قرآن مجید حفظ کر کے بھول جانے والوں پر وعید
محترم قارئینِ کرام : قرآن مقدس کو یاد کر کے بھلا دینا گنا ہے ، اب چاہئے بھلانے والا حافظ ہو یا کچھ اور یاد کرنے والا جیساکہ بہــار شریعــت میں ہے کہ : قرآن پڑھ کر بھلا دینا گناہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت کے ثواب مجھ پر پیش کیے گئے ، یہاں تک کہ تنکا جو مسجد سے آدمی نکال دیتا ہے ، اور میری امت کے گناہ مجھ پر پیش ہوئے ، تو اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ آدمی کو سورت یا آیت دی گئی اور اس نے بھلا دیا ۔ (جامع الترمذی أبواب فضائل القرآن جلد ۱۹ باب الحدیث : ۲۹۲۵ جلد ۴ صفحہ نمبر ۴۲۰) ۔ اس حدیث کو ابو داود و ترمذی نے روایت کیا ہے ۔
دوسری روایت میں ہے کہ جو قرآن پڑھ کر بھول جائے قیامت کے دن کوڑھی ہو کر آئے گا ۔ (سنن أبي داود، کتاب الوتر، باب التشدید فیمن حفظ القرآن ثم نسیہ الحدیث ۱۴۷۴ جلد ۲ صفحہ نمبر ۱۰۷) ۔ اس حدیث کو ابو داود و دارمی و نَسائی نے روایت کیا ہے ۔
اور قرآن مجید میں ہے کہ : اندھا ہو کر اُٹھے گا ۔
قرآن مجید میں ہے کہ : وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ ۔ (سورہ طٰہٰ آیت نمبر ۱۲)
جو میرے ذکر یعنی قرآن سے منہ پھیرے گا سو اس کےلیے تنگ عیش ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ، کہے گا ، اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا میں تو تھا انکھیارا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، یونہی آئی تھیں تیرے پاس ہماری آیتیں سو تُو نے انہیں بُھلا دیا اور ایسے ہی آج تُو بُھلا دیا جائے گا کہ کوئی تیری خبر نہ لے گا ۔
مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ رحمۃ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں کہ : وہ قرآن مجید بھول جائے اور ان وعیدوں کا مستحق ہو ، جو اس باب میں وارد ہوئیں ، پھر آپ نے مذکورہ آیہ و ترجمہ لکھا ۔
(الفتاوی الرضویۃ جلد ۲۳ صفحہ نمبر ۶۴۶،چشتی)(بہار شریعت جلد اول حصہ سوم صفحہ نمبر 552 ۔ 553 قرآن مجید پڑھنے کا بیان مسئلہ نمبر 59)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید حفظ کر کے بھول جانے والوں پر حدیث پاک میں سخت وعید وارد ہے ۔ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے : عن سعد بن عبادة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم ۔ رواه أبو داود والدارمي ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآنِ کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا / کوڑھی ہونے کی حالت میں ہو گا ۔
قرآن شریف کا چھونا پڑھنا بہت ثواب ہے اور اس پر عمل کرنا بہت زیادہ ثواب کا مستحق ہے ۔ اسی وجہ سے آقا علیہ السلام نے صحابہ کو سناتے حفظ کراتے جبریل علیہ السلام کے ذریعے قرآن دہروائے جاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ الْإِبِلِ فِي عُقُلِهَا ۔
قرآن مجید کا پڑھتے رہنا اپنے اوپر لازم کر لو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ اونٹ کے اپنی رسی تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے حافظے سے نکلتا ہے ۔
اسی حکم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مثال کے ساتھ یوں سمجھایا : إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَکَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ ۔
ترجمہ : قرآن مجید پڑھے ہوئے آدمی کی مثال اونٹوں کے مالک جیسی ہے جو بندھے ہوئے ہوں ۔ اگر ان کی نگرانی کرے گا تو ٹھہرے رہیں گے اور اگر انہیں کھول دے گا تو چلے جائیں گے ۔ (بخاری الصحيح جلد 4 صفحہ 1920 رقم : 4743 بيروت لبنان دار ابن کثير اليمامة،چشتی)
اگر کوئی شخص اپنی کوتاہی ، سستی اور غفلت کی وجہ سے بھول جائے ، قرآنِ مجید کی تلاوت ترک کر دے تو بلاشبہ وہ سخت گناہگار ہے ۔ کیونکہ اس نے قرآن مجید کیساتھ تعلق توڑ دیا اور کلام اللہ کی اہمیت کا عملاً انکار کر دیا ۔ لیکن اگر وہ خود کوتاہی نہیں کرتا اور بشری کمزوری کی وجہ سے بھول جاتا تو کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک نہ کرے ، بھول جانے والے حصے کو بار بار یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے ۔
جن احادیث میں قرآنِ مجید بھولنے پر وعید آئی ہے احناف کے نزدیک اس سے مراد اس طرح بھول جانا ہے کہ انسان الفاظ کی پہچان ہی بھول جائے اور ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے ۔ (مراة المفاتيح کتاب فضائل قرآن جلد 2 صفحہ 615)
حدیث پاک میں ہے : روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پرمیری امت کے ثواب پیش کئے گئے حتی کہ وہ کوڑا جسے آدمی مسجدسے نکال دے اورمجھ پرمیری امت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہ دیکھا کہ کسی شخص کو قرآن کی سورہ یا آیت دی جائے پھر وہ اسے بھلا دے ۔ (ترمذی،ابوداؤد)
خیال رہے کہ گناہ کبیرہ اور گناہ عظیم میں فرق ہے یہ بھول جانا گناہ عظیم ہے گناہ کبیرہ نہیں ۔ (المرات جلد ١ صفحہ ٦٧٩ مكتبة المدينة)
عَنْ أَبِي مُوسَی رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: تَعَاهَدُوْا هَذَا الْقُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنَ الإِبِلِ فِي عُقُلِهَا. متفق عليه، وهذا لفظ مسلم ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسٰی (اشعری) رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے ، سنتے سناتے رہا کرو ۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! ذہن سے نکل جانے میں یہ اس اونٹ سے بھی زیادہ تیز ہے جو رسی سے بندھا ہوا ہو ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: استذکار القرآن وتعاهده، 4 / 1921، الرقم: 4746، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الأمر بتعهد القرآن وکراهة قول نسيت آية کذا، 1 / 545، الرقم: 791،چشتی،وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 397، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 123، الرقم: 29992، والبيهقي في السنن الصغرى، 1 / 543، الرقم: 987، والطبراني عن أنس رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 2 / 322، الرقم: 2104، وأبويعلى في المسند، 13 / 291، الرقم: 7305، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 333، الرقم: 1961، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 236، الرقم: 2229)
عَنْ عَبْدِ اللہ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بِئْسَ مَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ : نَسِيْتُ آيَةَ کَيْتَ وَکَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّي، اسْتَذْکِرُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُوْرِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ بِعُقُلِهَا. متفق عليه، وهذا لفظ مسلم ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بہت برا ہے کسی کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (وہ بھولا نہیں) بلکہ اسے بھلا دیا گیا ۔ قرآن مجید کو سنتے سناتے رہا کرو کیونکہ لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں وہ رسی سے بندھے ہوئے جانوروں سے بھی زیادہ تیز ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: استذکار القرآن وتعاهده، 4 / 1921، الرقم: 4744، وفي باب: نسيان القرآن وهل يقول: نسيت آية کذا وکذا، 4 / 1923، الرقم: 4752، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الأمر بتعهد القرآن وکراهة قول: نسيت آية کذا، 1 / 544، الرقم: 790، والترمذي في السنن، کتاب القراءات عن رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (10)، 5 / 193، الرقم: 2942، وقال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن، کتاب: الإفتتاح، باب: جامع ماجاء في القرآن، 2 / 154، الرقم: 943، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 417، الرقم: 3960، وابن حبان في الصحيح، 3 / 38، الرقم: 761)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنهما أَنَّ رَسُولَ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ ، إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَکَهَا ، وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ ۔ متفق عليه ۔ وزاد مسلم في رواية : وَإذَا قَامَ صَاحِبِ الْقُرْآنِ فَقَرَأَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ذَکَرَهُ، وَإِذَا لَمْ يَقُمْ بِهِ نَسِيَهُ ۔
ترجمہ : حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صاحبِ قرآن (یعنی حافظِ قرآن) کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک کی سی ہے کہ اگر اس کی نگرانی کرے تو اُسے روک سکتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا (یعنی حافظِ قرآن اگر قرآن پڑھتا پڑھاتا رہے گا تو اسے قرآن یاد رہے گا ورنہ بھول جائے گا) ۔ اور مسلم نے ایک روایت میں یہ الفاظ زائد بیان کیے ہیں : جب صاحبِ قرآن کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے رات دن پڑھتا رہے تو یاد رکھتا ہے ، اور جب کوشش چھوڑ دیتا ہے تو اسے قرآن بھول جاتاہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: استذکار القرآن وتعاهده، 4 / 1920، الرقم: 4743، ومسلم في الصحيح کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: الأمر بتعهد القرآن وکراهة قول: نسيت آية کذا وجواز قول أنسيتها، 1 / 543، الرقم: 789،چشتی،والنسائي في السنن، کتاب: الإفتتاح، باب: جامع ماجاء في القرآن، 2 / 154، الرقم: 942، وفي السنن الکبرى، 1 / 327، الرقم: 1014، ومالک في الموطا، 1 / 202، الرقم: 474، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 17، 64، 112، الرقم: 4665، 5315، 5923، وابن حبان في الصحيح، 3 / 42، الرقم: 765)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّی الْقُذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوْتِيْهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا. رواه الترمذي وأبوداود ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے میری امت کے اَجر و ثواب پیش کیے گئے یہاں تک کہ وہ کوڑا کرکٹ بھی جو آدمی مسجد سے نکالتا ہے (اس کا ثواب بھی پیش کیا گیا) ۔ اور مجھ پر میری اُمت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت کسی آدمی کو (یاد کرنے کی توفیق) دی گئی اور پھر اس نے اسے بھلا دیا ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: فضائل القرآن عن رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: (19)، 5 / 178، الرقم: 2916، وأبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: في کنس المسجد، 1 / 126، الرقم: 461، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 271، الرقم: 1297، وعبدالرزاق في المصنف، 3 / 361، الرقم: 5977،چشتی،وأبو يعلى في المسند، 7 / 253، الرقم: 4265، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 308، الرقم: 6489، وفي المعجم الصغير، 1 / 330، الرقم: 547، والبيهقي في السنن الکبرى، 2 / 440، الرقم: 4110، وفي شعب الإيمان، 2 / 334، الرقم: 1966، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 122، الرقم: 429)
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی اللہ عنه قاَلَ : قَالَ رَسُولُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنِ امْرِئٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، ثُمَّ يَنْسَاهُ إِلاَّ لَقِيَ اللہ عز وجل أَجْزَمَ ۔ رواه أبوداود والدارمي وابن أبي شيبة ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن عبادہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآن حکیم پڑھنا سیکھ لے پھر اسے بُھلا دے وہ اللہ تعالیٰ سے اِس حال میں ملاقات کرے گا کہ ا س پر (مرضِ) کوڑھ طاری ہوگا ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه، 2 / 75، الرقم: 1474، والدارمي في السنن، 2 / 529، الرقم، 3340، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 124، الرقم: 29995، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 234، الرقم: 2225)
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي اللہ عنه يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَتَغَنَّوْا بِهِ وَاقْتَنُوهُ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَهُوَا أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنَ الْمَخَاضِ فِي الْعُقُلِ ۔ رواه النسائي والدارمي والبيهقي ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قرآن سیکھو اور خوش اِلحانی کے ساتھ اِس کی تلاوت کیا کرو اور اس تلاوت سے ثواب حاصل کیا کرو ۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! بے شک یہ قرآن (سینوں سے) اونٹنیوں کے رسیوں سے چھوٹنے سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبرى، 5 / 18، الرقم: 8034، والدارمي موقوفا في السنن، 2 / 531، الرقم: 3348،چشتی،والبيهقي في السنن الصغرى، 1 / 543، الرقم: 988، وفي شعب الإيمان، 2 / 335، الرقم: 1967)
176. عَنْ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنه قَالَ : أَکْثِرُوْا تِلاَوَةَ الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ، قَالُوْا: هَذِهِ الْمَصَاحِفُ تُرْفَعُ، فَکَيْفَ بِمَا فِي صُدُوْرِ الرِّجَالِ ؟ قَالَ : يُسْرَی عَلَيْهِ لَيْلاً فَيُصْبِحُوْنَ مِنْهُ فُقَرَاءَ، وَيَنْسَونَ قَوْلَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ ﷲُ ، ويَقَعُوْنَ فِي قَولِ الْجَاهِلِيَّةِ وَأَشْعَارِهِمْ، وَذَلِکَ حِيْنَ يَقَعُ عَلَيْهِمُ الْقُوْلُ. رواه الدارمي ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک کو اٹھائے جانے سے پہلے کثرت سے اس کی تلاوت کیا کرو ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ مصاحف تو اٹھا لیے جائیں گے لیکن ان (مصاحف) کا کیا ہوگا جو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں؟ آپ رضي اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان پر ایک رات ایسی گزرے گی کہ وہ لوگ صبح کے وقت اس قرآن سے خالی ہو جائیں گے اور لاَ إِلَهَ إِلاَّ ﷲُ کہنا بھول جائیں گے ، اور زمانہء جاہلیت والی باتیں اور اَشعار کہیں گے ۔ اور یہ وہ وقت ہوگا جب ان پر اﷲ کا عذاب واقع ہوگا ۔ (أخرجه الدارمي في السنن، باب: في تعاهد القرآن، 2 / 530، الرقم: 3341)
قرآن مجید کی زیارت کرنا، اس کی تلاوت، اس کا حفظ اور اس میں غور و فکر اور اسی سے ہدایت و راہنمائی لینا بلاشبہ افضل ترین عمل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآنِ مجید نازل کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ سے سنا اور جس سے جتنا ممکن ہوا اس نے یاد (حفظ) کر کے اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کی دہرائی فرماتے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دیتے ۔ قرآن مجید کو اسی وقت یاد رکھا جا سکتا ہے جب انسان یاد کردہ سورتوں کو بار بار پڑھے اور ان کی دہرائی کرتا رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ الْإِبِلِ فِي عُقُلِهَا ۔
ترجمہ : قرآن مجید کا پڑھتے رہنا اپنے اوپر لازم کر لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ اونٹ کے اپنی رسی تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے حافظے سے نکلتا ہے ۔
اسی حکم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مثال کے ساتھ یوں سمجھایا : إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَکَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ ۔
ترجمہ : قرآن مجید پڑھے ہوئے آدمی کی مثال اونٹوں کے مالک جیسی ہے جو بندھے ہوئے ہوں ۔ اگر ان کی نگرانی کرے گا تو ٹھہرے رہیں گے اور اگر انہیں کھول دے گا تو چلے جائیں گے ۔ (بخاري، الصحيح، 4: 1920، رقم: 4743، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)(مسلم، الصحيح، 1: 543، رقم: 789، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
اس لیے اگر کوئی شخص اپنی کوتاہی ، سستی اور غفلت کی وجہ سے بھول جائے‘ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک کر دے تو بلاشبہ وہ سخت گناہگار ہے ۔ کیونکہ اس نے قرآن مجید کیساتھ تعلق توڑ دیا اور کلام اللہ کی اہمیت کا عملاً انکار کر دیا ۔ لیکن اگر وہ خود کوتاہی نہیں کرتا اور بشری کمزوری کی وجہ سے بھول جاتا تو کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ قرآنِ مجید کی تلاوت ترک نہ کرے ، بھول جانے والے حصے کو بار بار یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے ۔ جن احادیث میں قرآنِ مجید بھولنے پر وعید آئی ہے احناف کے نزدیک اس سے مراد اس طرح بھول جانا ہے کہ انسان الفاظ کی پہچان ہی بھول جائے اور ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے ۔ (مراة المفاتيح کتاب فضائل قرآن جلد 2 صفحہ 615) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment