارک ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے ۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے ۔ ہوشیار! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ۔ ’’ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا ،، (مسند احمد بن حنبل 2 : 167، رقم 1376،چشتی)

خود شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ’’میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا ، حد سے بڑھانے والا ۔ وہ محبت اس کو غیر حق کی طرف لے جائے گی۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا ، وہ بغض اس کو خلاف حق کی طرف لے جائے گا اور سب سے بہتر حال میرے معاملہ میں میانہ رو جماعت کا ہے پس اس میانہ رو جماعت کو اپنے لئے ضروری سمجھو اور (بڑی جماعت) سواد اعظم کے ساتھ وابستہ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے اور خبردار! اس جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوگا وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوگا جس طرح ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیئے کا شکار ہوتی ہے ۔ (ترجمہ و شرح نہج البلاغہ جلد اول، 383)

بغض اہل بیت رضی اللہ عنھم اور بغض صحابہ رضی اللہ عنہ کا منطقی نتیجہ

آج کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو حب علی رضی اللہ عنہ میں افراط کی وجہ سے راہ اعتدال کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ بغض علی رضی اللہ عنہ کی بناء پر راہ اعتدال پر نہیں رہے ۔ پہلا گروہ ایسا ہے جو سارا سال اپنے مذہبی اجتماع فقط سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنھم کے حوالے سے کرتا ہے ۔ اس گروہ نے نہ تو کبھی سیر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے کوئی اجتماع کیا ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر کے حوالے سے ، اہل بیت کے علاوہ انہوں نے ہر ایک سے اپنا تعلق قطع کرلیا ہے اور دوسرا گروہ ایسا ہے جو سارا سال مدح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام پر اجلاس اور اجتماع کرتا ہے ۔ اس گروہ کی کیفیت یہ ہے کہ محرم الحرام کے مہینے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن بھی کبھی اہل بیت اور شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر اجتماع نہیں کرتا ۔ جس طرح پہلے گروہ نے اہل بیت پاک اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسلام کے باقی تمام موضوعات چھوڑ دیئے ہیں اسی طرح دوسرے گروہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے موضوع کے علاوہ باقی تمام موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے ۔ دونوں طرف ردعمل (Reaction) ہو رہا ہے اور اعتدال کی راہ چھوٹی جارہی ہے ۔ راہ اعتدال سے ہٹ جانے والے دونوں گروہوں کے لئے دنگا فساد کی فضا ختم کرنے اور امن و سلامتی کی فضا قائم کرنے کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنھم اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی آپس میں کوئی لڑائی نہ تھی بلکہ یہ سب ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ، پیار کرنے والے اور ایک دوسرے پر جانیں قربان کرنے والے لوگ تھے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...