Tuesday, 17 September 2019

محبت و مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم

محبت و مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى‌ ۔ (سورہ شوریٰ آیت نمبر 23)
ترجمہ : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ۔


اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ فرما دیں کہ اے لوگو ، میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، (جیسے دوسرے کسی نبی نے تبلیغِ دین پر کوئی معاوضہ نہیں مانگا ۔ اس کے بعد جداگانہ طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفار کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ظلم و ستم کرنے سے باز رکھنے کےلیے فرمایا کہ تمہیں کم از کم میرے ساتھ اپنی قرابَتداری یعنی رشتے داری کا خیال کرنا چاہیے ، یعنی چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور کفارِ مکہ بھی اپنی مختلف شاخوں کے اعتبار سے قریش سے تعلق رکھتے تھے تو انہیں کہا گیا کہ اگر تم ایمان قبول نہیں بھی کرتے تو کم از کم رشتے داری کا لحاظ کرتے ہوئے ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے جو طرح طرح کی گمراہیوں کے باعث اپنے رب سے بہت دور جا چکے ہیں پھر قریب ہو جائیں ۔ کفرو شرک کے اندھیروں سے نکل کر پھر نور ہدایت سے اپنے قلب ونظر کو روشن کر یں۔ اس مقصد کے حصول کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لگن کا یہ عالم تھا کہ دن رات اسی میں مشغول رہتے ۔ ان کو سمجھاتے ، وہ غصہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسکرا دیتے ، وہ گالیاں بکتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعائیں دیتے ، وہ روشن معجزات دیکھ کر اور آیات الٰہی سن کر بھی کفر سے چمٹے رہنے پر اصرار کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شفیق دل پر غم واندوہ کے بادل گھر آتے اور آپ رات بھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں ان کی مغفرت اور ہدایت کے لئے دعائیں مانگتے ۔ اخلاص ومحبت کے یہ بےمثل انداز کفار مکہ نے بھلا کب کہیں دیکھے تھے وہ دل ہی دل میں خیال کرتے کہ اس ساری جدو جہد اور شبانہ روز تک ودو کے پس منظر میں کوئی بڑا مقصد ہے جس کے حصول کے لئے یہ شخص جانگسل محنت اور مشقت برداشت کر رہا ہے اور ہمارے جو روجفا پر اتنے حوصلہ اور حلم کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ یہ دولت جمع کرنا چاہتا ہے یا اقتدار کی ہوس ہے یا ہمارا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔ آخر کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جس کے باعث انہوں نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ اے نادانو ! تم کس ادھیڑ بن میں ہو۔ سن لو میں اپنی ان جانکاہیوں کا ، ان دلسوزیوں کا تم سے کسی قسم کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرنا چاہتا نہ آج نہ کل اور نہ کبھی قیامت تک البتہ میری یہ خواہش ضرور ہے کہ تم نے آپس میں قتل وغارت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک دوسرے کو ایذا پہنچانے میں اپنی قوتیں صرف کر رہے ہو اس سے باز آجاؤ اور آپس میں محبت اور پیار کرو۔ تمہاری باہمی رشتہ داریاں اور قرابتیں ہیں۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹے ، چھوٹا بڑے کی پگڑی اچھالے ، کسی کی جان، کسی کا مال محفوظ نہ ہو۔ مجھے تمہارے یہ انداز پسند نہیں۔ میں تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھو تاکہ تمہاری زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی نمودار ہو جائے ۔

الا حرف استثنا ہے ۔ یہاں مستثنیٰ منقطع ہے یعنی ’’ المودۃ فی القربی ‘‘ جو مستثنیٰ ہے ۔ یہ مستثنیٰ منہ میں داخل نہیں تاکہ آیت کا یہ مفہوم ہو کہ میں تم سے کوئی اجر ، کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، مگر یہ اجر طلب کرتا ہوں کہ تم آپس میں پیار اور محبت کرو۔ تقریبا یہی مفہوم ایک دوسری آیت میں بیان کیا گیا قل لا اسئلکم علیہ اجرا الامن شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلا (الفرقان ) یعنی میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا ۔ میرا یہی اجر ہے کہ تم میں سے کون معرفت الٰہی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے ۔ اس آیت کا بھی یہی مقصد ہے کہ میں تم سے اپنے لیے کوئی اجر طلب نہیں کرتا سوائے اس کے کہ تم آپس میں محبت اور پیار کرنے لگو ۔ مجھے صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی مطلوب ہے ۔ اگر تم سدھر جاؤ اور تمہارے طور اطوار درست ہو جائیں تو یہی میری کاوشوں کا بہترین معاوضہ ہے ۔ اظہار خلوص کےلیے اس سے زیادہ اثر انگیز اسلوب بیان اختیار نہیں کیا جا سکتا ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انبیا علیہم السلام کے یہ اعلانات مذکور ہیں ۔ لا اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی رب العالمین ۔ میں تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتا ۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ جب دیگر انبیاء علیہم السلام اپنی قوموں سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کر رہے ، کسی مالی یا ادبی منفعت کی خواہش نہیں کر رہے ، تو فخر الانبیا ، سید الرسل کے متعلق یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی قسم کی منفعت کی خواہش کی ہو ۔ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت کسی قارون کے بھرے ہوئے خزانے ، ربع مسکون کی فرمانروائی ، ان دعا ہائے نیم شبی ، ان گریہ ہائے سحر گاہی کا صلہ نہیں ہو سکتی جن سے اس رحمت عالمیاں نے بنی نوع انسان کو مشرف فرمایا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مرقع دلبری و زیبائی کی نوک مژگاں پر لرزتا ہوا ایک آنسو سارے عالم سے زیادہ قیمتی ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ان دلسوزیوں ، ان اشکباروں کے معاوضہ کا تصور بھی کرتے تو شان رفیع سے بہت فروتر ہوتا ۔ دشمنوں کو انگشت نمائی کا موقع مل جاتا ۔ یہودی اور عیسائی ہمیں طعنہ دے سکتے کہ ہمارے راہنماؤں نے تو یہ اعلان کیا کہ لا اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی رب العالمین اور تمہارے رسول نے مودۃ قربیٰ کا مطالبہ کر کے اپنی محبت ومشقت کا معاوضہ طلب کیا ۔ (العیاذ باللہ)

ایک اعتراض : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن مجید کو نازل کیا اور لوگوں کو ہدایت کےلیے اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور توحید کے متعلق آیات نازل کیں ، اسی طرح نبوت اور رسالت کے متعلق آیات نازل کیوں اور دیگر عقائد کے متعلق آیات نازل کیں ، قیامت ، حشر و نشر ، حساب و کتاب اور جنت اور دوزخ کے متعلق آیات نازل کیں اور احکام شرعیہ کے متعلق آیات نازل کیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان تمام آیات کی تبلیغ کرنے کا حکم دیا ، ان آیات کی تبلیغ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت سختیاں اور صعوبتیں برداشت کیں، ہوسکتا تھا کہ کوئی بدعقیدہ جاہل یہ گمان کرتا کہ شاید آپ کسی مالی منفعت یا اقتدار کے حصول کےلیے اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں ، اس تہمت اور بدگمانی کا ازالہ کےلیے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی : آپ کہیے کہ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوا قرابت کی محبت کے ۔ اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں بھی تبلیغ رسالت پر ایک نوع کی اجرت کا ذکر ہے اور وہ قرابت کی محبت ہے جب کہ دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے مطلقاً اجرت طلب کرنے کی نفی کی ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا یہ قول ذکر فرمایا ہے ۔
وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العٰلمین ۔ (سورہ الشعراء آیت 109) ۔ میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجر طلب نہیں کرتا میرا اجر تو صرف رب العٰلمین (کے ذمہ کرم) پر ہے ۔ اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے طلب اجر کی نفی کی ۔ (سورہ الشعراء آیت نمبر ١٢٧) ۔ اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے طلب اجر کی نفی کی ۔ (سورہ الشعراء آیت ١٤٥) اور حضرت لوط (علیہ السلام) نے طلب اجر کی نفی کی۔ (الشعراء : ٢٦٤) ۔ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے طلب اجر کی نفی کی ۔ (سورہ الشعراء آیت ١٨٠)
بلکہ قرآن مجید میں خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ آپ طلب اجر کی نفی کریں : قل ما اسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین ۔ (سورہ صفحہ آیت 86) ۔ آپ کہیے کہ میں اس تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔ نیز رسالت کی تبلیغ کرنا آپ پر واجب تھا اور جو چیز آپ پر واجب ہو آپ اس سے کیسے اجر لے سکتے ہیں ، قرآن مجید میں ہے : بلغ ما انزل الیک من ربک ، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ۔ (سورہ المائدہ آیت 67)
آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے جو وحی نازل ہوئی اس کی تبلیغ کیجیے اور اگر آپ نے تبلیغ نہیں کی تو آپ اپنے کارِ رسالت کی تبلیغ نہیں کی ۔
نیز پیغامِ رسالت کو پہنچانے پر اجرت اور معاوضہ کو طلب کرنا آپ کے منصب نبوت میں تہمت کا موجب ہے اور یہ آپ کی شان لائق نہیں ہے ، ان وجوہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تبلیغ رسالت پر اجرت کو طلب کرنا آپ کےلیے جائز نہیں ہے اور الشوریٰ آیت ٢٣ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تبلیغِ رسالت پر اجرت کا سوال کیا ہے ۔

اس اعتراض کے درج ذیل جوابات ہیں : ⬇

اس آیت میں قربیٰ سے مراد رحم کی قرابت ہے کیونکہ مکہ کے تمام قبائل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحم کی قرابت تھی ، اس آیت کا منشاء یہ ہے کہ میں تم سے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ تم قرابت رحم کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور مجھ پر جو تبلیغ رسالت کی ذمہ داری ہے اس سے عہد برآ ہونے میں میری مدد کرو ، حدیث میں ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت : (الشوریٰ : ٢٣) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ تمام قریش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت تھی ، جب قریش نے آپ کی رسالت کی تکذیب کی اور آپ کی اتباع کرنے سے انکار کردیا تو آپ نے فرمایا : اے میری قوم ! جب تم نے میری اتباع کرنے سے انکار کردیا ہے تو تمہارے اندر جو میری قرابت ہے اس کی حفاظت کرو (یعنی اس قرابت کی وجہ سے مجھے اذیت نہ دو اور مجھے نقصان نہ پہنچائو) اور تمہارے علاوہ دوسرے عرب قبائل میری حفاظت کرنے میں اور میری مدد کرنے میں زیادہ راجح نہیں ہیں ۔ (المعجم الکبیر ج ١٢ ص ١٩٧، رقم الحدیث : ١٣٠٢٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت،چشتی)
ایک اور حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے : تم میری قرابت کی وجہ سے صلہ رحم کرو ، یعنی مجھ سے میل جول رکھو اور میری تکذیب نہ کرو ۔ (المعجم الکبیر ج ١٢ ص ٧٢، رقم الحدیث : ١٢٥٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١٣٠٩)
نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : قریش کے ہر قبیلہ میں آپ کی قرابت اور رشتہ داری تھی ، اس لیے آپ کہیے کہ میں تم سے اس کے سوا کوئی اجر طلب نہیں کرتا کہ تم میری حفاظت کرو اور مجھ سے ضرر کو دور کرو کیونکہ میری تم سے قرابت ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ١١ ص ٣٤٥، رقم الحدیث : ١٢٢٣٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٤٧٧)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ان سے اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا ، سعید بن جبیر نے کہا : قربیٰ سے مراد آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم نے جلدی کی ہے ، قریش کے رحم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت تھی ، آپ نے فرمایا : میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت ہے اس کی بناء پر تم میرے ساتھ ملاپ سے رہو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨١٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٥١، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٥٩٩، عالم الکتب، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١١٣٠)

قرآن مجید کی دیگر آیات میں جو تبلیغ رسالت پر اجر لینے کی نفی ہے اس اجر سے مراد معروف اجر ہے ، جیسے مال و دولت ، سونا چاندی اور دیگر قیمتی چیزیں اور جس اجر کو آپ نے طلب فرمایا ہے وہ آپ کی ذات سے محبت کرنا ہے ، اس قرابت کی وجہ سے جو آپ کے قبائل عرب کے درمیان تھی اور ظاہر ہے کہ آپ کی ذات سے محبت کرنا شرعاً مطلوب ہے ، کیونکہ جب قبائل عرب آپ کی ذات سے محبت کریں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے تو اس سے ان کے اسلام قبول کرنے میں آسانی ہوگی اور یہ معروف اجر نہیں ہے اور یہ وہ اجر نہیں ہے جس کو طلب کرنے کی دیگر آیات میں نفی کی گئی ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت آیت نمبر 23 سورہ الشوریٰ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا : علی اور فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم ۔ (المعجم الکبیر ج ١١ ص ٣٥١، رقم الحدیث : ١٢٢٥٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت،چشتی)(جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣٠٦)

حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو چیرا اور روح کو پیدا کیا ، بیشک نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سے یہ عہد کیا ہے کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٣٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٠٢٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٤)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جس کا محبوب ہوں علی اس کے محبوب ہیں ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧١٣، مسند احمد ج ٤ ص ٣٦٨، المستدرک ج ٣ ص ١١٠۔ ١٠٩، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٤٠٨٩)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدید خم کے مقام پر پہنچے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں کہ میں تمام مؤمنوں کی جانوں کی بہ نسبت ان سے زیادہ قریب ہوں ؟ مسلمانوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان پر اس سے زیادہ تصرف کرنے والا ہوں ؟ مسلمانوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : اے اللہ ! میں جس کا محبوب ہوں سو علی اس کے محبوب ہیں، اے اللہ ! اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے اور اس سے عدوات رکھ جو علی سے عداوت رکھے، اس کے بعد حضرت عمر کی حضرت علی سے ملاقات ہوئی تو حضرت عمر نے فرمایا : اے علی ! تم کو مبارک ہو، تم اس حال میں صیح اور شام کرتے ہو کہ تم ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کے محبوب ہوتے ہو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٦، مسند احمد ١ ص ٢١٩،چشتی)(کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٢٣٤٢ )

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا حصہ ہے جس نے اس کو غضب ناک کیا اس نے مجھ کو غضب ناک کیا ، ایک روایت میں ہے : جو چیز اس کو اذیت پہنچائے وہ مجھے اذیت پہنچاتی ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٣٠،صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٩)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کو کسی کام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر آئے، آپ کے پاس کوئی چیز تھی، نہ جانے وہ کیا تھی، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے اپنی چادر کھول کر دکھایا تو آپ کی گود میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما تھے ، آپ نے فرمایا : یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ ! میں ان دنوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اور اس سے محبت کر جو ان دونوں سے محبت رکھے ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٦٩، المصف لابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٩٨۔ ٩٧،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٩، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٥٥١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٦٧)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق فرمایا : جو ان سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا اور جو ان سے صلح رکھے گا میں اس سے صلح رکھوں گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٥، موارد الظلماء رقم الحدیث : ٢٢٤٤، المستدرک ج ٣ ص ١٤٩)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حج میں عرفہ کے دن اپنی اونٹنی قصواء پر بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے، آپ فرما رہے تھے : اے لوگو ! میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، کتاب اللہ اور میری عترت، میرے اہل بیت ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٦،چشتی)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٦٨٠، المسند الجامع رقم الحدیث : ٢٤٤٠، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ٨٣٧)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو کیونکہ وہ اپنی نعمعتوں سے تم کو غذا دیتا ہے اور اللہ سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت رکھو ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٩، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٩، المستدرک ج ٣ ص ١٥٠، الحلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٢١١، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٢٨٨٢)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سنو ! تم میں میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہوگیا ۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٦١٤، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٧،المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٩١،مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٦٨)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کے وجوب کے ثبوت میں فقیر نے احادیثِ صحیحہ بیان کی ہیں اور اس تمہید کے بعد جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت (الشوریٰ : ٢٣) میں اس اجر کو طلب کرنے کا ذکر نہیں ہے جس کی قرآن مجید کی دوسری آیت میں نفی فرمائی ہے ، کیونکہ اس اجر سے مراد معروف اجر ہے یعنی مال و دولت وغیرہ اور اس آیت میں جس اجر کے سوال کرنے کا ذکر ہے اس سے مراد ہے : آپ کے قرابت داروں سے محبت کرنا، ان کی تعظیم کرنا اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا، باقی رہا یہ کہ اپنے اقارب کے ساتھ محبت کرنے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین کرنا اقرباء پروری ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لائق نہیں ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازخود یہ نہیں فرمایا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے سو یہ آپ پر اعتراض نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف اور آپ کی فضیلت ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ عزت اور خصوصیت عطا کی کہ بعد کا کوئی مسلمان کتنی ہی عبادت کیوں نہ کرلے وہ اس صحابی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ نہیں پاسکتا جس نے ایمان کے ساتھ آپ کو دیکھا ہو اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا ہو اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو یہ عزت اور خصوصیت دی کہ کوئی خاتون خواہ کتنی عابدہ زاہدہ ہو وہ آپ کی ازواج کے مرتبہ کو نہیں پاسکتی ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کو یہ عزت اور خصوصیت عطا کی ہے کہ ان کی محبت کو امت پر واجب کردیا ، ان پر صدقہ واجبہ کو حرام کردیا اور ہر نماز میں ان صلوٰۃ بھیجنے اور ان کے لیے برکت کی دعا کرنے کو مقرر کردیا ۔

اس اعتراض کا یہ جواب کہ قربیٰ سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہے : ⬇

اس آیت میں فرمایا ہے : میں تم سے اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کرتا کہ تم قربیٰ سے محبت رکھو “ اس آیت میں قربیٰ سے مراد اللہ کا قرب ہے اور اس کی تائید اس حدیث میں ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے جو تمہارے لیے دلائل اور ہدایت کی تبلیغ کی ہے، میں اس پر تم سے اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کرتا کہ تم اللہ سے محبت رکھو اور اس کی اطاعت کرکے اس کا قرب حاصل کرو ۔ (مسند احمد ج ١ ص ٢٦٨ طبع قیدم، مسند احمد ج ٤ ص ٢٣٨، مؤسسۃ الرسالۃ، ١٤٢٠ ھ، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١١٤٤، المستدرک ج ٢ ص ٤٤٤۔ ٤٤٣، حاکم نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، جامع المسانیدہ والسنن ابن عباس رقم الحدیث : ٣٢٣٨)
الشوریٰ : ٢٣ کی اس تفسیر پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، نہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ دیگر آیات میں تبلیغ رسالت پر اجر طلب کرنے کی نفی ہے اور اس آیت میں اثبات ہے کیونکہ اللہ کے قرب کو امت سے طلب کرنا وہ اجر نہیں ہے جس کے طلب کی نفی کی گئی ہے اور نہ اس پر اقرباء پروری کا اعتراض ہوتا ہے اور اس آیت کی یہ سب سے عمدہ تفسیر ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ میں نے جو تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا اور تبلیغ کی مشقت اٹھائی ہے اس پر میں تم سے اس کے سوا کوئی اجر طلب نہیں کرتا کہ تم اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت سے محبت رکھو اور ہمیشہ اس کے احکام پر عمل کرتے رہو اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان کے قریب نہ جائو اور جو شخص اللہ کی اطاعت کرکے اس کا قرب حاصل کرے اس سے محبت رکھو، انسان اس سے محبت کرتا ہے جو اس کے محبوب سے محبت رکھے کیونکہ دونوں کا محبوب واحد ہوتا ہے، سو جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہوگا اور اس آیت کے عموم میں داخل ہوگا کہ میں تبلیغ رسالت کی مشقت پر صرف اس اجر کا طالب ہوں کہ تم اللہ کا قرب حاصل کرنے میں محبت رکھو ۔

محبت اہل بیت اور تعظیم صحابہ رضی اللہ عنہم کا عقیدہ صرف اہل سنت و جماعت کی خصوصیت ہے : ⬇

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے، سب سے زیادہ اللہ کی اطاعت کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حصول قرب میں محبت کرنے والے تھے اور قربیٰ کی یہ تیسری تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ وابستہ رہا جائے اور قربیٰ کی جو دوسری تفسیر ہم نے ذکر کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا جائے ، خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم دونوں کی تعظیم و تکریم کی جائے ، دونوں سے محبت رکھی جائے اور دونوں سے وابستہ رہا جائے اور یہ صرف اہل سنت و جماعت کی خصوصیت ہے کہ وہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہ دونوں سے عقیدت رکھتے ہیں ، اس کے برخلاف شیعہ رافضی اور نیم رافضی اہل بیت رضی اللہ عنہم سے تو محبت رکھتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا کرتے ہیں اور ان سے بغض رکھتے ہیں اور ناصبی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی مذمت کرتے ہیں اور خارجی صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں کی مذمت کرتے ہیں ۔

ہمارے ایک کنارے پر دنیا ہے اور دوسرے کنارے پر آخرت ہے اور درمیان میں تاریک سمندر ہے اور اندھیری رات میں جب انسان نے سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پہنچنا ہو تو اس کے پاس صحیح وسالم کشتی بھی ہونی چاہیے اور اس کی نظر ستاروں پر ہونی چاہیے تاکہ اندھیرے میں اس کو ستاروں کی رہنمائی حاصل ہو ، دونوں میں سے ایک چیز بھی حاصل نہ ہو تو وہ سلامتی سے دوسرے کنارے تک نہیں پہنچ سکتا ، اس وقت ہم احکام شرعیہ کے سمندر میں سفر کررہے ہیں اور شیطان اور نفس امارہ کی موجیں ہم سے ٹکرارہی ہیں اور ان کی طوفانی لہروں کے تھپیڑے ہمیں سلامتی کے ساحل سے دور رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ، ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے اخروی سفر کی سہولت اور آسانی کےلیے ہمیں اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت اور وابستگی کی کشتی فراہم کی اور معصیت کے اندھیروں میں رہ نمائی کےلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستارے قرار دے کر ان کی ہدایت کی روشنی فراہم کی ۔

اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کو کشتی اس حدیث میں قرار دیا ہے : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سنو ! تم میں میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہوگیا ۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٦١٤، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٧،چشتی)(المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٩١، جامع الاحادیث والسنن رقم الحدیث : ٣٢٣٨)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستارے قرار دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے : حضرت ابوبردہ اپنے والد رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی ، پھر ہم نے کہا : ہم یہاں بیٹھے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ لیں ، ہم بیٹھے رہے حتیٰ کہ آپ تشریف لے آئے ، آپ نے فرمایا : تم جب سے یہیں ہو ؟ ہم نے کہا : یارسول اللہ ! ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہم نے کہا : ہم یہاں ٹھہرجاتے ہیں حتیٰ کہ ہم آپ کے ساتھ عشاء کی نماز بھی پڑھ لیں، آپ نے فرمایا : تم نے اچھا کیا اور ٹھیک کیا، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ اکثر آسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے، پس آپ نے فرمایا : ستارے آسمان کی امان ہیں اور جب ستارے نہیں ہوں گے تو پھر آسمان پھٹ جائے گا اور میں اپنے اصحاب کےلیے امان ہوں اور جب میں چلا جائوں گا تو میرے اصحاب فتنوں میں مبتلا ہوجائیں گے اور میرے اصحاب میری امت کے لیے امان ہیں، جب میرے اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت فتنوں اور بدعات میں مبتلا ہوجائے گی ۔ (صحیح مسلم کتاب السنن، رقم اتحدیث : ٢٠٧، رقم الحدیث بلاتکرار : ٢٥٣١، رقم المسلسل : ٦٣٤٨ )
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ منزلہ ستارے اور امت کےلیے وجہ امان قرار دیا ہے ۔ اس کی تائید میں ایک اور حدیث یہ ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں میرے اصحاب کی مثال اس طرح ہے جیسے ستاروں کی مثال ہے ، لوگ ان سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور جب وہ غائب ہوجائے تہیں تو لوگ حیران ہوجاتے ہیں ۔ (المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٤١٩٣، اتحاف السادۃ اطہرۃ رقم الحدیث : ٧٨٦٢، حافظ ابن حجر نے کہا : اس کی سند ضعیف ہے، مگر ہم کو مضر نہیں کیونکہ فقیر نے اس کو تائید کے طور پر ذکر کیا ہے)
امام فخرالدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ نظام الدین نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ اور علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٢ ھ علیہم الرحمہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستارے قرار دینے کے متعلق یہ حدیث ذکر کی ہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ، تم نے ان میں سے جس کی بھی اقتداء کی تم ہدایت پاجاٶ گے ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٩٦، غرائب القرآن ج ٦ ص ٧٤، روح المعانی جز ٢٥ ص ٥٠،چشتی)


سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 23 سے تھوڑا پہلے فرمایا کہ من کان یرید حرث الدنیا نوتہ منہا : جو شخص دنیا کی کھیتی کا خواہاں ہوگا ہم اسے اسی میں سے دیں گے ۔ اس سیاق و سباق کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقیر کے نزدیک تو آیت کی یہی تفسیر زیادہ پسندیدہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جملہ قرابت داروں خاندان بنو ہاشم خصوصا اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت ، ان کا ادب و احترام عین ایمان بلکہ جانِ ایمان ہے ۔ جس کے دل میں اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کےلیے محبت نہیں وہ یوں سمجھے کہ اس کی شمع ایمان بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ۔ جتنی کسی کی قرابت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ ہوگی اتنی ہی اس کی محبت واحترام زیادہ مطلوب ہو گا ۔ ایک نہیں صدہا ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جن میں اہل بیت پاک سے محبت کرنے اور ان کا ادب ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بےشک اہل بیت پاک کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اجر نہیں بلکہ یہ شجرِ ایمان کا ثمر ہے ۔ یہ اس گل کی مہک ہے، یہ اس خورشید کی چمک ہے ۔ جہاں ایمان ہوگا وہاں حبِ آل مصطفی ضرور ہوگی ۔ یہ گرہ اب تک نہ کھلی کہ بعض لوگوں کے نزدیک حب آل مصطفی علیہ اطیب التحیۃ والثنا کےلیے بغض اصحاب حبیب کبریا کی شرط کہاں سے ماخوذ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اہل بیت کی محبت کا اگر حکم دیا ہے تو اپنے صحابہ کے احترام واکرام کی بھی تاکید فرمائی ہے ۔ ایک حدیث میں اہل بیت کے بارے میں فرمایا: مثل اھل بیتی کمثل سفینۃ نوح من رکب فیھا نجا ومن تخلف عنھا غرق ۔ یعنی میرے اہل بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے۔ جو اس میں سوار ہوا، نجات پا گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ڈوب گیا ۔ تو دوسرا ارشاد گرامی یہ بھی ہے اصحابی کالنجوم میرے صحابہ درخشاں ستاروں کی طرح ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ یہ شرف اہل سنت کو ہی حاصل ہے کہ ہم اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کی کشتی میں سوار ہیں اور ہماری نگاہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جگمگاتی ہوئی روشنی پر مرکوز ہیں ۔ ہم زندگی کے سمندر کو آزمائشوں اور تکالیف کی کالی رات میں عبور کر رہے ہیں ۔ جو اس کشتی میں سوار نہ ہوا وہ غرق ہو گیا اور جس نے ان روشن ستاروں سے ہدایت حاصل نہ کی وہ راہ راست سے بھٹک گیا ۔


سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی میں حدیث شریف ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تم (اہل بیت) سے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر محبت نہ کرے۔ سنن ابن ما جہ کی روایت میںیہ الفاظ ہیں: جب تک کہ وہ ان (اہل بیت) سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے ۔ (جامع الترمذی ،حدیث نمبر : 4125۔ سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر:145،چشتی)


حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے‘ جس میں ہدایت اور نور ہے، پس تم اللہ کی کتاب کو تھام لو، اور مضبوطی سے پکڑے رہو! اس کے بعد قرآن کریم کے بارے میں تلقین فرمائی اوراس کی طرف ترغیب دلائی پھر ارشادفرمایا : (دوسری نعمت) اہل بیت کرام ہے۔ میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر6378)


یہ وہ باعظمت گھرانہ ہے کہ جن پر افضل العبادات ’نماز‘ میں درود پڑھا جاتاہے،نماز میں درود ابراہیمی مقرر کیا گیاہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی آل پر درود پڑھا جاتاہے ۔ سنن دارقطنی میں حدیث شریف ہے:جو شخص ایسی نماز پڑھتاہے کہ جس میں مجھ پر اور میری آل پر درود نہ پڑھے اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی ۔ (سنن الدارقطنی‘حدیث نمبر1359،چشتی)


صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا آپسی تعلق و محبت


حضرت امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر،ج 1،ص256)


حضرت امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ 94)


خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی علیہم الرّحمہ تفسیرِ خزائنُ العرفان میں لکھتے ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، صفحہ 894،چشتی)


صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے ! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں :


صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء،ج 1،ص244)(تاریخ ابنِ عساکر،ج 26،ص372)


حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360)


ایک موقع پر حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712،چشتی)


ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری،ج2 حدیث: 3713)


حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)


حضرت فارُوقِ اعظم کی حضرت امامِ حُسین سے سے محبت رضی اللہ عنہما


حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک دن حضرت عمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے گھر گیا ، مگر آپ رضی اللہ عنہ حضرت امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے اِنتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ واپس لوٹنے لگے تو ان کے ساتھ ہی میں بھی واپس لوٹ آیا ۔ بعد میں حضرت عمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے میری مُلاقات ہوئی تو میں نے عرض کی : اے اَمِیْرُالْمُومنین ! میں آپ کے پاس آیا تھا ، مگر آپ حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مَصْروفِ گفتگو تھے ۔ آپ کے بیٹے عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے (میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے ، مجھے کیسے ہوسکتی ہے) لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا ۔ تو فارُوْقِ اَعْظَم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ میری اَوْلاد سے زِیادہ ، آپ رضی اللہ عنہ اس بات کے حق دار ہیں کہ آپ اَندر آجائیں اور ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بعد کس نے اُگائے ہیں ، تم سادات ِکرام رضی اللہ عنہم نے ہی تو اُگائے ہیں ۔ (تاریخِ ابن عساکر جلد ۱۴ صفحہ ۱۷۵،چشتی)


ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789،چشتی)


ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہم کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)


یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا ، دونوں کےلیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج3،ص259)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ 59)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ج 10 ص 205)(مؤطا امام مالک،ج2،ص259)


ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب،ج 3،ص209،چشتی)


یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)


ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6 ص 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب،ص77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)


حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92،چشتی)


نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)


حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632)


ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص407)


عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179،چشتی)


محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔


اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے درمیان باہمی رشتہ داریاں ، تعلق ، محبت ، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں ۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرام اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہم کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا ۔مضمون کے اس حصّے میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے ۔


اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کا حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا


یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار ، پسندیدہ ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ عقیدت ، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرام  رضی اللہ عنہم کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا ، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا ۔


ابو الائمہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل


 اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم میں سے ابو الائمہ سیدنا مولا حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ نے اسی محبت و مودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی اولاد ، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے : ’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ ۔‘‘(الارشاد، ص:۱۸۶،چشتی)


یعنی ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی معیت میں شہید کیے گئے ۔‘‘


مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے : وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔ (تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳)


یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی ، ان میں حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ عنہما  کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں ۔‘‘


شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے : ’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود ۔‘‘ (مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت)


یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲) میں اسی طرح لکھا ہے ۔


کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا ؟


یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے ، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے ؟ کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں ؟


حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد کا طرزِ عمل


خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک محدود نہیں تھا ، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر رکھا ۔


حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  کے صاحبزادے کا اسم گرامی


حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے بڑے صاحب زادے ، نواسۂ رسول حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے : ’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ  وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ ۔ (شیعہ کتب تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸،چشتی)(منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴)


یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے ۔‘‘


اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ (مقاتل الطالبیین، ص:۸۷) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا ۔


حضرت امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی


حضرت امامِ حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (شیعہ کتاب التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳،چشتی)


یعنی ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے ۔‘‘


امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت


’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔‘‘ (شیعہ کتاب کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴)


حضرت امامِ حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے صاحبزادے کا نام


حضرت اماِ حسن بن امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہم نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، چنانچہ ’’مقاتل الطالبیین‘‘ (مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ : ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے ۔‘‘


حضرت امام موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہما جن کا لقب کاظم ہے ، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷)


اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ( حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ : ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا ۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ علی بن موسی الرضا ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔ (مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲)


حضرت امام موسیٰ کاظم  رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام


یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر عائشہ رکھا تھا ، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفر کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ : ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں ۔‘‘ (شیعہ کتاب الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲،چشتی)


حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کا نام


حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰)


حضرت امام علی بن محمد الہادی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے : ’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ ۔ ‘‘ (کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳)


یعنی ’’ابو الحسن رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے ، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی ۔‘‘


اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ۔‘‘ (شیعہ کتاب مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳،چشتی)


آلِ بیت رضی اللہ عنہم کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام و مودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔


قرونِ ثلاثہ کی تاریخ فرقہ باطلہ کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی ، لوگوں کو اصل سے گمراہ کرنے کےلیے بے شمار روایات گھڑی گئیں ، صحیح روایات میں تحریف کی گئی ۔ تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو ئے ۔ اصحاب و اہل بیت رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن و حدیث کی گواہی کے برعکس ایک غلط تاثر سامنے آیا ۔


قرآن و حدیث تو ان کی عدالت ، امانت ، دیانت ، آپس کی محبت پر شاہد ہیں ، اگر تاریخ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تاریخ سے بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور اُن کی صحیح روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ رافضی و ان کے ہمنوا نیم تفضیلی بغضیے رافضی حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ۔ تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ :


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بیاہ دی تھی ۔ {بحوالہ شیعہ کتاب : الکافی ، ج:5 ، ص:346}


حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے ۔


امیرالمومنین حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کے ناموں پر رکھے ۔ {معرفة الصحابة ، ج:1 ، ص:309}


حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا ۔ {سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279}


حضرت امامِ جعفر صادق بن محمد رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ جنا ہے ۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہم کی دختر تھیں) ۔ {سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255،چشتی}


اس طرح تاریخ سے کئی ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن کی آیت ‘رحماء بینھم ‘ کی مصداق ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت و خلافت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح فرمائی تھی ، ان کے خلاف بغاوت نہیں کی ، اپنے دور میں ان کے کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا ، ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بڑھائیں ۔


تاریخ کا مطالعہ کریں تو شروع سے اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور دشمنی ایک گروہ کا خاصہ بنی ۔ اس کے ساتھ ایک اور گروہ بھی وجودمیں آیا جو اس کے الٹ تھا یہ آلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا تھا اور ہے ۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں ۔ پہلا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کرام کے فضائل و مناقب انہیں نہیں دینا چاہتا ، یہ گروہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کا منکر ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے ۔ یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے ۔ اور اہل بیتِ اطہات رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ۔


اہل بیتِ اطہار خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی گروہ میں شامل ہیں اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے ۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا ۔ آخر میں اہلِ تشیع اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم رافضی بغضیے حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام  رضی اللہ عنہم کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے ؟


حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 256)

حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94)

حضرت صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب رضی اللہ عنہم کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ مصارف بہت ہیں اور (بظاہر) مال بھی کچھ نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق اور احسانات یاد کرکے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ملی ہم نے گمراہی سے نجات پائی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لئے ہم خدام آستانہ پہ مال آپ کی خدمت نذر کرنے کے لئے لائے ہیں ۔ امید ہے آپ قبول فرماکر ہماری عزت افزائی فرمائیں گے ۔ اس پر آیت مبارکہ نازل ہوئی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اموال واپس فرمادیئے ۔ (تفسی خزائنُ العرفان سورہ الشوریٰ تحت الآیۃ : 23 ، صفحہ نمبر 894)

اہل بیت کا معنی و مفہوم

لفظ اہل کا معنی ہے والا اور لفظ بیت کا مطلب ہے گھر۔ یعنی اس سے مراد ہے گھر والا یا گھر والے۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو اہل خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے ۔

حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں : لما نزلت هذه الآية قيل يارسول الله من قرابتک هولاء الذين وجبت علينا مودتهم فقال: علی وفاطمة وابناهما ۔
ترجمہ : جب یہ آیت (قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى) نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہ مصطفوی  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے وہ کون رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کردی گئی ہے تو امام الانبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند (امام حسن و امام حسین) رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون . صفحہ نمبر 166،چشتی)

اسی آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ مزید رقم طراز ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ⏬

من مات علی حب آل محمد مات شهيدا ۔
ترجمہ :جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس نے شہادت کی موت پائی ۔

الا ومن مات علی حب آل محمد مات مغفورا له.
ترجمہ : آگاہ ہو جاؤ ! جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ ایسا ہے کہ اس کے گناہ بخش دیئے گئے ۔

الا ومن مات علی حب آل محمد مات تائبا ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ گناہوں سے تائب ہوکر مرا ۔

الا ومن مات علی حب آل محمد مات مومنا مستکمل الايمان ۔
ترجمہ : خبردار ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ مکمل ایمان کے ساتھ فوت ہوا ۔

الا ومن مات علی حب آل محمد بشره ملک الموت بالجنة ثم منکرو نکير ۔
ترجمہ : آگاہ ہو جاؤ ، جو اہل بیت کی محبت میں مرا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام (موت کے فرشتے) اور منکر نکیر جنت کی بشارت دیں گے ۔

الا ومن مات علی حب آل محمد يزف الی الجنة کما يزف العروس الی بيت زوجها ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کو ایسی عزت کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا جیسے دلہن کو اس کا شوہر گھر لے جاتا ہے ۔

الا ومن مات علی حب آل محمد فتح له فی قبره بابان الی الجنة.
ترجمہ : خبردار ہو جاؤ ۔ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دیے جائیں گے ۔ (تفسير کبير الجزء السابع والعشرون صفحہ 166-165،چشتی)(تفسير کشاف جلد 3 صفحہ 467)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت : ⏬

خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا : والذی نفسی بيده لقرابه رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم احب الی ان اصل من قرابتی ۔
ترجمہ : خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مجھ کو اپنے اقرباء سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء محبوب تر ہیں ۔ (بخاری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3712،چشتی)(الشفاء بتعريف حقوق المصطفی صفحہ 38)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اہل بیت سے محبت : ⏬

خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی اپنی اولاد سے زیادہ اہل بیت اطہار سے محبت فرمایا کرتے تھے اور ہر موقع پر ان کو فوقیت دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا ۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو ہزار ہزار درہم دیئے اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف پانچ سو درہم دیئے تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یا امیرالمومنین! میں حضور سید دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں جوان تھا اور آپ کے حضور جہاد کیا کرتا تھا ۔ اس وقت حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو ہزار ہزار درہم دیئے اور مجھے صرف پانچ سو درہم دیئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : بیٹا! پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہے پھر ہزار درہم کا مطالبہ کرنا۔ ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ماں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نانا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے ۔ (تاريخ کربلا، محمد امين القادری صفحہ نمبر 71)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت : ⏬

حضرت عبد اللہ بن حسین رضی اللہ عنہما کسی کام کی غرض سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا : اگر آئندہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو کسی کو میرے پاس بھیج دیا کریں یا خط لکھ کر مجھے بلا لیا کریں ۔ آپ کے آنے سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے ۔ (الشفاء قاضی عياض الاندلسی صفحہ 39)

صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء جلد نمبر 1صفحہ نمبر 244)(تاریخ ابنِ عساکر جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 372)

حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔ (معجمِ کبیرجلد نمبر 10 صفحہ نمبر 285  حدیث نمبر10675)

حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت سیّدُنا عمر فاروق اور حضرت سیّدُنا عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 360)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی جلد 5 صفح 48 حدیث : 8161)

ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک جلد 4 صفحہ 139 حدیث : 4789،چشتی)

ایک موقع پر حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے، پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔ (ریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 341)

حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کے لئے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 259)

حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے محبت : ⏬

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 59)

آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 42 صفحہ 415)

آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی جلد 10 صفحہ 205،چشتی)(مؤطا امام مالک جلد 2 صفحہ 259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی : اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 209)

یوں ہی ایک بار حضرت امیرمُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید جلد 5 صفحہ 344)

آپ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 461)

ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179)

حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 309)(طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ 409،چشتی)(معجم الصحابہ جلد 4 صفحہ 370)(کشف المحجوب صفحہ 77)(مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ 92)

نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء، صفحہ نمبر 135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ (مسند امام احمد جلد 3 صفحہ 632)

ابو مہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 407،چشتی)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا : اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 179)

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جتنے آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم حیات تھے ، آپ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد بنے۔ خود کو حنفی کہلانے والے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت کو دیکھیں کہ حنفیت میں کتنی مؤدتِ اہل بیت موجود ہے ۔ امام ابن ابی حاتم ، امام مزی (تہـذیب الکمال) ، امام ذہبی ، علامہ عسقلانی ، امام سیوطی اور دیگر آئمہ علیہم الرحمہ نے بیان کیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب پر سب سے عظیم کتاب ’’مناقب امام ابی حنیفہ‘‘ (امام موفق بن احمد المکی) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک روایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا : فَاِنَّ لَکَ عِنْدِی حُرْمَةً کَحُرْمَةِ جَدِّکَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِيْ حَيَاتِهِ عَلٰی اَصْحَابِهِ ۔
ترجمہ : آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم و تکریم واجب تھی ۔
یعنی جو تعظیم و تکریم صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیا کرتے تھے ، میں اسی طرح وہ تعظیم آپ کی کرتا ہوں چونکہ آپ کی حرمت و تعظیم اور محبت اور مؤدت میں مجھے حرمت و تعظیم اور مؤدت و محبتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آتی ہے ۔ (المناقب للموفق المکی صفحہ 168،چشتی)

حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو امام محمد جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔ امام ابن المکی ’’مناقب ابوحنیفہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے اور سیدنا امام ابوحنیفہ کو آپ کی آمد کا پتہ چلا تو آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لے کر سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں زیارت و علمی استفادہ کےلیے حاضر ہوئے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی مجلس میں ادب و احترام سے پاؤں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ کسی کا خوف ، ہیبت اور کمال درجے کا ادب و احترام طاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ آپ کے شاگردوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو سارے اسی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنے بیٹھنے کا طریقِ نشست بدل لیا ہے اور اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں جن کی تم سب اتنی تعظیم و توقیر کررہے ہو کہ جس طرح انہیں میرے سامنے بیٹھتے ہوئے دیکھا تم ساروں نے اپنی ہئیت اور طریقہ بدل لیا ؟ انہوں نے کہا : یہ ’’ہمارے استاد ابوحنیفہ ہیں ۔ یہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ساتھ پہلی ملاقات تھی ۔ بعد ازاں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے علمی و فکری استفادہ کیا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام حسن بن زیاد لولؤی روایت کرتے ہیں : سَمِعْتُ اَبَا حَنِيْفَهَ وَسُئِلَ مَنْ اَفْقَهَ مَنْ رَايْتَ ؟
ترجمہ : امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا ؟ آپ نے جواب دیا : مَارَاَيْتُ اَفْقَهَ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمّد الصَّادِق .
ترجمہ : میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد صادق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا ۔

علاوہ ازیں سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو درج ذیل آئمہ اہل بیت اطہار کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا : ⬇

امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)
امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)
امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ
حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے پوتے)
امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے پوتے) ۔ (رضی اللہ عنہم)

الغرض امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل بیت اطہار کے نو اِمام حیات تھے اور آپ نے ہر ایک کے پاس جاکر زانوئے تلمذ طے کیا۔ آئمہ اطہار اہل بیت میں سے جو امام بھی بنو امیہ یا بنو عباس کی ظالمانہ حکومت یا کسی حکمران کے خلاف خرو ج کرتے، آپ خفیہ طور پر اپنے تلامذہ کے ذریعے بارہ/ بارہ ہزار درہم تک بطور نذرانہ آئمہ اطہار اہل بیت رضی اللہ عنہم کی خدمت میں بھیجتے ۔ آپ نے چیف جسٹس بننے کی حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی پیشکش کو قبول نہ کیا، اس کا بہانہ بناکر آپ کو قید میں ڈال دیا گیا حتی کہ آپ کا جنازہ بھی قید خانے سے نکلا۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے چیف جسٹس بننا قبول نہیں کیا تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ عمر بھر قید کی سزا دے دی جائے اور جنازہ بھی قید خانے سے نکلے ؟ دراصل یہ حکمرانوں کا بہانہ تھا کہ ہمارا حکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ سبب یہ تھا کہ حکمران جانتے تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ گھر بیٹھ کر اہل بیت کے ہر شہزادے کی خدمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ محبت و مؤدت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذا ان کو محبت اہل بیت کی سزا دی جائے۔ پس آپ نے محبت اہل بیت میں شہادت پائی ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو اہل بیت اطہار سے شدید محبت و مؤدت تھی ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ جیسی ہستیوں کے پاس اگر کوئی مسئلہ پوچھنے جاتا تو فرماتے : اِذْهَبْ اِلٰی مَالِک عِنْدَهُ عِلْمُنَا .
ترجمہ : مالک کے پاس چلے جاؤ ، ہم اہل بیت کا علم اس کے پاس ہے ۔
آپ کل آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے شاگرد تھے اور ان کی محبت و مودت میں فنا تھے ۔ ایک طلاق کے مسئلے کو بہانہ بناکر بنو عباس کے حکمرانوں نے ان کو محبت و مودتِ اہل بیت کی سزا دی۔ یہاں تک کہ ان کے سر اور داڑھی کو مونڈھ دیا اور سواری پر بٹھا کر مدینے کی گلیوں میں گھمایا اور حکم دیا کہ سب کو بتاؤ کہ میں امام مالک ہوں ۔ آپ کہتے جاتے : جو مجھے پہچانتا ہے پہچان لے کہ میں کون ہوں اور جو مجھے اس حال میں دیکھ کر نہیں پہچان رہا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ اس واقعہ کے بعد آپ 25 سال تک گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور باہر نہیں نکلے ۔ یہ دور بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کا تھا کہ جہاں آئمہ اہلبیت اطہار کا نام نہیں لیا جاسکتا تھا ۔ بنو عباس نے اہل بیت کے نام پر حکومت پر قبضہ کرلیا اور پھر چن چن کے ایک ایک اہل بیت کے امام اور اہل بیت کے محب کو شہید کیا ۔ بنو عباس کا تعلق چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ تھا لہٰذا اس تعلق کی وجہ سے یہ آئمہ کرام ان سے بھی محبت کرتے ۔ ان کے ایمان اور محبت و مودت کا عالم یہ تھا کہ بنو عباس اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے مگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ اُن کو حاصل نسبت کی وجہ سے معاف کر دیتے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو عباسی خلیفہ جعفر بن سلیمان عباسی کے حکم پر جب کوڑے مارے جاتے تو آپ بے ہوش ہوجاتے، جب ہوش آتا تو کہتے : اَعُوْذُ بِاللّٰهِ وَاللّٰه مَاارْتَفَعَ مِنْهَا سَوْطٌ عَنْ جِسْمِيْ اِلَّا وَاَنَا اجعله فِيْ حِلٍّ من ذٰالِکَ الْوَقْت لقرابته من رسول الله ۔
ترجمہ : لوگو گواہ ہوجاؤ! باری تعالیٰ میں نے کوڑے مارنے اور مروانے والے کو معاف کردیا۔ جوں ہی ہوش آتا؟ پہلا جملہ یہی بولتے کہ میں نے معاف کردیا، پھر کوڑے لگتے، پھر کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہوجاتے۔ مگر ہوش میں آتے ہی انہیں معاف کر دیتے ۔

ذرا سوچیے ! ان آئمہ کرام علیہم الرحمہ کے ہاں مودت ، محبت ، نسبت اور حرمتِ اہل بیت رضی اللہ عنہم کا کیا عالم تھا ۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اتنا بڑا ظلم آپ کی ذات کے ساتھ ہوا مگر آپ جوں ہی ہوش میں آتے تو کہتے کہ معاف کردیا ، ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : مجھے لگ رہا تھا کہ شاید کوڑے کھاتے کھاتے میں مرجاؤں گا ۔ ساتھ ہی ساتھ معاف اس لیے کرتا جارہا ہوں کہ بے شک مجھ پر ظلم ہورہا ہے مگر یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کے خاندان میں سے ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میری وجہ سے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کے خاندان کا کوئی فرد دوزخ میں جائے ۔ بے شک اس نے ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو مگر میں اس کا سبب نہ بنوں ۔ اس لئے ہوش میں آتے ہی ساتھ ہی ساتھ معاف کرتا جاتا ہوں ۔ اس قدر ظلم و ستم کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خانوادے کے ساتھ حیاء کا تعلق برقرار رکھا۔ یہ عقیدہ اہل سنت و جماعت ہے ۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم : ⬇

حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی اہل بیت سے بے پناہ عقیدت ومحبت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا : جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہلاکت اور جہالت کے سمندر میں غرق ہیں تو میں اللہ کا نام لے کر نجات کے سفینے میں سوار ہو گیا اور وہ نجات کا سفینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہیں ۔ (الصواعق المحرقه احمد بن حجرالهيتمی صفحہ 54)

مزید فرماتے ہیں : ⬇

يَا آلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِّنَ اللّٰهِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَهُ
ترجمہ : اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کردی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے ۔

يَکْفِيْکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْفَخْرِاَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ لَا صَلاَة لَهُ
ترجمہ : اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان اور تمہاری مکانت کی بلندی کے لئے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔

دوسرے مقام پر فرمایا

اِنْ کَاْن رَفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْيَشْهَدِ الثَّقَلاَن اَنِّيْ رَافِضٌ
ترجمہ : اگر آل محمد سے محبت کرنے کا نام رافضی/ شیعہ ہوجانا ہے تو سارا جہان جان لے کہ میں شیعہ ہوں ۔ (دیوان امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ)(تفسير کبير الجزء السابع والعشرون صفحہ 166)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم

حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم کرتے تھے ۔ جب کوئی اولاد اہل بیت سے ان کے پاس آتا تو اپنی جگہ سے اٹھ جاتے اور انہیں مقدم فرمایا کرتے اور خود ان کے پیچھے بیٹھتے تھے ۔ (تاريخ کربلا محمد امين القادری صفحہ 73)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آپ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں ؟ انہوں نے جو فتویٰ دیا آفاقِ عالم میں آج تک اس کی آواز گونجتی ہے ، فرمایا : میرے نزدیک یزید کافر ہے ۔ آپ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اس کو روایت کیا اور کثیر کتب میں آج تک بلااختلاف امام احمد بن حنبل کی تکفیر کا فتویٰ یزید پر آج تک قائم ہے۔ آپ کی مودت اور محبت بھی اہل بیت کے ساتھ لاجواب تھی ۔ (ماخوذ سوانح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حضرت مجدد الف ثانی شیح احمدفاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا جب اخیر وقت آیا تو امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے حالت دریافت کی ، والد محترم نے فرمایا : میں اپنے دل کو اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کے سمندر میں موجزن پارہا ہوں ۔ اورآپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ حسنِ خاتمہ کے لئے اہل بیت کرام کی محبت کو بڑا دخل ہے ۔ (مجدد الف ثانی عقائد و نظریات)

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلبیت رضی اللہ عنہم

امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے : مدینۃُ المرشد بریلی شریف کے کسی محلہ میں میرے آقا اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مدعو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کےلیے پالکی کا اِہتمام کیا ۔ چُنانچِہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی : پالکی روک دو ۔ پالکی رُک گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا : سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے ؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے ۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور ! مَیں سیِّد ہوں ۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجیے ، بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے ، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی ، اگر بروزِقیامت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لیے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی۔کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں ۔ ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدور شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیِٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا صفحہ ٤١٥،چشتی)

اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں؟ توآپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا :ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے۔بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اور معروف ہو (خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے(یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۲ صفحہ ۵۶۸)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام ملاحظہ فرمائیے،چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کےلیے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (یعنی پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں)حاضِر کی جائے ۔ جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی ۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت جلد ۱ صفحہ ۱۷۹)

تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز ورسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت جلد 1 صفحہ 165،چشتی)

تعظیم کےلیے نہ یقین دَرْکار ہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے ، ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا : فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کےلیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا ، مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم ۔ (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا ، انہوں نے فرمایا:میں سید ہوں ، کہا : کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے،یہ شفاعت خواہ ہوا، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا: کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٩ صفحہ ٥٨٧ - ٥٨٨،چشتی)

تعظیمِ ساداتِ کرام

جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ : فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع ِعید الفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا، مگر جس وقت سید قناعت علی رحمۃ اللہ علیہ دست بوس ہوئے سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے ہاتھ چوم لئے ، یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان ِ خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہی معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران ِمصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں ۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور صفحہ نمبر 286،چشتی)

جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ حضر ت کی محبتِ سادات کا ایک اورواقعہ یوں بیان کرتے ہیں : اعلیٰ حضر ت رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مجلس ِ میلاد مبارک میں سادات کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصہ بروقت تقسیم شیرینی ملا کرتا تھا اور اسی کا اتباع اہلِ خاندا ن بھی کرتے ہیں ۔ ایک سال بموقع بارہویں شریف ماہ ربیع الاول ہجو م میں سید محمود جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خلاف ِمعمول اکہر ا(ایک) حصہ یعنی دو تشتریاں شیر ینی کی بلا قصد پہنچ گئیں ۔ موصوف خاموشی کے ساتھ حصہ لے کر سیدھے حضورِ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کے یہاں سے آج مجھے عام حصہ ملا ۔ فرمایا : سید صاحب تشریف رکھیے ! اور تقسیم کرنے والے کی فوراً طلبی ہوئی اور سخت اظہار ناراضی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : ابھی ایک سینی (بڑی پلیٹ) میں جس قدر حصے آسکیں بھر کر لاؤ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ۔ سید صاحب نے عرض بھی کیا کہ حضور میرا یہ مقصد نہ تھا ، ہاں دل کو ضرور تکلیف ہوئی جسے برداشت نہ کر سکا ۔ فرمایا سید صاحب ! یہ شیرینی تو آپ کو قبول کرنا ہوگی ورنہ مجھے سخت تکلیف رہے گی ۔ اور شیر ینی تقسیم کرنے والے سے کہا کہ ایک آدمی کو سید صاحب کے ساتھ کر دو جو اس خوان کو ان کے مکان پر پہنچا آئے انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور صفحہ 288)

قاری احمد صاحب پیلی بھیتی بیان کرتے ہیں کہ : اعلیٰ حضرت ’’مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت‘‘ میں قیام فرما ہیں ، سید شوکت علی صاحب خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ حضرت! میرا لڑکا سخت بیمار ہے ، تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے ، یہی ایک بچہ ہے صبح سے نزع کی حالت طاری ہے ، سخت تکلیف ہے ، میں بڑی اُمید کے ساتھ آپ کی خدمت میں آیا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت سید صاحب کی پریشانی سے بہت متاثر ہوئے اور خود اُن کے ہمراہ مریض کو دیکھنے کے لیے گئے ، مریض کو ملاحظہ فرمایا پھر سر سے پیر تک ہاتھ پھیر پھیر کر کچھ دُعائیں پڑھتے رہے ، سید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے ہاتھ رکھتے ہی مریض کو صحت ہونا شروع ہو گئی اور صبح تک وہ مرتا ہوا بچہ اعلیٰ حضرت کی دعا کی برکت سے بالکل تندرست ہو گیا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور صفحہ نمبر 978 ،چشتی)

غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون(لعنت کیا گیا) ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہتعالیٰ،فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہتعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة...الخ صفحہ ۷۱۲ حدیث : ۱۳۷۰) ، مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عزوجل کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے ، اَلْبَتَّہ ہمارے علم (میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق و مُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ١٩٨)

بد مذ ہب سیِّد کا حکم

اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی) جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۔ (پ۱۲، ھُود:۴۶) ۔ ترجَمہ : فرمایا اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٢ صفحہ ٤٢١)

صَدرُالْافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (تفسیر خَزائنُ العِرفان سورہ ھود تحت الآیۃ : ۴۶)

سادات كا احترام : اعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام كا بے پناه ادب و احترام كرتے ۔ مولوي محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان ہے كه حضرت مهدی حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا كہ : ميں جب بريلي آتا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود كھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے ۔ حسبِ دستور ایک بار ہاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھی اور چھلے مجھے دے ديجيے ، ميں نے اتار كر دے ديے اور وہاں سے ممبئی چلا گيا ۔ ممبئی سے مارهره واپس آيا تو ميری لڑكی فاطمه نے كہا ابا بريلی كے مولانا صاحب كے يہاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھی تھے ، يه دونوں طلائی تھے اور نامه ميں مذكور تھا ، شهزادی يه دونوں طلائی اشيا آپ كی ہيں ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر 112 ، 111) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

2 comments:

  1. ڈاکٹر اسرار کی تفسیر الگ کیوں ہے؟

    ReplyDelete
  2. حضرت سفیان ثوری اور محمد بن مکندر رحمہ اللہ کے بارے کچھ بتائیں۔

    ReplyDelete

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...