Monday, 13 November 2023

صحابی کی تعریف ، شرفِ صحابیت اور احترامِ صحابہ رضی اللہ عنہم

صحابی کی تعریف ، شرفِ صحابیت اور احترامِ صحابہ رضی اللہ عنہم
محترم قارئینِ کرام : شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھیے صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے اور اس شرفِ صحابیت میں اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں انہیں اس شرف سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔

صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کى فضىلت مىں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہے کیونکہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38)

صحابی کی تعریف

امام بخاری رحمۃ ﷲ علیہ صحابی کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں : وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ ۔
ترجمہ : مسلمانوں میں سے جس نے بھی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا ہو ، وہ شخص آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہے ۔ (بخاري الصحیح کتاب المناقب باب فضائل أصحاب النبی صلی الله علیه وآله وسلم 3 : 1335 دار ابن کثیر الیمامة، بیروت،چشتی)

خطیب بغدادی اور ابنِ جماعہ علیہما الرّحمہ نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے صحابی کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے : کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ، فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ ۔
ترجمہ : ہر وہ شخص جس نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت اختیار کی ہو ‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے ۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی (رضی اللہ عنہ) ۔ (خطیب بغدادی، الکفایة في علم الروایة، 1: 51، مدینه منوره، سعودی عرب: المکتبة العلمیة،چشتی)۔(ابن جماعة، المنهل الروی، 1: 111، دمشق شام: دار الفکر)

امام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ صحابی کی تعریف یوں کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے : وَهُوَ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم مُؤمِناً بِهِ، وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَلَوْ تَخَلَّتْ رِدَّةٌ فِي الْأَصَحَّ ۔
ترجمہ : صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہو گیا) ۔

امام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ مزید لکھتے ہیں : وَالْمُرَادُ بِاللِّقَاءِ: مَا هُوَ أَعمُّ: مِنَ الْمُجَالَسَةِ، وَالْمُمَاشَاةِ، وَ وَصُولِ أَحَدِهِمَا إِلَی الآخَرِ، وَإِنْ لَمْ یُکَالِمْهُ، وَیَدْخُلُ فِیهِ رُؤیَةُ أَحَدِهِمَا الآخَرَ، سَوَاءٌ کَانَ ذَلِکَ بِنَفْسِهِ أَو بِغَیْرِهِ ۔
ترجمہ : لقاء سے مراد (ایسی ملاقات) ہے جو باہم بیٹھنے ، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے اگرچہ اس سے مکالمہ بھی نہ کیا ہو، یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے (جس میں صرف کسی مسلمان کا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچنا ہی کافی ہے) اور لقاء میں ہی ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا داخل ہے ۔ (نزهَة النظر بشرح نخبة الفکر: 64، قاہرة ، مصر: مکتبة التراث الاسلامي)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا جس نے حالت ایمان میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا تو وہ صحابی کہلاتا ہے ۔

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد کسی بھی شخص کو حالتِ منام یا بیداری کی حالت میں آپ کے جسمِ حقیقی کی زیارت نہیں ہوئی ۔ جس کو بھی خواب یا بیداری میں زیارت ہوئی ہے اس نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جسمِ مثالی دیکھا ہے ، جسمِ حقیقی نہیں ۔ اس لیے صحابیت کا شرف صرف ان خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہے جنہوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ کی زیارت اور آپ سے ملاقات کی ہے ۔

حکیم الامت مصنف مفتی احمد یار خان رحمة علیہ صحابی وہ خوش نصیب مؤمن ہیں جنہوں نے ایمان اور ہوش کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا انہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت نصیب ہوئی پھر ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر صفحہ نمبر ۱۹)

اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں : اختلف في حد الصحابي ، فالمعروف عند المحدثین أنہ کل مسلم رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (التقریب والتیسیر، النوع التاسع والثلاثون معرفۃ الصحابۃ ، ص:۹۲، ط:دارالکتاب العربی،چشتی)
ترجمہ : صحابی کی تعریف میں اختلاف رہا ہے ، لیکن محدثین کے نزدیک مشہور و معروف (اور متفق علیہ) تعریف یہ ہے کہ : صحابی ہر وہ مسلمان ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں دیکھا ہو ۔

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں : حدثنی محمد بن عبید اللہ المالکي، أنہ قرأ علی القاضي أبي بکر محمد بن الطیب، قال: ’’لاخلاف بین أہل اللغۃ في أن القول صحابي مشتق من الصحبۃ، وأنہ لیس بمشتق من قدر منہا مخصوص ، بل ہو جار علی کل من صحب غیرہ، قلیلا کان أو کثیرا‘‘ وکذٰلک یقال: صحبت فلانا حولا ودہرا وسنۃ وشہرا ویوما وساعۃ، ویوقع اسم المصاحبۃ بقلیل ما یقع منہا وکثیرہ، وذٰلک یوجب في حکم اللغۃ إجراء ہذا علی من صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولو ساعۃ من نہار ۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابی ، ج:۱، ص:۱۹۳-۱۹۴، ط:مکتبۃ ابن عباس)

تاہم حضرت سعید بن مسیب رحمة اللہ علیہ (متوفی ۹۳ھ) فرماتے ہیں : الصحابۃ لانعدہم إلا من أقام مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنۃ أو سنتین، وغزا معہ غزوۃ أو غزوتین ۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابی،ج: ۱،ص:۱۹۰-۱۹۱، ط:مکتبۃ ابن عباس)
ترجمہ : صحابی ہم اسی کو شمار کرتے ہیں جو سال ، دوسال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہے ہوں ، یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ایک ، دو غزوات میں شریک ہوئے ہوں ۔

خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرنے کے بعد ابن عمرواقدی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں : رأیت أہل العلم یقولون: کل من رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وقد أدرک الحلم فأسلم وعقل أمر الدین ورضیہ ، فہو عندنا ممن صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولو ساعۃ من نہار، ولکن أصحابہ علی طبقاتہم وتقدمہم في الإسلام ۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابی ،ج:۱، ص:۱۹۱، ط: مکتبۃ ابن عباس،چشتی)
ترجمہ : میں نے اہل علم سے سناہے کہ : جس نے بلوغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا اور اسلام لے آیا اور اوامرِ دین کو سمجھا اور قبول کیا ، وہ ہمارے نزدیک صحابی ہے ، اگرچہ وہ ایک گھڑی کےلیے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت میں رہاہو، تاہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے درجات اور مراتب مختلف اور متفاوت ہیں ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کی گئی تعریف کے متعلق فرماتے ہیں کہ : فإن صح عنہ فضعیف، فإن مقتضاہ أن لایعد جریر البجلي وشبہہ صحابیا ولاخلاف أنہم صحابۃ رضی اللہ عنہم ۔ (التقریب والتیسیر، النوع التاسع والثلاثون معرفۃ الصحابۃ صفحہ ۹۲، ط: دار الکتاب العربی)
ترجمہ : اگر اس کی نسبت ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ تک درست بھی ہو، تب بھی یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ اس قول کی رو سے جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ اور ان جیسے دیگر صحابہ (جو معمولی عرصے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت میں رہے) صحابہ میں شمار نہیں ہوتے ، حالانکہ ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے صحابہ ہونے پر اُمت کا اتفاق ہے ۔

خلاصہ یہ کہ جمہور علماء کی رائے کے موافق ہر اس مسلمان کو صحابی کہا جائے گا جو ایک گھڑی کےلیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا ہو ، اور حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ میں سے) کسی اور سے صحابی کی تعریف اور دیگر اصطلاحی مباحث کے متعلق کوئی بات منقول نہیں ہے ، کیونکہ ان تعریفات اور اصطلاحی مباحث کی ضرورت اس وقت پڑی جب حدیث کی تدوین کا کام شروع ہوا اور مالک بن انس فرماتے ہیں :  سب سے پہلے حدیث کی تدوین کا کام ابن شہاب زہری نے کیا ۔

ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ۱۲۵ھ میں ہوئی۔شرح علل الترمذی میں ہے : عن مالک بن أنس قال: أول من دون العلم ابن شہاب، یعنی الزہري ۔ (شرح علل الترمذی، لابن رجب الحنبلی: کتاب الحدیث والتصنیف فیہ، ص:۳۴۲، ط: مکتبۃ المنار،چشتی)
ترجمہ : تقریب التہذیب میں ہے : محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ ابن شہاب ۔۔۔ الزہري ۔۔۔ مات سنۃ خمس وعشرین ۔ (تقریب التہذیب لابن حجرؒ، رقم: ۶۲۹۶، ص:۵۳۶، ط: دارالمنہاج)

بالفاظِ دیگر یہ اصطلاحات اور تعریفات قرونِ اولیٰ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے) کے بعد کی وضع کردہ ہیں ، قرونِ اولیٰ میں نہ ان کا وجود تھا او رنہ ان کی ضرورت تھی ۔

قرآن و حدیث میں جہاں جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ آیا ہے اور اس جماعت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ، وہاں تمام صحابہ بالعموم مراد ہیں ، یعنی امت کے جمہور علماء کی رائے اور متفقہ فیصلے کی روشنی میں جو کوئی بھی صحابی کی تعریف میں داخل ہوتا ہے ، وہ سب مراد ہیں ، لہٰذا سوال میں مندرجہ نصوص میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم بالعموم مراد ہیں ، جیسا کہ خود نصوص کے الفاظ سے واضح ہے ۔

تاہم جس طرح انبیاء علیہم السلام کے درجات اور مراتب میں فرق ہے اور مسلمانوں میں اعمال اور صفات کے لحاظ سے فرق ہے ، اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم میں درجات کے لحاظ سے فرق ہے ، چنانچہ چار خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا رتبہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بلند ہے ۔ عشرہ مبشرہ (وہ دس صحابہ رضی اللہ عنہم جن کو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک نشست میں جنت کی خوشخبری دی ہے) کا مرتبہ ان کے علاوہ سے بڑھا ہوا ہے ، جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے حبشہ اور مدینہ منورہ دونوں ہجرتیں کی تھیں ، ان کو قرآن کریم میں سابقین اولین کہا گیا ہے ، اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے مطابق : سابقین اولین وہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں جو بیعتِ رضوان میں شریک تھے ۔ اسی طرح جو صحابہ رضی اللہ عنہم جنگِ بدر میں شریک تھے ، ان کے خصوصی فضائل احادیث میں وارد ہیں کہ اہلِ بدر کےلیے جنت واجب ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی مغفرت فرمادی ہے ۔

صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جہنم سے خلاصی کی بشارت سنائی ، جن کی تعداد چودہ سو تھی ، ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : آج تم لوگ ساری زمین والوں میں سب سے بہتر ہو ۔ اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے فتحِ مکہ سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتال کیا ، ان کادرجہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے بہت برتر و بالا ہے جو فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے اور یہ ناممکن ہے کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قتال کیا ہو اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے مقابلہ کیا ہو وہ دونوں برابر اور ہم پلہ ہوجائیں ۔

خلاصہ یہ کہ صحابہ کے متعلق قرآن و حدیث کے تمام فضائل اگرچہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو شامل ہیں ، لیکن حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مراتب کے فرق کی بنیاد پر نصوص میں مذکورہ فضائل اور اوصاف میں بھی تفاوت ہے ۔

امام ابن عبد الر اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۴۶۳ھ) نقل فرماتے ہیں : قال اللہ تعالٰی ذکرہٗ : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۔ (الفتح:۲۹) الآیۃ، فہٰذہٖ صفۃ من بادر إلٰی تصدیقہ والإیمان بہ، وآزرہ ونصرہ (و لصق بہ) وصحبہ، ولیس کذٰلک جمیع من رآہ ولاجمیع من آمن بہ، وستری منازلہم من الدین والإیمان، وفضائل ذوي الفضل والتقدم منہم، فاللہ قد فضل بعض النبیین علی بعض، وکذٰلک سائر المسلمین، والحمد للّٰہ رب العٰلمین، وقال عزّوجلّ:{وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} (التوبۃ:۱۰۰) الآیۃ۔ قال أبو عمر: أخبرنا ابن سیرین في قولہ عزّ وجلّ: {وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ } (التوبۃ:۱۰۰) قال: ہم الذین صلوا القبلتین ، وقال أحمد بن زہیر: قلت لسعید بن المسیب: مافرق بین المہاجرین الأولین والآخرین؟ قال: ہم الذین صلوا القبلتین ۔ و۔۔۔ عن الشعبي قال: ہم الذین بایعوا بیعۃ الرضوان ۔۔۔۔ عن جابر قال: جاء عبد لحاطب بن أبي بلتعۃ أحد بني أسد یشتکي سیدہ ، فقال: یا رسول اللّٰہ، لیدخلن حاطب النار۔ فقال لہ : کذبت لایدخلہا أحد شہد بدرا أو الحدیبیۃ۔ قال أبوعمر : قال اللہ سبحانہ: {لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ} (الفتح:۱۸) ومن رضي اللہ عنہ لم یسخط علیہ أبدا إن شاء اللّٰہ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : لن یلج النار أحد شہد بدرا أو الحدیبیۃ … عن أبي الزبیر عن جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قال: لایدخل النار أحد ممن بایع تحت الشجرۃ … أخبرنا سفیان عن عمرو قال: سمعت جابر بن عبد اللہ یقول: کنا یوم الحدیبیۃ ألفا وأربعمائۃ، فقال لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : أنتم الیوم خیر أہل الأرض … عن علي قال: بعثني رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وأبا مرثد والزبیر بن العوام، وکلنا فارس، قال: انطلقوا حتی تاتوا روضۃ خاخ، فذکر الحدیث في قصۃ حاطب، حتی بلغ إلی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : ألیس من أہل بدر! إن اللہ قد اطلع علی أہل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد وجبت لکم الجنۃ أو قد غفرت لکم۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : إن أرأف أمتي بأمتي أبوبکر، وأقواہا في أمر دین اللہ عمر، وأصدقہا حیاء عثمان، وأقضاہا علي، وأقرؤہا أبي، وأفرضہا زید، وأعلمہم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، ولکل أمۃ أمین، وأمین ہٰذہ الأمۃ أبو عبیدۃ بن الجراح ، قال أبوعمر فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جماعۃ من أصحابہ بفضائل خص کل واحد منہم بفضیلۃ وسمہ بہا، وذکرہ فیہا وہٰذا من معنی قول اللہ تعالٰی : {لَا یَسْتَوِیْ  مِنْکُمْ  مَّنْ  اَنْفَقَ  مِنْ  قَبْلِ الْفَتْحِ  وَقٰتَلَ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً  مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الْحُسْنٰی} (۵۷:۱۰) ومحال أن یستوي من قاتلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مع من قاتل عنہ۔ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لبعض من لم یشہد بدرا۔ وقد رآہ یمشی بین یدي أبي بکر تمشی بین یدي من ہو خیر منک؟ وہذا لأنہ قد کان أعلمنا ذلک في الجملۃ لمن شہد بدرا والحدیبیۃ ولکل طبقۃ منہم منزلۃ معروفۃ وحال موصوفۃ ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، مقدمۃ المؤلف،ج:۱،ص:۲-۱۸، ط: دار الجبل، بیروت،چشتی)

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو تکلیف پہنچائی ، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اس کی روشنی میں کسی بھی صحابی کو تکلیف پہنچانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے ، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تکلیف پہنچانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس قدرناگوار گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا چہرے کا رنگ ہی تبدیل ہوگیا اور آپ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔ بخاری شریف میں ہے : عن أبي الدرداء  قال : کنت جالسا عند النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، إذ أقبل أبوبکر آخذاً بطرف ثوبہ حتی أبدی عن رکبتہ، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : أما صاحبکم فقد غامر فسلم وقال: إني کان بیني وبین ابن الخطاب شیئ فأسرعت إلیہ ،ثم ندمت، فسألتہ أن یغفرلي فأبی عليَّ، فأقبلت إلیک، فقال: ’’یغفر اللہ لک یا أبابکر‘‘ ثلاثا، ثم إن عمرؓ ندم، فأتی منزل أبي بکرؓ ، فسأل : أَثَمَّ أبوبکر؟ فقالوا: لا، فأتی إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فسلم، فجعل وجہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم یتمعر ، حتی أشفق أبوبکر، فجثا علی رکبتیہ، فقال: یا رسول اللّٰہ، واللہ أنا کنت أظلم، مرتین، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ’’إن اللہ بعثني إلیکم، فقلتم: کذبت، وقال أبوبکر: صدق وواساني بنفسہ ومالہ، فہل أنتم تارکوا لي صاحبي‘‘ مرتین فما أوذي بعدہا ۔ (کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :’’لو کنت متخذا خلیلا ‘‘، رقم: ۳۶۶۱، ج:۵،ص:۵، ط: دار طوق النجاۃ)

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسی جماعت ہے جس کی صداقت ، دیانت اور پاکیزگی کی گواہی خود حق تعالیٰ شانہٗ نے دی ہے ، اور ان کو اپنی رضا کا پروانہ کتاب اللہ میں عطا کیا ہے، اور اس جماعت کے ہر فرد سے بالعموم جنت کا وعدہ کیا ہے ۔ اور بیسیوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف افراد کو جنت کی بشارتیں سنائی ہیں ، اور بالعموم سب کو قابلِ اقتداء قرار دیا ہے، نیز اس جماعت کے ہرفرد سے محبت کو ایمان کی علامت بتلایا ہے ، اور ان سے بغض رکھنے اور برابھلا کہنے کی سخت ممانعت فرمائی ہے ، اور ان سے بغض رکھنے کو براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس سے بغض رکھنے کے برابر قرار دیاہے ۔ اسی لیے اُمتِ مسلمہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب امانت ، دیانت اور سچائی کے پیکر تھے ، یہ امت کا سب سے بہترین طبقہ ہے ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت کےلیے چنا تھا ، اور خود قرآن میں ان کی تعریف فرمائی ، ان کی نیک خصلتوں اور اچھی صفات کے تذکرے فرمائے ہیں اور ان کی کامیابی کا وعدہ فرمایا ، نیز سرورِ کونین ، صادق و مصدوق ، نبی غیب داں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان سے بھی ان کی سچائی اور دیانت پر مہرِ نبوی ثبت ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ستائش اور تصدیق کے بعد اب اس طبقے کے معتبر اور معتمد ہونے کےلیے نہ کسی کی گواہی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کی تصدیق کی حاجت ، لہٰذا یہ وہ طبقہ ہے جس سے اللہ راضی ہو چکا ہے، اور اگر ان میں سے کسی سے کوئی غلط عمل یا لغزش سرزد بھی ہوئی ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما کر ان سب سے جنت کا وعدہ کر لیا ہے ، لہٰذا ان کی کسی بھی غلطی یا لغزش کا تذکرہ بطورِ تنقیص ، تحقیر یا تنقید قطعاً جائز نہیں ہے ۔

اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق تمام علماء ، محدثین ، علماء جرح و تعدیل (یعنی محدثین کی وہ جماعت جو حدیث نقل کرنے والوں کو پرکھتے ہیں اور انتہائی باریک بینی سے ان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں) اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ : الصحابۃ کلہم عدول ۔
ترجمہ : صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل اور معتبر ہیں ۔ (فتح الباری لابن حجر، ج: ۲، ص:۱۸۱، ط: دار المعرفۃ)(عمدۃ القاری للعینی ، ج: ۱، ص:۱۵۸، ط:دار احیاء التراث العربی،چشتی)

علامہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۸۰۶ھ) فرماتے ہیں : ’’للصحابۃ بأسرہم خصیصۃ وہي: أنہ لایسأل عن عدالۃ أحد منہم، بل ذلک أمر مفروغ منہ، لکونہم علی الإطلاق معدلین بنصوص الکتاب والسنۃ وإجماع من یعتد بہ في الإجماع من الأمۃ ۔۔۔۔۔۔ ثم إن الأمۃ مجمعۃ علی تعدیل جمیع الصحابۃ ومن لابس الفتن منہم : فکذلک بإجماع العلماء الذین یعتد بہم في الإجماع إحسانا للظن بہم ونظرا إلی ما تمہد لہم من المآثر وکان اللہ سبحانہ وتعالٰی أتاح الإجماع علی ذٰلک لکونہم نقلۃ الشریعۃ ۔ واللہ اعلم ۔ (علوم الحدیث لابن الصلاح، النوع التاسع والثلاثون، معرفۃ الصحابۃؓ، ص:۲۹۴-۲۹۵، ط:دارالفکر،چشتی)

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں : ’’کل حدیث اتصل إسنادہٗ بین من رواہ وبین النبي لم یلزم العمل بہٖ إلا بعد ثبوت عدالۃ رجالہ، ویجب النظر في أحوالہم، سوی الصحابي الذی رفعہ إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لأن عدالۃ الصحابۃؓ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لہم وإخبارہ عن طہارتہم، واختیارہ لہم في نص القرآن ۔۔۔۔۔ في آیات یکثر إیرادہا ویطول تعدادہا، ووصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصحابۃ مثل ذلک، وأطنب في تعظیمہم، وأحسن الثناء علیہم۔‘‘    (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ماجاء فی تعدیل اللہ ورسولہ للصحابۃ، ج:۱، ص:۱۸۰-۱۸۱، ط:مکتبۃ ابن عباس)

امام ابن عبد البر اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں : ہم صحابتہ الحواریون الذین وعوہا وأدوہا ناصحین محسنین، حتی کمل بما نقلوہ الدین، وثبتت بہم حجۃ اللہ تعالٰی علی المسلمین، فہم خیر القرون، وخیر أمۃ أخرجت للناس، ثبتت عدالۃ جمیعہم بثناء اللہ عز وجل علیہم وثناء رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا أعدل ممن ارتضاہ اللہ لصحبۃ نبیہ ونصرتہ، ولاتزکیۃ أفضل من ذلک، ولاتعدیل أکمل منہ ۔۔۔۔۔۔ عن زر بن حبیش، عن عبد اللہ بن مسعود، قال: ’’إن اللہ نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم خیر قلوب العباد فاصطفاہ وبعثہ برسالتہ، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، فوجد قلوب أصحابہ خیر قلوب العباد، فجعلہم وزراء نبیہ یقاتلون عن دینہ ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، مقدمۃ المؤلف، ج:۱، ص:۱-۱۳، ط:دار الجبل، بیروت،چشتی)

منح الروض الأزہر فی شرح الفقہ الأکبر میں ہے : ولانذکر الصحابۃ أي مجتمعین ومنفردین ۔ (وفي نسخۃ : (ولانذکر أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ) إلا بخیر ۔ یعنی وإن صدر من بعضہم بعض ما ہو في الصورۃ شرّ، فإنہ إما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من إصرار وعناد، بل کان رجوعہم عنہ إلی خیر معاد بناء علی حسن الظن بہم ، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام : ’’خیرالقرون قرني‘‘ ، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ’’إذا ذکر أصحابي فأمسکوہ‘‘ ، ولذٰلک ذہب جمہور العلماء إلی أن الصحابۃ رضي اللہ عنہم کلہم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلي وکذا بعدہما، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ’’أصحابي کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ رواہ الدارمي وابن عدي وغیرہما ۔ (منح الروض الأزہر فی شرح الفقہ الاکبر، ملاعلی قاری ،ص:۲۰۹-۲۱۰، طبع: دار البشائر الاسلامیہ،چشتی)
یعنی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کا بھی خیر کے سوا تذکرہ نہیں کرتے ۔

المسامرۃ شرح المسایرۃ میں ہے : (واعتقاد أہل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنہم وجوباً، بإثبات العدالۃ لکل منہم، والکف عن الطعن فیہم،  (والثناء علیہم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالٰی علیہم) ۔‘‘ (المسامرۃ شرح المسایرۃ في العقائد المنجیۃ في الآخرۃ، ص:۲۶۵- ۲۶۶، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے متعلق اہلِ سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ تمام صحابہ رضہ اللہ عنہم کو لازمی طور پر غیر مجروح قراردیں ، سب کو عادل مانیں اور تمام کے بارے میں زبانِ طعن سے احتراز کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اوصاف ومحامد کے مطابق تذکرۂ خیر ہی کریں ۔

محترم قارٸینِ کرام : اہلِ حق جملہ اہلسنت و جماعت کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی تحقیر وتنقیص جائز نہیں ، بلکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو عظمت و محبت سے یاد کرنا لازم ہے ، کیونکہ یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور امت کے درمیان واسطہ ہیں ، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے رسالہ ’’فقہ اکبر‘‘ میں فرماتے ہیں :ولانذکر الصحابۃ ، وفي نسخۃ : ولانذکر أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ) إلا بخیر ۔ (شرح فقہ اکبر، ملاعلی قاری ،ص:۸۵، طبع: مجتبائی۱۳۴۸ھ)
ترجمہ : اور ہم صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو (اور ایک نسخہ میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو) خیر کے سوا یاد نہیں کرتے ۔

امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنے عقیدہ میں فرماتے ہیں : ونحب أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ولانفرط في حب أحد منہم، ولانتبرأ من أحد منہم، ونبغض من یبغضہم، وبغیر الخیر یذکرہم، ولانذکرہم إلا بخیر، وحبہم دین وإیمان وإحسان، وبغضہم کفر ونفاق وطغیان ۔ (عقیدۃ الطحاوی، ص:۶۶)
ترجمہ : اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں ، ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و تفریط نہیں کرتے اور نہ کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں ، اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو اُن میں سے کسی سے بغض رکھے یا ان کو ناروا الفاظ سے یاد کرے ۔ ان سے محبت رکھنا دین وایمان اور احسان ہے ، اور ان سے بغض رکھنا کفر ونفاق اور طغیان ہے ۔

امام ابوزرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم الرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۶۴ھ) کا یہ ارشاد بہت سے اکابر علیہم الرّحمہ نے نقل کیا ہے کہ : إذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم أنہ زندیق، وذلک أن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عندنا حق، والقرآن حق، وإنما أدی إلینا ہذا القرآن والسنن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وإنما یریدون أن یجرحوا شہودنا لیبطلوا الکتاب والسنۃ، والجرح بہم أولٰی وہم زنادقۃ ۔ (مقدمہ العواصم من القواصم صفحہ ۳۴،چشتی)
ترجمہ : جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے نزدیک حق ہیں اور قرآن کریم حق ہے اور قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمودات ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی نے پہنچائے ہیں ، یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرح کرکے ہمارے دین کے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ کتاب وسنت کو باطل کردیں، حالانکہ یہ لوگ خود جرح کے مستحق ہیں ، کیونکہ وہ خود زندیق ہیں ۔

جس طرح کسی ایک نبی علیہ السّلام کی تکذیب پوری جماعت انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب ہے ، کیونکہ دراصل یہ وحیِ الٰہی کی تکذیب ہے ۔ ٹھیک اسی طرح کسی ایک خلیفہ راشد کی تنقیص خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت کی تنقیص ہے ، کیونکہ یہ در اصل خلافتِ نبوت کی تنقیص ہے ۔ اسی طرح جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کی تنقیص وتحقیر پوری جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم کی تنقیص ہے ، کیونکہ یہ دراصل صحبتِ نبوت کی تنقیص ہے ۔ اسی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ اللہ في أصحابي ، لا تتخذوہم غرضا بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضی أبغضہم ۔ (جامع ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۶)
ترجمہ : میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ! ان کو میرے بعد ہدفِ ملامت نہ بنالینا ، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔

خلاصہ یہ کہ ایک مسلمان کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنا اور انہیں خیر کے ساتھ یاد کرنا لازم ہے ، خصوصاً حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد نیابتِ نبوت کا منصب حاصل ہوا ۔ اسی طرح وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہِ عالی میں محب و محبوب ہونا ثابت ہے ، ان سے محبت رکھنا حُبِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی علامت ہے ۔ اس لیے امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس کو دین وایمان اور احسان سے تعبیر فرماتے ہیں اور ان کی تنقیص وتحقیر کو کفر ونفاق اور طغیان قرار دیتے ہیں ۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ، صحابہ و صحابیات ، ازواجِ مطہرات اور صاحبزادیاں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (عقیدة الطحاویہ)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو

حضرت صحابۂ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کی زندگی اور ان کا کردار ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ ہے، اللہ تعالی نے صحابۂ کرام کے ایمان کو معیار اور کسوٹی قرار دیا ،راہ ھدایت پر وہی شخص ہے جس کا ایمان وعقیدہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان وعقیدہ کے موافق رہے ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔
ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ نمبر 554)(زجاجۃ المصابیح جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 334)

حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن،چشتی)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
تخریج حدیث قاضی عیاض
اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم- « اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ، پس جس کسی نے ان سے محبت کی تو بالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینا اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225، ابواب المناقب، باب فيمن سب أصحاب النبى - صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر:4236،چشتی)

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِى ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ۔
ترجمہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کو گالی نہ دو تم میں سے اگر کوئي احد پہاڑکے برار سونا خیرات کرے تب بھی وہ صحابہ کے پاؤ سیر جو خیرات کرنے کی برابری نہیں کرسکتا ہے - (صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر:3673)

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظيم وتوقیر کا اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے، صحابۂ کرام نے آپ کے ادب وتعظیم کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ جنکی نظیر نہیں ملتی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم وتعظيم کو دیکھ کر اغیار بھی کہنے لگے : جو قوم اپنے نبی کا اتنا ادب اور تعظیم کرتی ہو اس قوم سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔

حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ادب وتعظيم کو دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگے: میں نے دنیا کے بادشاہوں کے دربار دیکھے لیکن کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اسقدر تعظیم کرتے نہيں دیکھا جس طرح صحابۂ کرام اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہيں ، قسم بخدا آپ جب ناک شریف صاف فرماتے تو وہ مبارک پانی زمین پر پہونچنے سے پہلے صحابہ اپنے ہاتوں میں لے لیتے اور اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے،جب آپ کلام فرماتے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم کو دیکھ کر دشمن بھی صلح پر آمدہ ہوگئے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ہر وقت پیکر ادب بنکر حاضرہوتے اور حددرجہ آپ کی تعظیم کرتے ۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَهَبَ إِلَى بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِى بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّى لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ قَالَ نَعَمْ . فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلموَالنَّاسُ فِى الصَّلاَةِ ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِى الصَّفِّ ، فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَلْتَفِتُ فِى صَلاَتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه يَدَيْهِ ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ ذَلِكَ ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِى الصَّفِّ ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ . فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لاِبْنِ أَبِى قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّىَ بَيْنَ يَدَىْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الأذان، باب من دخل ليؤم الناس فجاء الإمام الأول فتأخر الأول أو لم يتأخر جازت صلاته . حدیث نمبر:684) ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے ، پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاچکے ہیں ، فورا پیچھے آگئے ،نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کی اتو عرض گزار ہوئے : ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز بھی پڑھ سکے ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ'' ۔
ترجمہ : اللہ سے ڈرو ۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں ، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا ، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر ، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر ، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی ، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۶۶۲)

شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔(اشعۃ اللمعات،ج 4،ص641)

قرآن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا چنانچہ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھ) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے، جمہور(یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں:جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ ،ج6،ص395 ،تحت الحدیث:4699،چشتی)

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ ۔۔۔ شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھ) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مقام نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری جلد 6 صفحہ 442 تحت الحدیث 3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ کی فضیلت محض”رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت“اور”وحی کا زمانہ پانے“کی وجہ سے تھی، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّمکی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح جلد 6 صفحہ 286 تحت الحدیث:4699)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا،یہ ہی حال روزہ ،نماز اور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُناہے تو جنہوں نے حضورِ اکرم (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا!یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے۔مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لئے چُنا،مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 335،چشتی)

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا انعام حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں چالیس ایسے تابعینِ عظام کو ملا جو سب ہمیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت(یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ جلد 2 صفحہ 1063، حدیث:2337)

شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھیے

صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)

سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہسے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں : وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)

یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی،ج5،ص463،حدیث:3888،چشتی)

استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل کی تفصیل تو قیامت تک ہی ختم نہ ہوگی۔ البتہ اجمال کے طورپر یہ عرض کردوں کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھی ہیں اور کسی کی فضیلت اور عظمت کو سمجھنے کےلیے اس کی نسبت اور اضافت کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ۔ جس طرح ’’رسول اللہ‘‘ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ضمانت ہے عظمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اضافت اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سند اور ضمانت ہے عظمت اور فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ۔

مقامِ صحابیت

فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے متعلق صرف ایک بات عرض کردوں کہ تمام جہانوں کے اغواث‘ ابدال‘ اقطاب‘ صلحاء‘ نقباء‘ عرفا اور تمام عابدین‘ عارفین ‘ متقین‘ مومنین‘ صالحین اور اولیاء کاملین جمع ہو جائیں اور ان میں سے کسی نے سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جمال پاک اپنی ظاہری آنکھوں سے اپنی حیات ظاہری میں نہ دیکھا ہو مگر سینکڑوں برس انہوں نے اتقاء اختیار کیا ہو‘ سینکڑوں برس انہوں نے شب بیداری سے کام لیا ہو‘ راتوں کو جاگ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہو اور ان میں روزے رکھے ہوں‘ حج کیے ہوں‘ زکواۃ دی ہو اور کوئی نیکی بھی نہ چھوڑی ہو مگر خدا کی قسم ! اس کے باوجود یہ سب مل کر بھی ایک صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے لیے سجدے کرنے کا وہ ثواب نہیں رکھا جو ایمان اور محبت کے ساتھ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دیکھنے کا ثواب رکھا ہے ۔ بخاری شریف میں حدیث ہے ۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غزوہ احد میں جلوہ فرما تھے اور ایک مشرک جس کے چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں بھری ہوئی تھیں کھاتا ہوا آرہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت شامل حال ہوئی اور اس کی نگاہ جمال نبوت پر پڑی ۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مقدسہ تو منبع فیوض و برکات ہے چنانچہ اس کی نگاہ جمال مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جب پڑی تو دل کی گہرائیوں میں اتر گئی اور وہ کہنے لگا ۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُقَاتِلْ اَوْ اُسْلِمْ ۔ سرکار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے بتائیے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دشمنوں سے لڑوں ؟ کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لاٶں اور کلمہ پڑھوں ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : اَسْلِمْ تُمَّ قاَتِلْ ، تو پہلے ایمان لائو اور کلمہ پڑھ اور پھر جہاد کر ۔

دوسری بات اس نے یہ پوچھی کہ اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دشمنوں سے لڑتے لڑتے قتل ہوجاٶں تو میرا ٹھکانا کہنا ہوگا ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : تیرا ٹھکاناجنت ہوگا یعنی تو سیدھا جنت میں جائے گا ۔ یہ سن کر کھجوریں اس نے پھینک دیں فوراً کلمہ شہادت پڑھ کر ایمان لایا‘ تلوار سنبھالی اور کافروں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا ۔ اللہ اکبر ۔ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نگاہ پاک اس شخص کی لاش پر جب پڑی تو حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : عَمِلَ قَلِیْلاً وَاُجِرَ کَثِیْرًاً ، اس شخص نے عمل تو تھوڑے کیئے مگر ثواب بہت پاگیا ۔

یہ تو بخاری شریف میں ہے اور یہی روایت طرق متعددہ سے دیگر محدثین نے روایت کی ہے ۔ مسند ابو یعلی سنن ابو دایود اور مصنف عبدالرزاق میں یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : اسے دیکھو! اسلام لایا‘ ایک سجدہ کرنا نصیب نہیں ہوا اور سیدھا جنت میں چلا گیا ۔

اور بات بالکل سچی ہے ایک سجدہ کرنا نصیب نہیں ہوا نماز پڑھنے اور عبادت کرنے کا تو اسے موقع ہی نہیں ملا‘ نہ حج کرنے کا موقع ملا نہ زکواۃ دینے کا لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایمان لانے کے بعد اس نے اپنی محبت بھری نگاہوں سے سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا یا نہیں دیکھا ؟ ہاں دیکھا ۔ اللہ اکبر ۔ سارے غوثوں قطبوں کو جمع کرلو سب کا اتنا مرتبہ نہیں جتنا اس اکیلے شخص کا مرتبہ ہے میں کہتا ہوں کروڑوں اغواث و اقطاب کی فضیلت اس کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جمال پاک اس نے محبت و ایمان کیساتھ اپنی حیات ظاہری میں اپنی نظروں سے دیکھا اور خدا نے سجدوں کا وہ ثواب نہیں رکھا جو ایمان و محبت کیساتھ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھنے کا رکھا ہے تو ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی عبادت تو کئی بجا لا ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ان کی عظمت و فضیلت کی ضمانت وہ اضافت و نسبت ہے جو ذات رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  کی طرف ہو رہی ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے عداوت

یہاں اتنی بات اور عرض کردوں کہ جن لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے کوئی بغض ہے تو وہ سمجھ لیں کہ یہ بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ اس ذات پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے جن کی طرف ان کی نسبت ہے اور جن کی صحبت ان کو حاصل ہے اور یہی بات میں اہل بیت اطہار کے بارے میں کہوں گا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آل پاک ہی مضاف ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات کی طرف اور اس آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمتوں کی ضمانت ہی اضافت و نسبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی عظمت کی ضمانت بھی وہ نسبت رسول ہے ۔ ہم آل پاک کو اس لیے مانتے ہیں کہ وہ آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی اس لیے مانتے ہیں کہ وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ۔ (مقالات کاظمی جلد چہارم سے ماخوذ)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت میں بھی عادل ہیں اور اپنے اعمال میں بھی ۔ ان سے اگر کوئی لغزش ہوئی تو یا تو اجتہادی خطاہے ، جس پر وہ ماجور ہیں ، یا اگر کبھی گناہ ہوا، تو انہوں نے اس سے فوراً توبہ کرلی ، اور ایسا گناہ جس کے بعد فوراً توبہ کرلی جائے عدالت کے منافی نہیں ۔ بہرحال ان کی تقلید کا اور ان پر تنقید نہ کرنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حکم فرمایا ہے ۔ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں ، وہ اہل سنت و جماعت سے نہیں ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...