حافظِ قرآن کی شان و فضائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل کا لاکھ لاکھ شکر واحسان یے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات کا تاج زریں پہنا کر امت محمدیہ میں پیدا فرمایا ، اللہ عزوجل کا بے پناہ احسان ہے کہ اس نے ہماری نصرت و ہدایت کےلیے ایک ایسی کتاب تحفہ میں عطا فرمائی جو تمام کتابوں سے افضل ہے ، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود پروردگار عالم نے لی ، ارشادِ ربانی ہے : إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنالْذِكْرَ وَإنَّا لَه لَحٰفِظُوْنَ ۔ (سورہ الحجر آیت نمبر 9)
ترجمہ : بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔
یہ مرتبہ اور یہ اعزاز اللہ تبارک و تعالٰی نے کسی اور کتاب کو عطا نہیں کیا جو مرتبہ اور اعزاز قرآن کو عطا کیا ۔ قرآنِ مجید اللہ عزوجل کا بابرکت کلام ہے ۔ اسے حفظ کرنے اور حافظِ قرآن کی بہت زیادہ فضیلت ہے ۔
عن امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم قال ۔ قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من قرءالقران فاستظھر فاحل حلالہ وحرم حرامہ ادخلہ اللہ الجنۃ وشفعہ فی عشرۃ من اھل بیتہ کلھم قد جبت لہ النار ۔
ترجمہ : امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے قران کریم حفظ کیا اور اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام ٹہرایا اللہ تعالٰی اس کی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا اور اسے اس کے گھر والوں سے ایسے دس کا شفیع بناۓ گا جن کےلیے دوزخ واجب ہوچکی تھی ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی جلد ۲ صفحہ ۳۲۸،چشتی)(کنزالعمال للمتقی ۲۷۵۲ اراءۃالادب ۔ ۴۰)
عن ام المؤمنین عائشۃ الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررة والذین یقرءالقرآن ویتتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ اجران ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو قرآن مجید میں مہارت رکھتا ہو وہ نیکوں اور بزرگوں اور وحی وکتابت یا لوح محفوظ لکھنے والوں یعنی انبیائے کرام و ملائکہ عظام علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ ہے اور جو قرآن کو بزور پڑھتا ہے اور وہ اس پر شاق ہے اس کےلیے دو اجر ہیں ۔ (السنن لابن ماجہ شریف جلد ۱ باب فضل من تعلیم القرآن وعلیہ ص ۱۹)(الجامع للترمزی شریف جلد ۲ باب ماجاء فی فضل قاری القرآن ص ۱۱۴)(المسند لاحمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۴۸)(الترغيب والترھیب للمنذری جلد ۲ صفحہ ۳۵۵،چشتی)(فتاوی رضویہ شریف جلد ۹ حصہ اول صفحہ ۱۰۵))(جامع الاحادیث جلد چہارم کتاب الفضائل فضائل قرآن صفحہ ۶۳۶ ۔ ۶۳۵ مکتبہ برکات رضا پوربندر گجرات)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ يَجِيئُ الْقُرْاٰنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَی عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِکُلِّ اٰيَةٍ حَسَنَةً ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن صاحب قرآن آئے گا تو قرآن کہے گا اے رب! اسے جوڑا پہنا چنانچہ اسے عزت کا تاج پہنایا جائے گا ۔ پھر عرض کرے گا اے رب ! اسے مزید پہنا پھر اسے عزت کا جوڑا پہنایا جائے گا پھر قرآن عرض کرے گا اے رب ! اس سے راضی ہوجا تو وہ اس سے راضی ہو گا اور اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور ترقی کی منازل طے کرتا جا ہر آیت کے بدلے اس کی نیکی بڑھائی جائے گی ۔ (ترمذي، السنن، 5: 178، رقم: 2915، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُقَالُ - يَعْنِي لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ -: اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا ": «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا : (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی ۔ (سنن الترمذي:۲۹۱۴)(مسند احمد:۲۸۹۹)(ابوداود:۱۴۶۴)(النسائی الکبری :۷۰۵۶،چشتی)(صحیح ابن حبان:۱۷۹۰)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔ (سنن الترمذي:۲۹۱۳ وسنن الدارمی:۳۳۰۹)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانِ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا ؟ ۔
ترجمہ : حضرتمعاذ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا ۔ (سنن ابي داود ۱۴۵۳)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ، فَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ ۔
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ فرمتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا ۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی ۔ (سنن الترمذي ۲۹۰۵)(سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۶ (۲۱۶)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے ہزار برس پہلے سورة طہ اور سورة یسین کی تلاوت فرمائی ، جب فرشتوں نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا : اس امت کےلیے خوشخبری ہو جس پر یہ اتارا جائے گا ، ان مبارک دلوں کےلیے خوشخبری ہو جو اسے یاد کریں گے ، اور اسے پڑھنے والی زبان کےلیے خوشخبری ہو ۔ (سنن الدارمي ۳۴۵۷،چشتی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (قرآن کریم قیامت کے دن آ کر کہے گا : پروردگار ! اسے مزین فرما دے ۔ تو اسے معزز تاج پہنایا جائے گا ، پھر قرآن کہے گا : یا رب ! مزید مزین فرما دے ، تو پھر اسے مکرم لباس پہنایا جائے گا ، پھر قرآن کہے گا : یا رب ! اس سے راضی ہو جا ، تو اسے کہا جائے گا : پڑھتا جا چڑھتا جا اور ہر ایک کے پڑھنے پر اس کا حسن دوبالا ہوتا جائے گا ۔ اسے ترمذی حدیث نمبر (2915 نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا : کیا تم مجھے جانتے ہو ؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں (روزے رکھوا کر) پیاس برداشت کرواتا تھا ۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا ، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا ، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا ، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے ، تو والدین کہیں گے : پروردگار ! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا : تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ (معجم الاوسط جلد 6 صفحہ 51)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا ، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی ، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے ، تو والدین کہیں گے : پروردگار ! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا ؟ تو انہیں کہا جائے گا : تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے ۔ (مستدرک حاکم جلد 1 صفحہ 756)
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو جمع کے صیغہ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے حالان کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے۔ اس کی تو جیہہ میں امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی 606 ھ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ہر چند کہ یہ جمع کا صیغہ ہے لیکن بادشاہوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی عظمت کا اظہار کرنے کے لیے خود کو جمع کے صیغے سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے جب کوئی کام کرتا ہے یا کوئی بات کہتا ہے تو وہ اس یوں کہتا ہے کہ ہم نے یہ کام کیا یا ہم نے یہ بات کہی ۔ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 123، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ہے اور اس کی صفات کثیر ہیں ۔ جب اس کی تعبیر میں صرف اس کی ذات کا لحاظ ہو تو اس کو واحد کے صغیے کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے اور جب ذات مع صفات ملحوظ ہو تو اس کی جمع کے صیغے کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے اسی طرح تعبیر کرنے والے کے ذہن میں اگر اس کی واحدانیت کا غلبہ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو واحد کے صیغے کے ساتھ تعبیر کرتا ہے اور اگر اس کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کے ادب اور احترام کا غلبہ ہو تو وہ اس کو جمع کے صیغے کو ساتھ تعبیر کرتا ہے یہ دونوں تعبیریں جائز ہیں اور ان کی تعبیر کا مدار تعبیر کرنے والے کی اس وقت کی کیفیت پر ہے ۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں لہ کی ضمیر کی مرجع میں دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ ضمیر الذکر کی طرف لوٹتی ہے اس صوسرت میں معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور دوسرا قول یہ ضمیر منزل علیہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف راجع ہے اب اس طرح ہے کہ بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۔ (سورہ المائد آیت نمبر ٦٧) ۔ اور اللہ آپ لوگوں سے محفوظ رکھے گا ۔ لیکن نظم قرآن کے زیادہ موافق اور اس مقام کے زیادہ مناسب یہ ہے کہ یہ ضمیر الذکر کی طرف راجع ہے یعنی بیشک ہم قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی محافظ ہیں ۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ قرآن مجید کا محافظ ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو جمع کرنے اور اس کو مرتب کرنے میں کیوں مشغول ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حفاظت کے ظاہری اسباب مقرر فرمائے تھے ۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید کو لکھ کر محفوظ کیا گیا اور اس کی اشاعت کی گئی اور جتنی اس کی اشاعت کی گئی تھی اتنی دنیا کسی کتاب کی اشاعت نہیں گئی اور قرآن مجید کو حفظ کیا گیا اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کو اول سے آخر تک پورا حفظ کیا جاتا ہے اور ہر دور میں میں دنیا میں اس کے بیشمار حافظ ہیں اگر کسی مجلس میں کوئی پڑھنے والا کسی سورت یا کسی آیت سے ایک لفظ کم کردے یا اس میں میں اپنی طرف سے کوئی زیادہ کر دے تو اسی مجلس میں لوگ بول اٹھیں گے آپ نے یہ لفظ چھوڑ دیا ہے آپ نے جو لفظ پڑھا ہے وہ قرآن مجید کا لفظ نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن مجید کا چھاپے اور اس میں کوئی لفظ کم یا زیادہ کر دے یا کسی نقطہ میں کی و پیشی کردے یا کسی زیر زبر میں تغیر کردے تو سینکڑوں آدمی آکر اس غلطی کی نشاندہی کریں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ ۔ اس قرآن کے پاس باطل نہیں آسکتا نہ اس کے سامنے سے نہ اس کے پیچھے سے ۔
علامہ عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی 668 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ابو لحسن علی بن خلف نے اپنی سند کے ساتھ یحییٰ بن الکثم سے روایت ہے کہ کہ جب مامون رشید حکمران تھا تو اس نے ایک علمی مجلس منعقد کی ۔ اس مجلس میں ایک یہودی آیا جس نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور بہترین خشبو لگائی ہوئی تھی ۔ اس نے بہت نفیس اور ادیبانہ گفتگو کی جب مجلس ختم ہو گئی تو مامون نے اس کو بلاکر پوچھا ۔ آیا تم اسرائیلی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ! مامون رشید نے کہا تم مسلمان ہو جاؤ ، میں تمہیں بہت انعام و اکرام دوں گا اور بہت بڑے منصب پر فائز کروں گا۔ اس نے کہا یہ میرا دین ہے اور میرے آباء اجداد کا دین ہے اور یہ کہہ کر چلا گیا پھر ایک سال کے بعد وہ پھر آیا اس وقت وہ مسلمان ہو چکا تھا اس فقہی مسائل پر کلام کیا اور بہت عمدہ بحث کی ۔ جب مجلس ختم ہو گئی تو مامون نے اس کو بلاکر پوچھا کیا تم پچھلے سال ہماری مجلس میں نہیں تھے اس کہ کیوں نہیں مامون نے پوچھا پھر تمہارے اسلام لانے کا کیا سبب ہے ؟ اس نے کہا جب میں تمہاری مجلس سے اٹھا تو میں سوچا کہ میں ان مذہب کا امتحان لوں اور آپ نے دیکھا کہ میرا خط (لکھائی) بہت خوبصورت ہے میں پہلے تورات کا قصد کیا اور اس کے تین نسخے لکھے اور اس میں اپنی طرف سے کمی پیشی کردی میں یہودیوں کے معبد میں گیا تو انہوں نے تورات کے ہو نسخے مجھ سے خرید لیے پھر میں انجیل کا قصد کیا، میں نے اس کے بھی تین نسخے لکھے اور ان میں کمی پیشی کردی پھر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ نسخے خرید لیے پھر میں نے قرآن مجید کا قصد کیا میں نے اس کے تین نسخے لکھے اور ان میں کمی پیشی کردی پھر میں ان کو فروخت کرنے کے لیے اسلامی کتب خانہ میں گیا اور ان پر وہ نخ سے پیش کئے انہوں نے ان کو پڑھا اور ان کی تحقیق کی اور جب وہ میری کی ہوئی زیادتی اور کمی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دیے اور ان کو نہیں خریدا اس سے میں نے یہ جان لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تغیر نہیں کیا جا سکتا تو یہ میرے اسلام لانے کا سبب ہے ! یحییٰ بناکثم نے کہا یہ خبر سچی ہے اور قرآن مجید میں اس کی تصدیق ہے انہوں نے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل کی حفاظت ان کی علماء کے سپرد کر دی ہے فرمایا : إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالأحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ ۔ (سورہ المائد آیت نمبر ٤٤) ۔ بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے جس کے مطابق انبیاء فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے تابع فرمان تھے ان لوگوں کا (فیصلہ کرتے رہے) جو یہودی تھے اور (اسی کے مطابق) اللہ والے اور علماء (فیصلہ کرتے رہے) کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے ۔ اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ یہود اور نصاریٰ کو تورات اور انجیل کا محافظ بنادیا گیا تھا اور قرآن مجید کا محافظ خود اللہ تعالیٰ جیسا کہ اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر آیت نمبر ٩) ۔ بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 10 صفحہ 7 ۔ 6 مطبو عہ دارالفکر بیروت 1415 ھ،چشتی)(تفسیر جلد ۵ صفحہ ۶ الجزء العاشر)
تورات کے 1927 ایڈیشن میں ہے ہزاروں قدسیوں کے ساتھ آیا صفحہ 192 اور موجودہ ایڈیشن میں ہے لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا ۔ صفحہ 184 ۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ پر حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ نے ایک اشکال قائم کیا ہے جس کا مولانا فیض احمد صاحب نے ان کے سوانح میں ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں : ایک مولوی صاحب نے مناظرانہ رنگ میں سوال کیا کہ قرآن مجید فرماتا ہے میں کتب سابقہ کا مصداق ہوں مصدقالما معکم) مگر کتب سابقہ بھی کلام الہی ہیں اور قرآن کریم جس سے تصدیق الشئی لنفسہ کا اشکال لازم آتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا : قرآن مجید اور کتب سابقہ میں تو زمان و مکان اور لغت اور محل نزول کا اختلاف موجود ہے آپ کےلیے موجب اشکال تو یہ چیز ہونی چاہیے کہ قرآن کی محافظت الہیہ کی مثبت ایک ہی آیت : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر : ٩) ۔ (ہم نے ہی قرآن نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں وراد ہوئی ہے جو اپنی محافظت کی دلیل بھی آپ ہے پس فرمائیے آپ کے اعتراض کی روشنی میں اس محافظتہ الشئی لنفسہ کے اشکال کا حل کیا ہو گا ؟ ۔ (مہر منیر صفحہ 460 مطبوعہ پاکستان انٹر نیشنل پر نٹرز لاہور) ۔ فقیر کے خیال میں اس اشکال کا یہ جواب ہے کہ الذکر سے مراد قرآان مجید ہے اور الذکر میں اجمالی طور پر پورا قرآن مجید موجود ہے اور پورے قرآن میں یہ آیت یعنی إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر آیت نمبر ٩) ۔ یہ بھی موجود ہے لہٰذا یہ آیت تفصیلی طور پر محافظ یا محافظت کی مثبت اور دلیل ہے اور اذکر کے ضمن میں اجمالی طور پر جو یہ آیت ہے وہ محفوظ ہے یعنی پورے قرآن کے ضمن میں جس کی حافظ کی گئی ہے لہٰذا اجمال اور تفصیل کے فرق کی وجہ سے محافظتہ الشئی لنفسہ لازم نہیں آئی چونکہ وہ شخص حضرت سے مناظرناہ گفتگو کر رہا تھا اس لیے آپ علیہ الرحمہ نے خود اس کا جواب نہیں ذکر فرمایا ۔
جیسا کہ فقیر عرض کر چکا ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کا ظاہری سبب اس کا بہت زیادہ چھپنا اور بہت زیادہ حفظ کرنا اور قرآن مجید کو لوگ تراویح میں قرآن مجید سنانے یا سننے میں حفظ کرتے ہیں اور جو لوگ تراویح میں قرآن مجید سننا یا سنانا چھوڑ دیتے ہیں انہیں قران مجید بھول جاتا ہے ہے اور جس فرقے کے لوگ تراویح نہیں بڑھتے ان میں کوئی حافظ قرآن بھی نہیں ہوتا اور قرآن مجید کو مصحف میں لکھ کر محفوظ کرنے کا مشورہ حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا تھا اور تراویح میں قرآن مجید پڑھ کر سنانے کا طریقہ بھی حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا حقیقی محافظ تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس کی حفاظت کے ظاہر سبب حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment