Sunday 29 September 2019

صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں اور صحابۂ کرام کے حقوق

0 comments
صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں اور صحابۂ کرام کے حقوق

محترم قارئینِ کرام : ارشاد باری باری تعالیٰ ہے : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۔
ترجمہ : اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل، کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ۔ (البقرة:2 - آيت:143 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ
وسط سے مراد عدل ہے (یعنی متوازن اور افراط و تفریط کے درمیانی راہ چلنے والی امت) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء)

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ ثابت ہوا کہ یہ امتِ محمدیہ ، امتِ عادلہ ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حوالے سے جو بھی روایات بیان کی ہیں ، اہلِ علم نے ان تمام روایات کو کھنگالا اور پرکھا تو ایک بھی صحابی ایسا نہ ملا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی جھوٹ بولا ہو ۔
حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آخری دَور میں جب قدریہ ، نسلِ ابنِ سباء رافضی شیعہ ، ناصبی و خوارج جیسے فرقوں کی بدعات کا دَور شروع ہوا تو کوئی ایک صحابی رضی اللہ عنہ بھی ایسا نہ ملا جو ان اقوام میں شامل ہوا ہو اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقتِ مبارکہ کے لیئے اللہ تعالیٰ کی پسند تھے ۔

جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ (مسند احمد ، جلد اول،چشتی)

اس بات کا بھی ذکر بہت ضروری ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت سے ان کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ اہل سنت و جماعت اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عدالت کے قائل ہیں لیکن ہم انہیں معصوم نہیں سمجھتے کیونکہ وہ پھر بھی بشر ہیں ۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بشر ہونے کے ناطے سے غلطی بھی کرتے ہیں اور درستی بھی ، اگرچہ ان کی خطائیں ان کی نیکیوں کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں ۔ (رضی اللہ عنہم)

امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول ۔ ترجمہ : مسلمانوں کے اہلِ حق گروہ یعنی اہل سنت و جماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل تھے ۔ (مقدمہ الاستیعاب،چشتی)

امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل ہیں ۔

امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين ۔
ترجمہ : اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ، ان کی ہجرت و نصرت ، جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ ، دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا ، ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں ، اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے ۔ (الكفاية في علم الرواية ، باب ما جاء في تعديل الله ورسوله للصحابة)

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 29 میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :
1 : وہ کافروں پر سخت ہیں
2 : آپس میں رحم دل ہیں
3 : رکوع و سجود کی حالت میں رہتے ہیں
4 : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں
5 : سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے
6 : ان کے شرف و فضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتب میں بھی موجود تھے
7 : ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے ۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقت ور ہو گئے اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیض و غضب میں مبتلا ہو جاتے تھے ۔

مندرجہ بالا صفات کے حامل اور ایمان اور عملِ صالح کے مجسم صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ ” ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ (مسند احمد ، جلد اول)

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ ، أَبَّرَهَا قُلُوبًا ، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا ، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا ، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَقْلِ دِينِهِ ، فَتَشَبَّهُوا بِأَخْلاقِهِمْ وَطَرَائِقِهِمْ فَهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ص کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر گامزن تھے ۔ (حلية الأولياء لأبي نعيم)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حقوق

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه ۔ (صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )
ترجمہ : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اس لئے کہ اگر تممیں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔

مختصر تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب نبیوں علیہم السّلام کے دلوں کے بعد اور بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل کو پایا تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اس کے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان (یعنی صحابہ ) جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔ (مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379،چشتی)(شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214)

صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمسے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اس کا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت و جماعت کے یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی اہمیت اور ان کے کچھ خاص حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ :

اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ۔

ثانیا : ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ۔

ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درمیان واسطہ ہیں ۔

رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی۔

خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔ (رضوان اللہ عنہم اجمعین)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب “الإصابة في تمييز الصحابة” میں “صحابی” کی تعریفیوں کی ہے : الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم | مؤمنا به ، ومات على الإسلام ۔
ترجمہ : صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا ۔

پھر درج بالا تعریف کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ مزید کہتے ہیں :
فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ، | ومن روى عنه أو لم يرو ، ومن غزا معه أو لم يغز ، ومن رآه رؤية ولو لم يجالسه ، | ومن لم يره لعارض كالعمى . | ويخرج بقيد الإيمان من لقيه كافرا ولو أسلم بعد ذلك إذا لم يجتمع به مرة أخرى .

اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کو مانتا تھا ، پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ گئی ۔ خواہ وہ زیادہ عرصہ تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصہ کے لیے ، خواہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو ، خواہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، خواہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا (بصارت نہ ہونے کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دیدار نہ کر سکا ہو ہر دو صورت میں وہ “صحابئ رسول” شمار ہوگا ۔ اور ایسا شخص “صحابی” متصور نہیں ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7-8،چشتی)

فضائل اصحاب النبی (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے ضمن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : عن عبد الله بن عمر، قال: من كان مستناً فليسن. ممن قد مات، أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا خير هذه الأمة، أبرها قلوباً، وأعمقها علماً، وأقلها تكلفاً، قوم أختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونقل دينه، فتشبهوا بأخلاقهم وطرائقهم فهم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا على الهدى المستقيم ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھی تھے ، اور صراط مستقیم پر گامزن تھے ۔ (حلية الأولياء لأبي نعيم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 162)

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب “الفقہ الاکبر” کو بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير ۔
ترجمہ : ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر صفحہ نمبر 71)

الفقہ الاکبر کے شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اہل سنت و جماعت کا عقیدہیہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کی ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن – 1948ء،چشتی)

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب “العقیدہ الطحاویۃ” میں لکھا ہے :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں ، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویۃ صفحہ نمبر 467)

امام المحدثین و سید الفقہاء حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ (م : 256ھ) نے اپنا عقیدہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا ہے کہ : میں نے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملاقات کی ہے اور ایک ہی بار نہیں بلکہ کئی بار میں نے ان سے ملاقات کی ۔ تمام بلاد اسلامیہ حجاز ، مکہ ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ ، واسط ، بغداد ، شام ، مصر ، جزیرہ میں 46 سال سے زیادہ عرصہ ان سے یکے بعد دیگرے ملتا رہا ہوں ، وہ سب اس عقیدہ پر متفق تھے کہ دین قول و عمل کا نام ہے ، قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں وغیرہ ۔ اور انہی اعتقادی مسائل میں سے ایک یہ بھی کہ :
وما رأيت فيهم أحدا يتناول أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قالت عائشة أمروا أن يستغفروا لهم ۔ میں نے اپنے ان شیوخ میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہتا ہو ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے : لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بخشش کی دعا کریں ۔ امام بخاری نے یہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے بلاد اسلامیہ کا ذکر کر کے وہاں کے اپنے بعض مشائخ کا نام بہ نام تذکرہ کیا ہے ۔ (شرح أصول إعتقاد أهل السنة والجماعة – اللالكائى / ص: 173 اور 175 : آن لائن ربط)

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ فتح الباری “ھدی الساری” (ص:479) میں ذکر کیا ہے کہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ کی تعداد 1080 (ألف وثمانين) ہے ۔ ان تمام کے اسماء کا ذکر یقیناً طویل ہوگا ۔ اس لیے اس ذکر کو نظرانداز کرتے ہوئے عرض ہے کہ ۔۔۔ یہ سب شیوخ کرام اس بات پر متفق تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں ہمیشہ بخشش کی دعا ہی کرنا چاہئے اور انہیں برا کہنے یا ان کی عزت و عصمت کو داغدار کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔