Tuesday, 7 November 2023

پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ اول

پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ اول
محترم قارئین کرام : ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ جس کو اپنا امام ، بڑا ، لیڈر یا امیر مان لیا جائے پھر اس کا ادب واحترام بھی کرنا چاہیے ، لہٰذا آپ اپنی نمازیں خراب نہ کیا کریں ۔ امام صاحب کے بارے میں برا بھلا کہنا چھوڑ دیں ۔ شریعت میں امام کا بڑا مقام و مرتبہ رکھا گیا ہے، وہ قوم کا مقتدا ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ادب واحترام اور اکرام کا معاملہ کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، مسجد کا متولی یا ذمہ دار بھی امام صاحب کے اکرام کا مکلف ہوتا ہے ، وہ اگر اپنی جہالت یاتکبر کی وجہ سے امام صاحب کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کرتا ہے یا امام صاحب پر صحیح غلط حکم رانی کرتا ہے تو سب نمازیوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر روک لگائیں ؛ بلکہ جو شخص جاہل وناخواندہ ہو اور امام کے مقام ومرتبہ سے ناواقف ہو ، اسے مسجد کا ذمہ دار ہی نہیں بناناچاہیے ، مسجد کا ذمہ دار تو اسے بنانا چاہیے کہ جو نماز ، روزہ کا پابند ، دین دار، امانت دار اور باشرع ہو اور امام اور موٴذن وغیرہ کے مقام سے واقف ہوکر ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے اور وہ خود کو مسجد کا خادم سمجھے ، حاکم نہ سمجھے ۔

پیچھے اِس امام کے

فقیر ایک دن سوچ رہا تھا کہ آخر ، "پیچھے اس امام کے"، اس کا مطلب عوام کیا سمجھتی ہے ۔ شاید عوام سوچتی ہے کہ "پیچھے اس امام کے" کا مطلب ہے اس امام کے پیچھے پڑ جاؤ ۔

کہاں جاتا ہے ؟

کیا کرتا ہے ؟

کب سوتا ہے ؟

اکثر یہ سنت پڑھتا نظر نہیں آتا ، اس سے پہلے کہاں نماز پڑھاتا تھا  ؟

وہاں سے کیوں نکالا گیا ؟

اب وہاں کیوں جاتا ہے ؟

فلاں سے کیوں بات کرتا ہے ؟

نمازیوں کے ساتھ کیوں بیٹھتا ہے ؟

نمازی بالخصوص نوجوان اس سے ملنے کیوں آتے ہیں ؟

اس کے پاس موبائل کون سا ہے ؟

گاڑی بہت تیز چلاتا ہے ؟

اس کے پاس گاڑی کہاں سے آگئی ؟

کھا کھا کر موٹا ہوگیا ہے ، جب آیا تھا تو پتلا تھا ۔ اس کو چربی چڑھ گئی ہے ، یہ بازار ۔ مارکیٹ کیوں جاتا ہے ؟

اگر محفل ، میلاد ، جلسہ ، پروگرام میں یا کسی ضروری کام سے چلا جائے تو کہا جاتا ہے : یہ امام بہت غیر حاضر ہونے لگا ۔

ابھی جماعت کھڑی ہو نے میں 3/4 منٹ باقی ہوتے ہیں لوگ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ امام آیا یا نہیں ! سالوں سال گھر نہ جائے اپنے والدین ، بیوی بچوں سے دور رہے اگر مہینے دو مہینے بعد دوچار دن اپنے گھر ، گاؤں چلا جاۓ تو بعض فتنہ پرور شور مچاتے ہیں : لو جی امام صاحب بڑے غیر ذمہ دار ہوگئے ہیں ۔ خود کو مہینے میں چار یا آٹھ چھٹیاں درکار مگر امام بندہ بشر تھوڑی ہے اسے چھٹی کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ خود روز گھر جائیں مگر امام ؟ نہ بھئی نہ ، امام کبھی بیمار ہوجاۓ تو بجاۓ عیادت و بیمار پرسی کے اس پر بھی اعتراضات شروع کردیئے جاتے ہیں ، بس جی ان کو تو کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ 

آج  اکثر جگہ اماموں کو حسد ، بغض ، ذاتی انتقام کی وجہ سے نکالا جاتا ہے ، امام بیچارہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتا ہے ۔ وہ اپنا دکھڑا کہیں تو کس سے کہیں ، ان کا کوئی حامی اور مدد گار نہیں ، قوم جب چاہتی ہے اماموں کو نکال دیتی ہے ۔

یاد رکھیں مصلے پر کھڑا ہو کر ہمیں نمازیں پڑھانے والا ہمارے اور رب تعالی کے درمیان "سفیر اورنمائندہ" ہوتا ہے اور یہی وہ عظیم شخصیت ہوتا ہے جسے ہم نائب رسول کہتے ہیں ۔

دوسری طرف امام حضرات بھی اپنے منصب کے ساتھ پوری وفاداری کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو حتی الامکان پورا کریں ۔ کیونکہ امام اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے ۔

آپ اگر کسی مسجد کے امام ہیں اور امامت کے منصب پر فائز ہیں ، لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں ، آپ کی اقتدا میں لوگ نماز پڑھتے ہیں ، تو یہ آپ کےلیے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی بارگاہ میں روزانہ پانچ مرتبہ سر بسجود ہونے والوں کا رہبر و امام بنایا ہے ۔ یقینا امامت کا منصب ملنا من جانب اللّہ ایک نعمتِ عظمی سے سرفراز ہونا ہے ۔
اور یہ امامت امام الانبیاء نائبِ خالقِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری سنت بھی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام و مؤذن کو ان کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ۔ (بہار شریعت : ج ١ ، ص: ٥٥٨ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ،چشتی)

مذکورہ حدیث سے اندازہ لگائیں اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ شریعت میں امام کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے ! کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو صرف اور صرف وہی عابد اور صالح نیکی و ثواب سے ہمکنار ہوتا ہے مگر امامت ایک ایسا نیک عمل  ہے کہ جس کے کرنے سے صرف اپنی ہی نماز کا ثواب نہیں  بلکہ سب نمازیوں کے برابر کا ثواب ملتا ہے اور اللّہ تعالٰی اس کے نامہ اعمال میں بے حساب نیکیوں کا اضافہ فرماتا ہے ، اور  ان شاء اللہ امام بروزِ قیامت ضرور کامیابی سے سرفراز ہوگا ، جنت الفردوس میں اعلی مقام کا مستحق ہوگا ۔

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ صَلَّی خَلْفَ عَالِمٍ تَقِیٍ فَکَانَّمَا صَلّی خَلْفَ نَبِیٍ ۔ جس نے کسی پرہیزگار عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی ۔ (بدائع الصنائع: ج ١ ،ص ٢٣٥)(امام اور مقتدی ص ١٣ مطبوعہ اسلامی کتب خانہ بریلی شریف،چشتی)

دیکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنا عظیم درجہ سے نوازا ہے امام کو ، ایک متقی ، پرہیزگار ، باعمل عالم دین امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کو انبیائے کرام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے جیسا بتادیا ۔ حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ امام کا مقام و مرتبہ شریعت میں بہت ہی ارفع و اعلی ہے ۔

فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ : اگر امام فاسقِ معلن نہیں ہے تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ہوگا ۔ (فتاوی فیض الرسول ج ١، ص: ٢٧٢) 
آپ ہی سے سوال ہوا کہ : امام کیسا ہونا چاہئے ؟خوبی بتلائیے ۔ تو آپ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : امام سنی صحیح العقیدہ ہو ، وہابی دیوبندی وغیرہ بد مذہب نہ ہو ، صحیح الطھارہ یعنی وضو ، غسل اور کپڑے وغیرہ کی طہارت رکھتا ہو ، صحیح القراءت ہو مثلاً ا ، ع ، ت ، ط ، ث ، س ، ش ، ص ، ہ، ح ، ذ ، ض اور ز ، ض ، میں فرق کرتا ہو فاسقِ معلن نہ ہو اسی طرح اور امور جو منافی امامت ہیں ان سے پاک ہو ۔ (فتاوی فیض الرسول ج ١،ص: ٢٦٧)

مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہی شخص امامت کے لائق ہوں گے جن کے اندر مذکورہ خوبیاں موجود ہوں گی اور الحمد للہ ! ہمارے اکثر ائمہ کرام کے اندر  یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں اور یقینا جو ان خوبیوں کا حامل ہوگا وہ ضرور متقی و پرہیز گار اور مکرم ہوگا ۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت مکرمین و متقین لوگوں سے متعلق ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ اَکْرَمَکُمُ عِنْدَ اللّہِ اَتْقَاکُمْ ۔ بےشک تم میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم وہ ہیں جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔
اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے : اِنْ اَوْلِیا٘ءہ اِلا الْمُتقُون ۔ یعنی اللہ کے محبوب صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو متقی و پرہیزگار ہوا کر تے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : میں جنت میں گیا ، اس میں موتی کے گنبد دیکھے ، اس کی خاک مشک کی ہے ، فرمایا "اے جبریل! یہ کس کےلیے ہے ؟ عرض کی حضور کی امت کے مؤذنوں اور اماموں کےلیے ۔ (بہار شریعت: ج ١ ، ص: ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)

مذکورہ بالا دونوں آیات اور حدیث سے یہ بات امس و شمس کی طرح لائح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک امام کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے ، ان کی حقیقی شان و عظمت کیا ہے ؟ اسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے میں کتنا ثواب ہے ، تو اس پر باہم تلوار چلتی ۔ (بہار شریعت: ج ١ ، ص: ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)

اس حدیث سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اذان دینے میں اتنا ثواب تو امامت میں کتنا ثواب ملتا ہوگا!  اور امامت کا رتبہ کتنا ارفع و اعلی  ہوگا ! بلا ریب جو لوگ منصب امامت کی اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادار کر رہے ہیں وہ قابل مبارکباد بھی ہیں اور لائق صد توقیر و تعظیم بھی اور عند اللہ با کرامت و با عظمت ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار اجر کے مستحق بھی ہوں گے ۔

مزید مرتبہ امامت کی وضاحت فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : کوئی شخص کسی مقرَرہ امام کے ہوتے ہوئے امام نہ بنے اور کسی کے گھر میں اس کی مسند پر نہ بیٹھے ہاں جب کہ اجازت دے ۔ (صحیح مسلم جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٢٣٦،چشتی)

اس حدیث کی شرح میں امام نوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَاِنْ کَانَ ذلِکَ الْغَیْرُ افقہُ وَ اقراءُ وَ اَورَعُ وَ اَفضَلُ مِنہُ ۔ اگر چہ یہ دوسرا شخص اس سے علم و قراءت ، پرہیزگاری اور فضیلت میں زیادہ ہو ۔ (امام اور مقتدی صاحب ٢٣)

فتاوی بحر العلوم جلد اول ص: ٣٥٧ میں ہے : امام کی اجازت کے بغیر امامت کرنا مقررہ امام کی حق تلفی اور غلط ہے ۔

آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی  باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ۔ ایسے جاہل ، احمق اور بے ہودہ لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا اور ایک عالمِ دین سمجھے اور ادب و احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے ۔
 
اس تعلق سے فتاوی فقیہ ملت ج ١ ص : ١٤٧ پر ایک فتوی ہے جس کو پڑھ کر ایسے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے ۔

کتاب مذکور میں سوال ہوا کہ : بعض لوگ عوام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو امام صاحب کی بلاوجہ خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور کوئی کمی نظر نہیں آتی تو صرف اتنی ہی بات پر کہ امام صاحب اگر ہفتہ یا عشرہ میں گھر یا کہیں اور اپنی ضرورت سے چلے گئے تو اس بات کو لے کر مسجد یا دوکان یا روڈ پر چند لوگوں کی جمی مجلس میں امام صاحب کو برا بھلا کہنا اور اس طرح بولنا کہ یہ بہت آزاد ہوگئے ہیں یا یہ شخص رکھنے کے قابل نہیں ہے اسی طرح بعض نازیبا کلمات بکنا کیا شرعاً یہ باتیں درست ہیں ؟ اگر نہیں تو جو لوگ افعال مذکورہ کے مرتکب ہیں ان کے لئے شرعاً کیا حکم ہے ؟
اور ظاہر ہے امام صاحب انسان ہیں ان کی اپنی ذاتی گھریلو وغیرہ بہت سی ضروریات ہیں کیا ان کی فراہمی کےلیے ان کا ناغہ کرنا شرعاً گرفت کا سبب ہے ؟ اگر نہیں تو جو لوگ اس بنیاد پر امام کو ہدف ملامت یا مورد طعن و تنقید بنائیں ان کےلیے شریعت مطہرہ کیا حکم رکھتی ہے ؟
تو شاگردِ حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی حبیب اللّہ مصباحی صاحب قبلہ اس کا جواب دیتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا خصوصاً بر سرِبازار فسق و گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ لیس المؤمن بالطعان و لا اللعان و لا الفاحش و لا البذا ۔ یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا ۔ (ترمذی شریف: ج: ٢ ، ص: ١٨،چشتی)
اور جو شخص مسجد کا امام ہے ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان ہی ہے اس کی اپنی بھی کچھ ضروریات ہیں جن کے لیے اسے گھر جانا ہوگا اس پر لوگوں کا برا بھلا کہنا بد تمیزی سے پیش آنا قطعاً درست نہیں بلکہ ایک مسلمان کو تکلیف دینا ہے اور مسلمان کو تکلیف پہونچانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف پہونچانا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ مَنْ اَذی مسلماً فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللّہ ۔ ہاں اگر امام مسجد کے متولی کو آگاہ کیے بغیر ناغہ کرے تو اسے پوچھنے کا حق ہے نہ کہ ہر شخص کو ۔ اور امام کو رسوا کرنے والے یہ جان لیں کہ وہ جیسا امام کے ساتھ کریں گے اللّہ تعالٰی ان کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کرے گا ۔ حدیث شریف میں ہے ۔ کَما تدینُ تدان ۔ یعنی جیسا تو دوسرے کے ساتھ کرے گا ویسا ہی اللّہ تیرے ساتھ کرے گا ۔ (کنزالعمال ج: ١٥ ، ص: ٧٧٢) ۔ لہٰذا عوام پر لازم ہے کہ وہ امام کو رسوا کرنے او اس کو برا بھلا کہنے سے باز آئیں اور اس سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کریں ۔
 
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو امام کے مراتب سمجھ کر ان کی عزت و احترام بجا لانے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...