جس نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي , اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي ، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور ان کو حدف ملامت نہ بنانا اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذاء (تکلیف) پہنچائی گویا اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا ۔ (جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ ... رقم الحديث: 3826)(أخرجه أحمد (16803+20549+ 20578)(والبخارى فى التاريخ الكبير (5/131)(والترمذى (5/696، رقم 3862،چشتی) وقال: غريب. وأبو نعيم فى الحلية (8/287)(والبيهقى فى شعب الإيمان (2/191، رقم 1511) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (16/244، رقم 7256)(والديلمى (1/146، رقم: 525)۔
مختصر تشریح : اللہ تعالیٰ سے ڈرو" یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تاکید و مبالغہ کےلئے دوبار ارشاد فرمائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں اللہ سے ڈرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی عزت وتوقیر کی جائے ۔ ان کی عظمت وفضیلت کو ہر حالت میں ملحوظ رکھا جائے اور صحبت رسول کا جو بلند ترین مقام ان کو حاصل ہے اس کا حق ادا کیا جائے ۔ " نشانہ ملامت نہ بناؤ " کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف بدگوئی کے تیر مت پھینکو ، ان کی عظمت کے منافی کوئی بات زبان سے نہ نکالو ، ان کی عیب جوئی اور نکتہ چینی سے پرہیز کرو۔ " میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے " کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہم کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں ، یا یہ مطلب ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہے ۔ کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں یہ مطلب اگلے جملہ کے سیاق میں زیادہ موزوں ہے ، بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ میرے صحابہ کو دوست رکھنے والا مجھ کو دوست رکھنے والا ہے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دشمن رکھنے والا مجھ کو دشمن رکھنے والا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مالکیہ کا یہ مسلک حق ہے کہ جس شخص نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا کہا وہ دنیا میں واجب القتل قرار پاتا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ کسی ذات سے محبت کے صحیح وصادق ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ محبت محبوب کی ذات سے گزر کر اس کے متعلقین تک پہنچ جائے ، پس حق تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی محبت ہو اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے آل و اصحاب رضی اللہ عنہم سے بھی محبت ہو ۔ " جب اللہ اس کو پکڑے گا " کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص اپنے اس جذبہ وعمل کے ذریہ یہ ظاہر کرے گا کہ گویا وہ اللہ کی اذیت پہنچانے کے لئے پے درپے ہے تو وہ شخص اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا یعنی آخرت میں تو وہ عذاب الہٰی میں گرفتار ہوگا ہی اس دنیا میں بھی اس کو عذاب بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment