Saturday, 25 November 2023

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب

محترم قارئینِ کرام : اکابرینِ اہلسنت نے آج تک کسی رافضی و تفضیلی کےلیے گنجائش نہیں رکھی ۔ وقت گزرتا رہا ، لوگ پینترے بدل بدل کر اہلسنت میں گھس کر بد عقیدگی پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔ایسی ہی کوشش آج کل کے تفضیلی رافضیوں نے شروع کی ہوٸی ہے ظاہری لبادہ اہلسنت کا اوڑھا اور باطن میں تفضیلیت و رافضیت لے بیٹھے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ظاہر کا لباس پہنایا اور باطن کا انکار کر دیا ۔ اور باطن میں مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل اور افضل البشر کہنا شروع کر دیا ۔ جب کوئی سوال کرے کہ جناب آپ سنی ہیں ۔ ابو بکر صدیق کی افضلیت کو مانتے ہوں ۔ جواب جی ہاں کیوں نہیں ۔ نعرہ صدیقیہ یا صدیق اکبر ۔ لیکن باطنی خلافت اور افضلیت مولا علی کو حاصل ہے ۔ ساتھ میں لکھ دیا ۔ ظاہری کی کوئی فضیلت نہیں ۔ باطن کی ہی فضیلت ہے ۔ اہلسنت و جماعت کا سلفاً خلفاً عقیدہ رہا ہے کہ انبیاء اور رسل کے بعد سب سے افضل شخص حضرت ابوبکر پھر عمر پھر عثمان اور پھر مولا علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ افضیلت چاہے ظاہری ہو یا باطنی کیونکہ شیخین رضی اللہ عنہما مقام نبوت سے فیض یافتہ ہیں جو کہ مقام ولایت سے اعلیٰ ہے ۔ اسی کو حضرت صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ بہار شریعت میں بیان کرتے ہیں : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔ (بہار شریعت خلافت راشدہ کا بیان)
مزید فرماتے ہیں : تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں خلفائے اَربعہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ہیں اور اُن میں ترتیب وہی ترتیب افضلیت ہے ، سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے ، پھر فاروقِ اعظم ، پھر ذو النورَین ، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رضی ﷲ تعالیٰ عنم اجمعین ۔ ہاں مرتبہ تکمیل پر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو ۔ تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انہیں کے دست نگر تھے ، اور ہیں ، اور رہیں گے ۔ (بہارِ شریعت ولایت کا بیان،چشتی)

عارف باللہ شیخ طریقت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی 638ھ) اپنی معروف کتاب فتوحات مکیہ میں مقام خلفاء راشدین کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان اولیاء میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنکے لیے ایک ظاہری حکم ہوتا ہے اور انکے لیے جیسے خلافت ظاہرہ ہوتی ہے اسی طرح خلافت باطنہ بھی ہوتی ہے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،علی، حسن، معاویہ بن یزید،عمر بن عبدالعزیز اور متوکل اور ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنکے لیے صرف خلافت باطنہ ہوتی ہے جیسے احمد بن ہارون الرشید السبتی اور ابو یزید بسطامی ۔ (الفتوحات المکیہ باب 73 صفحہ 297)

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سمیت بقیہ تینوں خلفاء جیسے ظاہری خلافت سے متصف تھے اسی طرح باطنی خلافت سے بھی متصف تھے اور جو عروج و کمال خلافت ظاہرہ میں حاصل تھا ایسا ہی کمال خلافت باطنہ میں حاصل تھا اس سے ان لوگوں سبق حاصل کرنا چاہیے جو دن رات ظاہری باطنی کا راگ الاپتے ہیں وہ خود تو باطنی فیوض سے کورے ہیں ہی صحابہ جیسے جلیل القدر ہستیوں کو بھی اپنی کور باطنی کے سبب خلافت باطنہ سے محروم رکھنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین ۔

یہی عقیدہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بڑی طویل وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب سلوک و تصوف کا علمی دستور میں اور اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ اور فلسفہ خودی کے صفحہ نمبر 30 پر نقل کیا ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : ⬇

طریق نبوت

طریق ولایت

ہر دو طریق میں واضح فرق کرتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں طریق نبوت کلی فضیلت کا حامل ہے اور طریق ولایت جزوی فضیلت کا ۔طریقِ نبوت کا منتہیٰ اور نقطہ عروج مفہمیت اورمجددیت کے مقامات ہیں مجددیت اور مفہمیت کا مقام ولایت کے ہر مقام سے اس لیے بلند ہےکہ مجدد نہ صرف ہمہ وقت خالق کی طرف متوجہ رہتا ہے بلکہ اس تعلق کو بکمال وبتمام قائم رکھتے ہوئے خالق کا فیضان سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیروی میںخلق خدا تک پہنچاتا رہتا ہے۔اس لئے وہ مرد حق اپنے کمال کی منزل طریق نبوت سے پاتا ہے ۔ اس کامقام کہیں بلند ہےاس شخص سے جو کمال کو طریق ولایت سے حاصل کرتا ہے ۔ اس دوران شاہ صاحب نے فضیلتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے عجیب علمی مسئلے کو بھی حل فرمادیا ۔ فرماتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کیوں فضیلت حاصل ہے باوجودیکہ حضرت علی اس امت میں سب سے پہلے صوفی ، مجذوب اور عارف ہیں اور یہ کمالات دیگر صحابہ میں نہیں ہیں مگر صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طفیل میں قلت اور کمی کے ساتھ موجود ہیں غرضیکہ یہ مسئلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور میں عرض کیا تو یہ چیز مجھ پر ظاہر ہوئی کہ فضل کلی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک وہ ہے جو تمام امرِ نبوت کی طرف راجع ہو ، جیسا کہ اشاعت علم اور دین کے لیے لوگوں کی تسخیر اور جو چیزیں اس کے مناسب ہوں اور رہا وہ فضل جو ولایت کی طرف راجع ہو جیسا کہ جذب اور فناء تو یہ ایک فضل جزئی ہے اور اس میں ایک وجہ سے ضعف ہے ۔ اور شیخین رضی اللہ عنہما اول قسم کے ساتھ مخصوص تھے حتیٰ کہ میں انہیں فوارہ کے طریق پر دیکھتا ہوں کہ اس میں سے پانی پھوٹ رہا ہے تو جو عنایات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہوئیں وہی بعینہ حضرت شیخین رضی اللہ عنہما پر ظاہر ہوئیں تو آپ دونوں حضرات کمالات کے اعتبار سے ایسے عرض کے مرتبہ میں ہیں جو جوہر کے ساتھ قائم ہے اور اس کے تحقق کو پورا کرنے والا ہے لہٰذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگرچہ آپ کے بہت قریب ہیں نسب و حیات اور فطرت محبوبہ میں حضرات شیخین سے اور جذب میں بہت قوی اور معرفت میں بہت زائد ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باعتبار کمال نبوت حضرات شیخین سے کی طرف زیادہ مائل ہیں اور اسی بنا پر جو علماء معارف نبوت سے باخبر ہیں شیخین کو فضیلت دیتے ہیں اور جو علماء معارف ولایت سے آگاہ ہیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فضیلت دیتے ہیں اور اسی بنا پر حضرت شیخین کا مدفن بعینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مدفن تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے باوجود انوار ولایت کے بھی حامل ہونے کے دین کی اشاعت کا کام زیادہ لیا گیا ہے اور سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ سے باوجود انوار نبوت کے بھی حامل ہونے کے امت میں ولایت و روحانیت کے فروغ کا کام زیادہ لیا گیا ہے چنانچہ بیشتر سلاسل طریقت آپ ہی سے شروع ہوتے ہیں ۔ (سلوک و تصوف کا علمی دستور کے صفحہ نمبر 137 ، 138)

حاصل شدہ نکات : حضرت ابوبکر و عمر طریق نبوت سے فیض یافتہ ہے اور حضرت علی طریق ولایت سے ۔ طریق نبوت طریق ولایت سے افضل ، اعلیٰ اور اکمل ہے ۔ طریق نبوت کو ہر لحاظ سے فضیلت حاصل ہے اور طریق ولایت کو بعض لحاظ سے بلکہ اس میں ایک وجہ سے ضعف پایا جاتا ہے ۔ پکڑ لیتے ہیں ۔ یہی عقیدہِ اہل سنت ہے ۔




تفظیلیوں یہ بھی کہتے ہیں کہ : حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ، فرائضِ خلافت ، اقامتِ دین ، اسلام اور امت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے ۔ ائمہ نے افضلیت کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ خلافت ظاہری کی ترتیب پر قائم ہے ۔ ولایت باطنی جو ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں ۔ گویا کہ تفضیلیوں کے نزندیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ساری فضیلتیں خلافت کے بعد ہیں پہلے کی نہیں ہیں ۔ کونسی خلافت کیسی خلافت اس کا وزن کیا ہے ؟

شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی جو بھی فضیلت ہے وہ مشاورتی ووٹنگ سے ہے افضلیت بھی اسی طرح ملی گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی بارگاہ سے کوئی فضیلت نہیں ۔ افضل البشر کا عقیدہ بعدکا ہے ۔

کاش کہ تفضیلی حضرات عمدہ القاری ہی دیکھ لیتے ۔ علامه عینی رحمة اللہ علیہ لكھتے ہیں : باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بار ے میں باب ۔ أي : هذا باب في بيان فضل أبي بكر ، رضي الله تعالى عنه، بعد فضل النبي صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم . وليس المراد البعدية الزمانية، لأن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم ۔
ترجمہ : یہ باب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبکر صدیق کے افضل ہونے کے بارے میں ہے ۔ بعد سے یہ مراد نہیں کہ آپ کے وصال کے بعد فضیلت ملی (جیسا کہ تفضیلیوں نے سمجھا) بلکہ ابوبکر صدیق کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی حیات میں ہی ثابت شدہ ہے ۔ کہ : 5563 - حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا سليمان عن يحيى بن سعيد عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فنخير أبا بكر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنهم ۔ (الحديث 5563 طرفه في: 7963،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں لوگوں کے درمیان بہتری کے درجے بنایا کرتے تھے ۔ ہم یہ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر سب سے بہتر ہیں ۔ پھر ان کے بعد عمر پھر ان کے بعد عثمان ۔ یہ فضیلت صحابہ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں ہی دیتے تھے ۔
مطابقته للترجمة من حيث إن فضل أبي بكر ثبت في أيام النبي صلى الله عليه وسلم، بعد فضل النبي صلى الله عليه وسلم ۔
علامہ بدر الدین عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث اور باب کے عنوان میں مناسبت یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبکر صدیق کی فضیلت آپ کے زمانے میں ثابت شدہ ہے ۔ (عمدہ القاری صفحہ 246 جلد 16،چشتی)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : قوله باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم ۔ أي في رتبة الفضل وليس المراد البعدية الزمانية فإن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم كما دل عليه حديث الباب ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبكر كی فضیلت كے بارے میں باب ۔ یعنی فضیلت کے رتبے کے بارے میں ۔ بعد سے زمانے کا بعد مراد نہیں ہے کیونکہ ابوبکر کی فضیلت توسرکار صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں ثابت تھی جیسا کہ اس باب کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔ (فتح الباری صفحہ 16 جلد 7)

اولا تو سائل کو اتنی سمجھ بھی نہیں کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت نہیں بلکہ اولیت کہنا درست ہے ۔ افضلیت کا تعلق باطنی درجات اور ولایت باطنی سے ہی ہوا کرتا ہے نہ کہ خلافت کی ترتیب سے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء و صوفیا ء نے مولا علی کو ولایت میں افضل کہنے والے کو رافضی قرار دیا ہے ۔ کماسیاتی بیانہ (جس کا بیان آئے گا) ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت ظاہری سے پہلے سیدنا صدیق اکبر کو مصلائے امامت پر کھڑا کیا (بخاری) ۔ خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا ابوبکر اور عمر جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا ۔ (بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھاکہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں ۔ (ترمذی) ۔ خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میری امت میں سے میری امت پر سب سے بڑا رحم دل ابوبکر ہے ۔ (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی خلفاء اربعہ کو تمام نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا ۔ (شفاء) خلافت ظاہری سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی موجودگی میں صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد سب سے افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (مجمع الزوائد)

خلافت ظاہری سے پہلے ہی آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا دیا تھا اللہ اور مومنین ابوبکر کے سوا کسی اور کےلیے راضی ہی نا ہوں گے (مسلم) ۔ اس سے بڑی کیا دلیل ہو گی ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث من کنت مولاہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی زبردست فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ اللہم اجعلنا فی زمرته و فى من والاه ۔ مگر اس کے ذریعے ولایت باطنی کا عطا ہونا تفضیلیوں کا اپنا مفروضہ ہے اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کے یمن کے غزوہ میں مولا علی کے کچھ ساتھیوں کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت ہوئی حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم سے اس شکایت کا اظہار کیا اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ یہاں مولا سے مراد دوست اور محبوب ہے اور اس حدیث کا ولایت باطنی سے کوئی تعلق نہیں ۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حدیث موالات کی اگر سند صحیح بھی ہو تو اس میں ولایت علی پرنص ہم نے اپنی کتاب الفضائل میں واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کا مقصود کیا تھا ؟ ۔ بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تو ساتھیوں نے ان کے خلاف کثرت سے شکایت کی اور بغض کا اظہار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے اپنے ساتھ ان کے خصوصی تعلق اور ان سے محبت کو ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس کے ذریعے آپ سے محبت اور دوستی رکھنے کی رغبت دلائی اور عداوت ترک کرانا چاہی ، لہٰذا فرمایا من كنت وليه فعلي وليه اور بعض روایات میں ہے ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاده ، اور اس سے مراد اسلامی دوستی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے سے عداوت نہ رکھے یہ حدیث اس معنی میں ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی مجھ سے نبی امی صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے وعدہ فرمایا ہے کہ مجھ سے مومن کے سوا محبت کوئی نہ کرے گا اور منافق کے سوا بغض کوئی نہ رکھے گا ۔ الْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۔ (الاعتقاد نویسنده : البيهقي، أبو بكر جلد : 1 صفحه : 354 مطبوعہ دار الآفاق بيروت،چشتی)

یہ تھے امام شافعی رحمة اللہ علیہ جن کے ادھورے شعر پڑھ پڑھ کر ماڈرن تفضیلی رافضی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں پوری حدیث دیکھیئے امام شافعی کی شخصیت دیکھئے اور پھر ان کی وضاحت دیکھیے ۔

حضرت خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ کوٹ مٹھن والے نے تین صفحات پر اس حدیث کی زبردست وضاحت فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ یہاں مولا کے معنی سید سردار حاکم اور لائک امامت کے نہیں بلکہ اس کے معنی ناصر اور محبوب کے ہیں ۔ (مقابیس المجالس صفحہ نمبر 920)

شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں : اسی طرح یہ بھی ابلا فریبی ہے کہ حضرت علی کی خلافت بلا فصل کی دلیل میں خم غدیر کی روایت پیش کی جاتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے متعلق فرمایا کے من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جن کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں مولا بمعنی دوست ہے دیکھیے آیت کریم : فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ ۔ یعنی اللہ کے محبوب کا دوست اللہ عزوجل ہے اور جبریل ہے اور نیک بندے ہیں ہیں ۔ (مذہب شیعہ صفحہ 90)

ادھر  الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۔ کی نص قرآن میں موجود ہے یعنی تمام مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مولا ہیں ۔

الَّذِينَ يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ۔ کی تفسیر میں امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان مولا علی کے بارے میں موجود ہے کہ : علی من الذین اٰمنو ۔ یعنی مولا علی بھی مومنین میں شامل ہیں ۔ (تفسیر ابن جر یر جلد 14 صفحہ 356،چشتی)(تفسیر بغوی جلد 2 صفحہ 47)۔(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 102)

حدیث پاک میں تمام صحابہ کرام کے بارے میں محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ، یعنی جس نے ان سے محبت رکھیں پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ خود اسی حدیث میں اللهم وال من والاه وعاداه سے ولایت کا مفہوم متعین ہو رہا ہے یعنی اے اللہ جو علی کو مولا بنائے تو اسے اپنا مولا بنا اور اس سے دشمنی رکھے تو اب سے اپنا دشمن بنا یہاں مولا کا لفظ دشمن کے مقابلے پر استعمال ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں مولا با معنی محبوب اور دوست ہے نا کہ مولا بمعنی آقا ۔

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : يكون المولى بمعنى الولى ضد العدو ۔ یعنی مولا کا معنی دوست ہوتا ہے جو دشمن کی ضد ہے ۔ (الریاض النظرہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 227)

بلکہ اس سے بڑھ کر متعدد روایات میں ہے کہ : اللهم احب من احبه و ابغض من ابغضه ۔ یعنی اے اللہ جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ۔ اور بعض روایات میں ہے و اخذل من خذله ۔ یعنی اے اللہ جو اسے رسوا کرنے کی کوشش کرے تو اسے رسوا کر اور بعض روایات میں ہے کہ وانصر من نصره یعنی جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اسی طرح کے الفاظ میں تفسیر کی انتہا کر دی گئی ہے ۔ اور اگر مولا بمعنی آقا لیا جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو انبیاء علیہم السلام کے بھی آقا ہیں تو کیا حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم تمام انبیاء کے بھی آپ آقا ہوں گے ؟
بتائیے تفضیلیو آپ لوگوں کے عقائد و ظریات سے قدم قدم پر غالی رافضیت لازم آتی ہے کہ نہیں ؟

حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا : اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا - يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ - وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ ۔ یعنی اے اللہ اپنے اس بندے ابوہریرہ اور اس کی ماں کو تمام مومنوں کا محبوب بنا دے اور مومنوں کو ان کا محبوب بنا دے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ۔ یعنی کوئی ایسا مومن پیدا نہیں ہو گا جو میرے بارے میں سنے اور مجھ سے محبت نہ کرے خواہ اس نے مجھے دیکھا نہ ہو ۔ (صحيح مسلم نویسنده : مسلم جلد : 4 صفحه : 1938 مطبوعہ دار إحياء التراث العربي - بيروت،چشتی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ۔ انت اخونا ومولانا یعنی تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو گیا ۔ (بخاری حدیث نمبر 2699)

مولا علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت باطنی اور اس کی رفعتوں میں کوئی شک نہیں مگر خلفاۓ ثلاثہ میں ولایت باطنی مولا علی کی نسبت رفیع تر ہے اور اس میں ان کی یکتائی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا لو کنت متخذا خلیلا الحدیث یعنی اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ہے اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

صدیق اکبر کا لقب آسمانوں سے عطا کیے جانے میں صدیق ہی یکتا ہیں اور صدیقیت ولایت باطنی کا اعلی ترین رتبہ ہے صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

قرآن فرماتا ہے : ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں جب قرآن نے ہی صدیق کو نبی کا ثانی کہہ دیا تو صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

اذ يقول لصاحبه میں بھی صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور یہ لقب قرآن نے کسی دوسرے صحابی کو نہیں دیا صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کے ابوبکر سے بہتر شخص سورج نے نہیں دیکھا اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے انہیں خود مصلّی امامت پر کھڑا کیا اور اگر کسی دوسرے کی تجویز دی گئی تو آپ نے لا ، لا ، لا ، فرما کر انکار کر دیا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث4661)

اور یابی اللہ والمومنون الا ابابكر کی تصریح فرما دی یعنی ابوبکر کے سوا کسی کو امام ماننے سے اللہ اور اس کے فرشتے انکار کر رہے ہیں ۔ (مسلم رقم الحدیث6181)

اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

ارحم امتی بامتی ابوبکر یعنی میری امت میں میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اس میں محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی رحمۃ اللعالمینی کا عکس اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہے اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں وہی ہیں امن الناس بر مولائے ما اس میں وہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟


رافضی اور تفضیلی لوگ صدیق اکبر اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہما میں قدم اسلام کا موازنہ لے کر بیٹھ گئے مگر علماء کا یہ لکھنا کے صدیق اکبر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعلان نبوت سے پہلے شام کے تجارتی سفر کے دوران ہی ایمان لے آئے تھے اس وقت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی نہیں ہوئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 30)

اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

اور یہ بھی فرمائیے کہ مستدرک میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نقل فرمائی ہے کہ ابوبکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزیر تھے آپ ان سے ہر معاملے میں مشورہ لیتے تھے آپ اسلام میں ان کے ثانی تھے غار میں ان کے ثانی تھے بدر کے دن عرش میں ان کے ثانی تھے اور قبر میں ان کے ثانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سے آگے کسی کو نہیں سمجھتے تھے اصل الفاظ یہ ہیں : كَانَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَ الْوَزِيرِ، فَكَانَ يُشَاوِرُهُ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْإِسْلَامِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْغَارِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْعَرِيشِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْقَبْرِ ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ يُقِدِّمُ عَلَيْهِ أَحَدًا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد : 3 صفحه : 66 مطبوعہ دار الكتب العلمية - بيروت،چشتی)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یہ تمام یکتائیاں آپ کو نظر کیوں نہ آئیں ؟

اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام اولین و آخرین میں سے ولایت میں سب سے افضل ہیں : فهو افضل اوليائ من الاولین و الاٰخرین وقد حكى الاجماع على ذالك ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 61)

عین ممکن ہے کہ کسی کی رگ رافضیت پھڑک اٹھے اور ہم پر مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص کے انکار کا الزام لگا دے بدگمانی اور جان بوجھ کر الزام تراشی ان لوگوں کی عادت ہے لہٰذا ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص میں آل رسول کا جد امجد ہونا اقضی الصحابہ ہونا مولائے جمیع مومنین ہونے کا خصوصی اعلان خیبر کے دن جھنڈا عطا ہونا مسجد شریف میں سے جنابت کی حالت میں گزرنے کی اجازت کا ہونا لايئودى عنى الا انا او على کا اعزاز انت منی بمنزلة ہارون من موسی وغیرہ شامل ہیں بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے خلفاء کی تعداد تیرہ بتائی ہے : لَقَدْ كَانَتْ لَهُ ثَلَاثَةَ عَشَرَ مَنْقَبَةً، مَا كَانَتْ لِأَحَدٍ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ۔ (المعجم الأوسط نویسنده : الطبراني جلد : 8 صفحه : 212 مطبوعہ دار الحرمين - القاهرة)

یہ باتیں آپ کی فضیلت کا ثبوت ہے لیکن افضلیت کا ثبوت نہیں ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل ایسے بھی ہیں جنہیں روافض نے آپ رضی اللہ عنہ کے خصائص بناکر مشہور کر دیا ہے اور ہمارے بھولے بھالے سنی بھی تحقیق کیے بغیر سر مارتے چلے جاتے ہیں مثلا مشہور کر دیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی مولود کعبہ ہیں حالانکہ حضرت حکیم بن حزام ضی اللہ عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے تھے امام حاکم لکھتے ہیں : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «§وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ ۔
ترجمہ : حضرت مصعب بن عبداللہ نے حکیم بن حزام کا نسب بیان کیا اور فرمایا کہ ان کی والدہ ام فاختہ بنت زہیربن اسد بن عبدالعزی تھیں انہوں نے حکیم کو کعبہ میں جنم دیا جبکہ حاملہ تھیں ان کو کعبہ کے اندرونی حصہ میں پیدائش کا درد ہوا تو حکیم کو کعبہ کے اندر ہی جنم دیا انہوں نے اسے بغل میں لے لیا اور حوض زمزم کے پاس آکر کپڑوں کو دو یا حکیم سے پہلے بھی کسی نے کعبہ میں جنم نہ لیا تھا اور ان کے بعد بھی کوئی کعبہ میں پیدا نہ ہوا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)
یہ بات نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الحاکم وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ۔
ترجمہ : حاکم کہتا ہے کہ آخری جملہ بولنے میں مصعب کع وہم ہوا ہے تواتر کے ساتھ اخبار موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے امید المومنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه : 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولد حكيم فى جوف الكعبة، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره، وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔
ترجمہ : حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان کے علاوہ کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور وہ جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ روایت علماء کے نزدیک ضعیف ہے ۔
وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔ (تهذيب الأسماء واللغات نویسنده : النووي، أبو زكريا جلد : 1 صفحه : 166 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًّا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔
ترجمہ : شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام کے سوا کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور مستدرک حاکم میں جو لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ ضعیف ہے  ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي نویسنده : السيوطي، جلال الدين جلد : 2 صفحه : 880 مطبوعہ دار طيبة)

عبدالرحمٰن محمد سعید دمشقی لکھتے ہیں : مجھے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں کوئی چیز نہیں ملی بلکہ حضرت حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا ثابت ہے حاکم کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایت کے بعد یہ لکھا ہے کہ حضرت علی کا کعبہ میں پیدا ہونا تواتر سے ثابت ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ حاکم اس متواتر روایت کو پیش کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے حاکم پر جو تساہل میں اور تشیع میں مشہور ہے کہ انہوں نے اس تواتر کا دعوی کیسے کر دیا ۔ كان اللائق به ان يأتى بتلك الرواية المتواترة الخ ۔ (احادیث یحتج بھا الشیعة صفحہ 122) ۔ اس کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا کعبہ شریف میں پیدا ہونا بے شمار کتب میں مذکور ہے مثلا : ⬇
صحیح مسلم رقم الحدیث3869
معرفت الصحابہ لابی نعیم جلد 2صفحہ 70
سیر اعلام النبلا جلد 3 صفحہ 46
الاعلام جلد 2 صفحہ 259
نصب الرایہ جلد 4 صفحہ 2
الاکمال فی اسماء الرجال لصاحب علم لصاحب المشکوة 591
کتاب المجر صفحہ 176
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر صفحہ 397
تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 182
ازالۃ الخفاء جلد 2 صفحہ 291
فیض القدیر جلد 2 صفحہ 37
ہم نے صرف نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا جاؤ آسمان علم و فقر کے ان درخشندہ ستاروں پر جاکر فتوی بازی کرو جن کی مثال کبھی نہ لا سکو گے ۔

اسی طرح یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ : صرف مولا علی رضی اللہ عنہ علم کا دروازہ ہیں حالانکہ فبايهم اقتديتم اهتديتم وغیرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم بھی علم کا دروازہ ہے ان میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو علم و فضل کی بنا پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا امام بنایا گیا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 678)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بچا ہوا سارا علم پی لیا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 2190)(صحیح بخاری رقم الحدیث 82،3681،7006، 7027،7032،چشتی)(ترمزی رقم الحدیث 2284)(مستدرک للحاکم رقم الحدیث 4552)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاری ہیں حضرت زید بن ثابت کا سب سے زیادہ علم میراث کے ماہر ہیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حلال اور حرام کا علم رکھتے ہیں مولا علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی ہیں یہ سب باتیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہیں اور ترمذی جلد 2 صفحہ 219 پر موجود ہے اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے بڑے حافظ الحدیث ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث119،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس کو دین کی فقہ اور حکمت عطا ہوئی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 57)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کو حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3760)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہمراز ہیں جس سے ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3761)

اسی لیے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب العلم کی شرح میں لکھا ہے کہ ای باب من ابواب العلم یعنی مولا علی علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے لہٰذا باب العلم ہونا مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا ثبوت ضرور ہے مگر یہ افضلیت کا ثبوت نہیں ۔

اسی طرح یہ بھی مشہور کردیا گیا ہے کہ : صرف حضرے علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام انبیاء و صحابہ تابعین رضی اللہ عنہم بلکہ تمام اولیاء کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے ۔ اس شخص کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا ہو یا جس نے صحابی کو دیکھا ہو  (ترمذی رقم الحدیث3858)

پھر مولا علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت کیوں نہ ہوگا لیکن یہ آپ کا خاصہ نہیں ثانیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اور وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ کر مسکراتے تھے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3668)

کعبہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے قرآن شریف کے صحیفے میں دیکھ کر پڑھنا ہزار گناہ زیادہ صاحب رکھتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث 2218،چشتی)(مشکوۃ رقم الحدیث2167)

ماں باپ کی طرف محبت کی نظر سے صرف ایک مرتبہ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ (مشکاۃ صفحہ 421)

اور اللہ کے ولی کی نشانی ہی یہ ہے کہ جب اسے دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث4119)

لہٰذا اس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کا خاصہ نہیں ان تمام احادیث میں وجہ اشتراک محض عبادت ہے ورنہ مقام اور مرتبے کا فرق اپنی جگہ مسلم ہے ۔

یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر عبادت ہے حالانکہ کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جس طرح اپنی نعت سنانے کا حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا اسی طرح ایک دن پوچھا قلت فى ابى بكر شئيا کیا تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منقبت لکھی ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا سناؤ میں سننا چاہتا ہوں انہوں نے وہ منقبت سنائی ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4468،4518،چشتی)

یہ صدیق اکبر ضی اللہ عنہ کا خاصہ ہے ۔

مستدرک میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک زبردست قول موجود ہے کہ جب صالحین کا ذکر ہو تو عمر کی بات ضرور کرو ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4578)

خود مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اذا ذكر الصالحون فحيهلا بعمر ۔ (معجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث5549)(تاریخ الخلفاء صفحہ 94)

بلکہ تمام صالحین کے بارے میں فرمایا کہ ذکر الصالحین کفارۃ یعنی صالحین کا تذکرہ گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث 4331)

لہٰذا اس حدیث میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہاں پر رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں ۔

داماد رسول ہونا بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خاصہ نہیں بلکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس پوری کائنات میں واحد ایسی شخصیت ہیں جنہیں کسی نبی کی دو شہزادیوں کا شوہر ہونے کا شرف حاصل ہے ہاں اس میں ایک پہلو سیدہ النساء علی ابیہا و علیہا الصلاۃ وسلام کی جہت سے خاصیت کا موجود ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اسے ہم آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خصائص میں بیان کرتے ہیں ۔

اسی طرح علی منی وانا من علی کو بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہی الفاظ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں ۔ (ترمذی رقم الحدیث3775)

یہی الفاظ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں اور کتاب وہی ہے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3759)(مشکوۃ رقم الحدیث 6157)
یہی الفاظ پورے قبیلہ اشعری کے بارے میں بھی موجود ہیں : الاشعریون هم منی وانا منھم ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث2486)(صحیح مسلم رقم الحدیث6408)
یہی الفاظ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں کہ : جلیبیب منی وانا من جلیبیب جلیبیب منی وانا من جلیبیب ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث6358)

بلکہ اہل علم کی توجہ کےلیے عرض ہے کہ : ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم منھم کے لفظ پر غور فرمائیے اور اس کے برعکس إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ پر بھی غور فرمائیں بعض احادیث مثلا من غش فلیس منی جیسے الفاظ پر غور فرما لیجئے ان شاء اللہ العزیز سینہ کھل جائے گا اور آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کس طرح بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے تاہم اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ضرور موجود ہے مگر یہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں اور نہ ہی افضلیت کا ثبوت ہے ۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا بھائی قرار دیا تھا یہ آپ کا خاصہ ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صدیق اکبر کو بھی اپنا بھائی قرار دیا ہے ولکن اخی و صاحبی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3656)(صحیح مسلم رقم الحدیث6172)

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اشر کنا یا اخی دعائک یعنی اے میرے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث1498)(ترمزی رقم الحدیث1980،چشتی)(مشکواۃ المصابیح رقم الحدیث2248)

حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بھائی قرار دیا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 318)

لہٰذا یہ بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق خاصہ نہیں ہاں مواخات مدینہ کی خصوصی جہت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو اخوا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے ۔

مواخات کا یہ مخصوص گوشہ چچازاد بھائی ہونے کے سبب اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاشانہ اقدس میں پرورش پانے کے سبب اور دیگر فضائل کی وجہ سے ہے نہ کہ افضلیت کی وجہ سے ان سب فضیلتوں کے پیش نظر مولا علی رضی اللہ عنہ ہی اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بھائی بنتے تو بات سجتی تھا ۔ لہٰذا اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی پیاری فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کی افضلیت کا ثبوت نہیں اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بلکل حق ہے مگر یہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں حدیث شریف میں ہے کہ : آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار ۔ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار کا بغض منافقت کی نشانی ہے  ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3784)(صحیح مسلم رقم الحدیث 235،236،237،238،239)(نسائی رقم الحدیث5019)

اسی طرح تمام کے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں فرمایا کہ : فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ۔
یعنی جس نے ان سے محبت رکھی پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ (ترمذی رقم الحدیث 3862،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث 16808)(مشکوۃ رقم الحدیث 6014)

اسی طرح کی احادیث کو پس پشت ڈال کر خوارج والی منافقت کے سوا باقی ہر طرح کی منافقت کو روا کر دیا گیا ہے حالانکہ جس طرح خروج منافقت ہے اسی طرح رافضیت بھی منافقت ہے اور جمیع صاحب اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت صحیح ایمان ہے ۔

فقیر نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل اہل سنت کی کتب میں درج ہیں انہیں روافض و تفضیلیوں نے متفق علیہ بنا ڈالا اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل خواہ کتنی کثرت اور کتنی ہی قوت سے کتب اہل سنت میں موجود ہوں اور صرف فضیلت پر ہی نہیں بلکہ افضلیت پر دلالت کر رہے ہوں انہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو افضلیت بنا ڈالتے ہیں اور جب ہم افضلیت کی نفی کرتے ہیں تو اسے فضیلت کی نفی پر محمول کرتے ہیں ان کا یہ فریب خود سمجھ لو ۔

دوسری طرف یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں بغض علی رضی اللہ عنہ منافقت ہے وہاں حد سے زیادہ حبِ علی رضی اللہ عنہ بھی سراپا بے ایمانی ہے اور تباہی ہے اور ان عاشقوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود بے زار ہیں اس موضوع پر مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے ارشادات موجود ہیں  ان نام نہاد عاشقوں کے ہاں محبت اور بغض کا معیار بھی عجیب ہے ایک عشق کہتا ہے کہ جو شخص علی رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات چھیڑ دے اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے اگر آپ نے اس ظالم کی بات مان لی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر خیر کرنا چھوڑ دیا تو دوسرا عشق بولے گا کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت میں اور علم میں خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے  اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو تیسرا عاشق بولے گا جو شخص کھل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافہ ثلاثہ سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو چوتھا عاشق بولے گا جو شخص خلفاۓ ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر تبرا نہیں بولتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو اب بھی آپ کچے پکے عاشق ہیں اصل عاشق وہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو نفسِ خدا نفسِ رسول جبریل کا استاد وحی کا صحیح حقدار تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور صحیح معنی میں حجت اللہ علی الخلق اصلی قرآن کا جامع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مشکل کشا مانے اور تقیے کی باریکیوں کو سمجھے لے ۔ ہمارے مذکورہ الفاظ قابل غور اور معنی خیز ہیں ہر کس و ناکس ان کے پس منظر میں پوشیدہ شیعہ عقائد کو نہیں سمجھ سکتا اور جس شخص کا مطالعہ نہیں ہے وہ پاٹے خان نہ بنے اور اس پر قیاس آرائی اور طبع آزمائی نا فرمائے ہم دعوے کے ساتھ یہ بات عرض کر رہے ہیں کہ جو شخص شیعہ مذہب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے وہ خود شیعہ ہے یا پھر اس نے اس مذہب کا مطالعہ ہی نہیں کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...