Wednesday 8 November 2023

حدیث مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ وَ مَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ حصّہ اوّل

0 comments
حدیث مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ وَ مَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ حصّہ اوّل
محترم قارئین کرام : گستاخِ رسول کی سزا قرآن و حدیث اور اقوال آئمہ علیہم الرحمہ کے مطابق کیا ہے آئیے اس بارے پڑھتے ہیں ۔ فقیر چشتی کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ابھی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چنگاری زندہ ہے ؟ جن کے جذبے ابھی سرد نہیں پڑے ۔ جو لوگ اب بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سینے میں سجائے ہوئے ہیں ۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے زمانہ میں ہر کس و ناکس دین کے معاملہ میں رائے زنی کرنے لگتا ہے اور منتشر اور بکھری معلومات کو سمیٹنے کے بجائے چند جزئیے دیکھ کر دین کے حساس معاملات میں اپنی رائے ایسے پیش کرتا ہے گویا کہ اس سے بہتر دین کا جاننے والا کوئی دوسرا شخص موجود ہی نہیں ۔ در اصل مسئلہ کچھ یوں ہے کہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل کا معاملہ کا ثبوت صرف اس حدیث پر منحصر ہی نہیں جسے ضعیف قرار دے کر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں ، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے گستاخ کو قتل کرنے کے واضح احکامات جاری وساری فرمائے جس کا ثبوت صحیح احادیث میں بکثرت ملتا ہے ۔

امام طبرانی رحمہ الله عليه نے اپنی سند کے ساتھ معجم الصغیر للطبرانی میں یہ حدیث یوں ذکر کی ہے کہ : حدثنا عبيد الله بن محمد العمري القاضي بمدينة طبرية سنة سبع وسبعين ومائتين حدثنا اسماعيل بن أبي أويس ، حدثنا موسی بن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن الحسين بن علي، عن علي رضي اللہ عنہ قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : من سب الأنبياء قُتل ، ومن سب الأصحاب جُلد ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جس نے کسی نبی کو گالی دی اسے قتل کر دو ۔ (معجم الصغیر للطبرانی جلد 1 صفحہ نمبر 393،چشتی)(معجم الصغیر للطبرانی ج 1 ص 136 رقم الحدیث 659 یا 660)(المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث 4602)(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ مترجم ج 2 ص 202 شبیر برادرز)(الشفاء باحوال المصطفیٰ عربی ج 2 ص 136)(فوائد تمام الرازی رقم الحدیث 740)(الاربعین المرتبۃ علی طبقات الاربعین لا بن المفضل المقدسی ج1 ص 460)(تاریخ دمشق لابن عساکر ج 38 ص 103 رقم الحدیث 38854)(تاریخ بغداد للخطیب ج 18 ص 90)(مجمع الزوائد و منبع الفوائد ج 6 ص 260)(جامع الاحادیث ج 20 ص 368،چشتی)(الفردوس بماثور الخطاب باب میم ج 3 ص 541)(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ ج 7 ص 334)(سبل الھدی والارشاد فی سیرۃُ خیر العباد ج 12 ص 30)(احکام اھل لزمۃ ج 3 ص 1455)(الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج 1 ص 93 ، 287 ، 295)(فتاویٰ السبکی امام تقی الدین سبکی ج 2 ص 582)(السابق والا حق الخطیب البغدادی ج 1 ص 85)(نھایۃ المطلب فی درایۃ المذھب ج 18 ص 47)(الوسیط فی المذھب ج 7 ص 87)(الفتاوی الکبریٰ لا بن تیمیۃ ج 5 ص 256)

جب امیر المجاہدین علامہ حافظ خادم حسین رضی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث مبارکہ کو بیان فرما کر عام کیا تو فقیر چشتی نے کچھ لوگوں بشمول بعض اہلِ علم اور خاص کر قادیانیوں کے اس حدیث پر شکوک و شبہات دیکھے تھے کچھ نے کہا کہ یہ حدیث سرے سے حدیث کی کتابوں میں سند کے ساتھ درج ہی نہیں اس لیے فقیر نے چند سال قبل اس پر لکھا تھا اور اس حدیث کی تخریج کی کوشش کی تھی فقیر چشتی کو کافی کتابوں میں ان ہی الفاظ کے ساتھ اور فقتلو کی جگہ قتل کے الفاظ کے ساتھ بھی بہت جگہ ملی ان میں سے فقیر نے بعض کتابوں کا انتخاب کیا تھا جو سب کی نظر میں معتبر ہیں ۔ اب مزید تحقیق کے ساتھ پیشِ خدمت ہے : ⬇

اور اسی طرح اس حدیث کو الفاظِ مختلفہ کے ساتھ امام اجل قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف لطیف "الشفاء بتعریف حقوق المصطفی" کے اندر اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ : قال حدثنا الشيخ أبو عبد الله أحمد بن غلبون، عن الشيخ أبي ذر الهروي إجازة، قال : حدثنا أبو الحسن الدارقطني ، وأبو عمر بن حيوة، حدثنا محمد بن نوح ، حدثنا عبد العزيز بن محمد بن الحسن بن زباله، حدثنا عبد الله بن موسی بن جعفر ، عن علي بن موسى، عن أبيه، عن جده، عن محمد بن علي بن الحسين، عن أبيه، عن الحسين بن علي، عن أبيه أن رسول الله قال : من سب نبیا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی القسم الرابع، باب الاول، الفصل الثانی صفحہ 171)

اسی طرح اس حدیث کو علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی طبرانی کے حوالے سے فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں نقل کیا ہے اور آپ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ (فیض القدیر جلد 6 صفحہ 190 حدیث نمبر 8735)

اور اسی طرح علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل کیا ہے ۔

امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی سند میں موجود راوی عبید اللہ بن محمد عمری پر محدثین نے کلام کیا ہے ۔

 ابن حجر لسان المیزان میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : عبیداللہ بن محمد بن عمر بن عبدالعزیز العمری ۔

من شیوخ الطبرانی

رماہ النسائی بالکذب

یروی عن طبقہ اسمعیل بن اویس

ومن مناکیرہ عن اسماعیل بن ابی اویس عن مالک عن الزہری عن حمید بن عبد الرحمن عن ابوھریرہ مرفوعا من قامرمضان احتسابا و ایمان غفر لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر ۔

تفرد العمری بقولہ ۔ (وما تأخر)

اخرجہ الدار قطنی فی الغرائب عن علی بن محمدالمصری عن عبیداللہ

وقال الدار قطنی لیس بصحیح تفرد بہ العمری و کان ضعیفا

وایضا من مناکیرہ ما تقدم من روایة الطبرانی

 قلت (ابن حجر): کلھم ثقات الا العمری ۔ (لسان المیزان جلد 5 صفحہ 341)

اور علامہ نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ضعیف جانا جبکہ ابن حجر بھی اسے منکر کہ چکے ہیں ۔

اسی طرح اس حدیث کی دوسری سند جسے قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے شفاء شریف میں ذکر کیا ہے جس میں موجود ابو ذر الھروی پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے ۔ اور ابن تیمیہ نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ ضعیف ہیں ۔ ان کے بارے میں امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ : ابو ذر الھروی الحافظ الامام المجودالعلامہ شیخ الحرم ابو ذر عبد بن احمد بن محمد بن عبداللہ المالکی الھروی الخراسانی صاحب التصانیف وراوی الصحیح عن الثلاثة المستملی، والحموی والکشمیھنی ۔

اور ان کے بارے میں ابو خاتم الرازی نے کہا کہ : وکان ثقة ضابطا دینا ۔ 

اور پھر امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : قلت (ذہبی) : وھّاہ الدار قطنی وقوّاہ ابو خاتم الرازی ۔

ان کے بارے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف مجھ پر یہی ظاہر ہوا کہ یہ ثقاہت کی طرف مائل ہیں اس لیے کہ انہوں نے احتتام پہ وھاہ کو پہلے اور قواہ کو بعد میں ذکر کیا ہے اور آثار س احوال میں بھی کوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جو انکے ضعف پر دلالت کرے البتہ ان پہ دار قطنی نے جو جرح کی میں اس پہ مطلع نہیں ہو سکا ۔

اب اس حدیث کی پہلی سند کا راوی متہم بالکذب ہے اس لیے دوسری سند سے پہلی سند تقویت نہیں پائے گی لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے ۔ یہ حدیث سنداً اگرچہ ضعیف ہے مگر اس حدیث کا مفہوم قرآن و حدیث کے دیگر درجنوں دلائل سے ثابت ہے کہ گستاخ کی سزا موت ہے اس کو قتل کیا جائے گا اور اس حدیث کو کئی مصنفین نے بطور شماریات اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے لہٰذا اس حدیث کو باب فضائل میں ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ الْقَاضِي بِمَدِينَةِ طَبَرِيَّةَ سَنَةَ سَبْعٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ , عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ , عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ ، وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ ۔
مفہوم : جس نے انبیاء کو گالی دی اس کو قتل کیا جائے اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس کو کوڑے ماڑے جائیں ۔ (الطبراني ,المعجم الصغير  ,1/393)(المقدسي، علي بن المفضل، الأربعون على الطبقات ٤٦٠)(معجم اوسط میں اس کے الفاظ کچھ مختلف ہیں)

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ الْقَاضِي قَالَ: نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ شَتَمَ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ، وَمَنْ شَتَمَ أَصْحَابِي جُلِدَ ۔
ترجمہ : جس نے انبیاء کو گالی دی اس کو قتل کیا جائے اور جس نے میرے صحابہ کو گالی اس کو کوڑے ماڑے جائیں ۔ (الطبراني، المعجم الأوسط، ٣٥/٥)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 911ھ) اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں : الطبراني في الأوسط بسند ضعيف ۔
ترجمہ : یہ روایت معجم اوسط للطبراني میں ضعیف سند سے مروی ہے ۔ (السيوطي ,مناهل الصفا, 241)

امام یحیی عامری رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 893ھ) اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :  وهذا الحديث وان كان في اسناده ضعف فقد اعتضد بالاجماع ۔
ترجمہ : اس روایت کی سند میں اگر چہ ضعف ہے لیکن اجماع کی وجہ قوی ہوگئی ہے ۔ (بهجة المحافل وبغية الأماثل، ١٩٥/٢)

امام زین الدین مناوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1031ھ) نے بھی روایت کو صرف ضعیف قرار دیا : (طب عَن عَليّ) باسناد ضَعِيف ۔
ترجمہ : امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 360ھ) نے اس کو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم (سال وفات 40ھ)سے ضعیف سند سے روایت کیا ہے ۔ (المناوي، التيسير ، ٤٢٢/٢)

علامہ عزیزی ( سال وفات 1070ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صرف ضعیف کہنے پر اکتفا کیا : (طب) عن على بإسناد ضعيف ۔ (العزيزي، السراج المنير، ٣٠٠/٤)

علامہ صنعانی ( سال وفات 1182ھ) رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں : رواته كلهم ثقات إلا العمري ۔
ترجمہ : سوائے عبید اللہ العمری کے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ (الصنعاني، التنوير ، ٢٥٢/١٠)

امام ابن الملقن رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 804ھ)فرماتے ہیں : وفيه عبيد الله العمري ضعفه النسائي جدًّا، وقال : كذاب ۔ (ابن الملقن، التوضيح لشرح الجامع الصحيح، ٥٤٤/٣١)

امام نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 807ھ)اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ عَنْ شَيْخِهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ رَمَاهُ النَّسَائِيُّ بِالْكَذِبِ ۔
ترجمہ : اس راوی کو  امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 303ھ) نے اس کو متہم قرار دیا ہے ۔ (نور الدين الهيثمي ,مجمع الزوائد  ,6/260)

اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا تشدد سب کو مشہور ہے : ويعتبر النسائي من المتشددين في جرح الرجال ۔ أكرم العمري، بحوث في تاريخ السنة المشرفة،  ٩٦)

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 385ھ) نے اس کو صرف ضعیف قرار دیا ہے ۔

حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَلْبُونَ عَنْ الشَّيْخِ أَبِي ذَرٍّ الْهَرَوِيِّ إِجَازَةً قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الدَّارَقُطْنِيُّ وَأَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَّوَيْهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُوحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبَالَةَ حدثناعبد الله بن مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ محمد بن علي بت الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ وَ مَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ ۔
ترجمہ : جس کسی نبی کو گالی دی اس کو قتل کردو اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس کو مارو ۔ (القاضي عياض ,الشفا ،2/22)

اس روایت میں عبد العزیز بن محمد بن الحسن بن زبالہ ضعیف ہے لیکن اس کی وجہ سے روایت کو موضوع نہیں کہا سکتا ۔

امام تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 756ھ) شفا شریف کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں : عبد العزيز بن محمد بن الحسن بن زبالة، جرحه ابن حبان وغيره ۔
ترجمہ : ابن زبالہ پر امام ابن حبان رحمہ اللہ (سال وفات 354ھ) نے جرح کی ہے ۔ (السبكي، ,السيف المسلول على من سب الرسول ,149،چشتی)
اپنی دوسری کتاب میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ان صح وان ثبت کے الفاظ فرمائے : وَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ» إنْ ثَبَتَ فَهُوَ عُمْدَةٌ ۔ (السبكي، تقي الدين، فتاوى السبكي، ٥٨٤/٢)
وَالْحَدِيثُ الَّذِي يُرْوَى «مَنْ سَبَّ صَحَابِيًّا فَاجْلِدُوهُ» إنْ صَحَّ ۔ (السبكي، تقي الدين، فتاوى السبكي، ٥٧٦/٢،چشتی) ۔ یہ دونوں عبارات ضعف کے طرف مشیر ہیں ۔

علامہ ابن قیم جوزی (سال وفات 751ھ) لکھتے ہیں : الْمُحَدِّثُ بِهِ عَنْ أَهْلِ الْبَيْتِ ضَعِيفٌ ۔
ترجمہ : اہل بیت رضی اللہ عنہم سے حدیث بیان کرنے والا ابن زبالہ ضعيف ہے ۔ (ابن القيم، أحكام أهل الذمة، ١٤٥٧/٣)

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1014ھ) اس روایت کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قال الحلبي الحديث هذا ليس في الكتب الستة  قلت الحديث قد ساقه القاضي بسنده من طريق الدراقطني وهو إمام جليل من أهل السنة ۔ وقد رواه الطبراني في الكبير أيضا لكنه بسند ضعيف عن علي رضي الله تعالى عنه: من سب الأنبياء قتل ومن سب أصحاب جلد  ورواه أيضا عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما: مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ والناس أجمعين وروى أحمد والحاكم في مستدركه: من سب عليا فقد سبني ومن سبني فقد سب الله تعالی وفي حاشية التلمساني عن علي رضي الله تعالى عنه قال: لا أوتى بمن فضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته جلد المفتري ۔
ترجمہ : امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : یہ روایت کتب ستہ میں نہیں میں کہتا ہوں (اگر چہ صحاح ستہ میں نہیں) لیکن اس کو امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 544ھ) امام. دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 385ھ) کی سند سے روایت کیا ہے اور وہ اہل سنت کے جلیل القدر امام ہے ۔ اور امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ضعیف سند سے روایت کیا ہے ۔ اس کے شواہد میں سے یہ ہے کہ جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ اور  فرشتوں کی لعنت ہے ۔ اور یہ بھی ہے کہ جس نے مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی ۔ اور اسی طرح مولی علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :جس نے مجھے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر مجھے فضیلت دی اس کو میں تہمت کی حد لگاؤں گا ۔ (الملا على القاري، شرح الشفا، ٤٠٣/٢)

امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 277ھ)  اسی طرح امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 748ھ) نے بھی ابن زبالہ کو مجہول قرار دیا ہے ۔

اور عمومی حالات میں مجہول کی حدیث کو موضوع نہیں ہوتی امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1014ھ) فرماتے ہیں : جھالة بعض الرواۃ لاتقتضی کون الحدیث موضوعا وکذا نکارہ الالفاظ، فینبغی ان یحکم علیه بانه ضعیف، ثم یعمل بالضعیف فی فضائل الاعمال ۔
ترجمہ : یعنی بعض راویوں کا مجہول یا الفاظ کا بے قاعدہ ہونا یہ نہیں چاہتا کہ حدیث موضوع ہو، ہاں ضعیف کہو، پھر فضائل اعمال میں ضعیف پر عمل کیاجاتا ہے ۔ (مجموعة رسائل  الملا علي القاري، صفحة 109)

حدثنا أبو الحسن مُزاحِم بن عبد الوارث البصري: نا الحسين بن حُميد بن الربيع اللَّخْمي، قال: حدّثني عبد السلام بن صالح الهروي، قال: حدثني علي بن موسى الرِّضا، قال: حدثني أبي: موسى بن جعفر عن أبيه: جعفر بن محمَّد عن أبيه: محمد بن علي عن أبيه: علي بن الحسين عن  أبيه ۔ عن عليٍّ عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم  قال : مَنْ سبَّ نبيًّا من الأنبياءِ فاقتلوه، ومَنْ سبَّ أحدًا من أصحابي فاجلِدوه ۔ (البسام بترتيب وتخريج فوائد تمام، ٤١/٣)

اس سند میں حسین بن حمید متہم ہے ۔ (ابن حجر العسقلاني، لسان الميزان، ٢٨٠/٢)

 اور عبد السلام بن صالح مختلف فیہ ہے عبد السلام کی بعض نے تضعیف کی اور امام ابن معین وغیرہ نے ثوثیق فرمائی ہے ۔ (ابن حجر العسقلاني، تهذيب التهذيب، ٣٢٠/٦)

عبد السلام کو حافظ ابن حجر عسقلانی(852) رحمۃ اللہ علیہ نے صدوق قرار دیا ۔ (ابن حجر العسقلاني، تقريب التهذيب، ٣٥٥)

مختصر یہ ہے کہ حضرت امام علی بن موسی رضا رضی اللہ عنہما سے اس کو روایت کرنے والے تین راوی ہیں ۔ (1) ابن ابی اویس ۔ (2) عبد اللہ بن موسی ۔ عبد السلام ہروی ۔ (الخطيب البغدادي، السابق واللاحق في تباعد ما بين وفاة راويين عن شيخ واحد، ٨٧)

روایت کے شواہد ۔ مرفوع روایات : ⬇

امام  طبرانی ۔ (سال وفات 360ھ) ، قاضی عیاض (سال وفات 544ھ) اور ابو تمام (سال وفات 414ھ)رحمہم اللہ علیہم کے علاوہ کئی اور محدثین نے بھی اس کو روایت کیا ہے : ⬇

ابن نجار رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 643ھ) : من سب نبيًّا فاقتلوه ومن سب أصحابى فاضربوه ۔ (ابن النجار عن على) (السيوطي، جامع الأحاديث، ٣٦٨/٢٠)

امام ابن الطیب رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1170ھ)  اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : قَالَ الطَّبَرَانِيّ الحَدِيث لَا يرْوى إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَاد تفرد بِهِ ابْن أبي أويس قَالَ وَله شَاهد فِي الْجَامِع الْكَبِير انْتهى المسلسل كَذَلِك ۔ جامع کبیر میں اس کا. ایک شاہد بھی موجود ہے ۔ (علم الدين الفاداني، العجالة في الأحاديث المسلسلة،  ٦٥)

امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 509ھ) ۔ عَليّ بن أبي طَالب : من سبّ نَبيا فَاقْتُلُوهُ وَمن سبّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ ۔ (الدَّيْلَمي، الفردوس بمأثور الخطاب، ٥٤١/٣)

امام خلال و امام ازجی رحمۃ اللہ علیہما ۔ امام تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابن تیمیہ حرانی کے مطابق اس کو امام  ابو القاسم ازجی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 444ھ) اور امام محمد خلال رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 439ھ) نے بھی روایت کیا ہے ۔ السبكي، ,السيف المسلول على من سب الرسول ,150،چشتی)(ابن تيمية، الصارم المسلول على شاتم الرسول، ٩٢)(ابن القيم، أحكام أهل الذمة، ١٤٥٥/٣)

علامہ ابن تیمیہ (سال وفات 728ھ) نے بھی اس کو موضوع نہیں قرار دیا صرف ایک ضعیف راوی کی نشاندہی کی ہے ۔ (ابن تيمية، الصارم المسلول  ٩٣)

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُدَامَةَ بْنِ عَنَزَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ: أَغْلَظَ رَجُلٌ لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَقُلْتُ: أَقْتُلُهُ فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ : لَيْسَ هَذَا لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔ (النسائي، السنن الكبرى ، ٤٤٦/٣)

امام. نسائی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 303ھ) اس روایت کو باب  الحکم فیمن سب رسول الله  کے تحت ذکر کیا ۔

علامہ ابن تیمیہ (سال وفات 728ھ) نے بھی اس روایت کو اسی تناظر میں پیش کیا ۔ (ابن تيمية، الصارم المسلول علی شاتم الرسول ،٩٣)

ائمہ کرام علیہم الرحمہ کا اس روایت سے استناد کرنا : ⬇

محدث إسماعيل عجلونی (سال. وفات 1162ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت سے استناد کیا ہے : ولا يبعد أن يكون المعنى سب أصحابي ذنب لا يغتفر، أي لا يسامح لحديث من سب أصحابي فاضربوه ومن سبني فاقتلوه ۔
ترجمہ : یہ بات بعید نہیں کہ صحابی کو گالی دینا ناقابل معافی گناہ ہو ۔ کیونکہ روایت کیا گیا ہے کہ جس نے کسی صحابی کو گالی دی اس کو ضرب لگاؤ اور جس نے مجھے گالی دی اس کو قتل کردو ۔ (العجلوني، كشف الخفاء، ٤٤٤/١)

یہی بات امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1014ھ) نے بھی  ذکر کی ۔ (الملا على القاري، الأسرار المرفوعة،  ٢١٤)

وَقد وَردَ عَنهُ ۔ صلى الله عليه وسلم : أن مَنْ سَب الأنبيَاء قتل، ومَنْ سَب أصحَابي جلد ۔ رَواهُ الطبَراني عن علي كرمَ الله وَجهَهُ ۔ (الملا على القاري، شم العوارض في ذم الروافض، صفحة ٣٥،چشتی)

امام محمد بن یوسف صالحی شامی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 942ھ)نے بھی اس سے استناد کیا : وأمّا الآثار ۔ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من سب نبيّا فاقتلوه، ومن سبّ أصحابي فاضربوه ۔ (الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ٣٠/١٢)

امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 974ھ) نے بھی اس سے استناد کیا : وَعَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ من سبّ الْأَنْبِيَاء قتل وَمن سبّ أَصْحَابِي جلد ۔ (ابن حجر الهيتمي، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ١٤/١،چشتی)

امام الحرمین جوینی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 478ھ)نے اس کو ذکر کیا : ورد في الأخبار : من سبّ نبيّاً فاقتلوه، ومن سبّ أصحابه فاجلدوه ۔ (الجويني، أبو المعالي، نهاية المطلب في دراية المذهب، ٤٧/١٨)

امام محمد غزالی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 505ھ) نے بھی اس کو ذکر کیا : وَفِي الْخَبَر من سبّ نَبيا فَاقْتُلُوهُ وَمن سبّ أَصْحَابه فاجلدوه ۔  (أبو حامد الغزالي، الوسيط في المذهب، ٨٧/٧)

هذا حديث لا يعرف ۔ (ابن الصلاح، شرح مشكل الوسيط، ١٥٨/٤)

امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 756 ھ) نے امام ابن الصلاح (سال وفات 643ھ) رحمۃ اللہ علیہ کے قول کہ یہ حدیث معروف نہیں ۔ پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وابن الصلاح قال في كلامه على "الوسيط": "هذا حديث لا يعرف"، وهذا الكلام من ابن الصلاح لأنه لم يقف على إسناده ۔
ترجمہ : امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی سند پر اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے یہ قول فرمایا ہے ۔ (السبكي، تقي الدين، السيف المسلول ١٥٠)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ (سال وفات 23ھ) : وعن عمر رضي الله عنه أنه أتى برجل سب النبي صلى الله عليه وسلم فقلته، ثم قال عمر : من سب الله أو سب أحدًا من الأنبياء فقاتلوه ۔
ترجمہ : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالی دی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ اس کو قتل کیا اور فرمایا : جو اللہ تعالیٰ یا کسی نبی کو گالی دے اس کو قتل کردو ۔ اس کی سند میں عصمہ بن فضالہ الانصاری منکر الحدیث ہے اور اس کی یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۔ (ابن عدي، الكامل في ضعفاء الرجال، ٨٨/٧)

علامہ ابن تیمیہ (سال وفات 728ھ) نے اس واقعہ کو اس اور سند سے بیان کر کے استناد کیا ہے ۔ (ابن تيمية، الصارم المسلول  ٢٠١)

ابن عباس رضی اللہ عنہما (سال وفات 68ھ) : وعن ابن عباس قال: أيما مسلم سب الله أو سب أحدًا من الأنبياء فقد كذب برسول الله صلى الله عليه وسلم، وهي ردة، يستتاب فإن رجع وإلا قتل، وأيما معاهد عاند فسب الله أو سب أحدًا من الأنبياء أو جهر به فقد نقض العهد فاقتلوه ۔
ترجمہ : جو مسلمان یا کافر اللہ تعالیٰ یا کسی بھی کو بھی گالی دے  تو اس کو قتل کردو ۔ (السبكي،السيف المسلول  ١٢٤،چشتی)(زاد المعاد  ٥٥/٥)

ابن عمر رضی اللہ عنہ (سال وفات 73ھ) کے پاس ایک شخص گزرا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا اس شخص کے جانے کے بعد کسی نے آپ. کو بتایا کہ یہ گزرنے والا شخص یہ کام. کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لو سمعته لقتلته ۔
ترجمہ : اگر میں اس سے یہ سن لیتا تو اس کو قتل کر دیتا ۔ (أحمد بن حنبل، الجامع لعلوم الإمام أحمد ، ٣١١/١٢)

حضرت عمر بن عبدالعزيز رضی اللہ عنہ (سال وفات 101ھ) : وعن خليد أن رجلاً سب عمر بن عبد العزيز فكتب عمر: أنه لا يقتل إلا من سب رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔
ترجمہ : کسی شخص نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو گالی دی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے  عمال کو لکھ بھیجا کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کسی اور گالی دینے والے کو قتل نہ کیا جائے ۔ (السبكي ,السيف المسلول  ,،124)

پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گستاخانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قتل کرنے کے کئی واقعات کتب میں موجود ہیں  مندرجہ ذیل سطور میں ہم کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں  : ⬇

1)کعب بن اشرف کا قصہ
2)ابو رافع ی-ہودی کا قصہ
3)عبد اللہ بن خطل کا قصہ
4)ابو عفک شاعر کا قصہ
5)سفیان ہذلی کا قصہ
6)ظالم حویرث کا قصہ
7)معاویہ مغیرہ کا قصہ
8)نابینا صحابی کی ام ولد کا قصہ 
9)عمیر بن امیہ کی بہن کا قصہ
10)عمیر بن عدی کا قصہ
11)مندقون ن-صرانی کا قصہ
12)عبد اللہ بن النواحہ کا قصہ
ان واقعات کی تفصیل حصّہ دوم میں ان شاء اللہ

اجماعِ امت : ⬇

امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 319ھ) فرماتے ہیں : وأجمعوا على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم أن له القتل ۔
ترجمہ : اس بات پر تمام کا اجماع ہے جو کسی نبی کو گالی دے ان کو قتل کیا جائے گا ۔ (الإجماع لابن المنذر  ,1/128)

امام یحیی عامری رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 893ھ) اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں : وهذا الحديث وان كان في اسناده ضعف فقد اعتضد بالاجماع ۔
ترجمہ : اس روایت کی سند میں اگر چہ ضعف ہے لیکن اجماع کی وجہ قوی ہوگئی ہے ۔ (بهجة المحافل وبغية الأماثل، ١٩٥/٢،چشتی)

امام محمد بن عبد الباقي زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1122ھ) فرماتے ہیں : وأما السنة» فكثيرة، منها ما رواه الدارقطني والطبراني، عن علي، رفعه: «من سب نبيًا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه»، وسنده ضعيف، لكن اعتضد بالإجماع ۔
ترجمہ : یہ حدیث اگر چہ ضعیف ہے لیکن اجماع کی وجہ سے قوی ہو گئی ہے ۔ (الزرقاني، محمد بن عبد الباقي، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ٣٣٤/٧)

اجماعِ امت ، شہرت ، اور تلقی امت سے تقویت : فقیر چشتی حدیث کی تقویت پانے کی کچھ صورتیں عرض کرتا ہے : ⬇

 
تلقی بالقبول سے تقویت

امام ابوبکر جصاص رازی حنفی (سال وفات 370ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَإِنْ كَانَ وُرُودُهُ مِنْ طَرِيقِ الْآحَادِ، فَصَارَ فِي حَيِّزِ التَّوَاتُرِ; لِأَنَّ مَا تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ مِنْ أَخْبَارِ الْآحَادِ فَهُوَ عِنْدَنَا فِي مَعْنَى الْمُتَوَاتِرِ لِمَا بَيَّنَّاهُ فِي مَوَاضِعَ ۔
ترجمہ : ہم نے کئی جگہ یہ بات کہی ہے کہ جب خبر واحد کو تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو وہ حدیث ضعیف نہیں رہتی بلکہ  متواتر کے  درجہ تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ (الجصاص، أحكام القرآن للجصاص ٤٦٧/١)

امام بدر الدين زرکشی (سال وفات 794ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أَن الحَدِيث الضَّعِيف إِذا تَلَقَّتْهُ الْأمة بِالْقبُولِ عمل بِهِ على الصَّحِيحُ حَتَّى إِنَّه ينزل منزلَة الْمُتَوَاتر فِي أَنه ينْسَخ الْمَقْطُوع ۔
ترجمہ : جب حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو وہ متواتر کا درجہ اختیار کر لیتی ہے ۔ (الزركشي، النكت على مقدمة ابن الصلاح ٣٩٠/١،چشتی)

ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 702ھ) بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تلقی بالقبول سے حدیث صحیح ہو جاتی ہے : وفي الجملة: فقد تلخَّصَ أنَّ من صححه فلهم فيه طريقان: طريق الإسناد، وطريق التلقي بالقَبول ۔ (ابن دقيق العيد، شرح الإلمام بأحاديث الأحكام، ٧٤/١)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 852ھ) نقل  فرماتے ہیں : أن الخبر إذا تلقته الأمة بالقبول تصديقا له وعملا بموجبه أفاد العلم عند جماهير العلماء من السلف والخلف ۔
ترجمہ : جب حدیث کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو جمہور سلف و خلف کے نزدیک یقین کا فائدہ دیتی ہے ۔ (النكت على كتاب ابن الصلاح، ١٣٩/١)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 204ھ) ایک ضعیف حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : لا يثبته أهل العلم بالحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به ۔
ترجمہ : محدثین کرام علیہم الرحمہ نے اگر چہ یہ حدیث صحیح نہیں لیکن اکثر علماء کا عمل اسی پر ہے تو یہ روایت قبول ہوگی ۔ (ابن حجر العسقلاني، النكت على كتاب ابن الصلاح  ٤٩٥/١)

امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 463ھ) ایک روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وأهل الحديث لا يصححون مثل اسناده لكن الحديث عندي صحيح لأن العلماء تلقوه بالقبول ۔
ترجمہ : محدثین کرام علیہم الرحمہ اگر چہ اس کی اسناد کو صحیح نہیں قرار دیتے لیکن میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ امت نے اس کو قبول کرلیا ہے ۔ (ابن عبد البر، التمهيد ، ٢١٩/١٦،چشتی)(شرح ابن ماجه لمغلطاي،  ٢٢٩)(السيوطي، تدريب الراوي  ، ٦٦/١)

علامہ ابن سید الناس رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 734ھ)نے بھی حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل کی ہے : وهذا الحديث لم يحتج أهل الحديث بمثل إسناده وهو عندي صحيح لأن العلماء تلقوه بالقبول له والعمل به ۔ (ابن سيد الناس، النفح الشذي ، ١٥٩/٢)

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 911ھ)لکھتے ہیں : وفي قبول جماعة من العلماء واجماع الناس على معناه غنى عن اسناده ۔
ترجمہ : علماء کرام کی جماعت جب کسی حدیث کو قبول کرلیتی تو وہ اس کی سند دیکھنے کی احتیاج نہیں رہتی ۔ (السيوطي، تدريب الراوي ، ٦٦/١)

امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 463ھ)فرماتے ہیں : خَبَرُ الْوَاحِدِ الَّذِي تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ فَيُقْطَعُ بِصِدْقِهِ ۔
ترجمہ : خبر واحد کو جب تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو اس کی صحت کا یقین کرلیا جائے گا ۔ (الخطيب البغدادي، الفقيه والمتفقه ٢٧٨/١)

شیخ ابراہیم شبرخیتی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1106ھ) فرماتے ہیں : ومحل كونه لا يعمل بالضعيف في الأحكام مالم يكن تلقاه الناس بالقبول، فإن كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الأحكام وغيرها ۔
ترجمہ : ضعیف حدیث کو جن تلقی حاصل ہو جائے تو وہ احکام میں بھی حجت ہے ۔ (شرح الأربعين النووية صفحة 39،چشتی)

امام ابن الوزیر یمنی (سال وفات 840ھ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وقد احتج العلماء على  صحةِ أحاديثَ بتلقي الأُمَّةِ لها بالقبول ۔
ترجمہ : علماء نے تلقی بالقبول حاصل. کرنے والی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ (ابن الوزير، العواصم والقواصم  ٢٩٧/٢)

امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 902ھ) فرماتے ہیں : وَكَذَا إِذَا تَلَقَّتِ الْأُمَّةُ الضَّعِيفَ بِالْقَبُولِ يُعْمَلُ بِهِ عَلَى الصَّحِيحِ ۔
ترجمہ : امت جب کسی حدیث کو قبول کرلے تو اس پر عمل کیا جائے گا ۔ (السخاوي، فتح المغيث بشرح ألفية الحديث، ٣٥٠/١)

امام ابن فورک رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 406ھ)فرماتے ہیں : وقال الاستاذ ابو بكر بن فورك الخبر الذي تلقته الامة بالقبول محكوم بصدقه ۔
ترجمہ : جس حدیث کو امت تلقی بالقبول کرلے وہ صحیح اور سچی ہے ۔ (السبكي، تقي الدين، الإبهاج في شرح المنهاج، ٢٩٩/٢)

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1340ھ) فرماتے ہیں : تلقی علماء بالقبول وہ شے عظیم ہے جس کے بعد ملاحظہ سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہوتو حرج نہیں کرتی ۔ (فتاوی رضویہ 660/30)

عملِ امت سے تقویت : ⬇

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 852ھ) فرماتے ہیں : من جملة صفات القبول التي لم يتعرض لها شيخنا (يعني العراقي) أن يتفق العلماء على العمل بمدلول حديث فإنه يقبل ويجب العمل به ۔
ترجمہ : اگر علماء کسی  ضعیف حدیث کے مدلول اور معنی پر متفق ہوں تو اس حدیث کو قبول کیا جائے ۔ (ابن حجر العسقلاني، النكت على كتاب ابن الصلاح ، ٧٨/١)

علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی (سال وفات 1353ھ) کہتے ہیں : وذهب بعضُهم إلى أن الحديثَ إذا تأيَّد بالعملِ ارتقى من حال الضَّعْف إلى مرتبة القبول ۔ قلت : وهو الأَوْجَهُ عندي ، وإن كَبُر على المشغوفِين بالإِسناد ۔ (الكشميري، فيض الباري ، ١٣٠/٤)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 179ھ) کا یہ قول بھی حدیث پر سلف کے عمل کی اہمیت کو واضح کرتی ہے ۔ اما ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 449ھ) نقل فرماتے ہیں : إذا جاء عن النبى عليه السلام حديثان مختلفان وبلغنا أن أبا بكر وعمر عملا بأحد الحديثين وتركا الآخر، فإن فى ذلك دلالة على أن الحق فى ما عملا به ۔ (ابن بطال، شرح صحيح البخارى ، ٢٤٤/٤)

امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ (463ھ) نے بھی اس کو نقل کیا ۔ وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَنَّهُ سَمِعَ مَالِكًا يَقُولُ : إِذَا جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - حَدِيثَانِ مُخْتَلِفَانِ وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ عَمِلَا بِأَحَدِ الْحَدِيثَيْنِ وَتَرَكَا الْآخَرَ كَانَ فِي ذَلِكَ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْحَقَّ فِيمَا عَمِلَا بِهِ ۔ (ابن عبد البر، الاستذكار، ١٧٥/١)

امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 370ھ)کے قول بھی سے  حدیث کے موافق سلف کے عمل کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اس سے حدیث کو تقویت ملتی ہے : مَتَى رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ خَبَرَانِ مُتَضَادَّانِ وَظَهَرَ عَمَلُ السَّلَفِ بِأَحَدِهِمَا كَانَ الَّذِي ظَهَرَ عَمَلُ السَّلَفِ بِهِ أَوْلَى بِالْإِثْبَاتِ ۔ (الجصاص، أحكام القرآن  ، ١٨/١،چشتی)

امام ابن عراق رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 963ھ)فرماتے ہیں : وَقد صرح غير وَاحِد بِأَن دَلِيل صِحَة الحَدِيث قَول أهل الْعلم بِهِ وَإِن لم يكن لَهُ إِسْنَاد يعْتَمد على مثله ۔
ترجمہ : کئی ایک علماء کرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ علماء کے قول کی وجہ سے ضعیف حدیث صحیح ہو جاتی ہے ۔ (ابن عراق، تنزيه الشريعة المرفوعة ، ١٠٤/٢)

اس کی کچھ مثالیں : ⬇

علامہ ابن قیم جوزیہ حنبلی (سال وفات 751ھ) نے تلقین میت والی حدیث کو ضعیف کہنے کے باوجود عمل علماء کی وجہ سے قابل عمل کہا : فَهَذَا الحَدِيث وَإِن لم يثبت فإتصال الْعَمَل بِهِ فِي سَائِر الْأَمْصَار والأعصار من غير انكار كَاف فِي الْعَمَل بِهِ ۔
ترجمہ : یہ حدیث اگر صحیح نہیں لیکن تمام شہروں میں اس پر عمل ہے یہی بات اس پر عمل کرنے کےلیے کافی ہے ۔ (ابن القيم، الروح، صفحة ١٣)

علامہ ابن ابی العز (سال وفات 792ھ) لا یمس القرآن الا طاھر پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ولكن قوله -صلى الله عليه وسلم-: "لا يمس القرآن إلا طاهر" هو في الكتاب الذي كتبه رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لعمرو بن حزم، وهو كتاب مشهور عند أهل العلم، تلقوه بالقبول والعمل، وإن كان سنده ضعيفًا ۔
ترجمہ : اس کی سند اگر چہ ضعیف ہے لیکن علماء کے ہاں اسے تقلید بالقبول حاصل ہے ۔ (ابن أبي العز، التنبيه على مشكلات الهداية، ٤١٤/١)(عبد الكريم الخضير، شرح مختصر الخرقي ، ١٧/١١)

لا وصیۃ لوارث حدیث پر کلام کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 852ھ) فرماتے ہیں : وَقَدْ نَازَعَ الْفَخْرُ الرَّازِيُّ فِي كَوْنِ هَذَا الْحَدِيثِ مُتَوَاتِرًا وَعَلَى تَقْدِيرِ تَسْلِيمِ ذَلِكَ فَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ أَنَّ الْقُرْآنَ لَا يُنْسَخُ بِالسُّنَّةِ لَكِنَّ الْحُجَّةَ فِي هَذَا الْإِجْمَاعِ عَلَى مُقْتَضَاهُ ۔
ترجمہ : فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 606ھ) نے اس کے متواتر ہونے میں منازعت کی ہے انہوں نے کہا اگر متواتر مان بھی لیں تو امام شافعی رحمہ اللہ (سال وفات 204 ھ) کے نزدیک حدیث سے قرآن کا نسخ جائز نہیں ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ جوابا فرماتے ہیں : اس حدیث میں اصل حجت علماء کا اس کے موافق عمل کرنا ہے ۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري لابن حجر، ٣٧٢/٥،چشتی)

مشہور حدیثِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جس کو فقہائے کرام قیاس کی حجیت کے باب میں پیش کرتے ہیں ۔ بعض محدثین کرام علیہم الرحمہ نے اگر چہ اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ لیکن امام جصاص رازی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 370ھ) فرماتے ہیں : اس حدیث کو تلقی بالقبول  حاصل ہے ۔ رُوِيَ بِالنَّقْلِ الشَّائِعِ الَّذِي تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ ۔ (الجصاص، الفصول في الأصول، ٣١٨/٢)

اسی حدیث کے متعلق امام خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 463ھ)فرماتے ہیں : فَكَذَلِكَ حَدِيثُ مُعَاذٍ , لَمَّا احْتَجُّوا بِهِ جَمِيعًا غَنَوْا عَنْ طَلَبِ الْإِسْنَادِ لَهُ ۔
ترجمہ : حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ صحیح ہے اس کی سند میں بحث کی ضرورت نہیں ۔ (الخطيب البغدادي، الفقيه والمتفقه ، ٤٧١/١)

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 405ھ) ایک روایت پر کلام کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وَمِمَّا يُسْتَدَلُّ بِهِ عَلَى صِحَّةِ هَذَا الْحَدِيثِ اسْتِعْمَالُ الْأَئِمَّةِ مِنْ أَتْبَاعِ التَّابِعِينَ إِلَى عَصْرِنَا هَذَا إِيَّاهُ وَمَوَاظَبَتُهُمْ عَلَيْهِ وَتَعْلِيمُهُنَّ النَّاسَ، مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ : اس حدیث کی صحیح ہونے پر ایک استدلال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ائمہ کرام نے اس پر عمل کیا ہے ۔ (الحاكم، ,المستدرك على الصحيحين ,1/464)

امام حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 656ھ) ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : كان عبد الله بن المبارك يفعلها، وتداولها الصالحون بعضهم من بعضٍ، وفيه تقويةٌ للحديث المرفوع ۔
ترجمہ : عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 181ھ) اس حدیث پر عمل کرتے تھے ان کے عمل سے یہ حدیث اور قوی ہوجاتی ہے ۔ (عبد العظيم المنذري، الترغيب والترهيب   ٤٦٩/١)

امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 388ھ) ایک روایت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں : هذا حديث قد اصطلح الفقهاء على قبوله وذلك يدل على أن له أصلاً كما اصطلحوا على قبول قوله لا وصية لوارث، وفي إسناده ما فيه ۔
ترجمہ : فقہاء علیہم الرحمہ نے اس حدیث کو قبول کیا ہے اور ان کا قبول کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل موجود ہے ۔ (الخطابي معالم السنن، ١٥١/٣)

امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات:463ھ) فرماتے ہیں : وحديث سعد بن إسحاق هذا مشهور مَشْهُورٌ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ بِالْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ مَعْمُولٌ بِهِ عِنْدَهُمْ تَلَقَّوْهُ بِالْقَبُولِ وَأَفْتَوْا بِهِ ۔ (ابن عبد البر، الاستذكار، ٢١٤/٦)

امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وَهُوَ عِنْدَ جَمَاعَةِ الْعُلَمَاءِ أَصْلٌ تَلَقَّوْهُ بِالْقَبُولِ وَبَنَوْا عَلَيْهِ كَثِيرًا مِنْ فُرُوعِهِ وَاشْتُهِرَ عِنْدَهُمْ بِالْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ شُهْرَةً يُسْتَغْنَى بِهَا عَنِ الإسناد كما اشتهر عندهم قول عَلَيْهِ السَّلَامُ لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ۔ وَمِثْلُ هَذَا مِنَ الْآثَارِ الَّتِي قَدِ اشْتُهِرَتْ عِنْدَ جَمَاعَةِ الْعُلَمَاءِ اسْتِفَاضَةً يَكَادُ يُسْتَغْنَى فِيهَا عَنِ الْإِسْنَادِ لِأَنَّ اسْتِفَاضَتَهَا وَشُهْرَتَهَا عِنْدَهُمْ أَقْوَى مِنَ الْإِسْنَادِ ۔
مفہوم : یہ حدیث حجاز و عراق میں مشہور ہے اور ایسی مشہور حدیث سند سے مستغنی ہو جاتی ہے ۔ (ابن عبد البر، التمهيد  ٢٩٠/٢٤،چشتی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 676ھ) نے اس کو نقل کیا ہے : قال ابن عبد البر إن هذا الحديث منقطع إلا أنه مشهور الاصل عند جماعة تلقوه بالقبول، وبنوا عليه كثيرا من فروعه ۔ (النووي، المجموع شرح المهذب، ٥٢/١٣)

امام. شمس الدین زرکشی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 772ھ)نے بھی اس عبارت کو نقل کیا ہے : وقد قال ابن عبد البر : هو محفوظ، مشهور، أصل عند جماعة العلماء، تلقوه بالقبول، وبنوا عليه كثيرا من فروعه، قد اشتهر عنهم بالحجاز، والعراق، شهرة يستغنى بها عن الإسناد كما اشتهر حديث «لا وصية لوارث» انتهى ۔ (الزركشي، شمس الدين، شرح الزركشي على مختصر الخرقي، ٦١٦/٣)

امام خلیل بن اسحاق جندی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 776ھ)نے بھی اس عبارت کو نقل کیا : وذكر أبو عمر أنه مشهور عند العلماء تلقوه بالقبول، وبنوا عليه كثيراً من الفروع، فقد اشتهر عندهم بالحجاز والعراق شهرة يستغنى بها عن الإسناد، كما اشتهر حديث : (لا وصية لوارث) ۔ (التوضيح في شرح مختصر ابن الحاجب، ٥٨١/٥)
 

علامہ حسین بن محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1119ھ) نے بھی اس کو نقل کیا : وقال ابن عبد البر : هو منقطع إلا أنه مشهور الأصل عند جماعة العلماء، تلقَّوه بالقبول وبنوا عليه كثيرا من فروعه ۔ (الحسين بن محمد المَغرِبي، البدر التمام شرح بلوغ المرام، ٢٦/٦)

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 463ھ) کچھ احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ لَا تَثْبُتُ مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ , لَكِنْ لَمَّا تَلَقَّتْهَا الْكَافَّةُ عَنِ الْكَافَّةِ غَنَوْا بِصِحَّتِهَا عِنْدَهُمْ عَنْ طَلَبِ الْإِسْنَادِ لَهَا ۔
ترجمہ : یہ احادیث اگر چہ سند کے اعتبار سے ثابت نہیں لیکن جب اس کو امت نے قبول کرلیا تو اس کی سند تلاش کرنے کی احتیاجی نہ رہی ۔ (الخطيب البغدادي، الفقيه والمتفقه  ٤٧١/١)

امام ابن ابی زید القیروانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 386ھ) ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : ورَوَى الناس في العشرين الدينار حديثاً ليس بذي إسنادٍ قويٍّ إلاَّ أن النَّاسَ تلقَّوه بالعمل ۔
ترجمہ : یہ حدیث اگر چہ مضبوط نہیں لیکن علماء کے نزدیک اسے تلقی بالقبول حاصل ہے ۔ (النوادر والزيادات على ما في المدونة من غيرها من الأمهات، ١٠٧/٢)

علامہ ابن یونس الصقلی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 451ھ)نقل فرماتے ہیں : وقد روي ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم أيضاً، وإن كان حديثاً ليس بالقوي إلا أن الناس تلقوه بالعمل ۔
ترجمہ : یہ حدیث اگر چہ مضبوط نہیں لیکن علماء کے نزدیک اسے تلقی بالقبول حاصل ہے ۔ (ابن يونس الصقلي، الجامع لمسائل المدونة، ٦/٤)

شہرت حدیث سے تقویت : ⬇

علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات794ھ)  ایک روایت پر کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : إِن إِسْنَاده مُنْقَطع لَكِن استفاضته بَين النقلَة وَأهل الْمَغَازِي جعلته  حجَّة ۔
ترجمہ : یہ حدیث اگر چہ منقطع ہے لیکن ناقلین حدیث اور اہل مغازی کے ہاں شہرت کی وجہ سے حجت ہے ۔ (الزركشي، النكت على مقدمة ابن الصلاح ، ١١١/١)

امام ابو اسحاق اسفرائینی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 418ھ) فرماتے ہیں : تُعْرَفُ صِحَّةُ الْحَدِيثِ إِذَا اشْتُهِرَ عِنْدَ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ بِغَيْرِ نَكِيرٍ مِنْهُمْ ۔
ترجمہ : محدثین کرام علیہم الرحمہ کے ہاں بلا نکیر کسی حدیث کے مشہور ہو جانے سے بھی حدیث کی صحت معلوم ہو جاتی ہے ۔ (السيوطي، تدريب الراوي ، ٦٦/١)

امام کمال الدین ابن الھمام رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 861ھ) فرماتے ہیں : وَمِمَّا يُصَحِّحُ الْحَدِيثَ أَيْضًا عَمَلُ الْعُلَمَاءِ عَلَى وَفْقِهِ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ عَقِيبَ رِوَايَتِهِ: حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  وَغَيْرِهِمْ... وَقَالَ مَالِكٌ: شُهْرَةُ الْحَدِيثِ بِالْمَدِينَةِ تُغْنِي عَنْ صِحَّةِ سَنَدِهِ ۔
ترجمہ : علماء کرام  کا حدیث کے موجب (حکم) پر عمل کرنے سے بھی حدیث صحیح ہو جاتی ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 279ھ) کئی مقامات پر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور لوگوں کا عمل اس پر ہے ۔

اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 179ھ) فرماتے ہیں : کسی حدیث کا مشہور ہونا حدیث کی سند کی صحت سے مستغنی کر دیتی ہے ۔ (الكمال بن الهمام، فتح القدير، ٤٩٣/٣)

موافقت قرآن و سنت سے تقویت : ⬇

امام ابن الحصار مالکی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 620ھ) فرماتے ہیں : قَدْ يَعْلَمُ الْفَقِيهُ صِحَّةَ الْحَدِيثِ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي سَنَدِهِ كَذَّابٌ بِمُوَافَقَةِ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ أَوْ بَعْضِ أُصُولِ الشَّرِيعَةِ، فَيَحْمِلُهُ ذَلِكَ عَلَى قَبُولِهِ وَالْعَمَلِ بِهِ ۔
ترجمہ : کبھی کبھار جب حدیث کی سند میں کوئی جھوٹا راوی نہیں ہوتا تو فقیہ قرآنی آیت کی موافقت یا کسی اصول شریعت کی موافقت کی وجہ سے حدیث کی صحت کا قول کردیتا ہے ۔ (السيوطي، تدريب الراوي ، ٦٦/١)

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 463ھ) فرماتے ہیں : وَقَدْ يُسْتَدَلُّ أَيْضًا عَلَى صِحَّتِهِ بِأَنْ يَكُونَ خَبَرًا عَنْ أَمَرٍ اقْتَضَاهُ نَصُّ الْقُرْآنِ أَوِ السُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ , أَوِ اجْتَمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى تَصْدِيقِهِ , أَوْ تَلَقَّتْهُ الْكَافَّةُ بِالْقَبُولِ , وَعَمِلَتْ بِمُوجَبِهِ لِأَجْلِهِ ۔
ترجمہ : کبھی کبھار کسی ضعیف حدیث کی صحت قرآنی آیت یا سنت متواترہ کی موافقت یا اجماع امت یا امت کے عمل کی وجہ سے بھی معلوم ہو جاتی ہے ۔ (الخطيب البغدادي، الكفاية في علم الرواية  ١٧)

امام ابو اسحاق شاطبی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 790ھ) فرماتے ہیں : وَالْحَاصِلُ مِنَ الْجَمِيعِ صِحَّةُ اعْتِبَارِ الْحَدِيثِ بِمُوَافَقَةِ الْقُرْآنِ ۔
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ قرآنی موافقت کی وجہ سے حدیث کی صحت کا اعتبار کیا جائے گا ۔ (الشاطبي، الموافقات، ٣٣٩/٤)

تفرد کذاب وضع حدیث کو مستلزم نہیں : ⬇

امام سخاوی نے رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 902ھ) فرماتے ہیں : أَنَّ مُجَرَّدَ تَفَرُّدِ الْكَذَّابِ بَلِ الْوَضَّاعِ، وَلَوْ كَانَ بَعْدَ الِاسْتِقْصَاءِ فِي التَّفْتِيشِ مِنْ حَافِظٍ مُتَبَحِّرٍ تَامِّ الِاسْتِقْرَاءِ - غَيْرُ مُسْتَلْزِمٍ لِذَلِكَ، بَلْ لَا بُدَّ مَعَهُ مِنَ انْضِمَامِ شَيٸٍ ۔
ترجمہ : جھوٹے راوی کو کسی روایت میں متفرد ہونا بھی وضع کو مستلزم نہیں ۔ (السخاوي، فتح المغيث بشرح ألفية الحديث، ٣١٣/١)

امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 974ھ)نے بھی اس کو ذکر کیا ہے ۔ (الهيتمي،فتح الإله في شرح المشكاة135/1)

علامہ لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1304ھ) نے بھی اس کو ذکر کیا ہے ۔ (اللكنوي ،ظفر الاماني، صفحة 456)

امام زین الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 806ھ)فرماتے ہیں : فَلاَ يلزمُ مِنْ وُجودِ كذّابٍ في السندِ أنْ يكونَ الحديثُ موضوعاً ۔
ترجمہ : سند میں جھوٹے راوی ہونا روایت کے موضوع ہونے کو لازم نہیں ۔ (شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي، ٣٠٧/١،چشتی)

امام بدر الدین زرکشی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 794ھ) نے بھی اس کو ذکر کیا ۔ (النكت على مقدمة ابن الصلاح ، ٢٥٥/٢)

شیخ صنعانی (سال وفات 1182ھ) نے بھی اس کو ذکر کیا ۔ (الصنعاني، توضيح الأفكار ، ٥٣/٢)

وہابی عالم شیخ  عبد الرحمن معلمی (سال وفات 1386ھ) ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فيرى ابن حجر ان الحكم بالوضع يحتاج الى امر آخر ينضم الى حال الراوي ۔
ترجمہ : حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 852ھ) کے نزدیک کذاب کی حدیث موضوع ہونے کےلیے ساتھ میں کوئی قرینہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ (حاشية الفوائد المجموعة للشوكاني،  ٤٣٠)

ضعیف شدید کی بحث : ⬇

ایک روایت کے متعلق حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 571ھ) فرماتے ہیں : یہ روایت منکر ہے ۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 911ھ) اس کے تحت لکھتے ہیں : منکر تو بھی مقبول ہے کیونکہ منکر ضعیف کی اقسام میں سے ہے ۔ (السيوطي، نشر العلمين فی إحياء الأبوين صفحة 11)

اسی طرح کا قول امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1122ھ) نے بھی ذکر کیا ہے ۔ (الزرقاني على المواهب، صفحة 317/1)

حافظ مزی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات742ھ)  نے ایک روایت کے متعلق منکر فرمایا جس پر امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَالْمُنكر من قسم الضَّعِيف وَهُوَ مُحْتَمل فِي الْفَضَائِل ۔
ترجمہ : منکر ضعیف کی اقسام میں سے ہے اور فضائل. میں مقبول ہے ۔ (ابن عراق ,تنزيه الشريعة المرفوعة  ,2/50،چشتی)
اسی میں ہے : قلت ،، لَا يلْزم من كَون الْخَبَر مُنْكرا أَن يكون مَوْضُوعا ۔ (ابن عراق ,تنزيه الشريعة المرفوعة ,2/178)
اسی میں ایک دوسرے مقام پر ہے : وَمتْن الحَدِيث مُنكر، (قلت) لَا يلْزم من كَون الحَدِيث مُنْكرا أَن يكون مَوْضُوعا ۔ (ابن عراق ,تنزيه الشريعة المرفوعة  ,2/184)

امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 902ھ) ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وقد جاء من حديث أنس كما سأذكره وفي الجملة هو حديث ضعيف جداً يكتب في فضائل الأعمال وأما كونه موضوعاً فلا
ترجمہ : یہ روایت سخت ضعیف ہے البتہ اس کا فضائل میں لکھا جائے گا ۔ (السخاوي، القول البديع ،  ٢٣٠)

امام بدر الدین زرکشی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 794ھ) فرماتے ہیں : مِنْهَا قد كثر مِنْهُم الحكم على الحَدِيث بِالْوَضْعِ استنادا إِلَى أَن رَاوِيه عرف بِالْوَضْعِ فيحكمون على جَمِيع مَا يرويهِ هَذَا الرَّاوِي بِالْوَضْعِ وَهَذِه الطَّرِيقَة استعملها ابْن الْجَوْزِيّ فِي كتاب الموضوعات وَهِي غير صَحِيحَة لِأَنَّهُ لَا يلْزم من كَونه مَعْرُوفا بِالْوَضْعِ أَن يكون جَمِيع مَا يرويهِ مَوْضُوعا لَكِن الصَّوَاب فِي هَذَا أَنه لَا يحْتَج بِمَا يرويهِ لضَعْفه وَيجوز أَن يكون مَوْضُوعا لَا أَنه مَوْضُوع لَا محَالة ۔
ترجمہ : صرف اسناد میں کمزور راوی کی وجہ سے حدیث کو موضوع کہنے جا طریقہ درست نہیں جیسا کہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 597ھ) نے کیا اور معروف بالوضع کی ہر  روایت کو موضوع کہنا درست نہیں بلکہ اس کے ضعف کا حکم لگایا جائے گا ۔ (النكت على مقدمة ابن الصلاح ، ٢٦٥/٢،چشتی) ۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 911ھ) نے بھی اسی بات کو ذکر کیا ہے ۔ (السيوطي، نشر العلمين المنيفين في احياء الأبوين الشريفين، صفحة 16) ۔ علامہ عبد الحی الکتانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1382ھ) نے اسی بات کو ذکر کیا ۔ (الكتاني ،کشف اللبس عن حديث وضع اليد على الراس، صفحة 68)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 852ھ) فرماتے ہیں : الحديث المنكر والضعيف الذي يحتمل فيه الترغيب والترهيب ۔
ترجمہ : حدیث منکر اور ضعیف کو ترغیب و ترہیب میں قبول کیا جائے گا ۔ (ابن حجر العسقلاني، النكت على كتاب ابن الصلاح ، ١٢٦/١)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قُلْتُ تَفَرَّدَ بِهِ جَرِيرُ بْنُ أَيُّوبَ وَهُوَ ضَعِيفٌ جِدًّا وَقَدْ أَخْرَجَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ فِي صَحِيحِهِ وَقَالَ إِنْ صح الخبر فإني فِي الْقَلْبِ مِنْ جَرِيرِ بْنِ أَيُّوبَ وَكَأَنَّهُ تَسَاهَلَ فِيهِ لِكَوْنِهِ مِنَ الرَّغَائِبِ ۔
ترجمہ : جریر بن ایوب اس کو روایت کرنے میں متفرد ہے اور وہ سخت ضعیف ہے اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (سال وفات 311ھ) شاید اس حدیث کے فضائل اعمال سے متعلق ہونے کی وجہ سے اپنی صحیح میں ذکر کیا اور نرمی دکھائی ۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالية ، ٤٢/٦)

امام مرتضیٰ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1205ھ) ایک. روایت کے متعلق لکھتے ہیں : والحديث ضعيف لضعف كثير ن عبد الله ففي الكاشف واه وقال أبو داود كذاب وفي الميزان عن الشافعي ركن من أركان ۔ (الزبيدي، تخريج أحاديث إحياء علوم الدين، ١١٣٠/٣،چشتی)

اس طرح کی اور کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں

شیخ صنعانی (سال وفات 1182ھ)لکھتے ہیں : وأما غير الموضوع" كالأحاديث الواهية "فجوزوا" أى أئمة الحديث "التساهل فيه وروايته من غير بيان لضعفه إذا كان" واردا "في غير الأحكام" وذلك كافضائل والقصص والوعظ وسائر فنون الترغيب والترهيب ۔
ترجمہ : کمزور احادیث میں علماء کا تساہل معروف ہے کہ ان کو ترغیب و ترہیب میں قبول کرتے ہیں ۔ (الصنعاني، توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار، ٨٢/٢)

متابعت موجب تقویت : ⬇

برکۃ الھند شیخ عبد الحق محدث دہلوی (سال وفات 1052ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والمتابعة توجب التقوية التأييد. ولا يلزم أن يكون المتابع مساويًا في المرتبة للأصل،وإن كان دونه يصلح أيضًا للمتابعة ۔
ترجمہ : کبھی کبھار درجہ میں کم روایت بھی دوسری حدیث کی تقویت کا فائدہ دیتی ہے ۔ (عبد الحق الدِّهْلوي، لمعات التنقيح ، ١١٠/١)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات911 ھ) نقل فرماتے ہیں : وَأَمَّا الضَّعْفُ لِفِسْقِ الرَّاوِي) ، أَوْ كَذِبِهِ، (فَلَا يُؤَثِّرُ فِيهِ مُوَافَقَةُ غَيْرِهِ) لَهُ، إِذَا كَانَ الْآخَرُ مِثْلَهُ ; لِقُوَّةِ الضَّعْفِ وَتَقَاعُدِ هَذَا الْجَابِرِ ۔ نَعَمْ يَرْتَقِي بِمَجْمُوعِ طُرُقِهِ، عَنْ كَوْنِهِ مُنْكَرًا أَوْ لَا أَصْلَ لَهُ.صَرَّحَ بِهِ شَيْخُ الْإِسْلَامِ، قَالَ: بَلْ رُبَّمَا كَثُرَتِ الطُّرُقُ حَتَّى أَوْصَلَتْهُ إِلَى دَرَجَةِ الْمَسْتُورِ وَالسَّيِّئِ الْحِفْظِ، بِحَيْثُ إِذَا وُجِدَ لَهُ طَرِيقٌ آخَرُ فِيهِ ضَعْفٌ قَرِيبٌ مُحْتَمَلٌ ارْتَقَى بِمَجْمُوعِ ذَلِكَ إِلَى دَرَجَةِ الْحَسَنِ ۔
مفہوم : ضعیف شدید رویات جب کئی مل جائیں تو اس کو منکر اور لاا صل له سے نکال کر مستور یا سئي الحفظ کے درجہ  لے آتی ہیں ۔ (السيوطي تدريب الراوي  ,1/194)

فوائد مہمہ : ⬇

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث پر کلام کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وعلى الحالتين يمكن أن يخرج الحديث عن كونه موضوعًا بوجوده بسندين مختلفين ۔
ترجمہ : بہرحال حدیث کے دو سندیں ہونے کی وجہ سے وہ موضوعیت سے نکل جائے گی ۔ (السيوطي، قوت المغتذي على جامع الترمذي، ٦٩٠/٢)

علامہ قاؤقجی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات 1305ھ) لکھتے ہیں : وَحَيْثُ اخْتلف فِيهِ لَا يحسن الحكم عَلَيْهِ بِالْوَضْعِ ۔
ترجمہ : جہاں پر حدیث کے موضوع ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف ہو تو موضوع کا حکم. لگانا بہتر نہیں ۔ (القاوُقْجي ,اللؤلؤ المرصوع , 149)

مذکورہ بالا دلاٸل سے واضح ہوا کہ : اس روایت کو موضوع کہنا  درست نہیں کیونکہ مرفوعاً و موقوفاً شواہد مروی ہیں اور امت کے اجماع اور عمل کی وجہ سے یہ روایت  اور قوی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ضعیف کے درجہ میں ہے موضوع ہرگز نہیں ہے فقیر چشتی کی معلومات کے مطابق کسی بھی محدث نے اس روایت کو موضوع نہیں کہا ہے ۔ اس ساری بحث سے فقیر کا مقصد صرف حدیث مذکورہ کی فنی حیثیت واضح کرنا ہے ۔ گستاخِ رسول کی سزا کا فقہی حکم کتب میں مسطور ہے اس پر حد قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ عام پبلک کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔