Wednesday, 4 September 2019

فضائل اہل بیتِ اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم

فضائل اہل بیتِ اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم

فضائل و مناقب اہلبیت رضی اللہ عنہم

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ۔ (سورہ دھر آیت نمبر 8)
ترجمہ : اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر کو ۔

وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ : اور وہ اللّٰہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں ۔ اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے ایسی حالت میں بھی مسکین ،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت اور خواہش ہوتی ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے مسکین ،یتیم اور قیدی کو اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھانا کھلاتے ہیں ۔ (مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۰۶)

مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کی اہمیت

یاد رہے کہ مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے اس بات کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے اور یتیم اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔ مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کی اہمیت کیا ہے ا س کا اندازہ ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ ‘‘ ۔ (سورہ ماعون:۱۔۳)
ترجمہ : کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کوجھٹلاتا ہے۔پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا ۔ اور ارشاد فرمایا : ’’ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَكْرَمَنِؕ(۱۵) وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ(۱۶) كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷) وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ‘‘ ۔ (سورہ فجر:۱۵۔۱۸)
ترجمہ : تو بہرحال آدمی کوجب اس کا رب آزمائے کہ اس کوعزت اور نعمت دے تو اس وقت وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی۔اور بہرحال جب (اللّٰہ) بندے کو آزمائے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ اور تم ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے ۔

حضرت علامہ نعیم الدین مرآدآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو اور بعض مفسّرین نے اس کے یہ معنٰی لئے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی محبّت میں کھلاتے ہیں ۔ شانِ نزول : یہ آیت حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کی کنیز فضّہ کے حق میں نازل ہوئی ، حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنھما بیمار ہوئے ، ان حضرات نے ان کی صحت پر تین روزوں کی نذر مانی ، اللہ تعالٰی نے صحت دی ، نذر کی وفا کا وقت آیا ، سب صاحبوں نے روزے رکھے ، حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک یہودی سے تین صاع (صاع ایک پیمانہ ہے) جَو لائے ، حضرت خاتونِ جنّت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کاوقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین ، ایک روز یتیم ، ایک روز اسیر آیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا گیا ۔ (تفسیر خزائن العرفان)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ﷲ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو ! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا ۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ان میں سے پہلی ﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ۔ ﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب ﷲ (کی تعلیمات پر عمل کرنے کی) ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق ﷲ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق ﷲ کی یاد دلاتا ہوں ۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق ﷲ کی یاد دلاتا ہوں ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 62، الرقم : 2357، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487،چشتی)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے ۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو ؟ ۔ (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، وفي المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، وفي المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔ (ان میں سے ایک) ﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں) ۔ (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، وفي المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی ﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا ، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے ، پھر سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا ، پھر حضرت علی کرم ﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102،چشتی)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی ﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام ﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے ﷲ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے ۔ سیدہ اُم سلمہ رضی ﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں ، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔ (الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، وفي کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا ، پھر فرمایا : یا ﷲ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169 – 13170، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719)

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے ۔ ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ’’خدا کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037،چشتی)

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی ﷲ عنھما بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں ؟ ﷲ رب العزت کی قسم ! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان (یعنی میرے اہلِ بیت) سے ﷲ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے ۔ (ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا ۔ اور ایک روایت میں حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا ۔ (الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، وفي المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478 : 5 / 355، الرقم : 5536 : 6 / 85، الرقم : 5870، وفي المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391 : 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في االمستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا ۔ (المستدرک، 3 / 153، الرقم : 4684، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم : 2633، 2634 – 2635، وفي المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم : 5606، وعبد الرزاق في المصنف، 6 / 163، الرقم : 10354، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 197، الرقم : 101، وَقَالَ : إِسْنَادَهُ حَسَنٌ، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4755، والهيثمي في مجممع الزوائد، 9 / 173، وقال : إِسنادُهُ حَسَنٌ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے ، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں ۔ (المستدرک، 3 / 179، الرقم : 4770، وأبو يعلي في المسند 2 / 109، الرقم : 6741، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم : 2631 – 2632)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے کیونکہ میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں ۔ (مسند الفردوس، 3 / 234، الرقم : 4787، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 224)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً ﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کی اولاد اس کی صلب میں رکھی اور بیشک ﷲ تعالیٰ نے میری اولاد علی بن ابی طالب کی صلب میں رکھی ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 / 43، الرقم : 2630، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 172، الرقم : 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، والمناوي في فض القدير، 2 / 223،چشتی)

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی ۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہوگی ۔ (سنن دار قطني ، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، وابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322،چشتی)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنھا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی ﷲ عنھما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں ۔ (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب الحسن والحسين علهيما السلام، 5 / 660، الرقم : 3781، والنسائي في السنن الکبري، 80، 95، الرقم : 8298، 8365، وفي فضائل الصحابة، 1 / 58، 76، الرقم : 193، 260، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 391، الرقم : 23369، وفي فضائل الصحابة، 2 / 788، الرقم : 1406، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32271، والحاکم في المستدرک، 3 / 164، الرقم : 4721. 4722، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 402، الرقم : 1005، وأبونعيم في حلية اولياء، 4 / 190، والبهيقي في الاعتقاد : 328)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے ۔ درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر بچھائی ہوئی تھی ۔ پس اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بنفسِ نفیس) حضرت علی ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی ۔ پھر فرمایا : اے ﷲ! تو بھی ان سے راضی ہوجا ، جس طرح میں ان سے راضی ہوں ۔ (المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، والهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ ! خدا کی قسم ! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں ۔ (حاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4736، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم : 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم : 2952، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 401)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن علیہ السلام سینہ سے سر تک رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں اور حضرت حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں ۔ (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب الحسن والحسين، 5 / 660، الرقم : 3779، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الرقم : 774، 854، وابن حبان في الصحيح، 15 / 430، الرقم : 6974، والطيالسي في المسند، 1 / 91، الرقم : 130، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 394، الرقم : 780)

شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔
(الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 5 / 633، الرقم : 3713، ) (طبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الرقم : 5071، 5096.)(حاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4652،)(طبراني في المعجم الکبير، 12 / 78، الرقم : 12593،)(تاريخ بغداد، 12 / 343، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144،)(البداية والنهاية، 5 / 451، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108.)(السنة : 602، الرقم : 1355، وابن ابي شيبه في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32072.)(السنة : 602، الرقم : 1354،)(المعجم الکبير، 4 / 173، الرقم : 4052،المعجم الأوسط، 1 / 229،)(عبد الرزاق في المصنف، 11 / 225، الرقم : 20388، والطبراني في المعجم الصغير، 1 : 71،)(تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143.)(السنة : 601، الرقم : 1353،)(تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، )(البداية والنهاية، 5 / 457،)(کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904)(المعجم الکبير، 19 / 252، الرقم : 646،)(تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177،) (مجمع الزوائد، 9 / 106،چشتی)

جمیع بن عمر تمیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں کون زیادہ محبوب تھا ؟ اُمُّ المومنین رضی ﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ (سلام ﷲ علیھا) ۔ عرض کیا گیا : مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا ؟) فرمایا : ان کے شوہر اور جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے ۔ (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنتِ محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403. 404، الرقم : 1008. 1009، والحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4744، وأبويعلي في المعجم، 1 / 128، الرقم : 235)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں ۔ (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل الحسن والحسين ابنَيْ عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضی الله عنهم، 1 / 52، الرقم : 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم : 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم : 85)

حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے ۔ (المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، وفي المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آلِ پاک رضی اللہ عنہم کی سچی محبت اور ان کا ادب احترام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)































































































1 comment:

  1. ماشاءاللہ تبارک اللہ بہت خوب جناب ڈاکٹر صاحب اللہ آپ کو سدا خوش وخرم رکھے اور دارین کی سعادتیں نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 🌹

    ReplyDelete

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...