Thursday 12 September 2019

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

0 comments
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

محترم قارئینِ کرام : ارشادِ باری تعالیٰ ہے : بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (سورۃُ الاحزاب، 33: 57)

ﷲ تعالیٰ اذیت سے پاک ہے ۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ جو ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں ، اُسے ناراض کرتے ہیں مگر ﷲ تعالیٰ کو اذیت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کی ذات اذیت سے پاک ہے ۔ گویا آیت مذکورہ میں ﷲ تعالیٰ نے اپنی اذیت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت سے جوڑ دیا ۔ کہ جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے وہ ﷲ تعالیٰ کو اذیت دیتا ہے ، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائے دنیا و آخرت میں دونوں جگہ ﷲ تعالیٰ اُس پر لعنت بھیجتا ہے ۔ یعنی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والے کے لیے دنیا و آخرت میں لعنت کی سزا مقرر کی گئی ہے ۔ قرآن کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے نکاح اِس لیے ممنوع فرما دیا گیا کہ اِس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت ہوگی اور یہ حکم کسی عرصے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات بھی ابدی ہے اور احساسات ، خوشی و اذیت بھی ابدی ہے ۔ جس طرح حیاتِ طیبہ میں اذیت پہنچتی تھی اُسی طرح حیاتِ طیبہ کے بعد ابد الآباد تک پہنچتی ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلق اور نسبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس شہر اور اس کے اہالیان کی حرمت اور ادب و احترام بھی واجب ہے اور جو کوئی اس کا خیال نہ رکھے اس سے بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچتی ہے ۔ چنانچہ شہر مدینہ کے تقدس اور فضائل میں وارِد کثیر اَحادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں جن سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کی بے حرمتی کرنے والے کی تمام عبادتیں ردّ کر دی گئیں اور ساکنانِ مدینہ سے برائی کا اِرادہ کرنے والے کو ﷲ تعالیٰ اِس طرح پگھلائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے ۔ اگر ساکنانِ مدینہ کے ساتھ اذیت کا حال ہے تو پھر جو شخص رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دے اُسے کیوں کر بخشا جا سکتا ہے ! صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اہلِ مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ دوزخ میں اسے اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح پانی میں نمک پگھلتا ہے ۔‘‘ اس روایت میں اہلِ مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا اِرادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس پس منظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن سے کوئی ایک پھول بھی توڑ دے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوارا نہیں ، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت ہوتی ہے۔ ان فرامین کی روشنی میں پھر ہم کیا جانے کہ نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول امام حسین علیہ السلام کے سامنے اُن کے خاندان کے اوراُن کے دیگر ساتھی ایک ایک کر کے شہید کر دیے جائیں ، علی اکبر کو شہید کر دیا جائے ، امام عالی مقام کا سر مبارک تن سے جدا کر کے نیزے کی نوک پر لٹکایا جائے اور حضرت سکینہ کو صحرائے کربلا میں رُلا دیا جائے تو کیا وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہیں ہوگی؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اِس سے بڑی بھی کوئی اذیت ہو سکتی ہے؟ اِسی بنا پر ﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والے پر لعنت کی ۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہریوں پر ظلم روا رکھنے والے کی عبادتیں بھی قبول نہیں ۔ پس جس شخص نے مدینہ شہر کی بے حرمتی کی اُس کی سزا یہ ہوگی کہ اُس کی ساری عبادتیں ردّ ہو جائیں گی۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا: ’’اے اللہ! جو بھی اہلِ مدینہ پر ظلم کرے یا انہیں ڈرائے تو تو اسے ڈرا۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔ اس سے اللہ تعالیٰ فرائض قبول فرمائے گا نہ نوافل ۔ ‘‘ (طبرانی، المعجم الکبیر،چشتی)

یزید کے لشکر نے مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھے ، تین دن کے لیے اذان اور امامت بند کروا دی،تین دن کے لیے شہرِ نبی کو اس بد بخت لشکر کے لیے حلال کر دیا گیا ، اہلِ مدینہ پر وہ ظلم ڈھائے جنہیں بیان کرنے سے صاحبِ ایمان حیا کرتا ہے۔ ان ارشادات کی روشنی میں یزیدی لشکر اور اُسے بھجنے والے کبارے میں آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں ، کیونکہ نصوصِ قطعیہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم میں کس کس بات پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے والوں پر لعنت کی ہے اور کس کس فعل کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے باعثِ اذیت قرار دیا ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 61 میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔

لہٰذا آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بنا پر اُن نفوسِ قدسیہ یعنی اہل بیتِ اَطہار کی اذیت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت ہے ، ان سے محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے ، ان کی خوشی اور راحت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی اور راحت ہے، انہیں تکلیف اور اذیت دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف اور اذیت دینا ہے ، پس انہیں اذیت دینے والے جنت سے دور ہو گئے اور دوزخ کے حق دار بنے ۔ ان پر لعنت ہوئی کیونکہ یہ نفوسِ قدسیہ خود ساری جنت کے مالک اور وارِث ہیں ۔ اِس کی وضاحت ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک سے ملتی ہے ۔ حضرت مِسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری جان کے دو حصے فاطمہ ہے ۔

’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے حضرت مِسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : میری بیٹی میرے جسم کا دوتہائی حصہ ہے، اُس کی پریشانی مجھے پریشان کرتی ہے اور اُس کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے ۔

اِن تمام احادیث میں ایک ہی نکتہ بیان ہوا ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام ﷲ علیھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کا دہ تہائی حصہ ہیں ۔ جو سیدہ کو اذیت و تکلیف دے وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے ، اور ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو میرے حبیب کو اذیت دے وہ ملعون اور جہنم کا ایندھن ہے ۔ حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ تو میرے جسم کا دو تہائی حصہ ہے ، جس نے اسے ستایا اُس نے مجھے ستایا ۔ (مسند احمد بن حنبل)

اہلِ بیتِ اَطہار کا دشمن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے ۔ جو کوئی بدبخت اِن ہستیوں کے ساتھ جنگ کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ جنگ کریں گے اور جو اِن نفوسِ قدسیہ کے ساتھ صلح کرے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُس سے صلح فرمائیں گے۔ ایک حدیث میں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا : جو ہمارے اہلِ بیت سے بغض رکھے وہ منافق ہے ۔ (مسند احمد بن حنبل)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا ۔ (البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 3/ 1371، الرقم: 3543،چشتی)
ترجمہ : (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں ۔

لفظ ’’ریحان‘‘ کے معانی

لفظ ’’ریحانتان‘‘ کا معنی ہمیشہ ’’دو پھول‘‘ کیا جاتا ہے۔ غریب الحدیث کی کتب میں جب لفظ ’’ریحان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے پانچ معانی ملتے ہیں مگر عام طور پر شارحین حدیث نے اس کے ایک معنی ’’پھول‘‘ پر اکتفا کیا ہے ۔ ان پانچ میں سے ایک معنی ایسا ہے جس نے مجھے ایمانی فرحت اور روحانی لذت دی ہے ۔

’’ریحان‘‘ کا ایک معنی زمین سے اُگنے والی خوشبودار شے ہے ۔ اس سے پھول کا معنی لیا گیا۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی حدیثِ مبارک کا مفہوم واضح ہے۔ آقا علیہ السلام ہمیشہ جب بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اٹھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پکڑ کر سب سے پہلے سونگھتے تھے، پھر چومتے تھے اور چومنے کے بعد ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیتے تھے ۔

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہہ : سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَیْتِکَ أَحَبُّ إِلَیْکَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَکَانَ یَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ ۔ (جامع الترمذی، الرقم :3781)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ j سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے ۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو سونگھتے کیوں تھے؟ ان کو خوشبودار پھول قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جسموں سے وہ خوشبو آتی جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے خوشبودار پھول سے بھی نہیں آتی تھی ۔ لہذا آقا علیہ السلام انہیں سونگھتے تھے ۔

من أحبهما فقد أحبنی ومن أبغضهما فقد ابغضنی و من آذاهما فقد آذانی ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2/288، رقم 7863)
ترجمہ : جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی ۔

کثرت کے ساتھ اس معنی کی احادیث صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ میری راحتِ جان ہیں ۔ جس طرح کوئی اپنے بیٹے، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں سے بے پناہ محبت کرتا ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں تو انہیں دیکھ دیکھ کر جیتا ہوں ، میری زندگی کی راحت ہی یہ ہیں، میری تو خوشی ہی یہ ہیں۔ ہر انسان یہ احساسات رکھتا ہے ۔ یہ چرند، پرند بھی احساسات رکھتے ہیں ۔ پھر آقا علیہ السلام کے اندر رحمت اور محبت کے احساس ساری کائنات سے بڑھ کر ہیں ، اس لئے فرما رہے ہیں کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما میری راحتِ جان ہیں ۔

یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں ۔ خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ . (طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847،چشتی)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے ۔

جب امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آج برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی ۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی؟ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا مولیٰ علی المرتضی بھی شہید ہوئے۔ سب شہادتیں اکبر و اعظم ہیں مگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں تشریف لے گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری شہادت سے ایک رات قبل آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عثمان آج روزہ رکھ لینا اور افطار میرے پاس آ کر کرلینا جو شہید ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں خود پہنچا اور دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر آقا علیہ السلام بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں ۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی اور کو نہیں دیا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے ۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔ وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے : اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لینا ۔

امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں : یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا : اے مروان ! میں نے صادق المصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان ، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہوجائے گی ۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیا ہے ۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہا کہ ان لونڈوں پر خدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے ۔

امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو تباہ کیا تھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا ۔ (فتح الباری شرح بخاری)

محترم قارئینِ کرام : ایک بات ذہن نشین رہے کہ سنیت عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، محبتِ اہلِ بیت اور تعظیمِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا نام ہے ۔ جس نے اہلِ بیت اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی وہی حقیقی اہل سنت ہے ۔ جن لوگوں کے دل اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے خالی تھے اُنہوں نے ہر دور میں محبانِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا ، یہ الزام سراسر فتنہ اور بدبختی ہے ۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر محبتِ اہلِ بیت کے ’’جرم‘‘ میں شیعہ ہونے کا الزام لگایا گیا ۔ اہلِ سنت و جماعت کے بقیہ تین ائمہ - امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ - بھی اِس اِلزام سے نہ محفوظ رہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے وقت کے مجدد اور قطب ہوئے کو تو یہاں تک کہا گیا کہ یہ صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ رافضی بھی ہیں ۔ امام شافعی نے اس کے جواب میں جو شعر پڑھا اس کا مفہوم ہے : محبتِ اہلِ بیت میرا مذہب ہے، اگر اہلِ بیت کی محبت سے بندہ رافضی ہوتا ہے تو دنیا میں مجھ سے بڑا رافضی کوئی نہیں ۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت کو دل میں جاگزیں کرنے سے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق اورمحبت نصیب ہوتی ہے اس محبت کو استقامت سے بڑھاتے جانے کی محنت سے ایمان کو جلا ملتی ہے اسلامی شعائر پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی بلکہ ایمان کو تروتازگی اور بہار نصیب رہتی ہے اور باطنی دنیا سے خزاں ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جاتی ہے ۔ لہذا ہمیں پورا سال بالعموم اور ماۂ محرم میں بالخصوص وقعۂ کربلاء کو زندہ رکھ کر آلِ بیت سے محبت کا ثبوت دینا چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔