Friday 10 November 2023

اللہ عزوجل نے درو د و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے

0 comments
اللہ عزوجل نے درو د و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے






محترم قارئینِ کرام : قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اذان سے پہلے اذان کے بعد نماز کے بعد ہر وقت صلوٰۃ و سلام بلند آواز سے یا آہستہ پڑھنا جائز ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔
ترجمہ : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اے ایمان والوان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر ٥٦)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو درود و سلام پڑھنے کا حکم فرمایا ہے اس میں کسی وقت' جگہ یا کسی خاص صیغہ سے پڑھنے کی پابندی نہیں لگائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شجر و حجر پڑھتے تھے ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (سیرۃ الحلبیہ صفحہ ٤٩٣ جلد ٣)(معارج النبوۃ صفحہ ٦٧٧، جلد ٣)(مشکوٰۃ شریف)(ابوداؤد شریف صفحہ ٣٥١ ، ٢١٦)(حزب الصلوٰۃ والسلام محمد ہاشم دیوبندی)(فتاویٰ علماء حدیث صفحہ ١٥ جلد ٩)

صحابہ کرام علیہم الرضوان اسی صیغہ خطاب سے صلوٰۃ و سلام دربار رسالت میں عرض کرتے تھے ۔ (نسیم الریاض ، شفا شریف جلد ٣ ، ص ٤٥٤)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پتھر اور درخت کے پاس سے گزرتے وہ حضورنبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کرتا ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (سیرۃ حلبیہ ص ٢١٤) ۔ یہی روایت السلام علیک یا رسول اللہ کے الفاظ کے ساتھ مشکوٰۃ شریف میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔

حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ'' پڑھتے تھے ۔ (ماہنامہ حرمین اہلحدیث جہلم جنوری ١٩٩٢)

صحابہ کرام سے جو مختصر درود و سلام مروی ہے وہ ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ'' ہی ہے ۔ (حزب الصلوٰۃ والسلام ص١٥٤تا١٦٩ ، مولوی محمد ہاشم دیوبندی ' معارف القرآن مفتی محمد شفیع دیوبندی)

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف درودِ ابراہیمی پڑھنا چاہیے کیونکہ  یہ بہت فضیلت والا ہے اور مذکورہ درودشریف اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ بنوٹی درود ہے اِس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اب دیکھیں کہ یہ بد مذہب حقیقت میں درودِابراہیمی کے خود دو مرتبہ منکر ہیں ۔ درودِ ابراہیمی (نماز والے درود) میں آلِ ابراہیم اور آلِ محمد پر درود بھیجا جاتا ہے ۔ آلِ ابراہیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے والدین شامل ہیں اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں حضور نبی پاک کے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ یہ لوگ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے والدین کو مسلمان مانتے ہیں اور نہ ہی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو حق پر تسلیم کرتے ہیں تو پھران کو درودِ ابراہیمی پڑھنے کا کیا فائدہ ہو گا ۔ اگر یہ نماز والا درود افضل اور بہتر ہے تو نماز والے سلام پر کیوں ایمان نہیں ہے ۔ نماز میں زندہ و حیات نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں السلام علیک ایہاالنبی حرفِ ندا کے ساتھ سلام عرض کیا جاتا ہے ۔

معترضین کی کتب سے ثبوت : ⬇

 (1) ہمارے بزرگان دین اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْل اللہ پڑھنا مستحب جانتے ہیں اور اپنے متعلقین کو اس کا حکم دیتے ہیں ۔ (الشہاب ثاقب صفحہ ٦٥)

(2) اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
(امداد المشتاق صفحہ ٥٩ از اشرف علی تھانوی)

(3) مولوی خلیل احمد دیوبندی کو صاحب التاج والمعراج ؐ کی زیارت ہوئی حضور علیہ السلام کو دیکھتے ہی مولوی صاحب اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھنے لگے ۔ (تذکرہ خلیل صفحہ ٢٢٣ عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی)

(4) اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں
        (فیصلہ ہفت مسلہ ص ٣٢:ازحاجی امداد اللہ مہاجر مکی )
(5) تین بار  اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھے۔
( ضیاء القلوب ص ١٥ ،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی )
(6) روضہ اطہر پر حاضر ہو کر بصیغہ اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ سلام پیش کرنا جائز ہے۔(خیر الفتاویٰ ج ١، ص ١٨٠ خیر محمد جالندھری دیوبندی )
(7)اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھے تو زیادہ اچھا ہے ۔
    (فضائل اعمال مطبوعہ لاہور ص ٦٤٦'مولوی زکریا سہارن پوری
 (8) نداء درود و سلام کے ساتھ صلی اللہ علیک یا رسول اللہ یا  اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ بصورت حدیث کی رُو سے جائز ہے 
( شبیر احمد دیوبندی یا حرف محبت ص ٦)
(9) گرمی سے بچنے کا نسخہ مولوی اسحاق علی کا نپوری کیلئے: کہ ''جب سانس اندر جائے تو صَلَّ اللہ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّد ؐ اور جب سانس باہر آئے تو صلی اللہ علیک وسلم زبان تالو سے لگا کر خیال سے کہا کرو'' ۔ (یا حرف محبت ص ٦٣)
(10) اس لئے بندہ کے خیال میں اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اللہ ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِی اللہ  کے اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ، اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیُّ اللہ اسی طرح آخر تک سلام کے ساتھ ''الصلوٰۃ '' کا لفظ بھی بڑھائے تو زیادہ اچھا ہے ۔ ۔ (فضائل درود شریف ص ٢٥ ، زکریا سہارنپوری دیوبندی)
(11) اس ناپاک او ر ناکارہ کے خیال میں روضہ اقدس پر نہایت خشوع و خضوع وسکون و وقار سے ستر مرتبہ اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ہر حاضری کے وقت پڑھ لیا کرے تو زیادہ بہتر ہے ۔ (فضائل حج مولوی زکریا سہارنپوری دیوبندی)
(12) روضہ رسول  پر خشوع و خضوع اور ادب کے ساتھ پڑھے۔
اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ، اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نبی اللہ ، اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حبیب اللہ۔
(فضائل درود شریف ص ٢٣ ، از مولوی زکر یا سہارنپوری)
(13) ہم اور ہمارے اکابر اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کو بطور درود شریف پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ یہ بھی فی الجملہ اور مختصر درود کے الفاظ ہیں''۔(درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ ص ٧٥،سرفراز گکھڑوی دیوبندی)
(14) یوں جی چاہتا ہے کہ درود شریف زیادہ پڑھوں وہ بھی ان الفاظ سے
اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ
(شکرالنعمہ بذکر الرحمۃ الرحمہ ص ١٨، اشرف علی تھانوی)
(15) گجرات روزنامہ ڈاک ١٨،٢٠ نومبر ٢٠٠٢ء : دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم ضیاء اللہ بخاری نے درس قرآن میں کہا کہ اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہنا جائز ہے۔ لیکن اسے اذان کا حصہ نہ بنایا جائے ۔
(16) عاشق الٰہی دیوبندی نے اپنی کتاب طریقہ حج و عمرہ صفحہ نمبر ١٥١ پر لکھا ہے : ⬇

اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ
اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حبیب اللہ

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض علماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بغیر سلام کے صرف صلوۃ بھیجنے کے مکروہ ہونے پر نص فرماٸی ہے ۔ (شرح صحیح مسلم جز اول صفحہ ۴۴)

دیوبندیوں کے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے خالی درود پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے ۔ (تفسیرمعارف القرآن جلد ۷ صفحہ ۲۲۵)

مشہور دیوبندی عالم علامہ دوست محمد قریشی لکھتے ہیں : بغیر سلام کے  شیعوں کا درود ناقص ہے اہلسنت کا درود سلام کے ساتھ مکمل ہے ۔ (اہلسنت پاکٹ بک سوم صفحہ ۴۰۳)

امام الوہابیہ قضی شوکانی لکھتے ہیں : دورود ابراہیمی کا حکم خاص نماز کے ساتھ ہے نماز کے علاوہ اللہ کے حکم درود و سلام دونوں پر عمل کرنا چاہیے ۔ (تحفۃ الذاکرین صفحہ ۱۴۸)

قرآن مجید میں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے : ⬇

اصل درود پاک وہی ہے جس میں صلوٰۃ و سلام دونوں کا ذکر موجود ہو ، کیونکہ قرآن مجید میں صلوٰۃ و سلام دونوں کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 56)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ۔ تفسیر جلالین میں یہ الفاظ مذکور ہیں : اللهم صلی علی سيدنا محمد وسلم ۔

امام بدر الدین عینی علیہ الرحمہ نے یہ کلمات لکھے ہیں : اللهم صلی علی سيدنا محمد و علی آله وصحبه مادامت اَزمنة و اوقات وسلم تسليما کثير او بارک عليهم وعلی من تبع هديهم بتحيات مبارکات زاکيات ۔ (عمدة القاری جلد 25 صفحہ 203)

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں مطلقاً بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط نماز کےلیے درود ابراہیمی متعین کیا ہے ۔ نماز کے علاوہ کسی بھی موقع پر کوئی بھی درود و سلام پڑھ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بے شمار صیغوں میں درود و سلام موجود ہے ۔

آج ہر طبقے ، مذہب اور فکر کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب نام مبارک لیتے ہیں تو فقط علیہ الصلوٰۃ والسلام یا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھتے ہیں ۔ اگر درود ابراہیمی ہی اصل ہے تو پھر یہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جب مطلق حکم فرما دیا کہ درود و سلام پڑھو تو پھر جس مرضی صیغے کے ساتھ پڑھیں ، مقصود حاصل ہو جاتا ہے ۔ ہمیں مقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، قرآن و سنت میں کہیں بھی درود و سلام کی تقلید نہیں ہے ۔

درود ابراہیمی اصل میں نماز کےلیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تجویز کیا تھا۔ چنانچہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم هذا تسليم فکيف نصلی عليک قال ، قولوا اللهم صل علی محمد الخ ۔ (صحيح بخاری، 2 : 708)
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو سلام ہے تو درود کیسے پڑھیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللھم صل پڑھو ۔

جب درود شریف کا حکم آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یارسول اللہ اما السلام عليک فقد عرفناه فکيف الصلوة قال قولوا اللهم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما صليت علی ابراهيم وعلیٰ اٰل ابراهيم انک حميد مجيد ۔ (صحيح بخاری جلد 2 صفحہ 708)
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا سلام کا تو ہمیں پتہ ہے درود کیسے پڑھیں۔ فرمایا اللھم صل پڑھو ۔ چونکہ صحابہ کرام نماز کے اندر درود شریف کے حوالے سے پوچھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اللھم صل پڑھا کرو ۔

درود و سلام ۔ بخاری و مسلم یا کوئی بھی حدیث کی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ درود ابراہیمی لکھا ہوا ہو ۔ ساری کتب میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا علیہ الصلوۃ والسلام) کے الفاظ ہی موجود ہیں ۔ قرآن پاک میں بھی درود اور سلام دونوں ہی پڑھنے کا حکم ہے اس لیے صرف درود ابراہیمی پڑھنے سے حکم باری تعالیٰ پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ درود کا بھی حکم ہے اور سلام کا بھی بلکہ سلام کےلیے ڈبل حکم یعنی تاکید پیدا کی گئی ہے ۔ نماز میں ہم درود ابراہیمی پڑھنے سے پہلے سلام پڑھتے ہیں ۔ اس لیے حکم باری تعالیٰ پر مکمل عمل ہو جاتا ہے ۔ لیکن نماز کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک آئے ہم درود ابراہیمی پڑھیں ۔ تاریخ گواہ ہے ، کتابیں موجود ہیں ۔ آج تک کسی نے کوئی کتاب نہیں لکھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ درود ابراہیمی لکھا ہو نہ ہی کسی نے ایسا خطاب کیا کہ جہاں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک آیا ہو اس نے درود ابراہیمی پڑھا ہو ، آج تک ایسا نہیں ہوا ۔ لہٰذا صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین رضی اللہ عنہم ، ائمہ فقہ ، ائمہ حدیث اور تمام سلف صالحین علیہم الرحمہ کی تحریر اور تقریر سے درود ابراہیمی کے علاوہ درود و سلام ثابت ہیں جو بھی اپنے اپنے انداز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام پیش کرے قبول ہے ۔ اعتراض کرنے والے خود بھی اس پر عمل نہیں کرتے صرف عوام کو گمراہ کرنے کی خاطر طرح طرح کے اختلافات پیدا کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ واضح حکم ہے درود کا بھی اور سلام کا بھی ، جب درود ابراہیمی ہے ہی صرف درود تو پھر سلام کہاں گیا ؟ ۔ نماز میں سلام معلوم تھا لیکن درود معلوم نہ تھا فرمایا اللھم صل پڑھو ۔ اب درود شریف نماز کے باہر بھی پڑھا جاتا ہے اس لیے اگر نماز کے باہر فقط درود ابراہیمی پڑھنا ہے تو قرآن کے ایک حکم سلام پر عمل نہیں ہوتا اور یہ خلافِ اطاعت الہٰی ہے ۔ اس لیے تمام مفسرین ، محدثین اور علماء کرام کتابوں میں اکثر نام گرامی کے ساتھ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتے ہیں اس میں سلام اور صلاۃ دونوں ہیں ۔ لہٰذا نماز میں درود ابراہیمی پڑھنا چاہیے چونکہ اس سے پہلے سلام پڑھا جاتا ہے نماز کے باہر کوئی بھی صیغہ ہو لیکن صلاۃ و سلام دونوں ہوں تو پڑھنا چاہیے تاکہ حکم ربی پر مکمل عمل ہو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔