Saturday 4 July 2015

امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ ائمہ اور فقہاء میں مختلف فیہ چلا آتا ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے تین گروہ ہیں

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔امام مکحول، امام اوزاعی، امام شافعی اور امام ابو ثور رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سری اور جہری تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔دور حاضر میں الشیخ بن باز سمیت کچھ عرب علماء نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
2۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اصحاب سری یا جہری کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔
3۔ امام زہری، امام مالک، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر امام بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہو تو مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور سری نمازوں (یعنی جن میں امام آہستہ آواز میں پڑھتا ہے جیسے ظہر اور عصر وغیرہ) میں پڑھنی چاہیے۔دور حاضر کے مشہور محدث الشیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" میں اس کے حق میں بہترین دلائل دیے ہیں جبکہ  ابن تیمیہ کا فتویٰ بھی اس کی موافقت میں ہے اور دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی موقف درست،قرین انصاف اور اعتدال والا ہے یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابتداء میں جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ پڑھ لینے کی اجازت دی تھی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔ ان دونوں واقعات کو امام ابو داؤد سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے۔ پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک دن فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے قراءت کرنا مشکل ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا: لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟"
انہوں نے عرض کیا:
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی ایسا کر لیتے ہیں"
فرمایا:
لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
"تم ایسا مت کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرے، کیوں کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہوئی"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، البانی نے کثرت طرق کی بناء پر اسے حسن کہا، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ جلد1 ص 331، اور مشکاۃ المصابیح تلخیص الالبانی حدیث نمبر854)
بعد ازاں یہ اجازت واپس لے لی گئی اور امام کے بلند آواز میں پڑھنے کی صورت میں مقتدیوں کو قراءت سے بالکل منع فرما دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی فجر کی نماز کے بعد پیش آیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور صحابہ سے دریافت فرمایا: هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا
"کیا تم میں سے کوئی ابھی میرے ساتھ ساتھ پڑھتا رہا ہے؟"
ایک شخص نے عرض کیا :
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں (پڑھتا رہا ہوں)"
فرمایا: إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ
"میں بھی خیال کر رہا تھا کہ قرآن پڑھنے میں مجھے کیا چیز پریشان کر رہی ہے"
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات سننے کے بعد صحابہ کرام جہری نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے اور جن نمازوں میں امام بلند آواز سے قراءت نہیں کرتا ان میں آہستہ آواز سے پڑھا کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من کرہ القراءۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جہر الامام، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 781)
خاموشی کے ساتھ امام کی قراءت سننا درحقیقت اس کی امامت قبول کرنے کا تقاضا اور اقتداء کی تکمیل کا مظہر ہے، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے:
إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 918۔ارواء الغلیل جلد 2 ص 120)
"امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو"
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی اہمیت والی جو احادیث  بیان کی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز درست نہیں اور اس حدیث میں خاموشی سے امام کی قراءت سننے کا کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کی قراءت مقتدیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ،امام سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو مقتدیوں کو خود سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب اذا قرأ لامام فأنصتوا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 850 )
"جس کا امام (نماز پڑھا رہا ) ہو تو امام کی قراءت ہی اس (مقتدی) کی قراءت (کے لیے کافی) ہے۔
غیرمناسب نہ ہو گا اگر یہ بات بھی بیان کر دی جائے کہ اس مسئلے میں فقہاء کاا ختلاف احادیث کی تطبیق، تضعیف اور ناسخ و منسوخ کا اختلاف ہے اس میں "انکارِ حدیث" کا کوئی دخل نہیں ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔