Monday 23 September 2019

باغی کا معنیٰ و مفہوم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے کا جواب

0 comments
باغی کا معنیٰ و مفہوم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے کا جواب

نوٹ : اس موضوع پر مزید تفصیل جلد پیش کی جائے گی ان شاء اللہ العزیز

محترم قارئینِ کرام : قرآن و سنت میں غور کیا جائے تو باغی دو طرح کے ہوتے ہیں : (1) اجتہادی باغی ۔ (2) دنیا دولت حکومت برے مقاصد بغض و عناد حسد وغیرہ کے لیے ہونے والے باغی ۔

اجتہادی باغی خاطی گناہ گار نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم والا باغی گناہ گار ہوتا ہے
صحیح حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء اولیاء علیہم الرّحمہ نے جو باغی کہا وہ بمعنی "مجتہد باغی کہا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان باغیوں کو بھائی کہا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اور آئمہ اسلاف نے دو ٹوک لکھا کہ اجتہاد تھا ۔ اور اجتہاد میں غلطی پر ایک ثواب اور اجتہاد مین درستگی ہو تو ڈبل ثواب ۔ بشرطیکہ معاملہ ایسا ہو کہ جس مین اجتہاد کی اسلام نے اجازت دی ہو اور اجتہاد کرنے والا اجتہاد کی شرائط پر بھی پورا اترتا ہو ۔

لہٰذا علماء اولیاء آئمہ اسلاف نے طاغی کہا تو اس کی توجیہ و وضاحت کریں ، اسلاف کو مردود و گستاخ غیر معتبر مت کہیں ۔

طاغی : طاغی ظغیان یعنی سرکشی کو کہتے ہیں ، (سر مطلب جیسے انسانی سر اور کشی مطلب نکالنا،اٹھانا ... سرکشی مطلب سر اٹھانا)

بعض علماء نے حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو طاغی لکھا ہے ، طاغی کا ایک مطلب یہ بنتا ہے کہ جو اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے سرکشی گناہ ظلم و جبر تکبر عیاشی فحاشی برائیاں کرتا پھرے اور طاغی کا ایک معنی یہ ہے کہ جو امام برحق کے مدمقابل سر اٹھائے تو اسے بھی سرکشی طاغی کہتے ہیں ، یہ سرکشی اجتہادا ہو تو گناہ نہیں ... حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اسی معنی میں طاغی فرمایا گیا ، لہٰذا علماء اولیاء آئمہ اسلاف نے طاغی کہا تو اس کی توجیہ و وضاحت کریں گے ، اسلاف کو مردود و گستاخ غیر معتبر نہین کہیں گے ۔

جائر ، ظالم ، معتد : جائر کا معنی ہے ظالم اور معتد کا معنی ہے حد سے بڑھنا ظلم کرنا اور ظالم کا ایک معنی ہے ظلم تشدد زیادتی نا اصافی مار دھاڑ ڈاکہ غضب لوٹیرے وغیرہ گناہ اور ظلم کا ایک معنی ہے "وضع الشئ فی غیر موضعہ" یعنی کسی چیز کو اسکی جگہ پر نا رکھنا ۔ اس معنی مین کوئی گناہ قباحت مذمت نہیں ہے ۔ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطالبہ اور مخالفت کو اس کی برحق جگہ نہیں رکھا اس لیے انہیں اسی معنی کے تناظر میں جائر ظلمۃ معتد کہا گیا ہے ۔ اس سے گناہ و مذمت والے معنی ہرگز مراد نہیں ۔ لہٰذا علماء اولیاء آئمہ اسلاف نے جائر ظلمۃ معتد کہا تو اس کی توجیہ و وضاحت کریں گے ، اسلاف کو مردود و گستاخ غیر معتبر نہیں کہیں گے ۔

باغی کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو رافضی حضرات نے لیا ہے ،،،، اس لیے رافضی حضرات سے گزارش ہے کہ تھوڑا سا کہیں سے علم حاصل کر لیں اور عربی زبان وادب کے بارے میں سیکھ لیں ۔۔۔۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے بات کرنے کے دوران میں کبھی ایسا ہوتا کہ دوسرے کی بات سے اختلاف ہوتا تو اس کو کہہ دیتے کہ ’’کذبت‘‘ ۔۔۔ کیا آپ اس لفظ سے صرف یہی مطلب لو گے کہ ’’تم نے جھوٹ بولا ۔‘‘ واللہ ایسا مطلب لینے والا ایک کنویں کے مینڈک کی طرح ہے جو کنویں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ۔۔۔ اس لفظ کو جب گفتگو کے دوران کسی سے ایسا بولتے تھے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ مخاطب کو بولا گیا ہے کہ ’’تم غلطی پر ہو۔‘‘ نہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے ایک دوسرے کو گستاخانہ اور بے ادبانہ طریقہ سے مخاطب کرتے ۔۔۔ یہ تو تربیت نبوی کے بالکل برعکس ہوتا اگر ایسا کچھ مطلب لیا گیا ہوتا تو ۔

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی تھا ؟

صحیح بخاری حدیث نمبر 2812 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔

رافضی اور تفضیلی رافضی اس حدیث کو ذکر کر کے کہتے ہیں کہ (اجتہادی طور پر) سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہ شہادت اجتہادی طور پر ہوگی ، بدنیتی یا ارادتا نہیں ہو گی ، ا ور رافضی اور تفضیلی رافضی اس حدیث کو ذکر کر کے کہتے ہیں کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ، ہم رافضیوں اور تفضیلی رافضیوں کو صحیح بخاری حدیث نمبر 1127 جو کہ حجرت سیدنا مولا علی علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یاد کراوتے ہیں : اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ لَيْلَةً، فَقَالَ: «أَلاَ تُصَلِّيَانِ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ۔(چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے فرمایا کہ رات کو کوئی تہجد ادا کر لیا کرو ، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ، نہ اللہ ہمیں چھوڑتا ہے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس پر سخت ناراض ہوئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے واپس پلٹ گئے ، حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جا رہے تھے تو آپ افسوس اور غصے سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ فرمارہے تھے “وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا” انسان کتنا کٹ حجت اور حیلے باز ہے ۔

یہ حدیث کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے جا کر نہیں سنائی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود جا کر ان سے فرمایا لیکن انسان ہونے کے ناطے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلط تاویل کر دی ، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنی سستی کا اعتراف کرتے لیکن انسان ہونے کے ناطے انہوں نے اس کی غلط تاویل کردی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمان کے مقابلے میں انہوں نے ایک حجت قائم کرنے کوشش کی ۔ بلکل اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لغوی طور پر باغی قرار دیا ہے ، نہ کہ اصطلاحی باغی معلوم ہوا رافضی اور تفضیلی رافضی جو کہتے وہ بلکل غلط ہے ۔

اس حدیث کے آخرمیں الفاظ ہیں کہ جنہیں رافضی اور تفضیلی رافضی بڑا اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں : يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ ۔
ترجمہ : سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اس جماعت کو جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ جماعت سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو دوزخ کی طرف بلائے گی ۔

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ جماعت کن لوگوں پر مشتمل تھی ؟

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ : اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دوزخی ہونگے تو پھر قرآن کریم میں ہے اللہ ان سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو گیا تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ حجرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ والے صحابی ہیں کہ جن کے بارے میں رافضی اور تفضیلی رافضی بھی کہتے کہ وہ پکے جنتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی منافقانہ رویہ کیوں ہے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ؟ ان کے بارے میں رافضی اور تفضیلی رافضی کہتے ہیں کہ وہ اس حدیث کی ضد میں آکر دوزخی ہیں ۔ معاذ اللہ ۔

سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ : مسند احمد حدیث نمبر 8042 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ابْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ: عَمْرٌو وَهِشَامٌ ۔
ترجمہ : عاص کے دونوں بیٹےمومن ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے نام بھی لیے ، عمرو بن عاص اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنھما ۔
جن کے ایمان کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود دیں رافضی اور تفضیلی رافضی ان کو بد نیت قراردیتے ہیں کہ جن کے ایمان کی گواہی بذریعہ وحی دی گئی ۔

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ : مسند احمد حدیث نمبر 22952 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنااور تلاوت سن کر اپنےساتھ موجود صحابی سے پوچھا کہ :
تَرَاهُ مُرَائِيًا ؟ آپ کا کیا خیال ہے ، آپ انہیں ریا کار سمجھتے ہیں ؟ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی بتا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ، لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ ۔ نہیں ، یہ تو مومن ہیں ، اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے ہیں ۔
جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بذریعہ وحی ایسی بشارتیں دیں ان کے بارے میں رافضی اور تفضیلی رافضی کہتے ہیں کہ یہ ڈھوگ رچاتے رہے ، یہ امت کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کرتے رہے ہیں ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔

جس طرح رافضی اور تفضیلی رافضی استدلال کرتے ہیں کہ وہ باغی تھے اور وہ جہنمی ہیں ، معاذ اللہ ، اگر باغی کا مطلب یہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بذریعہ وحی ان کے ایمان کی گواہیاں کیوں دیتے ؟ قرآن میں اللہ ان سے راضی کیوں ہوتا ؟ یہ جو الفاظ ہیں کہ وہ جماعت ان کو دوزخ کی طرف بلائے گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سو فیصد حق پر سمجھتے تھے ، اب جو حق پر سمجھتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا حق ہے ظاہر ہے کہ وہ تو جنت کی طرف بلائے گا اور جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سو فیصد حق پر ہیں اسی لیے ان کی حمایت میں نکل پڑے ، وہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو بلا رہے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑیں اور ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ، اگر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سو فیصد حق پر سمجھتے ہوئے بھی دوسرے گروہ میں شامل ہو جاتے تو یہ جہنم کا راستہ ہوتا ، کیونکہ حق کو چھوڑ رہے ہیں لیکن وہ لوگ خود جہنم کی طرف نہیں جا رہے تھے کیونکہ ان کے ایمان کی گواہی تو خود اللہ نے دی ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کیا منہ دیکھائیں گے ؟ خدا را ہماری باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کیا یہ جو باتیں آپ لوگ کرتے ہیں یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے احترام کے منافی ہیں یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔