سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کےلیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا ۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے ۔ شیعہ راوی کے تفرد اور اس کے مذہب کی تقویت میں روایت کے بارے ناقدین کی رائے: اب اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ غالی شیعہ جو کہ تبرائی ہوتا یا اپنے مذہب میں غالی مشہور ہو اس کا صدوق ہونا کا یہ مطلب بالکل نہیں ہوتا کہ اس کو مطلق قبول کیا جائے گا ۔ بلکہ یہ عمومی روایات میں صدوق ہوتا ہے لیکن فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم اور مذہب شیعت کے باب میں ایسا راوی ناقابل اعتبار ہوتا ہے اور اس کا تفرد ہر گزر قبول نہیں ہوتا ہے ۔ ایسے ایسے راوی بھی موجود ہیں جو رافضی ہیں جن کو ترک کرنے کی تصریحات ہیں باجود اس کے بھی محدثین علیہم الرحمہ نے اس کو رافضی مان کر بھی صدوق مانا ہے تبرائی مان کر بھی صدوق مانا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ایسے راویان ویسے جھوٹ بولتے ہی نہیں تھے تاکہ اپنی توثیق برقرار رکھیں اور خاص متن میں اپنے تفرد کو قابل استدلال بنا سکیں اہلسنت ناقدین کی نظر میں یہ مسٸلہ تھا اصل یہی وجہ ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ اس پر منہج سخت تھا اور ایسا ہی منہج امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا بھی تھا ۔
اہلسنت کتب میں کچھ شیعہ راوی ہیں لیکن متقدمین کے نزدیک شیعہ اور روافض میں بہت فرق ہے ان کامعاملہ آج کل کے شیعہ حضرات کی طرح نہ تھا کہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق و امتیاز نہیں بلکہ متقدمین کے نزدیک شیعہ سےمراد وہ لوگ تھے جو صرف تفضیل کے قائل تھے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے ، اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور صحابی سمجھتے تھے مگر اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے تھے لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جو بہت بڑی قابلِ اعتراض ہو ہاں کچھ شیعہ حضرات شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے اگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما کے متعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اور صحابی تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے تھے اوران کی بات زیادہ سے زیادہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے اور اصولِ حدیث میں مبتدعین کی روایت کو درج ذیل شرائط سےقبول کیا گیا ہے : ⏬
(1) وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو ، عادل ہو ۔
(2) وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو ۔
(3) اس کی روایت اس کی بدعت کی مٶید نہ ہو ۔
باقی روافض وہ تو متقدمین کے نزدیک وہ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دیگر تمام صحابہ کو معاذاللہ بے دین اور غاصب وغیرہ کہتے رہتے ہیں گویا ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر کو ترک کر دیا ہے اس طرح کے شخص کی روایت قطعاً غیر مقبول ہے ۔
صحیح بخاری میں جو شیعہ راوی ہیں وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہیں اوران کی روایات بدعت کی مٶید بھی نہیں اور وہ فی نفسہ ثقہ و صدوق ہیں بلکہ کچھ روایات ان سے ایسی بھی مروی ہیں جو ان کی بدعت کے خلاف ہیں لہٰذا ایسے راویوں کی روایت میں کچھ حرج نہیں ۔ لہٰذا امام بخاری و دیگر محدثین علیہم الرحمہ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ۔تفصیل کےلیے اصولِ حدیث کی کتب کا مطالعہ کیا جائے ۔
حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ کے متعلق شیعہ ہونے کی بات کہنا بالکل غلط ہے اور حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ پر اتہام ہے ۔ باقی حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ نے جوکتاب خصائص علی رضی اللہ عنہ لکھی ہے وہ اس لیے کہ ان کا کچھ ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل منحرف تھے اور ان کے متعلق ناشائستہ لفاظ کہتے تھے ، اس لیے ایسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کی مدافعت میں یہ کتاب لکھی اس کتاب میں کچھ احادیث صحیح تو کچھ ضعیف بھی ہیں مگر یہ تو محدثین کرتے آئے ہیں (کہ اپنی کتب صحیح و ضعیف سب طرح کی احادیث درج کرتے ہیں) دیکھیے ترمذی ، ابن ماجہ ، ابوداٶد ان سب کتب میں کچھ احادیث صحیح ہیں تو کچھ ضعیف ۔
امام حاکم واقعتاً شیعیت کی طرف مائل تھے جیسا کہ حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں صراحت فرمائی ہے لیکن غالی شیعہ یا رافضی نہ تھے بلکہ صرف تفضیل کے قائل تھے اورحضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کرنے والے تھے اور شیعیت و رافضیت کا فرق فقیر اوپر درج کر آیا ہے ۔ امام حاکم کا مقام حدیث میں بہت بلند ہے ، ان کے ترجمہ کو کتب تاریخ اور تذکرۃ الحفاظ میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بڑے بڑے ائمہ اور حفاظ حدیث نے ان کی بہت ثناء بیان کی ہے باقی رہی ان کی کتاب المستدرک تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس کی تبییض و نظرثانی کا موقع نہیں مل سکا ، اس لیے اس میں کچھ منکر اور موضوع احادیث ہیں اس کے باوجود بھی اس میں کافی احادیث صحیح اور حسن ہیں ۔
شارح بخاری اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض ، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة انتهى ۔ (تهذيب التهذيب جلد 1 صفحہ 81،چشتی)
ترجمہ : متقدمین کے نزدیک شیعہ اور روافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کا معاملہ آج کل کے شیعہ حضرات کی طرح نہ تھا کہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق و امتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کے نزدیک شیعہ سے مراد وہ لوگ تھے جو صرف تفضیل کے قائل تھے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل جانتے تھے ، اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور صحابی سمجھتے تھے ۔ اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے تھے لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جو بہت بڑی قابلِ اعتراض ہو ۔ ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے اگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما کے متعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اور صحابی رضی اللہ عنہم تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے تھے اور ان کی بات زیادہ سے زیادہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے ۔
حدیث اور بدعتی راوی : کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں : ⏬
1 ۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو ۔
2 ۔ صاحب عدالت ہو ۔
زیرِ بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی روای خارج ہو جاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہٰذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی غالی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغریٰ میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ روای اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے لکھا ۔اس لیے محدثین علیہم الرحمہ نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے) اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے : ⏬
1۔ وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو،عادل ہو ۔
2 ۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
3 ۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
4 ۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہٰذا بعض جگہوں پر محدثین علیہم الرحمہ نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
صحیح بخاری میں بعض شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی ہیں جو مذکورہ تمام شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔ اس کی مکمل تحقیق کی گئی ، محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے : ⏬
1 ۔ صحیح بخاری میں بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
2 ۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
3 ۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
4 ۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
مزید تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا صفحہ 105 خاصۃ)
بخاری کے چند مشہور رافضی راوی اور ان کی حقیقت : ⏬
رافضیوں کے وکیل صداقت علی فریدی نے بخاری اور سنی کتابوں کے رافضی راوی کے نام سے ایک کتاب لکھ ماری ہے اس میں بخاری اور دیگر کتب کے کچھ شیعہ راویوں کے نام گنوائے اور انہیں انتہائی مبالغہ آرائی سے امام بخاری و دیگر محدثین علیہم الرحمہ کا استاد بھی قرار دیا ۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی امام بخاری و دیگر محدثین علیہم الرحمہ کا استاد نہیں ہے ۔
ابن جریج ابوخالد المکی بخاری شریف کا راوی ہے امام ذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ یہ متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا اور (اس کی کوالیفیکشن یہ تھی) کہ اس نے ستر عورتوں سے متعہ کیا تھا ۔ (میزان الاعتدال الذھبی الجزء ثالث،چشتی)
علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب “فتح الباری شرح صحیح البخاری” میں امام بخاری کے استاد و راوی ، عباد بن یعقوب کے متعلق لکھا ہے کہ امام ابن حبان فرماتے ہیں : كان رافضيا داعية “ کہ یہ نہ صرف خود رافضی تھا بلکہ رافضیت کی تبلیغ کرنے والے تھا ۔
شیعی حدیث کی کتب اربعہ میں “زُرارۃ بن اعین” کی کثرت سے روایات موجود ہیں ، اِن کے بھائی “عبد الملک بن اعین بخاری کے راوی ہیں ۔ چنانچہ امام ذہبی “میزان الاعتدال” میں لکھتے ہیں: 5190 – عبد الملك بن أعين ۔ قال ابن عيينة : حدثنا عبد الملك : وكان رافضيا ۔ کہ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ یہ رافضی تھے ۔
جواب : حقیقت یہ ہے کہ ابوخالد مکی کے بارے میں متعہ سے رجوع ثابت ہے ۔ عباد بن یعقوب جسے نان نہاد فریدی و دیگر شیعوں نے محض عوام دھوکہ دینے کےلیے بخاری کا استاد لکھا ہے ۔ سے صرف ایک حدیث بخاری میں لی گئی ہے اور وہ بھی مقرون ہے یعنی کسی اور سند سے بھی موجود ہے ۔ اسی طرح عبدالمالک بن اعین سے بھی صرف ایک حدیث مروی ہے اور وہ بھی عباد بن یعقوب کی طرح مقرون ہے ۔ اللہ ان منافقوں و کذابوں کے شر سے بچائے آمین۔
خلاصہ یہ کہ بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ احادیث میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت نہیں ہے کہ جو رافضی ہو یا شیخین اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرتا ہو وغیرہ ۔ اگر کسی کو شیعہ راوی سے محدثین کے روایت کرنے کے اصولوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہو تو اس موضوع پر محمد خلیفہ الشرع کی کتاب “منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما” اور کریمہ سودانی کی کتاب “منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔
متقدمین میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جن کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ان کا منہج غالی شیعہ اور روافض راویان کے بارے میں درج ذیل ہے : ⏬
امام بیھقی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف میں بیان کرتے ہیں کہ ائمہ حدیث کی طرح فقھا یعنی مجتہدین نے بھی حدیث کے رجال پر جرح کی ہے اور راویان کو میزان جرح و تعدیل میں تولا ہے : وقد تكلم فقهاء الأمصار في الجرح والتعديل فمن سواهم من علماء الحديث ۔ پھر پہلی روایت امام بیھقی علیہ الرحمہ اپنی سند سے لاتے ہیں : أخبرنا أبو عبد الرحمن : محمد بن الحسين السلمي ، حدثنا أبو سعيد الخلال ، حدثنا أبو القاسم البغوي ، حدثنا محمود بن غيلان المروزي ، قال : حدثني الحماني عن أبي حنيفة قال : ما رأيت أحدا أكذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء ۔
ترجمہ : امام حمانی علیہ الرحمہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے جابر جعفی سے بڑا کوئی کذاب نہیں دیکھا اور حضرت عطاء بن ابی رباح سے افضل کوئی نہیں دیکھا ۔
سب سے پہلے جابر جعفی کا تعارف کہ یہ کس عقیدے سے تعلق رکھتا تھا : ⏬
أحد علماء الشيعة. له عن أبي الطفيل والشعبي وخلق. وعنه شعبة، وأبو عوانة، وعدة ۔ امام ذھبی کہتے ہیں یہ شیعہ علماء میں سے ایک تھا اس نے ابی طفیل و شعبی اور ایک جماعت سے روایت کیا ہے ۔ اور ان سے امام شعبہ ، ابو عوانہ کے علاوہ لوگوں نے اس سے روایت کیا ہے ۔
قال ابن مهدي، عن سفيان : كان جابر الجعفي ورعا في الحديث، ما رأيت أورع منه في الحديث ۔ امام سفیان کہتے ہیں کہ جابر جعفی روایت حدیث میں پر ہیز گار تھا میں نے اس سے زیادہ حدیث میں پرہیزگار نہیں دیکھا ۔ (یہ بات قابل غور ہے اس کا تذکرہ آگے آئے گا)
وقال شعبة : صدوق.وقال يحيى بن أبي بكير، عن شعبة: كان جابر إذا قال: أخبرنا، وحدثنا، وسمعت – فهو من أوثق الناس.وقال وكيع: ما شككتم في شئ فلا تشكوا أن جابرا الجعفي ثقة ۔ امام شعبہ کہتے ہیں یہ سچا تھا،امام یحییٰ امام شعبہ سے نقل کرتے ہیں : جابر جب اخبرنا یا حدثنا کہے (یعنی تدلیس کا احتمال نہ ہو ) تو یہ پوری جماعت سے زیادہ ثقہ ہے۔ امام وکیع کہتے ہیں تم ہر چیز کے بارے شک کرو لیکن اس با ت پر شک نہ کرو کہ جعفی ثقہ ہے ۔
وقال ابن عبد الحكم: سمعت الشافعي يقول: قال سفيان الثوري لشعبة: لئن تكلمت في جابر الجعفي لاتكلمن فيك ۔ ابن عبدالحکم کہتے ہیں میں نے شافعی کو فرماتے سنا انہوں نے کہا کہ سفیان ثوری شعبہ سے کہتے اگر تم نے جابر جعفی پر کلام کیا تو میں ضرور تم پر بھی کلام کرونگا ۔
یہاں تک معلوم ہوا کہ جابر جعفی تو بڑا نیک اور دیندار اور متقی پرہیز گار اور ثقہ انسان تھا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا کلام اس پر غلط ہے بلکہ انہوں نے جابر جعفی کو سب سے بڑا جھوٹا قرار دے دیا ۔ فقیر مزید دلائل پیش کرتا ہے کہ یہ رافضی جو حافظے اور اتقان کے حوالے سے بلکل اچھے ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر ناقدین ان کی توثیق کر دیتے تھے لیکن یہ راویان اکثر صحیح روایات بیان کر کے پھر اس کے متن میں تدلیس کر کے بیان کر دیتے اور اپنی ثقاہت کا فائدہ اٹھاتے اور جن ناقدین نے ان کی مدح و توثیق کی ہوتی وہ ان کی اس حرکت پر بعد میں مطلع ہوتے اور پھر اس کی اصلیت واضح کرتے اور لوگوں کے سامنے یہ ہے وہ بنیادی وجہ جس کے سبب شیعہ و رافضییوں کا تفرد قبول نہیں ہوتا ان کے مذہب کے موافق ۔ فقیر اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہے کہ اس کے کذب پر کیسے مطلع ہوئے ناقدین : ⏬
اب ہم ائمہ سے مثالیں پیش کرتے ہیں کہ جن ائمہ نے جابر کی تعریف و مدح کی انہوں نے اس جابر کو اسکے عقیدے کی روایت میں تفرد کے سبب ترک اور تکذیب اور متروک کی جرح کی ہے ۔
الحميدي ، عن سفيان : سمعت رجلا سأل جابرا الجعفي عن قوله: ” فلن أبرح الأرض حتى يأذن لي أبي (أو يحكم الله لي) ۔ قال : لم يجئ تأويلها ۔ قال سفيان . كذب ۔ قلت : وما أراد بهذا ؟ قال : الرافضة : يقول : إن عليا في السماء لا يخرج مع من يخرج من ولده حتى ينادى مناد من السماء : اخرجوا مع فلان ، يقول جابر : هذا تأويل هذا ، لا تروى عنه ، كان يؤمن بالرجعة ، كذب ، بل كانوا إخوة يوسف ۔
ترجمہ : حمیدی امام سفیان علیہ الرحمہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں : میں نے ایک شخص کو جابر جعفی سے اللہ کے اس فرمان کے بارے دریافت کیا ” پس میں اس سر زمین سے نہ ٹلوں گا جب تک والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے اس معاملے کا فیصلہ کر دے ” تو جابر بولا : اس کی تفسیر منقول نہیں ہےتو امام سفیان علیہ الرحمہ کہتے ہیں : اس نے جھوٹ بولا (حمیدی کہتے ہیں) میں نے دریافت کیا اس جواب کے ذریعہ کہ اس کی مراد کیا تھی ؟
تو امام سفیان علیہ الرحمہ بولے رافضی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آسمان میں موجود ہیں اور وہ اپنی اولاد میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں نکلیں گے یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا ایک منادی آسمان سے اعلان کرےگا کہ فلاں شخص (یعنی امام مھدی) کے ساتھ نکلو ! جابر جعفی کہتا ہے اس آیت سے یہی مراد ہے ۔ تو امام سفیان علیہ الرحمہ کہتے ہیں : اس (باب کے حوالے سے) اس جابر سے روایت نقل نہ کرو ۔ کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتا تھا اور اس نے یہ بات غلط بیان کی ہے کیونکہ یہ آیت حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے بارے نازل ہوئی ۔
یہاں تک یہ بات معلوم ہوئی کہ امام سفیان علیہ الرحمہ چونکہ جابر جعفی کے عقیدے بدعت و گمراہی کو جان چکے تھے تو انہو ں نے اس مخصوص باب میں جابر جعفی کو غیر مستند قرار دے کر اس سے روایت بیان نہ کرنے کا فتویٰ دے دیا کیونکہ یہ اپنے عقیدے کے موافق آیت کی تفسیر بیان کر رہا تھا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment