تاریخی و جھوٹی روایات کی پہچان اور معیارِ رد و قبول اور پرکھنے کے اصول
محترم قارئینِ کرام : دین کی صحیح سمجھ حاصل کرنے اور فکری گمراہی سے بچنے کے لئے تمام مسلمانوں کو کچھ اساسی امور کی تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے ۔ انہی میں سے ایک ضروری علم ، “اصول“ کا بھی ہے جس کے ذریعے سے پتا چلتا ہے کہ ہم تک پہنچنے والی معلومات درست پے یا نہیں ۔ ایک عام مسلمان کو کم از کم علم کی اس شاخ کا بنیادی فھم ضرور ہونا چاہیے ۔ محدثین علیہم الرّحمہ نے اس معاملے میں بہت خدمات انجام دی ہیں اور حدیثیں روایت کرنے والوں کے اوپر مکمل تحقیق کر کے معلوم کیا ہے کہ کس کی بات قابلِ قبول ہے اور کس کی نہیں ۔ اس علم کو علم الرجال کہتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے حدیث کی سند پر بھی مکمل غور کیا ہے تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث کو الگ کیا جا سکے ۔ اس علم کو علم الاسناد کہتے ہیں ۔
تاریخ تو پھر بھی تاریخ ہے محدثین علیہم الرّحمہ نے تویہاں تک لکھا ہے کہ جن احادیث میں بظاہرکسی صحابی رضی اللہ عنہ پراعتراض وارد ہوتا ہے اس کی تاویل کرنا واجب ہے اگرتاویل نہ ہوسکے تووہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ کسی حدیث سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہیں ہوسکتی ۔ شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ احادیث جن میں بظاہرکسی صحابی رضی اللہ عنہ پراعتراض ہوتا ہو اس کی تاویل واجب ہے اوریہ بھی کہا کہ صحیح روایات میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی تاویل نہ ہو سکے ۔ (شرح صحیح مسلم شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 278 نووی،چشتی)
اسلاف علیہم الرّحمہ نے یہ تحقیق اور تمیز کا معاملہ صرف حدیث تک ہی نہیں رکھا بلکہ دوسرے علوم کے معاملے میں بھی استعمال کیا (مثلاَ لغات، تاریخ وغیرہ) ۔ حدیث کی کتابوں کی تدوین اور تخریج میں یہ علم مسلمانوں کے لئے مقامِ فخر ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحیح حدیثیں ہم تک پہنچانے کا ضریعہ ہے ۔
البتہ تاریخ کی کچھ کتابوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر ضعیف السند معلومات بھی ملتی ہے ۔ لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ تاریخ کی ایسی کتاب چنے کہ جس میں موجود تمام معلومات درست ذرائع سے جمع کی گئی ہو اور تحقیق کے بعد لکھی گئی ہوں ۔ اس سلسلے میں علماَ سے مدد حاصل کرنی چاہیے ۔ (چشتی)
ہمارے لئے یہ باتیں جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج کل کی عیسائی ، ، لبرل ، سبائی اور خارجی مشنریاں ایسی ہی ضعیف معلومات کو اٹھا کر کم علم مسلمانوں کو دھوکہ دے رہی ہیں ۔ اس حالت میں سب سے بہتر ردِ عمل ، صحیح علم کی سمجھ حاصل کرنا ہے کہ اس کے ذریعے ہمارا اہنا بھی ایمان مضبوط ہو اور ہم دوسروں کا ایمان مضبوط ہونے کا بھی ذریعہ بنیں ۔
موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ کے اختلافات ، انتشار اور فرقوں میں تقسیم کو دیکھتے ہوئے ایک معتدل اور امت کا درد رکھنے والا موٴرخ ضرور تاریخِ اسلامی کی تدوین جدید کی آواز اٹھائے گا ۔ تاریخ کی تدوینِ جدید کے لیے کیا جانے والے مطالعے کے لیے یا جھوٹی روایتوں کی پہچان ، ان کا معیار رد و قبول کے لیے درج ذیل نکات زیادہ مفید موٴثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں :
(1) جو روایت بھی درایت اور عقل کے خلاف ہو ، یا اصولِ شریعت کے مناقض ہو تو جان لیں کہ وہ روایت موضوع ہے اور اس کے راویوں کا کوئی اعتبار نہیں اسی طرح جو روایت حس اور مشاہدہ کے خلاف ہو ، یا قرآن کریم ، سنتِ متواترہ اور اجماعِ قطعی کے مبائن ہو تو وہ روایت بھی قابلِ قبول نہیں ۔
(2) نہایت اعتدال کے ساتھ ان تمام موٴرخین کی کتابوں سے ثقہ اور جھوٹے و کذّاب راویوں کی روایات میں تمیز کی جائے جنہوں نے اپنی کتابوں میں دونوں طرح کی روایات کو جگہ دی ہے ۔
(3) تاریخی روایات کی سند اور متن ہر دو اعتبار سے نقد و تمحیص و تحقیق کے مسلمہ قواعد کی روشنی میں جائزہ لے کر ان پر محتاط و محققانہ کلام کیا جائے ۔
(4) اس بات میں بھی تفریق ضروری ہے کہ موٴلف اور صاحبِ تاریخ خود تو ثقہ ہیں ؛ لیکن اس نے نقل واقعات و روایات میں دروغ گو اور کذّاب راویوں پر اعتماد کیا ہے ، ایسی صورت میں اس موٴرخ کی صرف ثقہ راویوں والی روایات مقبول قرار پائیں گی ، دروغ گو و کذّاب رواة کی روایات مردود سمجھی جائیں گی ۔
(5) اگر صاحبِ تاریخ خود کذّاب و دروغ گو ہو تو پھر اس کی کتاب میں موجود ثقہ لو گوں کی روایات بھی غیر معتبر قراردے دی جائیں گی ۔
(6) اصل ضابطہ تو کذاب راویوں کی روایات کے بارے میں عدمِ قبولیت کا ہے ؛ البتہ اگر ان کی کوئی روایت ، قرآنِ کریم ، سنتِ مبارکہ اور اجماعِ امت کے مخالف نہ ہو تو دیگر ثقہ راویوں کی روایت کی تائید میں قرائن ومرجحات کی موجودگی میں قبول کرنے کی گنجائش ہوگی ۔
(7) دینی امور ، صحابہٴ کرام ، اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم ، ائمہ و سلفِ صالحین علیہم الرّحمہ کے علاوہ دیگر دنیاوی معاملات میں اگر کسی ثقہ راوی کی روایت دستیاب نہ ہو تو بصورت مجبوری دروغ گو راویوں سے منقول روایات نقلِ واقعہ کی غرض سے ذکر کرنے کی گنجائش ہوگی مگر اس سے علمِ یقین حاصل نہ ہو گا۔
(8) تاریخ اور تحقیق کے نام پر محض موٴرخین کی ذکر کردہ روایات سے اخذ کردہ نتائج بھی غیر مقبول شمار ہوں گے ؛ البتہ حقیقی اور مسلمہ اصولوں کے تحت روایت قابل قبول قرار پائے تو اس سے ماخوذ نتائج درست قرار دیے جائیں گے ۔
(9) صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم وائمہ دین علیہم الرّحمہ کی عیب جوئی سے متعلق روایت قابلِ اعتبار نہیں ؛ کیوں کہ روایات وضع کرنے والوں میں بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے حضرات صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور ائمہٴ دین علیہم الرّحمہ کی برائیاں اور عیب بیان کرنے کے لیے ، یا اپنے دیگر مذموم اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے روایات وضع کی ہیں ، ان کا یہ عمل یا تعنت و عناد کی وجہ سے ہے یا تعصب و فساد کی وجہ سے ہے ، پس ان لوگوں کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں ؛ جب تک کہ ان کی کوئی سند معتمد نہ پائی جائے ، یا سلفِ صالحین علیہم الرّحمہ میں سے کسی نے اس پر اعتماد نہ کیا ہو ۔ (چشتی)
(10) علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض اور علامہ مازری رحمھما اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمیں حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے اور ہر بری خصلت کی ان سے نفی کا حکم دیا گیا ہے ؛ لہٰذا اگر ان کے بارے میں کسی روایت میں اعتراض پایا جائے اور اس کی صحیح تایل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس روایت کے راویوں کی طرف جھوٹ کی نسبت کریں گے ۔(چشتی)
علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس بارے میں اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی مناسب تاویل کی جائے اور اگر مناسب تاویل ممکن نہ ہو تو اس روایت کو رد کر کے سکوت اختیار کرنا واجب ہے اور طعن کو بالیقین ترک کرنا ہوگا ؛ اس لیے کہ حق سبحانہ و تعالی نے تمام صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا ہے ۔
(11) تاریخ کی بڑی کتابوں کے اردو تراجم میں عام طور پر راوی کا تذکرہ نہیں کیا گیا اس لیے ان راویوں کی روایتوں کو مضمون سے بھی پہچانا جا سکتا ہے ۔ ہر تاریخی روایت جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف کرپشن ، منافقت ، زبان درازی ، مکاری منسوب کی گئی ہو، وہ ذیادہ تر انہی سبائیوں کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ اس لیے ایسی روایت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کردار مجروح ہو رہا ہو کیونکہ یہ لوگ خود مجروح اور کرپٹ ہیں ۔
(12) اس پورے عمل کے دوران اس بات کا استحضار رہے کہ ہماری تاریخ دروغ گو مکتبہٴ فکر کی اغواکاری کا شکار رہی ہے ، لہٰذا معمولی سی غفلت بھی موجودہ اور آئندہ آنے والی امتِ مسلمہ کی نسلوں میں تشکیک ، تحریف ، تضلیل ، ائمہٴ دین و اسلاف سے بیزاری اور گروہی اختلافات کی آڑ میں ان تاریخی روایات کی بنیاد پرکُشت و خون کی ہولیاں کھیلے جانے کا سبب بن سکتی ہے ۔
روایات کے معیار ردو قبول کا عوام کے لیے ایک بالکل آسان طریقہ : تاریخ کو قبول کرنے کے لیے ہمیں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ، اس کی جو روایتیں قرآن وحدیث کی تعلیم کے مطابق ہونگی میں انہیں بڑی محبت سے قبول کریں اور جو روایتیں ، حکایتیں ، رذالتیں ، قباحتیں قرآن وحدیث سے ٹکرائیں گی ہمیں انہیں نہ صرف رد کرنا گا بلکہ اپنے پاؤں میں مسلنا ہوگا ، کیونکہ وہ تاریخ نہیں جھوٹ ہے ، تہمت ہے ، بہتان اور دشنام ہے اور انسانیت سے گری ہوئی باتیں ہیں ، تاریخ کے حوالے دے کر صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبراہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہیں ہے ۔(چشتی)
کیا اس سے بہتر نہیں کہ تاریخ کی اندھی (سبائی و خارجی) عینک سے صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین و اسلاف علیہم الرّحمہ کی عیب چینیوں کی بجائے قرآن وحدیث سے ان کی فضیلتوں اور قدرومنزلت پر نگاہ کی جائے ۔ اگر لوگ قرآن وحدیث کی صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں دی گئی شہادتوں کو پس پشت ڈال کر محض تاریخی روایتوں کے ذریعے ان پر نکتہ چینی جاری رکھتے ہیں تو ایسے نام نہاد 'تاریخ دان' ہمارے نزدیک 'تھوک دان' کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے ۔ اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ۔
محترم قارئینِ کرام : تاریخی روایات کی اکثریت غلط اورمنقطع روایت کی ہے تومناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کوپرکھنے کے اصول بھی لکھ دیے جائیں جن کی روشنی میں ہر روایت کوتنقید کی کسوٹی پر پرکھا جا سکے وہ اصول حسب ذیل ہیں :
(1) ایسی تاریخی روایت معتبر ہوگی جو نص قرآنی کے خلاف نہ ہو ۔
(2) وہ روایت جوسندمتواترہ کے خلاف نہ ہو ۔
(3) وہ روایت جوصحابہ کے اجماع قطعی خلاف نہ ہو ۔
(4) وہ روایت جو مسلمہ اصولوں کے خلاف نہ ہو ۔
(5) وہ روایت جو صحیح اورمقبول حدیث کے خلاف نہ ہو ۔
(6) وہ روایت جو عربی قواعد کے خلاف نہ ہو ۔
(7) وہ روایت ایسی نہ ہوجس میں راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہو جوکسی اورنے نہیں کی اوریہ راوی اس شخص سے نہ ملاہو ۔
(8) روایت ایسی نہ ہوجس کے معنی رقیق یا شا ن نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یا شان صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے منافی ہو ۔
9) روایت عقل سلیم کے خلاف نہ ہو ۔
(10) روایت میں کوئی ایسامحسوس ومشہورواقعہ بیان ہو کہ اگروقوع میں آتا تواس کوروایت کرنے والے متعدد آدمی ہوتے لیکن اس کے خلاف ایک یا دو راوی ہوں تووہ روایت بھی قبول نہیں ہوگی ۔
یہ دس اصول متن روایت کو پرکھنے کیلئے ہیں باقی سند روایت کے پرکھنے کیلئے حسب ذیل اصول ہیں :
(1) راوی عادل تام الضبط اورثقہ ہو ۔
(3) روایت کتنے طریق سے مروی ہے اورراویوں کی تعداد کتنی ہے ۔
(3) روایت اصل آدمی تک پہنچتی ہے یا درمیان میں ہی رک جاتی ہے اگرروایت اصل آدمی تک پہنچتی ہوگی تومرفوع ہوگی وگرنہ منقطع ہوگی ۔
یہ وہ اصول ہیں جن پرتاریخ کی ہرروایت کے متن اورسند کو پرکھا جاسکتا ہے کہ یہ روایت کس حدتک معتبر ہے ؟ اگران اصولوں کو تاریخی روایات میں اپنایا جائے توغلط اورمنقطع روایات کی کافی حد تک چھان بین ہوسکتی ہے۔ اوراس وقت ایک قاری اورتاریخ کا مطالعہ کرنے والااچھے طریقے سے سمجھ جائے گا کہ غلط روایات کا کس قدرذخیرہ تاریخ کے صفحات میں سمودیا گیا ۔ قرآن وحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ابنیاء کرام علیہم السّلام کے بعد صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے بعد دنیا کے بہترین انسان اوراللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے ہیں اورقرآن کریم نے تمام صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے بارے میں جنت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ وہ فسق وفجور ، جھوٹ ،ظلم ،حسد اورخیانت سے پاک تھے ان کی نیتوں پر شک ہرگز نہیں کیا جاسکتا ، وہ گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتے ۔ وہ اگرچہ معصوم نہیں تھے بشری تقاضوں کی بناپرکبھی کبھار لغزش ہوئی تو ان کی معافی کا اعلان ہوچکا ہے ۔ مقام صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم یہ اللہ تعالیٰ کا خاص مقام ہے جو محنت سے حاصل نہیں ہوسکتا نہ ہی علم وعمل پر موقوف ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے ۔ صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی اس خصوصیت کی وجہ سے امت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی خواہ وہ غوث ہو، قطب ہویا ابدال ہو یا اس سے بھی بڑے درجے والا ہو ایک ادنی سے صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا ۔ ان کی عظمت وکردار پرجرح و تنقید کی گنجائش نہیں نکل سکتی واضح رہے کہ صحیح تاریخی روایات صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے بارے بدگمانی کا ساتھ نہیں دیتیں ۔ جن روایات کی بنا پر شکوک وشبہات پیداکیے جاتے ہیں وہ زیادہ ترمن گھڑت ہیں لہٰذا ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ تاریخ کی بڑی کتب کے بجائے قریبی دورکے مستند علمائے اہلِ سنت کی کتب پڑھیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment