Wednesday 8 July 2015

توحید و شرک اور حقیقت و مجاز کا قرآنی تصور ابن وھاب نجدی گمراہ اور اس کے پیروکاروں کے خود ساختہ تصور توحید و شرک کا منہ توڑ جواب حصّہ اوّل

0 comments
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شریعت میں کسی لفظ کا استعمال اور اس کا کسی امر پر اطلاق بطریقِ حقیقت بھی جائز ہے اور بطریقِ مجاز بھی۔ مگر اس شرط کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ مجاز کا استعمال وہاں کیا جائے جہاں مجاز کا محل ہو۔ ہم اپنی روزمرہ کی گفتگو میں بہت سے امور میں حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مثلاً اگر کسی کا بچہ جاں بہ لب ہو اور ڈاکٹر کے علاج سے اس کی جان بچ گئی تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر کے اعجازِ مسیحائی نے میرے بچے کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ اس اندازِ گفتگو میں حقیقت اور مجاز دونوں بیان ہوئے ہیں۔ درحقیقت بچانے والا تو اﷲ تعالیٰ ہے مگر ڈاکٹر شفایابی کا وسیلہ اور ذریعہ بن گیا۔ اس طرح ایک اور مثال ڈرائیور کی ہے، جس کی گاڑی کے نیچے آ کر حادثاتی طور پر بچہ کچلا گیا ہو اور باپ کہے کہ اس ڈرائیور نے میرے بچے کو مار دیا حالانکہ ڈرائیور محض بچے کی حادثاتی موت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور حقیقت میں مارنے والی ذات تو اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ ایسے امور میں حقیقت اور مجاز پر مبنی دونوں الفاظ بولے جاتے ہیں۔ پس دینا، لینا، مارنا، جِلانا وغیرہ تمام امور میں حقیقت و مجاز کا استعمال ایک معمول کی بات ہے۔
1۔ حقیقت و مجاز کے لئے بعض الفاظ کا استعمال

اس ضمن میں بعض الفاظ توسُّل کے پیرائے میں بول دیے جاتے ہیں اور اس سے توکُّل مراد نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کی نسبت کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’آپ کی نظرِ کرم، نگاہِ عنایت و توجہ سے میری زندگی کے شب و روز کٹ رہے ہیں‘‘ تو یہ الفاظ مجاز و توسل کے معنی میں ہیں حقیقت کے معنی میں نہیں۔ اس طرح کے بے شمار کلمات، اشعار اور جملے بمعنی توسل بیان ہوتے ہیں بمعنی توکل نہیں۔ حتی کہ اگر کوئی لفظ استعانت اور استغاثہ کے طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوگا تو وہ بھی توسُّل کے معنی میں ہو گا توکُّل کے معنی میں نہیں کیونکہ توکل کا اطلاق مستعانِ حقیقی اور فاعلِ حقیقی پر ہوتا ہے جو اﷲتعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اور اسی کی طرف سب امور لوٹائے جاتے ہیں۔
2۔ عبادت میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں

سورۃ الفاتحہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO

’’(اے اﷲ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘

اس آیتِ کریمہ کے حوالے سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس فرمانِ الٰہی کی موجودگی میں ہمارے لئے کسی اور سے مدد لینا جائز نہیں کیونکہ جب ہم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور حقیقی معین و مددگار اﷲ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے اور مانتے ہیں تو کسی غیر سے مدد لینے کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف عبادت ایک ایسا عمل ہے جس میں حقیقی، مجازی اور استعاراتی تقسیم نہیں کی جاتی۔ عبادت میں سرے سے حقیقت اور مجاز کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس میں مجاز کا سوال ہی خارج از بحث ہے کیونکہ عبادت یا تو عبادت ہے یا پھر نہیں ہے۔ جبکہ استغاثہ یعنی مدد میں عبادت سے کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی، اس کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیاہے۔

1۔ استغاثۂ حقیقی
2۔ استغاثۂ مجازی
(1) نظامِ زندگی باہمی مدد و استعانت کے سہارے چل رہا ہے

اس تقسیم کو بہرحال ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس طبعی اور مادی دنیا میں زندگی کا انحصار انسانوں کے ایک دوسرے سے باہمی تعامل و تعاون پر رکھا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی پڑتی ہے اور مدد لینا بھی پڑتی ہے۔ ہمارے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ بطور معیار موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی مدد کی، انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے باہر نکالا اور انسانی زندگی کو اخلاقِ عالیہ سے سنوارا تاکہ وہ نیکو کار انسان، بھلے اور اچھے مسلمان بن جائیں۔ گویا یہ اس امر کی تعلیم ہے کہ امتِ مسلمہ کے افراد کو ایک دوسرے کی مدد کرنا، نصیحت اور خیر خواہی پر مبنی سلوک کرنا عملی طور پر ان کی مدد و استعانت ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے استاد اپنے شاگردوں کی، والدین اپنے بچوں کی، بزرگ نوجوانوں کی اور بھائی بہنوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ضروری ہے کہ طاقتور کمزور کی مدد کرے، حاکم رعایا کی اور ہمسایہ پڑوسی کی۔ جب تمام دینی اور دنیاوی نظام اس باہمی مدد و استعانت کے سہارے پر چل رہے ہیں تو کس منطق سے اسے شرک تصور کیا جائے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے اور عقیدۂ توحید محض مذاق بن کر رہ جائے۔
(2) ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے گئے ہیں

فی الحقیقت یہ تمام کائنات ایک دوسرے کی مدد و استعانت کی زنجیر میں بندھی ہوئی ہے انسان تو انسان، ملائکہ کو بھی نیابت کے امور سونپے جاتے ہیں جنہیں قرآن نے مُدَبِّراتُ الْاَمْر سے موسوم کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًاO

’’پھر ان (فرشتوں) کی قسم جو مختلف امور کی تدبیر کرتے ہیں۔‘‘

النازعات، 79 : 5

یہ سب ایک نظام کے تحت ہے جس کے مطابق باہمی مدد و استعانت جائز ہے۔ اس اصول کی روشنی میں انبیاء اور اولیاء سے استعانت کا جواز خودبخود فراہم ہو جاتا ہے۔
3۔ حقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں

عملی زندگی میں حقیقت و مجاز کے اطلاق کی ممکنہ صورتیں تین ہو سکتی ہیں :

1۔ بعض ایسے امور ہیں جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم قابلِ عمل نہیں۔ ان مبنی برحقیقت امور میں کسی امر کے لئے مجاز ثابت کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال عبادت کی ہم دے چکے ہیں جس میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم جائز نہیں۔

2۔ بعض ایسے امور ہیں جن میں حقیقت و مجاز کی تقسیم ممکن تو ہے مگر تقسیم کی ضرورت اس لئے نہیں پڑتی کہ جو امور اللہ تعالی کے لئے ثابت ہیں وہ اس کی شان کے لائق ہیں اور اسی طرح جو امور مخلوق کے لئے ثابت ہیں وہ ان کے حسبِ حال ہیں۔

3۔ بعض امور ایسے ہیں جن کا اثبات اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہے اور مخلوق کے لئے بھی مگر جب ان کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہو گی تو وہ حقیقی معنی میں ہوں گے اور جب مخلوق کے لئے ہوں گے تو وہ مجازی معنی میں ہوں گے جیسے انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنا وغیرہ۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ توحید سے متعلق چند آیات سیاق و سباق سے جدا کر کے لے لیتے ہیں اور ان کا اطلاق ایسے امور پر بھی کر دیتے ہیں جہاں حقیقت و مجاز کی تقسیم لازم ہے۔ اس سے لامحالہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے پس ضروری ہے کہ ہم حقیقت و مجاز پر مبنی ہر حکم کو اس کی حقیقت اور حیثیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں پر قرآن مجید کی آیات سے حقیقت و مجاز کے استعمال اور اطلاق کے نمونہ کی آیات ملاحظہ کیجئے۔  ( جاری ہے )

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔