Wednesday, 15 November 2023

نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہادِ اسلامی

نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہادِ اسلامی








محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک لقب نبی الملاحم ہے (یعنی ملحمون کا نبی) ملحمہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں بہت کثرت سے قتل و قتال ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس نام کی وجہ ظاہر ہےکہ جہاد جس قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کی امت میں ہوا اتنا کسی نبی علیہ السلام کی امت مے نہں ہوا ۔ نیز اس امت میں ہمیشہ رہے گا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں جہاد قیامت تک رہے گا ۔ حتیٰ کہ آخری حصہ امت دجال سے قتال کرے گا ۔ نیر ملحمہ کے معنیٰ فتنہ عظیم کے بھی ہے اس معنیٰ کے اعتبار بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام صحیح ہے اس لیے کہ اس امت میں قیامت کے قریب ایسے بڑے اور سخت فتنے پیدا ہونگے جن کی نظیر کسی نبی علیہ السلام کی امت میں نہیں ہے ۔ ایک دجال ہی کافتنہ ایسا سحت ہے کہ حد نہیں ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر ہر نبی علیہ السلام نے دجال کے فتنے لوگوں کو ڈرایا ہے ۔ ایسے ہی یاجوج ماجوج کا حروج وغیرہ سخت حوادث آنے والے ہیں جن کے آثار شروع ہو چکے ہیں ۔

حدثنا محمد بن طريف الكوفي ، قال : حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن حذيفة قال : لقيت النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم في بعض طرق المدينة فقال : انا محمد ، وانا احمد ، وانا نبي الرحمة ، ونبي التوبة ، وانا المقفى ، وانا الحاشر ، ونبي الملاحم ۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کے کسی راستہ میں ملا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں محمد ہوں، میں احمد ہوں ، میں نبی رحمت ہوں ، میں نبی توبہ ہوں ، میں سب سے پیچھے آنے والا ہوں ، میں حاشر ہوں اور میں جنگوں کا نبی ہوں ۔ (شمائل ترمذی بَابُ : مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حدیث نمبر 366)(كشف الاستار جلد 3 صفحہ 120 حدیث نمبر 2378،چشتی)(مسند احمد جلد 5 صفحہ455)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُسَمَّی فِي الْکُتُبِ الْقَدِيْمَةِ : أَحْمَدُ ، وَ مُحَمَّدٌ ، وَالْمَاحِي ، وَالْمُقَفِّي ، وَنَبِيُّ الْمَـلَاحِمِ، وَحَمَطَايَا، وَفَارْ قَلِيْطَا وَمَاذِمَاذَ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ کتب میں اَحمد ، محمد ، ماحی ، مقفِی ، نبی الملاحم ، حمطایا ، فارقلیط اور ماذماذ کا اسمِ گرامی عطا کیا گیا تھا ۔ (الخصائص الکبری جلد 1 صفحہ 133)

امام احمد و ابن سعد و ابن ابی شیبہ اور امام بخاری تاریخ اور ترمذی شمائل علیہم الرحمہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے راوی ، مدینہ طیبہ کے ایک راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ملے ارشاد فرمایا : انا محمد وانا احمد وانا نبی الرحمۃ ونبی التوبۃ وانا المقفی وانا الحاشر و نبی الملاحم ۔
ترجمہ : میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں رحمت کا نبی ہوں ، میں توبہ کا نبی ہوں ، میں سب میں آخر نبی ہوں ، میں حشر دینے والا ہوں ، میں جہادوں کا نبی ہوں ، صلی علیہ وآلہ وسلم ۔ (شمائل الترمذی مع جامع الترمذی باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ الخ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲/ ۵۹۷)(مسند احمد بن حنبل، حدیث حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ، دارالفکربیروت، ۵/ ۴۰۵)

ابن سعد مجاہد مکی سے مرسلاً راوی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : انا محمد واحمد انا رسول الرحمۃ انا الملحمۃ انا المقفی والحاشر ۔
ترجمہ : میں محمد واحمد ہوں ، میں رسول رحمت ہوں ، میں رسول جہاد ہوں ، میں خاتم الانبیا ہوں ، میں لوگوں کو حشر دینے والا ہوں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر اسماء الرسول  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  دارصادر،بیروت،۱/ ۱۰۵،چشتی)

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمَخْزُومِيُّ ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَنَا أَحْمَدُ ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰى قَدَمِي ، وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ ۔
ترجمہ : حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے بہت سے نام ہیں جن میں سے ایک محمد اور ایک احمد ہے اور میں ماحی ہوں ، میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہےاور میں حاشر ہوں کہ لوگ میرے سامنے قیامت کے دن جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میری ملاقات مدینہ منورہ کے ایک بازار میں ہو گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں ، احمد ہوں ، نبی الرحمۃ ، نبی التوبہ ، مُقَفّٰی اور نبی الملاحم ہوں ۔

(1) : ”نبی الرحمۃ“ کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا ۔

(2) ”نبی التوبۃ“ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق کی توبہ قبول کی ہے اتنی کسی اور نبی کی امت کی قبول نہیں کی ۔

(3) : ”اَلْمُقَفّٰی“ سب سے پیچھے آنے والا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی سب نبیوں کے بعد تشریف لائے تھے ۔

(4) : ” نَبِیُّ الْمَلَاحِمِ“ سخت جنگوں والا نبی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود تقریباً ستائیس جنگوں میں شرکت فرمائی ہے ۔ جس قدر جہاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نے کیاہےاور کسی امت نے نہیں کیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء مبارک بہت زیادہ ہیں ۔ ہر نام کسی نہ کسی صفت کو ظاہر کرتا ہے ۔ کسی ایک روایت میں تمام ناموں کا یکجا تذکرہ بھی نہیں ہے ۔ علامہ سخاوی علیہ الرحمہ نے آپ کے چار سو ، علامہ سیوطی علیہ الرحمہ نے پانچ سو اور امام ابوبکر ابن العربی علیہ الرحمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ہزار نام مبارک ذکر فرمائے ہیں ۔ (جمع الوسائل مع الہامش جلد 2 صفحہ 226)

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس آدمی کو فی سبیل اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کر دیں اس پر اللہ تعالی کا غضب شدت اختیار کر جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4073،چشتی)(صحیح مسلم حدیث نمبر 1793)

امام نووی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان (اللہ تعالی کے راستہ میں) اس شخص سے احتراز ہے جسے حدا یا قصاص میں قتل کیا جاۓ ، اس لیے کہ جسے وہ فی سبیل اللہ قتل کریں وہ بھی اس میدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے قصد سے آیا تھا ۔

ابی بن خلف کے علاوہ کسی اور کے متعلق تو علم نہيں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ کسی کوقتل کیا ہو ۔

اسے ابن جریر اور امام حاکم رحمة اللہ علیہ نے سعید بن مسیب اور زھری رحمہما اللہ سے روایت کیا اور علامہ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 296 ) اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔

ابن قیم جوزیہ غزوہ احد کے سیاق میں کھتے ہیں : اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی جانب آۓ تو سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود کے نیچے سے پہچاننے والے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ تھے وہ انہیں دیکھتے ہی اونچي آواز سے پکارنے لگے : مسلمانوں خوش ہو جاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہیں ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہيں چپ رہنے کا اشارہ کیا ، اور مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہو گۓ تو وہ ان کے ساتھ اس گھاٹی کی طرف نکل گۓ جہاں پرپڑا‎ؤ‎ کیا ہوا تھا ۔ ان میں ابوبکر و عمر اور علی و حارث بن الصمہ انصاری رضی اللہ عنہم بھی تھے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم پہاڑ کے دامن میں پہنچے تو ابی بن خلف جوکہ اپنے گھوڑے العوذ پر سوار تھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جا لیا تو اللہ کا دشمن یہ سمجھ بیٹھا کہ اس کے ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہو جائيں گے ۔ جب وہ ان کے قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے نیزہ لیا اور اس سے ابی بن خلف کو مارا جو کہ اس کی حلق پر لگا تو اللہ کا دشمن شکست خورہ ہو کر الٹے پا‏‎ؤ‎ں واپس بھاگا ، تو مشرک اسے کہنے لگا اللہ کی قسم تجھے تو کچھ بھی تکلیف نہیں ، تو وہ انہیں کہنے لگا : اللہ کی قسم جو کچھ مجھے ہوا ہے اگر وہی اہلِ مجاز کو ہوتا تو وہ سب کے سب ھلاک ہو جاتے ، وہ مکہ میں اپنے گھوڑے کو چارہ کھلاتے ہوۓ کہتا کہ میں اس پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرونگا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ بات پہنچی تو فرمانے لگے ان شاء اللہ اسے تو میں قتل کرونگا ۔ جب جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نیزہ مارا تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یاد آیا کہ اسے میں قتل کرونگا ، تو اسے یہ یقین ہو گیا کہ وہ اسی زخم سے ضرور مقتول بنے گا ، تو وہ اسی زخم کی وجہ سے مکہ کی طرف واپس جاتے ہوۓ سرف نامی جگہ پر پہنچ کر مر گیا ۔ (زاد المعاد جلد 3 صفحہ 199،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی سرایا بھی روانہ فرمائے ۔ اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد تقریباً چھپن تھی ، جن میں سے دوسرایا کو خاص شہرت حاصل ہوئی ، ایک تو سریہ’’موتہ‘‘ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیادہ توجہ وکثرت التفات کی وجہ سے ’’غزوہ موتہ‘‘ کہلایا ۔ اوردوسرا ’’جیشِ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما ۔

تاریخِ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا حکم مدنی دور میں نازل ہوا ۔ آغاز میں صرف اپنے دفاع کےلیے لڑنے کی اجازت دی گئی ، اسے ’’دفاعی جہاد‘‘ کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ’’اقدامی جہاد‘‘ کی بھی اجازت مل گئی ، اسلام کا آخری غزوہ ’’تبوک‘‘ بھی ایک ’’اقدامی جہاد‘‘ تھا ۔ ہم یہاں ان چھوٹے چھوٹے جہادی دستوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تشکیل دیے اور اپنے کسی صحابیؓ کو امیر بنا کر روانہ فرمایا ، حدیث وسیرت کی کتابوں میں ان دستوں کےلیے ’’سرایا‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ ’سرایا‘‘ عربی زبان کے لفظ ہے اور ’’سریّہ‘‘ کی جمع ہے جس کے معنیٰ فوج کی تھوڑی سی تعداد اور مختصر لشکر کے آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ عربی زبان کی جنگی اصطلاحات میں سرِیہ رات کے وقت جانے اورساریہ دن کے وقت نکلنے کےلیے بولا جاتا ہے ، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں لشکر کا جانا پوشیدہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک لشکر کا وہ حصہ جو اس لشکر سے نکلتا ہے اور اسی میں واپس آتا ہے ، وہ بھی سریہ کہلاتاہے ۔ سریہ کے شرکا کی تعداد زیادہ سے زیادہ 500 پانچ سو تک ہوتی ہے ۔ (المواہب اللدنیہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صفاتی نام یا لقب ’’نبی الملاحم‘‘ بھی ہے ،یعنی جنگوں والے نبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جہاں تقریباً اٹھائیس غزوات کا تذکرہ ملتا ہے ، وہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی سرایا بھی روانہ فرمائے ۔ اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد تقریباً چھپن تھی ، جن میں سے دو سرایا کو خاص شہرت حاصل ہوئی ، ایک تو سریہ ’’موتہ‘‘ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیادہ توجہ و کثرت التفات کی وجہ سے ’’غزوہ موتہ‘‘ کہلایا ۔ اوردوسرا ’’جیشِ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما‘‘ ۔

مختصر طور پر یہ جان لیجیے کہ : سریہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ : رمضان1 ھ میں ، سریہ عبیدہ بن حارث ؓ:شوال 1ھ میں،سریہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ :ذی القعدہ 1 ھ ، میں ، سریہ عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ : رجب 2 ھ میں ، سریہ عمرو بن عدی رضی اللہ عنہ : رمضان 2 ھ میں ، سریہ سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ برائے قتل ابورفک:شوال 2 ھ میں ، سریہ برائے قتلِ کعب بن اشرف : ربیع الاول 3 ھ میں ، سریہ زید بن حارث رضی اللہ عنہ ، سریہ ابو سلمہ بن عبدالاسد ، سریہ عبد اللہ بن انیس : محرم 4 ھ میں ، سریہ مرثد بن ابی مرثد ، صفر 4ھ میں ، سریہ محمد بن مسلمہ : محرم 6ھ ، سریہ عبد اللہ بن عتیک برائے قتل ابو رافع یہودی : جمادی لثانی6ھ میں ، سریہ سعید بن زید اور سریہ عکاشہ بن محصن : ربیع الاول 6 ھ میں ، سریہ محمد بن مسلمہ : ربیع الثانی 6 ھ میں ، سریہ ابو عبیدہ بن جراح : ربیع الثانی 6ھ میں ، سریہ زید بن حارثہ : ربیع الثانی 6 تا رجب 6 ھ میں ، سریہ عبدالرحمن بن عوف ، سریہ زید بن حارثہ اور سریہ علی بن ابی طالب : شعبان 6ھ میں ، سریہ زید بن حارثہ : رمضان 6ھ میں ، سریہ عبد اللہ بن رواحہ : شوال 6ھ میں ، سریہ عمر بن خطاب ، سریہ ابو بکرصدیق ، سریہ بشیر بن سعد ، سریہ غالب بن عبد اللہ اللیثی ، سریہ بشر بن سعد انصاری اور سریہ ابن ابی العوجا : ذی الحجہ 7 ھ میں ، سریہ غالب بن عبد اللہ لیثی : صفر 8ھ ، سریہ شجاع بن وھب اسدی ، سریہ کعب بن عمیر غفاری ، غزوہ موتہ اورسریہ عمرو بن العاص : جمادی الاخری 8ھ میں سریہ خبط ، جسے عنبر نامی مچھلی کے واقعے کی وجہ سے سریہ عنبر بھی کہتے ہیں : رجب 8ھ میں ، سریہ ابو قتادہ ، سریہ ابوحدرد اسلمی اور سریہ خالد بن ولید ، سریہ اوطاس ، سریہ عمرو بن عاص ، سریہ سعد بن زید رمضان 8ھ میں ، سریہ خالد بن ولید : شوال 8ھ میں ، سریہ طفیل بن عمرو الدوسی اور سریہ عیینہ بن حصن الفزاری : محرم 9ھ میں ، سریہ قطبہ بن عامر ، سریہ ضحاک بن سفیان کلابی ، سریہ علقمہ بن مجز زمدلجی : ربیع الثانی 9ھ میں ، سریہ علی ابن طالب ، سریہ عکاشہ بن محصن اور سریہ خالد بن ولید،یہ تیسرا سریہ تھا جو سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کی سربراہی و امارت میں ہوا ۔ ربیع الثانی 9ھ میں واقع ہوئے ۔ (سیرت ابن اسحق ۔ کتاب المغازی ۔ غزواة النبی ﷺ ۔ المواہب الدنیہ ۔ مدارج النبوت ۔ ضیاالنبی ﷺ ۔ سیرت حلبیہ)

(1) سریہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ : یہ سریہ رمضان شریف ۱ ؁ھ میں واقع ہوا ۔ اس کے قائد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ور رضائی بھائی اسد اللہ والرسول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ اس سریہ میں تیس مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم شریک ہوئے ، جب کہ دشمن کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی ۔ مقابلہ ایک قریشی قافلے سے تھا ، جو شام سے سامانِ تجارت لے کر آرہا تھا ۔ اس قافلے کا سردار ابو جہل تھا ۔ اس کی فوج تین سو فوجیوں پرمشتمل تھی ۔ مسلمانوں کا ارادہ تھا کہ ابو جہل کے قافلے پر حملہ کیا جائے ، جو پورے شہر کا سامان تجارت لے کر آرہا تھا ، تاکہ کفار پر معاشی ضرب لگائی جائے ، جس سے ان کے ظلم کا زور ٹوٹ جائے ۔

(2) سریہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ : یہ سریہ شوال ۱ ؁ھ میں واقع ہوا ۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اس کے قائد تھے ۔ یہ سریہ ابو سفیان کے عزائم کو ناکام بنانے کےلیے تھا ، جو بطنِ رابغ کے مقام پر دو سو آدمی لے کر مدینہ پر حملہ کی عرض سے پہنچنے والا تھا ۔ اس سریہ میں ساٹھ مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم شریک ہوئے ۔ اس میں بھی کفار تعداد میں کہیں زیادہ ، تقریباً ۲۰۰ کے قریب تھے ۔ جنگ کی تو نوبت نہ آسکی البتہ تیر اندازی ہوئی ۔ یہی وہ سریہ ہے جس میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے اسلام کی طرف سے پہلا تیر چلایا تھا ۔

(3)سریہ حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور پہلی غنیمت : حضرت عبد اللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کا دستہ سب سے پہلا دستہ ہے ، جس نے غنیمت حاصل کی ، اس اعتبار سے یہ سریہ قابلِ ذکر ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن حجش رضی اللہ عنہ اس کے سردار تھے ، اس دستے میں بارہ مہاجرین تھے ۔ ان کو مقام نخلہ پر قریش کے تجارتی قافلے کی خبر لانے کے کیے بھیجاگیا تھا ، اُس قافلے کے اندر عمرو بن حضرمی اور عبد اللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل قابل ِذکر تھے ۔ وہاں اتفاقی طور پر جنگ کی سی صورت حال پیش آگئی ۔ اِس دستے نے سب سے پہلے دو آدمی گرفتار کیے اور ایک کو قتل کر دیا۔ یہ جنگ اتفاق سے رجب کے مہینے میں پیش آئی تھی ، جو حرمت والے مہینوں میں سے ہے ، جن میں جنگ اور قتل و قتال کی ممانعت ہے ، اس وجہ سے کفار نے بہت کچھ اعتراض بھی کیے ۔

(4) سریہ بئرِ معونہ : یہ سریہ ماہ صفر ۴ ؁ھ میں لڑا گیا ۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کی سرداری حضرت منذر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس تھی ۔ مسلمانوں کی تعداد صرف ستّر حفاظِ قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی ، جب کہ ان کے پاس سامان جنگ بھی نہ ہونے کے برابر تھا ، کیوں کہ یہ لوگ جنگ کے لیے نہیں گئے تھے ، بلکہ ابو براء عامر کی پُر فریب درخواست کی بنا پر نجد میں تبلیغ کی خاطر نکلے تھے ، کہ راستے میں عامر ، رعل ، ذکوان ، اور عصیہ کے قبیلے والوں نے حملہ کر دیا اور سب کو شہید کر دیا ۔ مگر بعد میں یہ قبیلے مسلمان ہوگئے تھے ۔

(5) غزوہ موتہ : یہ لڑائی جمادی الاولیٰ ۸ ؁ھ میں ہوئی ۔ اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بصریٰ کے حاکم ’’ شرجیل ‘‘ کو دعوتِ اسلام دینے کےلیے حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کواپنے نامہ مبارک کے ساتھ روانہ کیا ۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفیر کو شہید کر دیا ، اس کی سزا کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ لشکر روانہ کیا ۔ اس لشکر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تو شرکت نہیں فرمائی تھی ، لیکن پھر بھی اسے غزوہ اس لیے کہا گیا ،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لشکر کو بہت خاص خاص نصیحتیں فرمائی تھیں ۔ اسلامی فوج کی تعداد صرف تین ہزار تھی، جبکہ شرجیل کی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی ۔ اسلامی لشکر کا سردار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا گیا ، مگر ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ اگر یہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا جائے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا جائے ۔ وہ بھی شہید ہو جائیں ، تو مسلمان جس کو چاہیں اپنا امیر بنالیں ۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا کفار کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر رعب بٹھایا کہ دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق تینوں علم بردار شہید ہو گئے ، ان کے بعد جھنڈا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہوں نے دشمن کا اس زور سے مقابلہ کیا کہ فتح ونصرت نے اسلامی لشکر کے قدم چومے اور کفار کا سب غرور خاک میں مل گیا ۔

(6) سریہ غالب بن عبداﷲ لیثی رضی اللہ عنہ : یہ سریہ صفر 8ھ میں ہوا ، مکہ سے 42 میل کے فاصلے پر واقع مقامِ کدید کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غالب بن عبد اللہ لیثی کو تقریبا پندرہ سولہ افراد کے ساتھ صفر 8 بنی ملوح قبیلے کی سرکوبی کےلیے بھیجا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہدایت کی کہ دشمن پر اچانک حملہ کر دینا ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اچانک ان پر حملہ کر دیا اور بہت سے مویشی لے آئے ۔ بنی ملوح ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے ، مگر اللہ تعالی نے دشمن اور نبوی لشکر کے درمیان سیلابی پانی کو حائل کر دیا جس کی وجہ سے وہ ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے ۔اس سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی رضی اللہ عنہ کو حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کا بدلہ لینے کےلیے بھیجا ۔ فدک کے مقام پر حضرت غالب رضی اللہ عنہ دو سو مسلمانوں کے ساتھ پہنچے اور حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کا بدلہ لیا ۔ واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان 7ھ میں حضرت بشیر بن سعدؓ کو تیس آدمیوں کے ساتھ فدک میں بنو مرہ کی طرف بھیجا تھا ۔ بنوہ مرہ کے قبیلے نے ان پر حملہ کرکے ان سب کو شہید کردیا، صرف بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ زندہ بچے جنہیں وہ مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے ۔

(7) سریہ قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفر 9ھ میں قطبہ بن عامر کو 20 آدمیوں کے ساتھ نبو خشعم کے ایک قبیلے میں تبالہ نامی جگہ کی طرف بھیجا،یہ دس اونٹوں پر باری باری سفر کرتے اس علاقے میں پہنچ گئے ۔ وہاں انھوں نے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا ۔ اس سے پوچھا تو اس نے چلاّ چلاّ کر لوگوں کو خبردار کرنا شروع کردیا جس پر انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔ دونوں لشکروں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی ، دونوں طرف سے بہت سے افراد زخمی ہوئے ۔ قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہ غنیمت میں کافی سارے اونٹ بکریاں لے کر مدینہ منورہ پہنچ گئے ۔

(8) جیشِ اسامہ رضی اللہ عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ربیع الاول 11ھ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو سات سو فوجیوں کے ساتھ بلقا کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی آخری لشکر کشی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے فرمایا : لشکر لے کر جاؤ اور اس جگہ ، جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا (اس سے موتہ کا مقام مراد ہے) ، ان کو گھوڑوں کے نیچے روند ڈالو ۔ یہ لشکر روانہ ہو کر مدینہ سے تین میل دور مقامِ جرف میں خیمہ زن ہوا ۔ لوگ تیاری کر کے ساتھ شامل ہو رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت زیادہ ناساز ہو گئی ، اس شدت مرض میں بھی نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت فرمائی کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر لازمی بھیج دینا ۔چنانچہ جانشینِ پیغمبر خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں اسے روانہ کیا گیا،یہ دور صدیقی کی پہلی فوجی مہم تھی ، اس لشکر میں ۔ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم جن میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے ، اس لشکر کے ان حالات میں بھیجے جانے کے حق میں نہیں تھے ۔ ان کا موقف تھا کہ : مدینہ منورہ خود خطرات میں گھرا ہوا ہے اس لیے لشکر کو بھیجنے کےلیے حالات سازگار نہیں ہیں ۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس لشکر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تیار کیا تھا ، میں اسے ایک دن کےلیے بھی نہیں روکوں گا ، چاہے تمہارے چلے جانے کے بعد یہاں ہمیں کیسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑے ۔ اس لشکر کے جانے سے آس پاس کے مخالفین پر بڑا اچھا اثر ہوا ۔ باغی یہ جان کر مرعوب ہو گئے کہ اگر مسلمانوں میں کسی قسم کی کمزوری ہوتی یا مدینہ کمزور ہوتا ، تو خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس لشکر کو روانہ نہ کرتے ۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جب جوشِ جہاد میں بھرا ہوا عساکرِ اسلامیہ کا یہ سمندر موجیں مارتا ہوا روانہ ہوا تو اطراف وجوانب کے تمام قبائل میں شوکتِ اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اور مرتد ہوجانے والے قبائل ، یا وہ قبیلے جو مرتد ہونے کا ارادہ رکھتے تھے ، مسلمانوں کا یہ دَل بادَل لشکر دیکھ کر خوف ودہشت سے لزرہ براندام ہو گئے اورکہنے لگے کہ اگر خلیفہ وقت کے پاس بہت بڑی فوج ریزروموجود نہ ہوتی تو وہ بھلا اتنا بڑا لشکر ملک کے باہر کس طرح بھیج سکتے تھے ؟ اس خیال کے آتے ہی ان جنگجو قبائل نے جنہوں نے مرتد ہو کر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا پلان بنایا تھا خوف ودہشت سے سہم کر اپنا پروگرام ختم کر دیا بلکہ بہت سے پھر تائب ہوکر آغوشِ اسلام میں آ گئے اور مدینہ منورہ مرتدین کے حملوں سے محفوظ رہا ۔ (مدارج النبوۃ)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا لشکرمقام اُبنی میں پہنچ کر رومیوں کے لشکرسے مصروفِ پیکار ہو گیا اور آخر کار بہت ہی خوں ریز جنگ کے بعد لشکرِ اسلام فتح وظفر کے پھریرے لہراتا ہوا ، بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ مدینہ منورہ واپس پہنچا ۔ جانشینِ رسول خلیفہ بلافصل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس صائب فیصلے نے ایک طرف تو رومیوں کی عسکری طاقت کو تہس نہس کر دیا اور دوسری طرف مرتدین کے حوصلوں کو بھی پست کر دیا ۔

نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد قصیدہ بُردہ کی روشنی میں : ⬇

عربی نعت گو شعرا ء میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بعد جس شاعر کے کلام کو سب سے زیادہ شہرت عام اور بقائے دوام کا اعزاز حاصل ہوا ہے وہ امام محمد بن سعید بوصیری رحمة اللہ علیہ ہیں ۔ محمد بن سعید بوصیری نے اگرچہ متعدد نعتیہ قصائد کہے ہیں لیکن ان کے مہراب شہرت کا کلہدی پتھر’’ قصیدہ بردہ‘‘ ہے ۔ اسلامی دنیا میں امام بوصیری ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پروانے موجود ہیں وہاں پروانہ شمع رسالت بوصیری کا ہدیہ عقیدت بھی موجود ہے ۔ امام بوصیری مصر کے قصبہ ولاص میں یکم شوال 608ھ میں پیدا ہوئے ۔ اپنے عہد کے مزاج کے مطابق علوم دینیہ کی تحصیل کی اور بہت جلد عربی ادب اور شاعری میں کمال حاصل کر لیا ۔ یہاں تک کہ آپ نے قصیدہ بردہ نظم کیا جس نے آپ کے نام کو بقائے دوام بخش دیا۔امام بوصیری رحمة اللہ علیہ نے اس قصیدے کی آٹھویں فصل میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے جہادی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور حق ادا کیا ہے ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا باہمی بہت عمیق اور مضبوط تعلق ہے کہ اگر ’’سیرت‘‘ سے جہاد کو نکال لیا جائے تو سیرت کا اصل حسن ہی گہنا جائے اور ’’جہاد‘‘ سے سیرت کو الگ کر لیا جائے تو جہاد کے اصل مقاصد ہی معدوم ہو جائیں گے ۔ اسی لیے تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ جب کبھی سیرت پر کوئی قلم اُٹھایا گیا خواہ نثر کی شکل میں یا نظم کی صورت میں تو اس میں بڑے والہانہ اور جذبات انگیز انداز میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جہاد کو بیان کیا گیا ہے ۔ اور ہمارے اَکابر و اَسلاف علیہم الرحمہ  کا کمال یہ ہے کہ جس طرح جہاد میں سطوت وحشمت اور رُعب و دبدبہ پایا جاتا ہے اسی طرح ہمارے اَسلاف ’’بیانِ جہاد‘‘ میں بھی پُر شکوہ لب و لہجہ اختیار کر کے طرزِ تحریر کو ہی میدان جہاد کا ہم شکل بنا دیتے ہیں ۔ اسی قصیدہ بردہ ہی کو دیکھ لیں کس پُرشکوہ انداز سے اس موضوع کا آغاز کر رہے ہیں : ⬇

راعت قلوب العدیٰ اَنبائ بعثتہ
کنبأۃ اجفلت غفلا من الغنم
ترجمہ : بعثت نبوی کی خبروں کے دشمنانِ دین کو خوف زدہ کر دیا ، جس طرح بے خبر بکریاں کوئی ڈارؤنی آواز سنتے ہی بد حواس ہو کر بھاگ پڑتی ہیں ۔

اس فصل میں کل بائیس اشعار ہیں ۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جہادی معرکہ جات اور حالات وواقعات کو خوب اچھی طرح موثر اوربلیغ انداز میں ذکر کیا ہے ۔اور ساتھ ہی کافروں کی ذلت اورخواری اور نکبت و ہلاکت کو بیان کیا ہے ۔ان اشعار میں اگرچہ بہت سے اشارات ورموز ہیں جن کی تفصیل و تشریح یقینا بہت مفید اور موثر ہے لیکن جگہ کی گنجائش کے پیش نظر ہم قصیدہ بردہ کے متعلقہ حصے سے صرف اشعار اور ان کا آسان اردو ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ۔اگرچہ ارادہ یہ تھا کہ دیگر چند مشہور عربی قصائدسے بھی جہاد سے متعلقہ اشعار جمع کردوں لیکن وقت اور کتابوں کی فوری عدم دستیابی کے باعث اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا اس لیے صرف قصیدہ بردہ سے اقتباس پر ہی اکتفا کیا جاتاہے ۔

ما زال یلقا ھم فی کل معترک
حتی حکوا بالقنا لحما علی وضم
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار سے ہر میدان ِجنگ میں لڑتے رہے یہاں تک کہ وہ کفار مجاہدین کے نیزوں کی مار سے اُس گوشت بے حس و حرکت کے مشابہ ہو گئے جو تختہ قصاب پر رکھاہو ۔

ودو الفرار فکادو یغبطون بہ
اشلائ شالت مع العقبان والرخم
 ترجمہ : (اگرچہ کفار بقیہ السیف پر مجاہد ین کی مار سے راہ ِ فرار بند تھی مگر بایںہمہ ان کی تمنائے دلی یہ تھی کہ) جس طرح بنے بھاگ جاویں اوروہ رشک کرتے تھے ان کفار پر جن کو کرگس اور مردار خوار جانورلے اُڑے تھے تاکہ طعن و ضرب مجاہدین سے اسی بہانہ نجات پانویں ۔

تمضی اللیا لی ولا یدرون عدتھا
مالم تکن من لیا لی الاشھر الحرم
 ترجمہ : راتیں گزر رہی ہیں اور کفار حد درجہ خوف و ہراس و شدت اضطراب سے اِن کی تعداد نہیں جانتے جب تلک وہ راتیں اشہر حرام کی نہ ہوں جن میں اِبتدائے اسلام میں جنگ حرام تھی ۔

کانما الدین ضیف حل ساحتھم
بکل قرم الی لحم العدی قرم
ترجمہ : گویا دین اسلام ایک مہمان عزیز ہے جو ایک عظیم القدر سردار کے ہمراہ کفار کے صحن خانہ میں فروکش ہوااور وہ عظیم القدر سرداردشمنوں کے گوشت کا نہایت خواہشمند ہے ۔ پس مجاہدین نے اپنے مہمان یعنی دین اسلام کے اکرام کے لیے بے تکلف ان کفارکا گوشت پیش کر دیا ۔

یجر بحر خمیس فوق سابحۃ
تر می بموج من الابطال ملتطم
ترجمہ : وہ دین لشکر اسلام کو جو تیز و نرم رفتار گھوڑے پر سوار ہے میداجہاد کی طرف کھینچ رہا ہے اور وہ لشکری تعداد میں اتنے زیادہ ہیں گویا کہ موج طوفاں باہم ٹکرا رہی ہیں ۔ یعنی دلیروں کی صفیں آپس میں متلاطم ہیں کیونکہ ہر ایک ان میں سے آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔

من کل منتدب ﷲ محتسب
یسطو بمستاصل للکفر مصطلم
ترجمہ : دلیران لشکر اسلام ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں ہر ایک دعوت حق پر لبیک کہنے والا اور اللہ جل شانہ سے اجر عظیم کا امیدوار ہے ، یہ مجاہدین دشمن پر ایسے آلات سے حملہ کرتے ہیں جو کفر کی بیخ و جڑ اُکھاڑ کے پھینک دیں ۔ اور مستاصل کفر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی مراد ہو سکتے ہیں یعنی اصحابِ عظام رضی اللہعنہم ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری و باطنی اعانت و امداد کے بل بوتے حملہ کرتے ہیں اور آپ  کفر وشرک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں ۔

حتی غدت ملۃ الاسلام وھی بھم
من بعد غربتھا موصولۃ الرحم
ترجمہ : اصحاب کرام رضی اللہعنہم کی لشکر کشی اور کفار پرحملے یہاں تلک جاری رہے کہ ملت اسلام اپنی غربت اور کمزوری کے بعد طاقتور اور مضبوط ہو گئی ۔ اور اسلام قوی ہو گیا ۔

مکفولۃ ابدا منھم بخیر اب
وخیر بعل فلم تیتم ولم تئم
ترجمہ : اور یہاں تک مجاہدین جہاد کرتے رہے کہ ملت اسلام بہترین مربی وشوہرکے ذریعے محفوظ و مامون ہوگئی ۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امت کے بہترین مربی ہیں جیسا کہ باپ اپنی اولاد کا مربی ہوا کرتا ہے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین شوہر کی مانند ہیں پس اب ملتِ اسلام نہ کبھی یتیم ہو گی اور نہ بے شوہر ۔

ھم الجبال فسل عنھم مصادمھم
ما ذارای منھم فی کل مصطدم
ترجمہ : لشکرِ اسلام استحکام و ثابت قدمی میں پہاڑوں کے مانند ہے ۔ اگر تجھ کو میرے قول کا یقین نہیں آتا تو ان کا حال اور جہاد کی کیفیت ان مقامات جنگ سے پوچھ لے کہ انہوں نے ہر جنگ گاہ میں ان کا کیا حال دیکھا ہے وہ بزبانِ حال تجھ کو سب بتادیں گے ۔

اس شعر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس قدر جہاد کیا اور کافروں کو قتل کیا کہ اب میدانِ جنگ میں کوئی کافر بچا ہی نہیں جس سے جنگ کے احوال پوچھے جائیں ، بلکہ اب اگر حالات پوچھنے ہیں تو خود میدانِ جنگ سے ہی پوچھ لیے جائیں وہ زبان حال سے سب کچھ بتا دیں گے ۔

وسل حنینا وسل بدارا وسل احدا
فصول حتف لھم ادھی من الوخم
ترجمہ : حنین سے پوچھ اور بدر و احد سے پوچھ ! قسما قسم کی اموات کفار کو تہس نہس کر گئیں اور وہ ان کے حق میں وبا سے بھی ضرر رسانی میں زیادہ اور سخت تھیں ۔ گویا وبا سے پھر بھی کچھ نہ کچھ جانیں بچ جاتی ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جہاد اتنا سخت تھا کہ انہوں نے کسی سرکش کو بھی زندہ نہ چھوڑا ۔

المصدری البیض حمرا بعد ماوردت
من العدی کل مسود من اللمم
ترجمہ : دلاورانِ اسلام ایسے ہیں کہ اپنی سفید صیقل دار شمشیروں سے دشمن کے سروں پر اس قوت اور سختی سے وار کرتے ہیں جو ان کے سروں کوکاٹتی ہوئیں لہو لہان ہو کر باہر نکلتی ہیں ۔

والکاتبین بسمر الخط ماترکت
اقلامھم حرف جسم غیر منعجم
ترجمہ : یہ بہادر اپنے گندم گوں نیزوںسے دشمن کے جسم پر قلم کاری کرتے ہیں ، ان کے قلم نما نیزوں نے دشمن کے جسم کو غیر منقوط نہیں چھوڑا ۔ یعنی انہوں نے دشمن کے تمام جسم کو چھلنی چھلنی کر دیا ہے ۔

شاکی السلاح لھم سیما تمیزھم
والورد یمتاز بالسیما من السلم
ترجمہ : اَصحابِ کرام رضی اللہ عنہم پورے مسلح اور صاحبِ شوکت ہیں اور کفار بھی اگرچہ مسلح ہیں مگر ان مجاہدین کو کفار اسلحہ پوشوں سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے ۔ جیسے گلاب کا پھول باوجود کانٹے دار ہونے کے ببول کے درخت سے اپنے رنگ و بو میں ممتاز اور خوش نما ہوتا ہے ۔

تھدی الیک ریاح النصر نشرھم
فتحسب الزھر فی الاکمام کل کمی
ترجمہ : نصرت الہٰی کی بادِبہاری تیرے پاس ان کی بوئے خوش پہنچاتی ہے ، ان میں کا ہر دلیر اپنی زرہوں اور ہتھیاروں میں ایسا خوشنما معلوم ہوتا ہے جیسا شگوفہ اپنے غلافوں میں خوبصورت اور خوشنما ہوتا ہے ۔

کانھم فی ظھورالخیل نبت ربی
من شدۃ الحَزم لا من شدۃ الحُزم
ترجمہ : دلیرانِ اسلام گھوڑوں کی پشت پر احتیاط کی وجہ سے نہ کہ خوف سے ، ایسے آسن جما کر بیٹھتے ہیں گویا وہ ٹیلوں کی گھانس ہیں جن کی جڑیں مضبوط جمی ہوتی ہیں ۔

طارت قلوب العدی من باسھم فرقا
فما تفرق بین البھم والبھم
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خوف اور سخت حملوں سے دشمنوں کے دل اُڑ گئے اور وہ ایسے حواس باختہ ہو گئے کہ بکری کے بچوں اور دلیروں میں فرق نہیں کرتے تھے ۔

ومن یکن برسول اللہ نصرتہ
ان تلقہ الاسد فی آجامھا تجم
ترجمہ : جس جماعت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد و نصرت حاصل ہو اگر اس کے مقابلے میں شیر بھی آئیں تو وہ بھی دم بخود رہ جائیں ۔

ولن تری من ولی غیر منتصر
بہ ولا من عدو غیر منقصم
ترجمہ : اور تو ہر گز نہیں دیکھے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی دوست کو آپ کی مدد نہ پہنچی ہو اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایسا دشمن ہے جو شکست فاش سے بچ پایا ہو ۔

احل امتہ فی حرز ملتہ
کاللیث حل مع الاشبال فی اجم
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو دین کے ایسے مضبوط اور مستحکم قلعہ میں اتارا ہے کہ اب ان کو کوئی مغلوب نہیں کر سکتا ۔ جیسا کہ شیر اپنے بچہ کو لے کر کچھار میں محفوظ کر لیتا ہے اور کوئی اسے گزند نہیں پہنچا سکتا ۔

کم جد لت کلمات اللہ من جدل
فیہ وکم خصم البرھان من خصم
ترجمہ : جس شخص نے بھی آپ  کی شان میں جھگڑا کیا قرآن نے اس کی ناک خاک میں رگڑ دی اور ہر جھگڑالو پرآپ  کی نبوت کے دلائل سے حجت تام کر دی ۔
﴿22﴾کفاک بالعلم فی الامی معجزۃ
فی الجاھلیۃ والتادیب فی الیتم
ترجمہ : اے مخاطب ! تجھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی معجزہ کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمی ہونے کے باوجود علم کے کتنے بلند مرتبہ پر فائز تھے اور یہ بھی کہ آپ  باوجود یتیم ہونے کے کس درجہ باادب تھے ۔

قصیدہ بردہ شریف کے یہ چند اشعار آپ نے پڑھے ان میں جہاد کا کیسا پرشکوہ اور اثر انگیز بیان ہے جس سے ایمانی حلاوت میں اضافہ اور دینی غیرت بیدار ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع اور کامل محبت و ادب کی توفیق فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...