Tuesday 28 November 2023

سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ سوم

0 comments
سنی کتبِ احادیث میں شیعہ راوی فریب کا جواب حصّہ سوم
صداقت نام نہاد فریدی اور اس کے بڑوں یعنی رافضی جو اعتراضات کرتے ہیں وہ اصول کے خلاف ہے ۔ امام بخاری اور امام مسلم علیہما الرحمہ کا داعی الی بدعت راویوں سے احتجاج کرنا ، تو اس بارے  میں امام سخاوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ نے عمران بن حطان السدوسی سے جو روایت کی ہے تو وہ اس کے بدعت سے قبل کی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے آکر عمر میں اپنی بدعت سے توبہ کر لی ہو اور یہ روایت اس کے رجوع کے بعد کی ہو ۔ پھر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اس سے صرف ایک ہی حدیث (کتاب التوحید میں) تخریج کی ہے اور وہ بھی متابعات میں سے ہے ۔ پس یہ تخریج متابعات میں مضر نہیں ہے ۔ (فتح المغیث للسخاوی جلد ۲ صفحہ ۶۸)(فتح الباری جلد ۱۰ صفحہ ۲۹۰)

صداقت نام نہاد فریدی اور اس کے بڑوں یعنی رافضی جن راویان کے نام لیتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق پیش خدمت ہے ۔

صداقت فریدی رافضی اہلسنت پر تنقید کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ : ناصبی (یاد رہے یہ صداقت فریدی رافضی اپنے بڑوں رافضیوں کی طرح اہلسنت کو ناصبی کہتا ہے) کے پیش کردہ دلائل درج ذیل ہیں : ⏬

مثلاً : اختلف أهل العلم في السماع من أهل البدع والأهواء كالقدرية والخوارج والرافضة , وفي الاحتجاج بما يروونه , فمنعت طائفة من السلف صحة ذلك , لعلة أنهم كفار عند من ذهب إلى إكفار المتأولين , وفساق عند من لم يحكم بكفر متأول , وممن لا يروى عنه ذلك مالك بن أنس , وقال من ذهب إلى هذا المذهب: إن الكافر والفاسق بالتأويل بمثابة الكافر المعاند والفاسق العامد , فيجب ألا يقبل خبرهما ولا تثبت روايتهما ۔
ترجمہ : امام خطیب بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہل علم کا اس کا اس مسئلہ پر اختلاف ہے کہ اہل بدعت سے اہل اھواء سے سماع کرنا اور ان کی مرویات کو قابل احتجاج سمجھنا یہ جائز ہے کہ نہیں ۔ اسلاف میں سے ایک گروہ اسے ناجائز سمجھتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ یہ کفار و فاسقین ہیں ۔ (کتاب الکفایة فی علم الرواية صفحہ ۱۲۰)

امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں : (ومن لم يكفر) فيه خلاف ۔ (قيل: لا يحتج به مطلقا) ، ونسبه الخطيب لمالك ; لأن في الرواية عنه ترويجا لأمره، وتنويها بذكره ; ولأنه فاسق ببدعته، وإن كان متأولا يرد كالفاسق بلا تأويل، كما استوى الكافر المتأول وغيره ۔
ترجمہ : امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : خطیب بغدادی نے امام مالک کے حوالے سے یہ بات کہی ہے جو بدعتی شخص کی روایت ہے اسے بلکل ترک کر دو کیونکہ اس سے اس کے مذہب کی ترویج ہو گی اور اس کا ذکر عام ہو گا ۔ وہ آدمی فاسق ہے اپنی اس بدعت کی وجہ سے لہٰذا ہم اس کی روایت کو قبول نہیں کریں گے ۔ (تدریب الراوی في شرح تقریب النواوی جلد اوّل صفحہ ٣٨٤،چشتی)

جواب : ان روایتوں میں اختلاف اس چیز کا بیان کیا گیا ہے کہ بدعتی راوی کی مطلق روایت یا تو رد کی جائیں گی سماع ہی نہیں کیا جائے گا یا اس کی روایت مطلق سنی جائیں گی اور روایت کی جائیں گی ۔ لیکن  مسٸلہ خاص کہ جس میں بدعتی فقط اپنے مذہب کی تائید میں روایت بیان کرے گا اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تو یہ دلائل غلط ہیں ۔

ایک صاحب  اس کے جواب میں جو لکھتے ہیں اس کے دلائل جو کہ ابن حجر علیہ الرحمہ سے پہلے نقل کرتا ہے : امام ابنِ حجر العسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ثم البدعة 1: وهي السبب التاسع من أسباب الطعن في الراوي: وهي إما أن تكون بمكفر : ⏬

1 ۔ كأن يعتقد ما يستلزم الكفر ۔ 2 ۔ أو بمفسق ۔ فالأول : لا يقبل صاحبها الجمهور ۔ وقيل : يقبل مطلقا ۔ وقيل : إن كان لا يعتقد حل الكذب لنصرة مقالته قبل ۔ والتحقيق أنه لا يرد كل مكفر ببدعة1؛ لأن كل طائفة تدعي أن مخالفيها مبتدعة، وقد تبالغ فتكفر مخالفها، فلو أخذ ذلك على الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف ۔ فالمعتمد أن الذي ترد روايته من أنكر أمرا متواترا من الشرع معلوما من الدين بالضرورة، وكذا من اعتقد عكسه، فأما من لم يكن بهذه الصفة وانضم إلى ذلك ضبطه لما يرويه، مع ورعه وتقواه، فلا مانع من قبوله ۔
ترجمہ : 1 ایسی بدعت جس سے کفر لازم آتا ہے ۔ 2 ۔ ایسی بدعت جو کہ فاسق کر دے ۔ پہلی قسم جو راوی کو کافر کردیتی ہے اس پر جمہور کا اتفاق ہے کہ اس کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکی روایت کو بھی قبول کرلیا جائے گا اور اگر وہ اپنے مذہب کو تقويت پہنچانے کی غرض سے جھوٹ نہیں بولتا تو بھی اس کی بات کو قبول کیا جائے گا ۔ تحقیق قول یہ ہے کہ ہر اس بدعتی راوی کی روایت کو ترک نہیں کیا جائے گا جس کی تکفیر اس کی بدعت کی وجہ سے لازم آتی ہے کیونکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر گروہ دوسرے کو بدعتی کہتا ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے ایک دوسرے کی تکفیر کی جاتی ہے اور اگر علی الاطلاق اس قاعدے کو نافذ کردیا جائے تو لازم آئے گا کہ تمام کے تمام لوگوں کی تکفیر کردیں بہر حال اعتماد اس میں یہ کہ اسی کی تکفیر کی جائے جو کسی متواتر امر دین کا منکر ہو البتہ جو اس صفت کا حامل نہ ہو اور اسکا حافظہ بھی قوی ہو تو کوئی شے مانع نہیں کہ اس کی روایات کو قبول نہ کیا جائے ۔ (فتح الباری جلد ۱ صفحہ ۳۸۵،چشتی)(نزھة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الاثر صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۳)

یہاں تک تو فقیر نے ان کے اس غلط اور خود ساختہ اصول کی تردید اصول سے کی لیکن اب متقدمین کے فہم و عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ ان کے نقل کردہ دلائل پر مٶقف پیشِ خدمت ہے : ⏬

امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے کلام میں صداقت فریدی رافضی اور اس کے بڑے شیعہ حضرات کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کے درج ذیل الفاظ قابل غور ہیں اور اگر علی الاطلاق اس قاعدے کو نافذ کر دیا جائے تو لازم آئے گا کہ تمام کے تمام لوگوں کی تکفیر کر دیں ۔ یہاں بات اس موقف کے رد  کی ہو رہی ہے کہ مطلق ہر قسم کے بدعتی کی روایت مطلق طور پر رد کر دی جائیں چاہے وہ بدعت صغریٰ ہو یا  کبریٰ  تو یہ بات  تو ہم بھی کہتے ہیں کہ شیعہ ثقہ راویان کی مطلق روایت رد نہ ہو گی بلکہ فضائل اہل بیت اور مذمت اصحاب رسول رضی اللہ عنہم میں ان کا تفرد رد ہوگا ۔ تو یہ مذکورہ دلیل فضول ثابت ہوئی ۔ بلکہ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ سے خاص کہ جب راوی  ثقہ و صدوق ہونے ساتھ ساتھ اپنے دین کا داعی ہو (یعنی اپنے عقیدے کا پر چار کرے  روایات بیان کرے اپنے عقیدے کی تقویت میں) تو اس پر امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا کلام درج ذیل ہے : ⏬

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة ۔
ترجمہ : عرف متقدمین میں تشیع سے مراد شیخین  (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کو دیگر صحابہ پر فضیلت دینے کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت ماننے والے کو کہا جاتا تھا ، اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں مصیب اور ان کا مخالف خطاء پر تھا ۔ بعض کا یہ نظریہ بھی  ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب مخلوق سے افضل ہیں ، اگر اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا متقی ، دیندار  اور سچا ہو تو محض اس وجہ (عقیدہ) کے سبب اس کی روایت ترک نہیں کی جائے گا جبکہ وہ  اپنے اعتقاد کا داعی نہ ہو (یعنی اپنے عقیدے کے موافق روایات بیان نہ کرتا ہو اس کا پرچار نہ کرتا ہو) ۔ جبکہ عرف متاخرین میں تشیع سے مراد محض رفض ہے ۔ لہٰذا غالی رافضی کی روایت (مطلق) مقبول نہیں اور نہ ہی اس کےلیے کی قسم کی کوئی کرامت (بزرگی و تعظیم) ہے ۔۔ الخ ۔ (تھذیب التھذیب جلد ۱ صفحہ ۹۴،چشتی)

امام ابن حجر علیہ الرحمہ نے بھی وہی موقف رکھا ہے جو امام ذھبی کا تھا کہ شیعہ جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن نہ کرتا ہو اور اتقان کے حوالے سے مضبوط اور عدالت کے اعتبار سے سچا ہو تو محض شیعت کے سبب اس کی روایات رد نہ ہونگی جب تک وہ داعی نہ ہو یعنی اپنے عقیدے کے موافق روایات بیان کرتا ہوں اور پر چار کرتا ہوں اور داعی ہو ۔ اور یہی اہلسنت مٶقف ہے جو ابن حجر علیہ الرحمہ نے  بیان کیا ہے ۔

لیکن صداقت فریدی رافضی اور اس کے بڑی شیعہ حضرات جو اپنے نزدیک اہلسنت کا رد کرتے نظر آتے ہں وہ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کا کلام بطو ر مقدمہ پیش کرتے ہیں جبکہ موصوف کا خود حال  یہ ہے کہ وہ نفسِ مسٸلہ میں امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ کی تصریح پر مطلع ہی نہیں اور مطلق بدعتی روایت کو قبول کرنے کے مسٸلہ کو بیان کر رہا ہے جس کا مسٸلہ مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کے  بعد صداقت رافضی نام نہاد فریدی نے اہلسنت کے رد میں یہ مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے کہ پھر اہلسنت کے ناقدین  نے کیوں بدعتی راویوں کی روایات قبول کی ہیں جبکہ انہوں نے ان سے مطلق نہ لکھنے کا فتویٰ دیا ہے فلاں فلاں جبکہ ان کی کتب میں بدعتیوں سے روایتیں موجود ہیں ۔

صداقت رافضی نام نہاد فریدی نے سب سے پہلے امام مالک علیہ الرحمہ سے مثال پیش کی کہ انہوں نے مطلق کہا ہے کہ بدعت راویوں سے روایت بیان نہ کی جائے اور یہ بات خطیب بغدادی نے امام مالک کی طرف منسوب کی ہے کہ انکا موقف تھا کہ مطلق اہل بدعت سے روایت نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ان کے عقیدے کی تشہیر ہوتی ہے ۔ اور پھر امام مالک علیہ الرحمہ کے قول اور عمل میں تضاد پیش کرنے کےلیے جو دلیل دی صداقت رافضی نام نہاد فریدی نے وہ درج ذیل ہے : ⏬

پہلی مثال : شروعات امام مالک علیہ الرحمہ سے کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ بدعتی راوی کے حوالے سے جو اقوال پیش کیے جاتے ہیں انہیں امام مالک علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لہٰذا امام مالک علیہ الرحمہ سے شروع کرتے ہیں : حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن ثور بن زيد الديلي، عن ابن لعبد الله بن سفيان الثقفي، عن جده سفيان بن عبد الله، أن عمر بن الخطاب صلى الله عليه وسلم بعثه مصدقا , فكان يعد على الناس بالسخل، ولا يأخذ منه شيئا فقالوا: تعد علينا بالسخل ولاتأخذه؟ فلما قدم على عمر بن الخطاب , ذكرذلك له، فقال عمر: نعم نعد عليهم بالسخلة، يحملها الراعي، ولا نأخذها , ولا تأخذ الأكولة، ولا الرباء , ولا الماخض , ولا فحل الغنم، ونأخذ الجذعة , والثنية , ذلك عدل بين غذاء المال وخياره ۔ (المؤطا للامام مالک صفحہ ٤٨٣ ورقم الحدیث ۵۷۵،چشتی)

یہاں امام مالک علیہ الرحمہ نے ثور بن زید سے روایت لی ہے جو کہ بدعتی ( متھم بالقدر) ہے چناچہ امام ابنِ حجر العسقلانی علیہ الرحمہ اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : أتهمه بن البرقي بالقدر ولعله شبه عليه بثور بن يزيد انتهى والبرقي لم يتهمه بل حكى في الطبقات أن مالكا سئل كيف رويت عن داود بن الحصين وثور بن زيد وذكر غيرهما وكانوا يرمون بالقدر فقال كانوا لأن يخروا من السماء إلى الأرض أسهل عليهم من أن يكذبوا كذبة وقد ذكر المزي أن مالكا روى أيضا عن ثور بن يزيد الشامي فلعله سئل عنه ۔
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ سے داؤد اور ثور بن یزید / ثور بن زید سے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ لوگ قدری ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ امام مالک نے فرمایا : اگرچیکہ ان پر یہ الزام ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیئے یہ معانی رکھتا ہے کہ یہ آسمان سے گر جائیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی قسم کا جھوٹ باندھیں ۔

اس سے امام مالک علیہ الرحمہ کا نظریہ مؤطا میں ایسے بدعتی راویان سے روایت لینے جو ان کے منہج پر اصح ترین ہیں سے ان کا فہم و عمل بھی معلوم ہوا جبکہ خطیب بغدادی نے جو امام مالک علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کیا ، امام مالک علیہ الرحمہ کا قول وعمل دونوں اس کے سخت مخالف ومعارض ہے ۔

جواب : امام مالک علیہ الرحمہ اور ان جیسے دیگر ناقدین شیوخ سے روایت کرنے کے معاملے میں محتاط اور متنعت شمار ہوتے ہیں جیسا کہ امام مالک علیہ الرحمہ ، امام شعبہ ، امام ابو زرعہ وغیرہم  ان کا مکمل موقف موصوف سمجھنے قاصر رہا ہے اور پھر ایک مثال پیش کر کے امام خطیب کی طر ف یہ طعن کر دیا کہ انہوں نے امام مالک کے موطاکے عمل کے خلاف ان کی طرف  بدعتیوں سے مطلق روایت نہ لینے کا منسوب کر دیا ہے جبکہ مٶطا میں ان کا طریقہ کار بالکل اس کے برعکس ہے ۔ تو عرض ہے کہ خطیب بغدادی کا قصور نہیں ان تک امام مالک علیہ الرحمہ کا جو قول پہنچا انہوں نے اس کو ظاہر پر محمول کر کے ویسے ان کا منہج بیان کر دیا ہے جیسا کہ خطیب بغدادی نے  اپنی سند سے امام مالک علیہ الرحمہ کا قول بھی بیان کیا ہے جو کہ کچھ یوں ہے : وأخبرنا محمد بن عمر، ثنا أبو بكر بن سلم , (ح) ۔ وأخبرني ابن الفضل، أنا دعلج , أنا , وقال ابن سلم: ثنا أحمد بن علي الأبار , (ح) ۔ وأخبرنا أحمد بن أبي جعفر، ثنا محمد بن عثمان النفري، ثنا عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري , قالا ثنا يونس بن عبد الأعلى، ثنا ابن وهب , قال: سمعت مالك بن أنس , يقول: «لا يصلى خلف القدرية ولا يحمل عنهم الحديث ۔ امام مالک علیہ الرحمہ کہتے ہیں قدری کے پیچھے نماز مت پڑھو اور نہ ہی ان سے روایت لو ۔ (الكفاية في علم الرواية صفحہ ۱۲۴)

یہ قول مطلق ہے کہ نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھو اور نہ ہی ان کی طرف روایت لینے کےلیے جاو  تاکہ یہ لوگ مشہور نہ ہوں اور نہ ہی ان کے عقائد کی مشہوری ہو یہ تھا اصل مقصد لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے روایت مطلق لی ہی نہ جائے بلکہ اس میں تخصیص ہے کہ کون سا بدعتی داعی ہے اور کون سا داعی نہیں ہے ۔ امام مالک علیہ الرحمہ کے اس فرمان کا مطلب امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے اور متقدمین کا منہج بھی کہ بعض اوقات محدث کسی بدعتی سے روایت لکھنے سے منع کرتا ہے اور پھر وہ خود اس سے لکھ بھی رہا ہوتا ہے اور بیان بھی کر رہا ہوتا ہے  اور یہ عمل بظاہر تضا د معلوم ہوتا ہے لیکن محدثین کے منہج و اسلوب سے نا واقف ہونے کے سبب ہی یہ تضاد لگتا ہے لیکن حقیقت میں ہوتا نہیں ہے جیسا کہ امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ سے مروی ہے  : أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن محمد بن جعفر، أنا محمد بن العباس الخزاز، أنا أحمد بن سعيد بن مرابا السوسي , قال: ثنا عباس بن محمد , قال : سمعت يحيى بن معين , يقول: ” ما كتبت عن عباد بن صهيب , وقد سمع عباد من أبي بكر بن نافع وأبو بكر بن نافع قدري يروي عنه مالك بن أنس. قلت ليحيى: هكذا تقول في كل داعية , لا يكتب حديثه إن كان قدريا أو رافضيا , أو كان غير ذلك من الأهواء , ممن هو داعية؟ قال: لا يكتب عنهم إلا أن يكونوا ممن يظن به ذلك , ولا يدعو إليه كهشام الدستوائي وغيره , ممن يرى القدر ولا يدعو إليه ۔
ترجمہ : امام عباس الدوری کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا عباد بن صھیب سے  میں نے نہیں لکھا  اور  عباد نے ابی بکر بن نافع سے  سنا ہے ۔ اور ابو بکر بن نافع قدری ہے اور ان سے امام مالک علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں ۔ تو میں (عباس) نے امام یحییٰ بن معین سے کہ آپ کا ہی قول ہے کہ جو بھی (بدعت) کا داعی ہے اس سے حدیث مت لکھو  کہ وہ قدری ہے یا رافضی ہے یا ان کے علاوہ  یا  خارجی   تو ان میں سے داعی کون ہیں ؟(یعن جو اپنے عقائد کا پرچار کریں اور اپنے عقیدے کی روایات کی تشہیر کریں )  تو امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ نے کہا ان سے نہ لکھو سوائے اس کے کہ جب تم کو یہ یہ مناسب لگے کہ یہ ویسے ہے جیسا آپ کا ظن ہے اور یہ داعی نہیں (اپنی بدعت کا پرچار نہیں کرنے والا نہ ہی روایات بیان کرنے والا ہے اپنی بدعت کی تقویت میں) جیسا کہ ھشام الدستائی ہے  کہ یہ قدری نظریات رکھتا تھا لیکن کبھی اس کی دعوت نہیں دی ۔ (الكفاية في علم الرواية صفحہ ۱۲۷ و سندہ صحیح

معلوم ہوا کہ ناقدین جو کہتے ہیں کہ بدعتیوں سے نہ لکھو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کون داعی ہے کون نہیں یہ تحقیق تو بعد کی ہے لیکن جب ہو بدعتی ہے تو اس سے اس وقت تک نہیں لکھا جائے گا جب تک یہ تسلی نہ ہو کہ یہ داعی نہیں ہے کیونکہ داعی کی روایت (اس کے تفرد یا اجتہاد میں ) نہیں لی جائے گی !! اسی طرح امام مالک علیہ الرحمہ نے بھی اس احتیاط کے سبب یہ مسلک بیان کیا کہ بدعتیوں سے روایت ہی نہ کرو  کیونکہ اگر ہر عام لوگوں کو ان سے روایت لکھنے کی اجازت ہوتی تو پھر ان کے عقائد کی تشہیر ہونے لگ جاتی  اس لیے جب  یہ معلوم ہو جائے کہ راوی بدعتی ہونے کے ساتھ داعی نہیں ہیں تو پھر اسکی روایت لکھنے میں حرج نہیں جیسا کہ امام مالک علیہ الرحمہ نے ان سے سماع بھی کیا ہے اور اپنی موطا میں روایت بھی لی ہے ابو بکر بن نافع سے ۔ تو جو ایسے قدری ، مرجئ  راویان جو داعی نہ ہوں اور نیک ہوں تو انکی روایت رد نہیں ہوگی کیونکہ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے رافضیوں کی طرح ۔

نوٹ: ابو بکر بن نافع کو قدری کہنے میں امام یحییٰ بن معین علیہ الرحمہ کا تفرد ہے نیز اور کسی ناقد نے یہ ان پر جرح نہیں کی تو امام ابن معین کے برعکس یہ بھی راجح ہو سکتا ہے کہ امام مالک علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ قدری ہو ہی نہ ۔ کیونکہ امام مالک کے عمل میں تضاد تب ثابت ہوگا جب وہ خود کسی راوی پر جرح کریں بدعت کی اور اس کو داعی بھی قرار دیں اور پھر اس سے روایت لیں ۔ مگر ابو بکر بن ابی داود کو تو امام ابن  معین نے بھی ان رواتہ میں شامل کیا جو داعی نہیں تھے ھشام دستوائی کی مثال دے کر ۔ اور جو مثال اوپر ثور بن زید کے حوالے سے پیش کی کہ اس پر قدری ہونے کا الزام ہے۔تو عر ض ہے یہ ابن برقی جو امام مالک کے بعد کا ناقد ہے اس کی جرح سے امام مالک علیہ الرحمہ پر کیسا کلام ؟

کیونکہ امام ذھبی علیہ الرحمہ نے  بھی تصریح کی ہے : [صح] ثور بن زيد [خ، م] الديلى ۔ شيخ مالك ۔ ثقة ۔ اتهمه محمد بن البرقى بالقدر، وكأنه شبه عليه بثور بن يزيد ۔ ثور بن زید یہ  امام مالک کے شیخ ہیں اور ثقہ ہے ۔ اور اس پر قدریت کی تہمت ابن برقی نے لگائی ہے اور  لگتا ہے  وہ (ابن برقی) اس کو ثور بن یزید سمجھے ہیں (جو کہ اور راوی ہے اور وہ قدری تھا) ۔ (میزان الاعتدال)

تو یہی وجہ ہے کہ یہ مٶطا کا راوی ثور بن زید ہے نہ کہ ثور بن یزید کیونکہ ثور بن یزید مشہور قدری را وی ہے جبکہ ثور بن زید پر تو کسی قسم کی کوئی  جرح ہی نہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس امام  ابن ابی حاتم علیہ الرحمہ نقل کرتے ہیں : قرئ على العباس بن محمد  الدوري قال سمعت يحيى يعني ابن معين يقول: ثور بن زيد الديلي ثقة يروى عنه مالك ويرضاه ۔ الدوری کہتے ہیں میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا کہ ثور بن زید ثقہ ہے اور ان سے امام مالک روایت کرتے ہیں او ر وہ ان سے راضی  ہیں ۔ (الجرح والتعدیل)

اس کے بعد رافضی مذکور اور اس کے ہمنواٶں نے دوسری دلیل امام مالک علیہ الرحمہ سے دی : اسی طرح امام مالک علیہ الرحمہ سے ایک اور مثال ۔ حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن داود بن الحصين قال أخبرني مخبر أن عبد الله بن عباس كان يقول دلوك الشمس إذا فاء الفيء وغسق الليل اجتماع الليل وظلمته ۔ (المؤطا للامام مالک صفحہ ٢٨٧حدیث ۲۱)

اس میں داؤد بن الحصین یہ بھی بدعتی راوی تھا ۔ امام ابنِ حجر العسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وعاب غير واحد على مالك الرواية عنه وتركه الرواية عن سعد بن ابراهيم ۔
ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ پر بہت سے لوگوں نے عیب لگایا ہے کہ انہوں نے اس سے روایت لی ہے جبکہ سعد بن ابراھیم کی روایات کو ترک کر دیا ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۱۸۲،چشتی)

امام جمال الدین المزی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وَقَال أَبُو حاتم: ليس بالقوي، ولولا أن مالكا روى عنه لترك حديثه ۔
ترجمہ : ابو حاتم کہتے ہیں : یہ راوی قوی نہیں ہے اور اگر مالک انسے روایت نہ لیتے تو ہم اسے ترک کر دیتے ۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد ۸ صفحہ ۳۸۱)

داٶد بن حصین پر کسی قسم کی حفظ کے حوالے سے کوئی جرح نہیں یہ ثقہ ہے سوائے عکرمہ کے کیونکہ عکرمہ سے اس کی روایت  ضعیف ہوتی تھی۔ اور امام عکرمہ پر بہت خطر ناک جروحات تھیں جسکی وجہ سے امام مالک علیہ الرحمہ داود بن حصین کی روایت عکرمہ سے روایت کرنا پسند نہیں کرتے تھے یہ بات اس چیز کی متقاضی ہے کہ امام مالک علیہ الرحمہ رواتہ کی بدعت کے حوالے سے کتنی احتیاط کرتے تھے اور داود بن حصین سے امام مالک علیہ الرحمہ نے تفرد میں روایت نہیں لی بلکہ اسکی شاہد بھی ثابت ہیں ۔ اور امام مالک علیہ الرحمہ عکرمہ کا نام لیے بغیر اسکی روایت کیوں بیان کرتے تھے داود بن حصین سے اس کی وجہ بھی امام ابن معین نے بیان کی ہوئی ہے جیسا کہ امام الدوری بیان کرتے ہیں : محمد الدوري عن يحيى بن معين أنه قال: داود بن حصين ثقة وإنما كره مالك له لأنه كان يحدث عن عكرمة، وكان يكره مالك عكرمة ۔
ترجمہ : محمد الدوری بیان کرتے ہیں یحییٰ بن معین سے کہ داود بن حصین ثقہ ہے۔اور اسکو اسکے لئے نا پسند کیا ہے امام مالک نے.. کیونکہ وہ عکرمہ سے روایت بیان کرتے ہیں مگر امام مالک عکرمہ کو نا پسند کرتے ہیں ۔ (الجرح والتعدیل)

نیز امام مغلطائی علیہ الرحمہ نے تصریح لکھی ہے کہ یہ داعی نہیں تھا بدعت کا جیسا کہ لکھتے ہیں : وذكر البرقي في «باب من تكلم فيه من الثقات لمذهبه ممن كان يرمى منهم بالقدر»: داود بن حصين، وثور بن زيد، وصالح بن كيسان. يقال: إنهم جلسوا إلى غيلان القدري ليلة، فأنكر عليهم أهل المدينة، ولم يكونوا يدعون إلى ذلك ۔
ترجمہ : البرقی نے ذکر کیا ہے کہ  باب قائم کر کے کہ وہ ثقات جنکے مذہب کے سبب ان پر قدریت کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ داود بن حصین ، ثوربن زید (یہ ثور بن یزید تھا جیسا کہ امام ذھبی نے تصریح کی میزان میں )، اور صالح بن کیسان  کہا گیا یہ غییلان قدری کے ساتھ بیٹھے توان پر اہل مدینہ نےاس بات پر انکا نکار کیا، لیکن  یہ داعی نہیں تھے اس میں ۔ (إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال)

نیز دوسری بات یہ راویان جن پر قدری و مرجئ ہونے کی جروحات ہیں لیکن اگریہ ثقہ ہوں تو یہ روایت میں جھوٹ بولنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ  یہ لوگ عبادت گزار  تھے اور یہ جھوٹ کو تقیہ سمجھ کر بولنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور اگر یہ داعی نہ ہوں تو انکی روایت  مقبول ہوتی ہیں کیونکہ روافض اور شیعوں کا مسلہ اس سے الگ ہے ۔

جیسا کہ امام ذھبی علیہ الرحمہ پہلے ایک غالی شیعہ کے ترجمہ میں امام بخاری و ابن حبان کا کلام نقل کرتے ہیں  : قال البخاري : كان هو وأبوه غاليين في مذهبهما ۔ وقال ابن حبان: غال في التشيع ۔ روى المناكير عن المشاهير ۔
ترجمہ : امام بخاری علیہ الرحمہ نے کہا کہ یہ اور اس کا والد غالی بد مذہبوں (کھٹملوں ) میں سے تھے ۔ اور امام ابن حبان نے کہا یہ تشیع میں غالی تھا اور اس نے مشہور ثقات سے مناکر بیان کی ہیں ۔

اس کو نقل کرنے کے بعد امام ذھبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قلت : ولغلوه ترك البخاري إخراج حديثه، فإنه يتجنب الرافضة كثيرا، كأنه يخاف من تدينهم بالتقية ولانراه يتجنب القدرية ولا الخوارج ولا الجهمية، فإنهم على بدعهم يلزمون الصدق، وعلى بن هاشم، قال أحمد: سمعت منه مجلسا واحدا.
ترجمہ : میں (ذھبی) کہتا ہوں : اسکے غلو کی وجہ سے امام بخاری نے اس سے حدیث نقل نہیں کی ، کیونکہ وہ رافضیوں سے بہت زیادہ اجتناب کرتے تھے ، انہیں ان کے مسلک میں تقیہ کا بہت اندیشہ تھا ، ہم نے انہیں نہیں دیکھا کہ انہوں نے قدریوں یا خارجیوں یا جہمیوں سے اجتناب کیا ہو ، لیکن ان کی بدعت کے باوجود یہ لوگ سچ کو اختیار کرتے تھے (کیونکہ انکے نزدیک جھوٹ گناہ تھا اور کوئی تقیہ والا عقیدہ انکا نہ تھا) ۔ (میزان الاعتدال رقم : ۵۹۶۱)

یہ ہے اصل اختلاف جو صداقت فریدی جیسے رافضیوں کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ تشیع غالی راویان سے ان کے مذہب کی تقویت میں روایات میں تفرد کتنا خطر ناک ہوتا ہے ۔ اب آتے ہیں صداقت فریدی رافضی کی شیعہ راویان کے بارے دی گئی مثالوں کی طرف : ⏬

عدی بن ثابت ۔

ان سے بھی امام مالک علیہ الرحمہ نے روایت لی ۔

حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عدي بن ثابت الأنصاري، عن البراء بن عازب، أنه قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة فقرأ فيها {بالتين والزيتون ۔ (المؤطا صفحہ ۳٤٢ حدیث ۱۸٦)

امام ابو حاتم الرازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : صدوق، وكَانَ إمام مَسْجِد الشيعة وقاصهم ۔
ترجمہ : یہ صدوق تھا اور شیعہ کا امام مسجد تھا ۔

قال عَبد الله بْن أحمد بْن حنبل ، عَن أبيه: ثقة ۔ وكَذَلِكَ أَحْمَد بْن عَبد الله العجلي والنَّسَائي ۔
ترجمہ : احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کہتے ہیں ثقہ ، امام عجلی اور نسائی بھی ثقہ کہتے ہیں ۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد ۱۹ صفحہ ۵۲۳)

اس کے بعد صداقت فریدی رافضی نے امام دارقطنی و زرقانی سے اس کے رفض پر جروحات پیش کی جو ہم نے سابقہ تحریر میں کچھ رافضیوں کے رد میں الزامی تحریر میں جواب دے چکے ہیں ۔

صداقت فریدی رافضی نے یہاں امام مالک علیہ الرحمہ سے اس کو رافضی یا غالی شیعہ ثابت کرنا تھا پھر امام مالک علیہ الرحمہ کے قول و عمل میں تضاد ثابت ہوتا مگر امام مالک علیہ الرحمہ نے تو اس پر کوئی کلام ہی نہیں کیا ۔ بلکہ امام بخاری علیہ الرحمہ جو غالی اور رافضیوں سے اجتناب کرنے والے تھے انہوں نے بھی تاریخ الکبیر میں اس پر کوئی جرح نہیں کی بلکہ یہ لکھا کہ ان سے سماع کرنے والے امام یحییٰ بن سعید ، امام شعبہ  اور امام مسعر جیسے نقاد ہیں ۔ اور امام بخاری علیہ الرحمہ نے بھی ان سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے یہ بالکل اس جیسے ہیں جیسے امام اعمش ، امام ابو نعیم وغیرہم ہیں  نہ یہ غالی ہیں اور نہ ہی  یہ داعی ہیں ۔ اور فقیر نے امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی علیہما الرحمہ سے  یہی موقف ثابت کیا کہ راجح یہ ہے کہ داعی بدعتیوں سے روایت نہ لی جائے گی یعنی انکے مذہب کے تقویت میں ۔ اور رافضیوں سے تو بالکل روایت لی ہی نہیں جائےگی ۔ بلکہ یہ اس روایت کے راوی ہیں کہ انصار صحابہ سے بغض سوائے کافر کے نہیں رکھ سکتا ۔

أخبرنا محمد بن المثنى قال أنا معاذ بن معاذ عن شعبة عن عدي بن ثابت عن البراء بن عازب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن ولا يبغضهم إلا كافر من أحبهم أحبه الله ومن أبغضهم أبغضه الله ۔ قال شعبة قلت لعدي أنت سمعت هذا من البراء قال إياي حدث ۔
ترجمہ : امام شعبہ نے عدی سے پوچھا کہ کیا یہ روایت آپ نے خود  براء سے سنی ہے تو انہوں نے کہا مجھے بیان کی ہے ۔ (فضائل صحابہ للنسائی)

نیز اس میں عدی بن ثابت کو امام مالک علیہ الرحمہ کی زبانی جب داعی ثابت نہیں کیا گیا تو پھر انکے عمل و قول میں تضا د اخذ کرنا احمقو ں کا کام ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔