Wednesday 8 July 2015

توحید و شرک اور حقیقت و مجاز کا قرآنی تصور ابن وھاب نجدی گمراہ اور اس کے پیروکاروں کے خود ساختہ تصور توحید و شرک کا منہ توڑ جواب حصّہ دوم

0 comments

حقیقت و مجاز کا اطلاق قرآن حکیم کی روشنی میں

(1) لفظِ ’’خَلق‘‘ کا استعمال اللہ تعالیٰ اور مخلوق دونوں کے لئے

قرآنِ حکیم میں بعض مقامات پر حقیقت و مجاز کا صراحةً استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ.
’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘
الاعراف، 7 : 54
دوسرے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے :
أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ.
’’میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں۔‘‘
آل عمران، 3 : 49
پہلی آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ اور دوسری آیت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی اپنے لئے ’’خَلْق‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ لفظِ ’’خَلق‘‘ پہلی جگہ حقیقی معنی میں اور دوسری جگہ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
یہ اسلوبِ قرآنی ہے کہ کبھی فعل کو دن کی طرف، کبھی زمانے کی طرف، کبھی حالات کی طرف اور کبھی کسی برگزیدہ بندے کی طرف منسوب کر دیتا ہے جیسے اللہ عزوجل کا برگزیدہ بندہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر زندگی، بینائی اور شفا کا وسیلہ بنے تو ان صفات کو ان کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شان ہے کہ وہی کسی کو زندگی، موت اور شفا دیتا ہے۔ وہی کسی کو ہدایت دیتا ہے اور کسی کا مقدر گمراہی ٹھہرا دیتا ہے۔ کلام کے اس اسلوب کو کوئی نادان ہی شرک پر محمول کرے گا۔

(2) لفظِ وَھَّاب کا حقیقی اور مجازی استعمال

حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ کا توسلِ مکانی کرتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے دعا مانگی، اس دُعا کے الفاظ یہ ہیں :
قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO
’’عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 38
دعا کے الفاظ میں رَبِّ هَبْ لِيْ مذکور ہے جس سے اللہ رب العزت کی شانِ عطا کا بیان ہو رہا ہے۔
اَلْوَهَابُ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی نام سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی :
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُO
’’عرض کیا : اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو، بیشک تو ہی بڑا عطا فرمانے والا ہے۔‘‘
ص، 38 : 35
اللہ تعالیٰ کو ’’اِنَّکَ اَنْتَ الْوَهَابُ‘‘ اے رب! ’’بے شک تو ہی وہاب ہے‘‘ کہہ کر پکارا جائے تو وہ اپنے خزانۂ غیب سے بے نواؤں کو جھولیاں بھر بھر کر نعمتیں عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حقیقی معنوں میں وہاب ہے مگر اس کے وہاب ہونے کی اس صفت کی مجازاً مخلوق کی طرف نسبت بھی جائز ہے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت مریم علیہما السلام کے پاس انسانی شکل و صورت میں آئے تو آپ نے پوچھا تم کون ہو؟ کیوں آئے ہو؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب میں کہا :
إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO
’’میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
مريم، 19 : 19
قرآن حکیم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کا بصورتِ بشری اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقبول بندی حضرت مریم علیھا السلام کے پاس آنے کو بیان کیا کہ وہ ان کی خلوت گاہ میں حاضر ہو کر گویا ہوئے :
’’میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
صیغۂ واحد متکلم لِاَھَبَ لَکِ کا مفہوم یہ ہے کہ میں ’’آپ کو عطا کروں۔‘‘
حضرت مریم علیہا السلام کو جبریل امین علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں تمہیں بیٹا دینے آیا ہوں صرف مجازی معنوں میں ہے کیونکہ حقیقت میں بیٹا دینے والا اﷲ رب العزت ہے۔ یہاں جبریلِ امین علیہ السلام بیٹا دینے اور خوشخبری سنانے کا وسیلہ بنے اگرچہ بظاہر انہوں نے یہ عمل اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور کیے جانے پر اپنی طرف منسوب کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو اپنا پیغام رساں بنا کر بھیجتا ہے تو اسے اس کام کی ہمت اور طاقت بھی عطا فرماتا ہے۔
مجازی معنی میں جبرئیل علیہ السلام بھی اس لئے وہاب ہیں کہ وھاب اسے کہتے ہیں جو کسی کو کچھ دیتا ہے۔ گو وہاب، اللہ کی صفت ہے اور حقیقت میں وہی ہر نعمت کا دینے والا ہے لیکن اگر مجازی معنوں میں کسی کو وھاب کہہ دیا جائے تو یہ شرک نہ ہو گا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے جب اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ اللہ کا فرستادہ (رسول) بن کر جو کچھ کہا وہ شرک نہ ہوا اس لیے کہ رب کا نمائندہ بن کر جو کچھ عطا کیا وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن سے اسی کی عطا ہے۔

(3) لفظِ رب کا حقیقی اور مجازی استعمال

رب اﷲ تعالیٰ کا پہلا صفاتی نام ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی پہلی سورت، سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔‘‘
الفاتحة، 1 : 1
یہ ذہن نشین رہے کہ لفظِ رب ایک واضح قطعی اور حتمی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو قرآن مجید میں جابجا متعارف کرایا ہے۔
لیکن اسی لفظِ رب کو حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر کے لئے بھی استعمال کیا۔ ان کی اس گفتگو کو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا :
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِO وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَO
’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ ) اپنے مربی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا اور رہا دوسرا (جس نے سر پر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہوo اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجتاً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہےo‘‘
يوسف، 12 : 41 - 42
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ دو افراد حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانے میں اسیر تھے اور انہوں نے خواب دیکھ کر اپنا خواب سیدنا یوسف علیہ السلام کو سنایا اور اس کی تعبیر چاہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیرِ خواب بتا دی ان میں سے ایک کو کہا کہ وہ اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلایا کرے گا اور اسی رہائی پانے والے شخص سے یہ بھی کہا کہ مجھے ایک معینہ مدت کے لئے قید میں ڈالا گیا تھا جو گزر گئی ہے تم قید سے رہائی پانے کے بعد اپنے رب یعنی آقا سے جو مجھے بھول گیا ہے میرا ذکر کرنا کہ میں مدتِ قید پوری کرنے کے بعد بھی جیل میں پڑا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر سیدنا یوسف علیہ السلام نے مذکورہ قیدی سے بادشاہِ مصر کا ذکر کرتے ہوئے دو مرتبہ لفظِ رب استعمال کیا حالانکہ یہ علاقائی زبان میں روز مرہ گفتگو کا لفظ تھا اور رہائی پانے والے قیدیوں میں متداول نہ تھا، وہ اسے بادشاہ اور آقا وغیرہ کہتے تھے اور حقیقی معنوں میں یہی کہنا چاہئے تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے استعاراتی اور مجازی معنی میں لفظِ ’’رب‘‘ بادشاہ کے لئے استعمال کیا جو اس امر پر دلالت کرتاہے کہ کسی کو مجازی طور پر رب کہنا بھی شرک نہیں۔
پھر یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس لفظ کی ممانعت میں صراحتاً اور وضاحتاً کچھ نہیں کہا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت سمجھی کیونکہ اس علاقے کی روزمرہ زبان میں بادشاہ کے لئے ’’رب‘‘ کا لفظ استعمال کرنا معمول بن چکا تھا۔ اس قسم کی وضاحت طلب کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کا شعار ہی لفظوں کی کھال اتار کر لوگوں کو خواہ مخواہ شرک سے مطعون کرنا ہے۔
آگے قرآن مجید میں رہائی پانے والے قیدی کے حوالے سے بیان ہے کہ اسے بھی شیطان نے بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلا دیا۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے خود بھی بادشاہ کے لئے لفظِ ’’رب‘‘ ارشاد فرمایا ہے جو آیت کے الفاظ ذِکْرَ رَبِّہ سے واضح ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ حقیقی رب اللہ تعالیٰ نے عزیزِ مصر یا بادشاہِ مصر جو ایک عام انسان تھا کے لئے اپنی صفت ’’رب‘‘ کا استعمال مجازاً فرمایا تو کسی مربی کو رب کہنا شرک نہیں ہوتا ورنہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہرگز بادشاہِ مصر کو قرآن میں ’’رب‘‘ کے لفظ سے نہ پکارتا۔
اسی طرح مجازی معنی میں والدین اپنی اولاد کے لئے بمنزلہ رب ہیں کہ وہ ان کی پرورش کے ذمے دار ہیں۔ والدین کے حق میں ایک دعائیہ التجا کی قرآن مجید نے تلقین کی ہے جو اس طرح ہے :
وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
’’اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں (میرے والد اور والدہ) پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 24
اس دعا میں کائنات کے خالق و مالک پروردگار سے التجا کی جا رہی ہے کہ اے میرے رب تو میرے والدین کو اپنے رحم اور لطف و کرم سے اس طرح نواز جس طرح وہ صغرِ سنی میں میرے لئے رب (پرورش کرنے والے) بنے، شیر خوارگی اور طفلی کے ان ایام میں انہوں نے مجھے پالا پوسا اور اپنی ربوبیت کے دامن میں لے لیا اور میری ضروریات و حاجات کو پورا کرتے رہے۔ اس آیتِ کریمہ میں رَبَّیٰنِيْ کے الفاظ قابلِ غور ہے جس کی تلقین خود رب العالمین نے فرمائی ہے۔
لفظِ رب اسی طرح اساتذہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی روحانی اور اخلاقی پرورش اور تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ رب ہونے کے یہ معانی مجازی و استعاراتی ہیں۔ مفہوم بدل جانے سے ایسا کہنے میں شرک کا کوئی احتمال اور شائبہ نہیں رہتا۔

ایک سبق آموز علمی نکتہ

قرآن کی رو سے جیسے بادشاہ کے لئے رب کا لفظ مجازاً کہہ دینے سے وہ حقیقی رب نہیں بن جاتا۔ اسی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو غوث الاعظم اور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو داتا گنج بخش کہہ دینے سے شرک نہیں ہوتا کیونکہ غوث اور داتا رب سے بڑے الفاظ نہیں ہیں جو مجازاً بول دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ’’يَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ اور يَارَسُوْلَ اﷲِ اُنْظُرْ حَالَنا ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل اور استغاثہ کے لئے مجازی معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس سے وہ حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کیلئے خاص ہیں۔ ( جاری ہے )

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔