Sunday 1 September 2019

جموں و کشمیر اسلامی ریاست تھی اور رہے گی ، اس لیئے جہاد فرض ہے

0 comments
جموں و کشمیر اسلامی ریاست تھی اور رہے گی ، اس لیئے جہاد فرض ہے

محترم قارئینَ کرام : فقہاء کرام نے باشندگان دنیا کے اعتبار سے تمام انسانی بستیوں کی چند حالتیں بیان کی ہیں اور اسی کے اعتبار سے ان کے احکام ہیں ۔ مثلاً اولاً تمام دنیا کو دو قسم پر تقسیم کیا دار السلام ۔ دار الحرب ۔ پھر دار السلام میں بسنے والوں کی دوقسمیں کیں ۔ مسلم ، ذمی اور دار الحرب (یعنی غیر مسلم باد شاہی) اس کے باشندوں کے اعتبار سے دو قسم پر تقسیم کی ۔ اگر ان سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ ہے تو معاہد ورنہ حربی ، ان میں سے ہر ایک مقام اور اس کے باشندوںکا جہاد و قتال کے لحاظ سے الگ الگ حکم ہے ۔

اس لئے ریاست جموں وکشمیر میں چلنے والی تحریک کی شرعی نوعیت متعین کرنے کے لئے اس کی موجودہ اور قدیم تاریخی نوعیت واضح کر دینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ اس وجہ سے تفصیل میں جائے بغیر اس کی مختصر تاریخی حیثیت معتبر کتب تاریخ سے ہدیہ ناظرین ہے۔ پھر اسی کے لحاظ سے مسئلہ کا شرعی حل بیان کیا جائے گا ۔

مختصر تاریخ کشمیر

کشمیر جنت نظیر ، وادی گل پوش ، جس کی تعریف میں قصائد لکھنے والوں نے صد ہا صفحات رنگ ڈالے ، دنیائے فارسی و اردو کا کوئی شاعر اس وقت شاعر ہی تسلیم نہ ہوا جب تک اس نے کشمیر کی تعریف میں کچھ نہ کچھ خامہ فرسانی نہ کرلی ۔

کشمیر جس نے صدہا اولیاء کرام ، مفسرین و محدثین علیہم الرّحمہ کو جنم دیا جس کو شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال اور امام انقلاب مفتی صدر الدین جیسی ہستیوں کی وطنیت کا شرف حاصل ہے ۔

(اس کشمیر میں) ویسے تو ۸۰۰ء میں ہی بعض مسلمان تاجروں اور گم گشتہ ٔنام صوفیاء کرام کے ذریعہ خاموش طریقہ سے اسلام بڑی حد تک پھیلنا شروع ہوگیا تھا ۔ لیکن ۱۲۹۵ء میں راجہ لچھمن دیو کے زمانہ میں اچانک ایک درویش خدامست حضرت شرف الدین عبدالرحمن عرف بلبل شاہ رحمۃ اللہ علیہ دعوت اسلام کے لیے تبت کے راستے نو سو مریدین کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے ۔

حضرت نے سرینگر کے وسط میں امراء و عوام اور مذہبی رہنماؤں کو جمع کرکے تعلیمات اسلام پر ایک روح افزا وعظ فرمایا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسی مجلس میں سینکڑوں افراد کو دولت اسلام سے نواز دیا آپ نے تبلیغ اسلام کے لیے ایک عرصہ تک یہاں قیام فرمایا ۔

اس کے کچھ عرصہ بعد جب راجہ رام چندر کو معزول کرکے اس کا وزیر ینچن تخت شاہی پر قابض ہوا تو اس نے ایک شاہ میر نامی مسلمان سے … جو کچھ سال پہلے مضافات کابل سے یہاں آیا تھا اور راجہ سہو دیو نے اس کی دیانت داری پر ایک گائوں کا اس کو جاگیر دار بنادیا تھا پھر راجہ رام چندر کے یہاں وہ ایک بڑے عہدے پر فائز تھا اور اب راجہ ینچن کے ارکان حکومت میں شمار ہوتا تھا اور جو زیر زمین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے بہت کوشش کررہا تھا…تعلیمات اسلام پر سوال وجواب کئے، پنڈتوں کو بلاکر ان سے مباحثہ بھی کرایا اور جب اس پر نور اسلام واضح ہوگیا تو حضرت بلبل شاہؒ کے دست حق پرست پر اپنی بیوی کو ٹارانی اور دیگر مصاحبین کے ہمراہ اسلام قبول کرلیا۔ حضرت بلبل شاہ نے اس کا نام صدرالدین رکھا ۔ (چشتی)

اس طرح اس نے ۱۳۲۵ء میں اسلام قبول کرکے ۱۳۳۷ء تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ اسلامی، نہج پر حکومت کی۔

۱۳۳۷ء میں اس کی وفات پر کوٹارانی نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اس کے لڑکے حیدر کے بجائے ایک ہندو اور اودیان دیو کو حکومت پر قابض کردیا۔

۱۳۳۹ء میں اس کی موت پر چھ ماہ تک کوٹارانی خود حکومت کرتی رہی لیکن جب اس نے زمام حکومت اپنے بھائیوں کو دینی چاہی تو اس پر زبردست بغاوت پھیل گئی۔ اس وقت شاہ میر وزیر تھا۔ اس نے اس بحرانی کیفیت سے نمٹتے ہوئے خود باگ ڈور سنبھال کر اپنا لقب شمس الدین رکھا اور ۳ سال پانچ ماہ عدل وانصاف کے ساتھ اسلامی پرچم لہراتا رہا۔

اسی تاریخ (۱۳۳۹ء یا بعض مورخین کے بقول ۱۳۴۳ء سے کشمیر پر اسلامی حکومت کا آغاز ہوگیا۔ شاہ میر (شمس الدین) نے سن بکرمی کو بدل کر سن ہجری کو رواج دیا اور اپنی زیادہ توجہ اشاعت اسلام پر مرکوز رکھی۔ اس کا دور کشمیر کی تاریخ میں نہایت تابناک دور ہے۔ اس تاریخ سے ۱۸۱۸ء تک کشمیر پر مسلمانوں نے انتہائی شان وشوکت اور عدل وانصاف سے حکومت کی ۔

سلاطین کشمیر ایک نظر میں

شاہ میر کے خاندان نے ۱۳۳۹ء سے ۱۵۶۱ء تک حکومت کی، جس کے چند قابل ذکر سلاطین یہ ہیں ۔

جمشید بن شاہ میر

علاؤ الدین بن شاہ میر

شہاب الدین بن علاؤ الدین۔ اس کے دور میں کشمیر کی سرحدیں قدیم حیثیت سے بہت وسیع ہوکر تبت سے سرہند اور کابل سے نگر کوٹ تک پھیل گئی تھیں۔ اس کے دور میں مشہور ولی کامل امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ کشمیر تشریف لائے۔ جن کے چار ماہ کے عرصہ قیام میں ہزاروں افراد کو دولت اسلام نصیب ہوئی۔ حضرت ہمدانیؒ کے بعد آپ کے حکم سے سید حسین سمنامیؒ نے دعوت اسلام کے مشن کو جاری رکھا۔

قطب الدین بن علاؤ الدین۔ انہی کے دور میں سید ہمدانیؒ دوسری مرتبہ سات سو سادات کے ساتھ تشریف لائے اور چھ ماہ تک دعوت اسلام کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

سکندر بت شکن بن قطب الدین…ان کے دور حکومت میں ہزاروں برہمنوں نے اسلام قبول کرکے خود اپنے مندر توڑ کر مساجد میں تبدیل کردیے۔ جس کی وجہ سے یہ ’’سکندر بت شکن‘‘ مشہور ہوئے۔ ان کے عہد میں سید میر محمد ہمدانیؒ ابن امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ تبلیغ اسلام کے لیے شریف لائے اور بارہ سال تک قیام فرمایا۔

زین العابدین عرف بڈھ شاہ بن سکندر۔ کشمیر کی تاریخ میں ان سے زیادہ روشن کسی کا زمانہ نہیں سمجھا گیا۔ یہ علم تفسیر، حدیث وفقہ میں زبردست مہارت رکھتے تھے اور بے پناہ علم دوست تھے۔

۱۵۶۱ء میں شاہ میر کا خاندان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا تو چک خاندان نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ جو ۱۵۸۸ء تک حکومت کرتارہا۔ اس خاندان میں حسین شاہ، لوہر شاہ اور یوسف شاہ قابلِ ذکر بادشاہ ہوئے ہیں۔

۱۵۸۰ء میںعوام نے بغاوت کرکے سید مبارک شاہ بیہقیؒ کو زبردستی تخت سلطنت پر متمکن کردیا جو چھ سات ماہ حکومت کرتے رہے۔

۱۵۸۵ء میں اسی چک خاندان کا یعقوب شاہ حکمراں تسلیم کیا گیا لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی جلال الدین اکبر نے کشمیر پر فوج کشی کی۔ اکبر کی جیت ہوئی اور پہلی مرتبہ کشمیر ہندوستان کی حکومت کا ایک صوبہ بن گیا۔ اسی تاریخ سے ۱۷۵۱ء تک کشمیر پر سلاطین کے بجائے مغلیہ حکومت کے صوبیدار حکومت کرتے رہے۔

۱۷۵۲ء میں مغلیہ بادشاہ احمد شاہ بن محمد شاہ کے صوبیدار قلی خان کو معزول کرکے ابو القاسم نے کچھ دن تک خود مختار حکومت کی۔

۱۷۵۳ء میں احمد شاہ ابدالی نے ابو القاسم کو ہٹا کر کشمیر کو دولت افاغنہ میں شامل کردیا۔ چنانچہ ۱۸۱۸ء تک حکومت افغانستان کے صوبیدار نظام حکومت چلاتے رہے۔

مذکورہ بیان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ۱۳۳۹ء سے ۱۸۱۸ء تک کشمیر محض اور محض ایک اسلامی ریاست تھی۔ وہ خود مختار ہو یا صوبہ کی حیثیت میں، اس کے حکمران مسلمان تھے اور تایخ کی ورق گردانی سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ امراء میں فسق و فجور رونما ہوا ہو یا نہ، بہر صورت کشمیر کی عدالت کا سرکاری قانون صرف اور صرف اسلام تھا۔ اور مسلمانوں کو ہر قسم کے اقتدار پر غلبہ حاصل تھا۔ لہذا کشمیر پر کسی کافر کی فوج کشی اور حملہ آوری کا وہی حکم ہوگا جو کسی اسلامی ملک پر حملہ آوری کا ہوتا ہے۔ اہل علم حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ ہر خطہ زمین جس میں ایک دن بھی مسلمانوں کی حکومت بغلبہ رہ چکی ہو اگر اس پر کفار چڑھائی کر دیں تو اس مقام کے باشندوں پر اور بقدر ضرورت تمام عالم اسلام پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ اس پر ہم تفصیل سے بحث چند صفحات کے بعد کریں گے۔ یہاں تو صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ جب یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ کشمیر ایک اسلامی ملک تھا تو اگر اس پر کفار حملہ کردیں تو اس کا وہی حکم ہوگا جو اس طرح کے خطہ کا ہوتا ہے ۔

رنجیت سنگھ کا حملہ

اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد دہلی کی حکومت چراغ مفلس بن گئی تھی۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چہار سو شر پسندوں کو سر اُٹھانے کا موقع مل گیا۔ اسی درمیان پنجاب کے زرخیز علاقہ میں سکھوں نے اپنی ایک مضبوط حکومت قائم کرلی تھی ۔ اس کے حکمرانوں میں رنجیت سنگھ کافی مضبوط، متعصب اور اسلام دشمن واقع ہوا ہے۔

رنجیت سنگھ نے دولت افاغنہ کے آخری صوبہ’’ دار جبار خان‘‘ کے درباریوں سے ساز باز کرکے ۱۸۱۹ء میں ایک زبردست لشکر کے ساتھ کٹھوعہ، جموں، راجوری اور پونچھ کو تخت و تاراج کرتے ہوئے وادی کشمیر پر فیصلہ کن حملہ کیا، مسلمانوںنے جم کر اس کا مقابلہ کیا لیکن متحدہ قیادت نہ ہونے کی وجہ سے رنجیت سنگھ کی فوج جموں وکشمیر پر قابض ہوگئی۔ آج کی تاریخ سے رنجیت سنگھ نے کشمیر میں لوٹ مار اور بربریت کی وہ تاریخ قائم کی جو انسانی تاریخ پر ایک بد نما داغ ہے۔

اس طرح ۴۹۴ سال خالص اسلامی ریاست رہنے کے بعد مسلمانوں پر اپنی بد اعمالیوں کے سبب ایسا زوال آیا جس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی ۔

۱۸۱۹ء سے ۱۸۴۵ء تک رنجیت سنگھ، کھڑک سنگھ، رانی چندر کور شیر سنگھ اور دلیپ سنگھ نے حکومت کی۔

اس آخری دور میں سکھوں نے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ انگریزوں سے جنگ کی اور ہر مرتبہ منہ کی کھائی۔ آخری بار کی شکست سے انگریزوں نے سکھوں پر باون لاکھ تاوان جنگ لازم کیا۔ دلیپ سنگھ میں اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس نے اس کے بدلے ہیرا کوہ نور اور ریاست جموں وکشمیر انگریز کے حوالے کردی ۔

کشمیر کی نیلامی

انگریز کے لیے کشمیر میں حکمرانی کافی دشوار تھی، وہاں سکھوں کے خلاف پہلے ہی مسلمان جہاد کی تیاریاں کررہے تھے، اس لیے اس نے ریاست کی نیلامی کا اعلان کردیا جس کو جموں کے ایک جاگیر دار گلاب سنگھ بن کشتوڑا سنگھ ڈوگرہ (ہندو) نے ۷۵ لاکھ میں خرید لیا ۔

یہ دنیا کی تاریخ میں ایک عجیب وغریب واقعہ ہے کہ انسانوں، جانوروں سمیت زمین کا سودا گھر بیٹھے ہورہا تھا جس کا وکیل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار تھا یہ روپیہ اس وقت کی آبادی کے لحاظ سے ۲ روپیہ فی کس بھی نہ تھا جو بعد میں انہیں سے صول کیا گیا۔

گلاب سنگھ نے تین مرتبہ قبضہ کے لیے فوج کشی کی مگر مسلمانان کشمیر نے تینوں مرتبہ اس کو شکست دی۔ آخر گلاب سنگھ کی درخواست پر انگریزی سپہ سالار مسٹر لارنس نے زبردست لشکر کشی کے بعد قبضہ دلوایا ۔ گلاب سنگھ کا باپ نہایت ہی مفلس کاشت کار تھا لیکن گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی پیادہ فوج میں بھرتی ہوکر کافی خدمت انجام دی جس کے صلہ میں رنجیت سنگھ نے اس کو جموں کا جاگیر دار بنادیا تھا۔

گلاب سنگھ ۱۸۵۳ء تک حکومت کرتا رہا ۱۸۵۳ء میں اس کی موت پر اس کا بیٹا رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا۔ ۱۸۸۵ء میں رنبیر کا بیٹا پرتاب سنگھ حکمراں بنا جس کے لاولد مرنے پر ۱۹۲۶ء میں اس کا بھتیجا ہری سنگھ راجہ تسلیم کرلیا گیا جو ۱۹۴۷ء تک رہا۔ اس درمیان انہوںنے ظلم وتشدد کے علاوہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کی۔ اسلامی تعلیمات ہی نہیں آباء واجداد کی تاریخ سے بھی نوجوانوں کو دور رکھا۔ جس کی وجہ سے مسلمان ایک طرف احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے تو دوسری طرف اسلامی تہذیب وتمدن کی جگہ ہندوانہ رسوم نے لے لی ۔ (چشتی)

لیکن اس دوران بھی کشمیری مسلمان کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت کرتے رہے اور مسلسل تیاریوں میں لگے رہے۔ چنانچہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کو مسلمانوں نے سری نگر شہر میں راجہ کے خلاف ایک زبردست جلوس نکالا ،جس پر پولیس فائرنگ سے ۲۱ نوجوان شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو پونچھ، راجوری، ریاسی اور جموں کے دیگر اضلاع کے مسلمانوں نے مالیہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس بحرانی کیفیت سے گھبرا کر ۵ نومبر ۱۹۳۱ء کو راجہ نے تمام ریاست انگریز کی امن فوج کے حوالے کردی ۔

۱۹۴۰ء کے بعد راجہ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں بہت تیزی آ چکی تھی ، لیکن۱۹۴۷ء میں جب برصغیر انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا تو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک پوری قوت سے اٹھی۔ ابتدائً گلگت، بلتستان اور چلاس وغیرہ کے علاقے سکھ ڈوگروں سے آزاد ہوئے اور پھر ۱۶ اگست ۱۹۴۷ء کو بارہ مولہ، مظفر آباد، میر پور، کوٹلی پونچھ، راجوری کے مسلمانوں نے اعلان جہاد کر دیا جو ایک سیلاب بن کر آگے بڑھنے لگا۔ ڈوگرہ فوج کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ ہزاروں مارے گئے اور باقی جموں کی طرف فرار ہو گئے ۔ اس شکست خوردگی کے عالم میں راجہ نے بڑی مکاری سے کشمیر کا الحاق اس شرط پر بھارت سے کر دیا کہ بھارت اس کے بیٹے کو کوئی نہ کوئی عہدہ دے گا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اول تو خود راجہ غاصب تھا، پھر جب قبضہ جاتا رہا، حکومت جاتی رہی تو الحاق کر دیا۔ کیسا الحاق؟؟ کیا دنیا کے کسی بھی قانون میں اور دنیا کے کسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے سمجھدار انسان کے نزدیک اس الحاق کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے؟؟ لیکن اسی الحاق کو بہانہ بنا کر اور شیخ عبد اللہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر بھارت کشمیر میں فوج داخل کردی اور ہر طرف قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا کہ الامان و الحفیظ ۔ قتل و غارت کی اس داستان خون آشام کو سن کر پونچھ، مظفر آباد، کوٹلی اور گلگت وغیرہ کے مسلمان منظم ہو گئے ، آزاد قبائل نے بھی ان کا ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی کسی قدر مدد کی ۔ ان مجاہدین نے بھارت کے بڑھتے قدم روک دیے اور زبر دست جنگ کرکے بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ۔ اس صورتحال سے بوکھلا کر بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقدمہ درج کر دیا۔ پھر وہ دن اور آج کا دن … اقوام متحدہ کے منافقانہ کردار کی وجہ سے ابھی تک کشمیر بھارت کے زیر تسلط ہے … ظلم کا بازار گرم ہے اور تحریک کشمیر بھی مختلف نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی اب اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ اللہ کرے کہ کشمیر کی آزای کاسورج جلد طلوع ہو آمین ۔

کشمیر میں جہاد فرض ہو چکا ہے اور یہ جہاد جہادِ اسلامی ہے

محترم قارئینِ کرام : اللہ تبارک وتعالى نے جہاد کے لیے کچھ وجوہات مقرر فرمائی ہیں جن کی بناء پر کسی بھی علاقہ میں جہاد کیا جاتا ہے ۔ (1) مسلمانوں پر حملہ اور کافروں کوپیچھے دھکیلنے کے لیے ارشاد ہوا : اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر ۔ (سورۃ البقرة : 193)
(2) اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ۔ (سورۃ البقرة : 190)

(3) مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کے خاتمہ کے لیے ارشاد ہوا : بیشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہ کی انہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا جب تک ہجرت نہ کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے ، اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔ (الأنفال : 72)

(4) مسلم اراضی کفار سے چھڑانے کے لیے ارشاد ہوا : اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے ،
(192) پھر اگر وہ باز رہیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (سورۃ البقرة : 191)

(5) کفار سے جزیہ وصول کرنے کے لیے ارشاد ہوا : لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہو کر ۔ (سورۃ التوبة : 29)

(6) مسلمان مقتولوں کا کافروں سے بدلہ لینے کے لیے ارشاد ہوا : اے ایمان والوں تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ (سورۃ البقرة : 178)

(7) کفار کو عہد شکنی کے سزا دینے کے لیے ارشاد ہوا : اور اگر عہد کر کے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں تو کفر کے سرغنوں سے لڑو بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں ۔ (سورۃ التوبہ التوبة : 12)

محترم قارئینِ کرام شعائر اسلام کی توہین کی وجہ سے بھی جہاد کیا جاتا ہے ۔ اور کشمیر میں مذکورہ بالا وجوہات میں سے اکثر پائی جاتی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے جس پر ہندو قابض ہے ۔ دعوت الى اللہ کے راستے وہاں مسدود کیے جا رہے ہیں ۔ ہندو مشرک جب چاہیں مسلمانوں پر حملہ آور ہو تے اور انہیں ظلم وستم کا نشانہ بناتے اور عزتوں کو تار تار کرتے ہیں ۔ اور کشمیر کے حوالہ سے جو عہد انہوں نے کیا تھا اسے مسلسل توڑتے چلے آ رہے ہیں ۔ لہٰذا کشمیر میں ان تمام تر وجوہات کی بناء پر جہاد کرنا بالکل درست اور شرعی فریضہ ہے ۔ اور وہاں موجود کٹھ پتلی حکومت ، در اصل کفر ہی کی حکومت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے اور موجودہ حالات میں کشمیر کےلیئے اہلِ اسلام پر جہاد فرض ہو چکا ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : کشمیر ایک اسلامی ریاست و علاقہ تھا اور ہے اس پر کفر نے قبضہ کر لیا ہے ، لہٰذا بقدر ضرورت تمام عالم اسلام پر فرض ہو جاتا ہے کہ اس کی آزادی کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد کریں ، کیونکہ اگر کسی بھی اسلامی ملک یا شہر پر کفار قبضہ کر لیں تو اس شہر کے باشندوں ، اور بقدر ضرورت تمام امت مسلمہ پر اس کا آزاد کروانا فرض عین ہو جاتا ہے ، اس مسئلہ میں سلف و خلف کسی کا اختلاف نہیں ۔ علامہ جصاص رحمہ اللہ نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے : تمام امت مسلمہ کا یہ واضح عقیدہ ہے کہ جب کسی مسلمان ملک کی سرحد پر دشمن کے حملہ کا خوف ہو اور وہاں کے مقامی باشندوں میں دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو۔ اور اس طرح ان کے شہر، ان کی جانیں اور ان کی اولاد خطرہ میں پڑ جائیں تو پوری امت مسلمہ پر یہ فرض ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے سینہ سپر ہو جائیں، تا کہ دشمن کی دست درازی روک دی جائے، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ پوری امت اس پر متفق ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک کا بھی ایسا قول نہیں ہے کہ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے جہاد چھوڑ کر بیٹھے رہنا جائز ہوتا ہو کہ دشمن مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہیں اور ان کے اہل و عیال کو قید کر کے ان سے غلاموں کا برتاؤ کرتے رہیں ۔ (احکام القرآن/ ص ۱۱۴،چشتی)

اگر دشمن (کفار) مسلمانوں کے کسی بارڈر پر حملہ کردیں تو

صاحب رد المحتار لکھتے ہیں : اگر دشمن (کفار) مسلمانوں کے کسی بارڈر پر حملہ کردیں تو ہر اس شخص پر جو دشمن سے قریب ہو جہاد فرض عین ہوجائے گا ۔ البتہ جو لوگ ان سے پیچھے دشمن سے دوری پر واقع ہوں جب تک ان کی ضرورت نہ ہو تو ان پر فرض کفایہ ہوگا ۔ اور اگر ان کی ضرورت محسوس کی جانے لگے بایں طور کہ جو لوگ دشمن سے قریب ہوں وہ دشمن سے لڑنے پر قادر ہی نہ ہوں ، یا قادر تو ہوں لیکن سستی کرنے لگیں اور جہاد نہ کریں ، پس ایسی حالت میں ان لوگوں پر جو ان کے قریب ہوں جہاد اسی طرح فرض عین ہوجائے گا جیسے نماز و روزہ ۔ ان لوگوں کو جہاد چھوڑ دینے اور بیٹھے رہنے کی اجازت نہیں ہوگی ، اور پھر اسی ترتیب سے تمام دنیا کے مسلمانوں پر مشرق سے مغرب تک جہاد فرض عین ہوجائے گا ۔ (ردالمحتار، المعروف بالشامی/ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 238)

کفار جب کسی شہر پر ہلہ بول دیں (جیسا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کفّار نے ہلہ بول دیا ہے) تو اس حالت میں جہاد فرض عین ہوجائے گا

علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ’’بدائع الصنائع‘‘ میں لکھتے ہیں:پس جب نفیر عام ہوجائے اس طرح کہ کفار کسی شہر پر ہلہ بول دیں تو اس حالت میں جہاد فرض عین ہوجائے گا، بشرط قدرت ہر ایک مسلمان پر فرض ہوگا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے: ’’نکل پڑو اللہ کی راہ میں کفار سے لڑنے کے لئے ہلکے ہو یا بوجھل‘‘۔ (کہا گیا ہے کہ یہ آیت پاک نفیر عام کے لئے نازل ہوئی ہے) اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے : نہ چاہیے مدینہ والوں کو اور ان کے گرد و نواح گنواروں کو، کہ وہ پیچھے رہ جائیں رسول (صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم) کے ساتھ سے اور نہ یہ کہ اپنی جان کو نبی کی جان پر چاہیں (ترجیح دیں) پارہ نمبر ۱۰/ رکوع نمبر ۱۴۔ نیز اس لئے کہ نفیر عام سے پہلے ہر ایک پر وجوب ثابت تھا، بعض سے سقوط فرضیت دوسرے بعض کے عمل پیرا ہوجانے سے ہوا تھا۔ پس جب نفیر عام ہوجائے تو اس کا تحقق جب ہی ہوگا جب ہر ایک اٹھ کھڑا ہو لہذا اس حالت میں ہر ایک پر عین فرضیت باقی رہے گے، جیسے کہ نماز و روزہ، یہاں تک کہ غلام آقا کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر میدان کار زار میں کود پڑیں گے، اسی طرح بچے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے نکل پڑیں گے ۔ (بدائع الصنائع/ ج ۷ / ص۹۸،چشتی)

لوگوں کو یہ خبر مل جائے کہ دشمن اسلامی شہر پر چڑھ آیا ہے تو جہاد فرض ہے

فقہ حنفی کی قدیم کتاب ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں ہے : جب تک نفیر عام نہ ہوجائے تب تک غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اور عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر جہاد کے لیے نہ نکلے ۔ البتہ جب نفیر عام ہوجائے اور لوگوں کو یہ خبر مل جائے کہ دشمن اسلامی شہر پر چڑھ آیا ہے (تو بدوں اذن ہی جہاد کے لیے نکلنا ضروری ہے) نیز جب مسلمانوں کی جان یا اولاد یا مال خطرے میں پڑ جائیں تو آدمی کو بغیر والدین کی اجازت کے نکلنا درست ہے اور نابالغ بچے کے لیے نفیر عام کے وقت جہاد میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ اس کے والدین منع ہی کریں اور اگر روم والے حملہ کردیں تو ہر اس شخص پر جو جہاد میں جاسکتا ہو اور اس کے پاس سواری اور سفر خرچ کا انتظام ہو۔ جہاد کے لیے نکلنا ضروری ہے اور کسی بَیِّن عذر کے علاوہ پیچھے رہنا جائز نہیں۔ اگر ایک مسلمان عورت مشرق میں قید کردی گئی تو مغرب میں رہنے والے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کو کفار کی قید سے چھڑائیں ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ، الموضوع بہا مش فتاویٰ الہندیہ /ج ۵/ص ۵۵۹،چشتی) ۔ اس سے معلوم ہوا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اہلِ اسلام پر جہاد فرض ہو چکا ہے مسلم علاقے پر کفر کا قبضہ اور عزتیں غیر محفوظ ہیں ۔

نفیر عام سے پہلے جہاد نفل ہے ، اور نفیر عام کے بعد فرض عین ہوجاتا ہے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو حالات ہیں نفیر عام ہو چکا ہے اور مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہو چکا ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اب جہاد کا یہ فریضہ ادا کر لازم ہو ہے

فقہ حنفی کی مشہور مفتیٰ بہ کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ جو صدھا علماء کرام کی محنت شاقہ اور متفقہ رائے سے مرتب ہوئی تھی ، اس کی ’’کتاب السِّیَر‘‘ کے شروع ہی میں یہ بحث ہے : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نفیر عام سے پہلے جہاد نفل ہے ، اور نفیر عام کے بعد فرض عین ہوجاتا ہے ۔ مگر اکثر مشائخ کا قول کے مطابق جہاد ہر حال میں فرض ہے، صرف اتنی بات ہے کہ نفیر عام سے پہلے فرض کفایہ ہے اور نفیر عام کے بعد فرض عین ہوجاتا ہے ، یہی صحیح ہے ۔ نفیر عام کا یہ مطلب ہے کہ اہل شہر کو صرف یہ اطلاع پہنچ جائے کہ دشمن آپہنچا ہے ، جو تمہاری جان ، اولاد اور مال کا خواہاں ہے ۔ (کچھ آگے چل کر لکھا ہے) یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ نفیر عام کی خبر دینے والا ، عادل و فاسق دونوں اس مسئلہ میں برابر ہیں ، ان کی خبر بہر حال قبول کی جائے گی ۔ (فتاویٰ عالمگیری/ جلد۳/ ص۲۸) ۔

اس کی روشنی میں معلوم ہوا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو حالات ہیں نفیر عام ہو چکا ہے اور مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہو چکا ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اب جہاد کا یہ فریضہ ادا کر لازم ہو ہے بصورتِ دیگر فرضِ عین کے منکر کہلائیں گے ۔ اور مسلمانوں کے قتلِ عام کے مجرم و گناہ گار کہلائیں گے اے اہلِ اسلام کب جاگو گے آخر کب ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔