Sunday 22 September 2019

امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور ان کی توہین کا شرعی حکم

0 comments
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور ان کی توہین کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے ، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں ، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے ، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے : من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب“ ۔ (مشکوٰة صفحہ نمبر ۱۹۷)
ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے۔ قرآن کریم میں ہے:رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ . (سورۃ التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(سورہ مومن:7)

عاشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم کی تنقیص کرنے والا ملعون ہے . قارئین شفا شریف کا کیا عظیم مقام ہے آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں .

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : جو شخص صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گمراہی پر مانے اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے گالی دی اسے سخت سزا دیجائے گی . برکات آل رسول ص 283 علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنے رسالہ القام الحجر میں اس بات پر اجماع نقل کیا کہ کسی بھی صحابی کو گالی دینے والا فاسق ہے اگر اسے وہ حلال نہ جانے اور اگر وہ حلال جانے تو کافر ہے اس لیے کہ اس توہین کا ادنی درجہ فسق ہے اور فسق کو حلال جاننا کفر ہے .

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں.
الشرف المؤبد ص 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول ص383 )

اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” [مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢] ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ . [الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973]؛
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رسول الله سے مروی ہیں کہ “بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل .
تخريج الحديث : 1) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) » رقم الحديث: 1285(1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040(4440) 17) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863(5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69(70)

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ ء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کے لیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور . ( برکات آل رسول 281 )

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما آپ نے فرمایا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے ۔ (الناہیہ صفحہ نمبر 16)

امام قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ علامہ معافی بن عمران علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور کاتب وحی ہیں . لناہیہ صفحہ نمبر 17)

بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ نمبر 112)

بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں .

محترم قارئین اس عنوان پر بہت تحقیق ہوچکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کرسکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .
شرح عقائد : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے .

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے

اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں
اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

 فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ با ﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب رضی اللہ عنہم کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ، عظیم المرتب صحابی اور تمام اہل اسلام کے ماموں ہیں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن > جنوری 2013 ء > الفقہ : آپ کے دینی مسائل)

اب کیا فرماتے ہیں منہاج القرآن کی آڑ میں چھپے رافضی جو توہین آمیز اندا ماموں ماموں کہتے ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتبِ وحی ہونے کا انکار کرتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا بھی حیاء نہیں کرتے رافضیوں کی پیروی میں منہاج القرآن کی آڑ میں چھپے رافضیوں کو پہچانو ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلیل الشان صحابی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب ہیں ۔ (فتاویٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 78  مفتی اہلسنّت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علی)

جو شخص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ  عنہ کی شان میں گستاخی کرے آپ کی خلافت کو حق نہ مانے وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا کھلا دشمن و باغی ہے ۔ (فتایٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 79)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں  اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کا گستاخ  رافضی  ہے اس سے توبہ کرائی جائے مسلمانوں پر فرض ہے ایسے شخص کا بائیکاٹ کریں جب تک کہ وہ شخص توبہ کر کے سنی مسلمان نہ ہو جائے ۔ (فتایٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 80)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ صحابی ہیں انہیں بُرا کہنے والا اہلسنت سے خارج ، گمراہ وبے دین ہے ۔ ( فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ 32 شارح بخاری فقیہ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ)

سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اب کیا کہتے ہیں ؟ یہ فتویٰ کسی عام شخصیت کا نہیں ہے فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ صحابی ہیں انہیں بُرا کہنے والا اہلسنت سے خارج ، گمراہ وبے دین ہے ۔ یہ ہے اکابرین اہلسنت کا موقف اور ہمیں سنیوں کے لبادے میں چھپے کسی رافضی پیر ، مفتی ، مجدد ، مولوی یا عالم وغیرہ کے کسی فتوے کی ضرورت نہیں ہے ۔

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)

امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

مشہور محدث شیخ الاسلام امام ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی979ھ) فرماتے ہیں کہ بلا شبہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نسب ، قرابت رسول ، علم اور حلم کے اعتبار سے اکابر صحابہ میں سے ہیں ..... پس ان اوصاف کی وجہ سے جو آپ کی ذات میں بالاجماع پائے جاتے ہیں واجب ضروری ہے کہ آپ سے محبت کی جائے ۔ (تطہیر الجنان واللسان عن الخطور والتفوہ بثلب سیدنا معاویہ بن ابی سفیان صفحہ نمبر3)

امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

محدث و فقیہ شیخ ابوالمواھب امام عبد الوہاب بن احمد شعرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی 973ھ) فرماتے ہیں کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرتا ہے بے شک وہ اپنے دین پر طعن کرتا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دروازہ بالکل بند کر دیا جائے بالخصوص سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بارے میں ۔ (الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر، المبحث الرابع والاربعون فی بیان وجوب الکف عن شجر بین الصحابہ، جلد2، صفحہ نمبر323،چشتی)

امام مجاہد ، امام اعمش اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم

امام اعمش رضی اللہ عنہ جو کہ تابعین میں سے ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو دیکھتے تو کہتے کہ وہ مہدی ہیں ۔ (تطہیر الجنان، صفحہ نمبر27)

امام مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو پا لیتے تو البتہ تم ضرور کہتے کہ یہ مہدی ہیں ۔ (حضرت امیر معاویہ صفحہ نمبر205 بحوالہ حاشیہ العواصم)

اما م اہلسنت ابو لحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324 ہجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنّت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے، اسی طرح جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل و اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626)

امام قاضی ابو بکر باقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں :
واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کریں ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان ، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چاروں آئمہ فقہا علیہم الرّحمہ کا مؤقف

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنت میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105،چشتی)

حضرت امام مالک رضی ﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم  ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہم کو برا کہنا ہے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 102)

حضرت امام شافعی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105)

امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں۔
(صواعق محرقہ صفحہ نمبر 106)


محترم قارئین : گزشتہ چند دنوں سے سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی مسلسل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں فقیر نے اہلسنت کے موقف کو بھر پور انداز میں پیش کیا ہے یاد رہے جو مقام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے اس لیئے ان دونوں میں موازنہ کرنا ہی غلط ہے فقیر کا مقصد صرف یہ ہے کہ خدا را ایک جلیل الشان صحابی رسول کی توہین مت کرو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔