Thursday, 9 November 2023

حدیث مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ وَ مَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ حصّہ دوم

حدیث مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ وَ مَن سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ حصّہ دوم
توہین رسالت کی سزا قرآن پاک کی روشنی میں : اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا و الآخرۃ واعد لھم عذاباً مھیناً (الاحزاب ،۵۷) ’’بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔ دوسرا فرمان مبارک ہے : والذین یؤذون رسول اللہ لھم عذاب الیم (التوبہ ،۶۱) ’’جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کےلیے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ تیسر ی جگہ فرمایا : ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا (الاحزاب ،۶۱) ’’پھٹکارے ہو ئے جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن کر قتل کیے جائیں ۔

توہین رسالت کی سزا احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ⬇

کعب بن اشرف ، ابورافع عبد اللہ بن ابی حقیق ، عبداللہ بن خطل ، وغیرہ وغیرہ ، ان سب کو قتل کرنے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بذات خود دیا تھا ، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گستاخی کے جرم میں انہیں واصل جہنم بھی کیا ، بلکہ ان میں سے آخر الذکر عبداللہ بن خطل مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا تھا ، اور اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے دو مغنیہ پال رکھی تھیں جو گستاخی پر مبنی گانے گایا کرتی تھیں ، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا اس شخص نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر معافی کی درخواست کی ، لیکن اس کا معافی نامہ رد کردیا گیا اور بالآخر اسے واصل جہنم کردیا گیا ، ثبوت کے طور پر تینوں روایات ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہے : ⬇

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَنَا، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا، وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ العَرَبِ؟ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا، فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ، فَيُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ، أَوْ وَسْقَيْنِ؟ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ - قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي السِّلاَحَ - فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ، فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ ۔
ترجمہ : کوئی ہے جو کعب بن اشرف کا کام تمام کرے اور اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دی ہے محمد بن مسلمہ نے عرض کیا میں تیار ہوں چنانچہ محمد بن مسلمہ اس کے پاس آئے اور ایک وسق یا دو وسق غلہ قرض لینے کا خیال ظاہر کیا تو اس نے کہا اپنی بیویوں کو میرے پاس گروی رکھ دو ان لوگوں نے کہا ہم کس طرح اپنی بیویوں کو گروی رکھ سکتے ہیں جب کہ تو عرب میں سب سے زیادہ حسین ہے اس نے کہا اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ان لوگوں نے کہا ہم کس طرح اپنے بیٹوں کو گروی رکھ سکتے ہیں لوگ ان کو طعنہ دیں گے اور کہیں گے کہ ایک وسق یا دو وسق اناج کے عوض گروی رکھے گئے یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے لیکن ہم لامہ یعنی اسلحہ تیرے پاس گروی رکھ سکتے ہیں چنانچہ اس سے دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے پھر اس کے پاس آئے تو اسے قتل کر دیا پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے (ماجرا) بیان کیا ۔ (صحیح بخاری ج۳ ص۱۴۲، حدیث نمبر: ۲۵۱۰،چشتی)(صحیح مسلم ج۳ ص۱۴۲۵ ، حدیث نمبر:۱۸۰۱)

حضرت برأ بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ اليَهُودِيِّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ، وَكَانَ فِي [صفحہ 92] حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الحِجَازِ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ، وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ: اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ، فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ، وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ، لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ، فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنَ البَابِ، ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً، وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ، فَهَتَفَ بِهِ البَوَّابُ، يَا عَبْدَ اللَّهِ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ البَابَ، فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ، فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ البَابَ، ثُمَّ عَلَّقَ الأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَى الأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا، فَفَتَحْتُ البَابَ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ، وَكَانَ فِي عَلاَلِيَّ لَهُ، فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ، فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ، قُلْتُ: إِنِ القَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ، لاَ أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنَ البَيْتِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ، فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا، وَصَاحَ، فَخَرَجْتُ مِنَ البَيْتِ، فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ؟ فَقَالَ: لِأُمِّكَ الوَيْلُ، إِنَّ رَجُلًا فِي البَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ، قَالَ: فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ، ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ، فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ، فَوَضَعْتُ رِجْلِي، وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَى الأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ، فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى البَابِ، فَقُلْتُ: لاَ أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ: أَقَتَلْتُهُ؟ فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ، فَقَالَ: أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الحِجَازِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: النَّجَاءَ، فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: «ابْسُطْ رِجْلَكَ» فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا، فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطّ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابورافع کے پاس کئی انصاریوں کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار مقرر کیا ابورافع دشمن رسول تھا اور مخالفین رسول کی مدد کرتا تھا اس کا قلعہ حجاز میں تھا اور وہ اسی میں رہا کرتا تھا جب یہ لوگ اس کے قلعہ کے قریب پہنچے تو سورج ڈوب گیا تھا اور لوگ اپنے جانوروں کو شام ہونے کی وجہ سے واپس لا رہے تھے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھیوں سے کہا تم یہیں ٹھہرو میں جاتا ہوں اور دربان سے کوئی بہانہ کرکے اندر جانے کی کوشش کروں گا چنانچہ عبداللہ گئے اور دروازہ کے قریب پہنچ گئے پھر خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپایا جیسے کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے قلعہ والے اندر جا چکے تھے دربان نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ خیال کرکے کہ ہمارا ہی آدمی ہے آواز دی اور کہا! اے اللہ کے بندے اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر اندر گیا اور چھپ رہا اور دربان نے دروازہ بند کرکے چابیاں کیل میں لٹکا دیں جب دربان سو گیا تو میں نے اٹھ کر چابیاں اتارلیں اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو ادھر ابورافع کے پاس رات کو داستان ہوتی تھی وہ اپنے بالا خانے پر بیٹھا داستان سن رہا تھا جب داستان کہنے والے تمام چلے گئے اور ابورافع سو گیا تو میں بالا خانہ پر چڑھا اور جس دروازہ میں داخل ہوتا تھا اس کو اندر سے بند کرلیتا تھا اور اس سے میری یہ غرض تھی کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہوجائے تو ان کے پہنچنے تک میں ابورافع کا کام تمام کردوں غرض میں ابورافع تک پہنچا وہ ایک اندھیرے کمرے میں اپنے بچوں کے ساتھ سو رہا تھا میں اس کی جگہ کو اچھی طرح معلوم نہ کر سکا اور ابورافع کہہ کر پکارا اس نے کہا کون ہے؟ میں نے آواز پر بڑھ کر تلوار کا ہاتھ مارا میرا دل دھڑک رہا تھا مگر یہ وار خالی گیا اور وہ چلایا میں کوٹھڑی سے باہر آ گیا اور پھر فورا ہی اندر جا کر پوچھا کہ اے ابورافع تم کیوں چلائے ؟ اس نے مجھے اپنا آدمی سمجھا اور کہا تیری ماں تجھے روئے ابھی کسی نے مجھ سے تلوار سے وار کیا ہے یہ سنتے ہی میں نے ایک ضرب اور لگائی اور زخم اگرچہ گہرا لگا لیکن مرا نہیں آخر میں نے تلوار کی دھار اس کے پیٹ پر رکھ دی اور زور سے دبائی وہ چیرتی ہوئی پیٹھ تک پہنچ گئی اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ہلاک ہوگیا پھر میں واپس لوٹا اور ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا تھا اور سیڑھیوں سے اترتا جاتا تھا میں سمجھا کہ زمین آگئی ہے چاند نی رات تھی میں گر پڑا اور پنڈلی ٹوٹ گئی میں نے اپنے عمامہ سے پنڈلی کو باندھ لیا اور قلعہ سے باہر آکر دروازہ پر بیٹھ گیا اور دل میں طے کرلیا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے آخر صبح ہوئی مرغ نے اذان دی اور قلعہ کے اوپر دیوار پر کھڑے ہو کر ایک شخص نے کہا کہ لوگو! ابورافع حجاز کا سوداگر مر گیا میں یہ سنتے ہی اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا اور ان سے آکر کہا اب جلدی چلو یہاں سے اللہ نے ابورافع کو ہلاک کرا دیا اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آکر خوشخبری سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے پیر کو دیکھا اور فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پھیلایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  نے دست مبارک پھیر دیا بس ایسا معلوم ہوا کہ اس پیر کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا ۔ (صحیح بخاری ج۵ ص۹۱، حدیث نمبر: ۴۰۳۹)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَامَ الفَتْحِ، وَعَلَى رَأْسِهِ المِغْفَرُ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الكَعْبَةِ فَقَالَ اقْتُلُوهُ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فتح مکہ کے سال اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ خود پہنے ہوئے تھے جب آپ نے اس کو اتارا تو ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ سے لٹکا ہوا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کر دو ۔ (صحیح بخاری ج۳ ص۱۷، حدیث نمبر: ۱۸۴۶،چشتی)۔(صحیح مسلم ج۲ ص۹۸۹، حدیث نمبر: ۱۳۵۷)

یہ جتنی روایات آپ کے سامنے پیش کی گئیں یہ بخاری ومسلم کی روایات ہیں، جن سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نہ صرف گستاخ نبی کے قتل کی تلقین دی، بلکہ متعدد گستاخین کو واصل جہنم کرنے کےلیے ٹیمیں بھی تشکیل دیں ، لہٰذا یہ مسئلہ اتنا واضح اور بین الثبوت ہے کہ اس کے متعلق اگر کوئی ضعیف روایت آبھی جاتی ہے تو اس مسئلہ پر کوئی زد نہیں پڑتا ، بلکہ ان صریح وصحیح احادیث کی روشنی میں وہ ضعیف روایت بھی سند کے ضعف کے باوجود صحیح المتن شمار ہوگی ، لہٰذا اس حدیث کو پھیلانے اور اسے زبان زد عام کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر کوئی اس کے ضعف کا بہانہ بنائے تو اسے یہ ساری روایتیں دکھاکر اس کی حوصلہ شکنی کی جائے ، کیونکہ گستاخ کی سزا قتل ہی ہے ۔ البتہ ایک گزارش ضرور ہے ، اور وہ یہ کہ گستاخ کو سزا دینے کا حق عوام کو نہیں بلکہ یہ کار سرکار ہے ، اس میں مداخلت کرنا جائز نہیں ، ابھی حال ہی میں جھنگ یا پنجاب کے کسی علاقہ میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ہے جہاں بینک گارڈ نے ذاتی چپقلش کو بنیاد بنا کر بینک مینیجر کو قتل کردیا اسی طرح سیالکوٹ میں واقعہ پیش آیا ، اور قتل کرنے کے بعد اس پر گستاخی کا الزام لگادیا ، لہٰذا شریعت کا حکم یہی ہے کہ آپ حکومت کی توجہ ضرور مبذول کروائیں پر مداخلت شریعت کی رو سے جائز نہیں کہ مبادا کوئی بھی شخص کسی کو بھی قتل کرکے گستاخی کا الزام لگادے ۔

بخاری اور مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے واقعۂ افک کے بارے میں خطبہ دیا اور تہمت لگانے والے عبد اللہ بن ابی سلول کے بارے میں فرمایا من یعدرنی من رجل بلغنی اذاہ فی اھلیکون میری جان چھڑا ئے اس آدمی سے جس نے میری اہلیہ کے بارے میں مجھے ایذا دی ہے ،تو قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ص نے عرض کیا یا رسول اللہ بندہ حاضر ہے اگر وہ اوس میں سے ہوا تو اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر وہ ہمارے خزرجی بھائیوں سے ہے تو ہم ان سے اس پر عمل کا کہیں گے ۔ (البخاری ، ۴۱۴۱،چشتی)

حضرت سعد کا قول واضح طور پر دلیل ہے کہ موذی کا قتل مسلم تھا اور پھر حضور ا نے بھی ان کی بات کو ثابت رکھا یہ نہیں فرمایا کہ اس کا قتل نا جائز ہے ۔ فتح مکہ کے دن آپ ا نے ابن ابی سرح کے قتل اور عبد اللہ بن حلال بن خطل اور مقیس بن صبابہ کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا اگرچہ انہوں نے غلاف کعبہ کے نیچے پناہ لی ہو ، اس طرح حویرث بن نقید ، ھبار بن اسود ، ابن زبعری ، عکرمہ بن ابی جہل ، وحشی ، ابن خطل کی دو لونڈیاں فرتنا اور ارنب ، عمرو بن ہاشم کی لونڈی سارہ ،یہ تما م قتل ہوئے البتہ ابن ابی سرح ، ھبار بن اسود، ابن زبعری ، عکرمہ ، وحشی وفرتنا اسلام لے آئے ۔ حضرت انس ص سے ہے کہ ایک نصرانی اسلام لایا اور وہ حضور ا کا کاتب مقرر ہوا پھر وہ نصرانی ہو گیا اور وہ کہتا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اتنا ہی جانتے ہیںجتنا میں لکھ دیتا وہ مر گیا لوگوں نے دفن کیا تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا ، کہنے لگے یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کا عمل ہے جنہوں نے اسے قبر سے نکال کر پھینک دیا انہوں نے اس کے لئے خوب گہری قبر کھودی اور دبا دیا مگر جب صبح ہو ئی دیکھا تو اس نے اسے باہر پھینک دیا تو سمجھ گئے یہ کسی کا عمل نہیں ۔(صحیح بخاری)

امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں جب اوس نے ابن اشرف کو قتل کیا تو خزرج نے بھی ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عداوت میں اس کی مثل تھا اور وہ خبیر میں ابن ابی الحقیق تھا انہوں نے اس کے قتل کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دے دی ۔ اس کے قتل کا واقعہ بخاری میں معروف ہے ۔ امام ابو دائود نے ، باب الحکم فیمن سبب النبی ا میں یہ روایت ذکر کی ہے، حضرت عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ، ایک نابینا آدمی کی ام دلد (لونڈی ) سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کیا کرتی اس کے منع کے باوجود وہ باز نہ آئی ، اس نے اسے خوب ڈانٹا مگر وہ کہاں سمجھنے والی تھی ، ایک رات جیسے ہی اس نے گستاخی شروع کی تو آدمی نے اس کے پیٹ پر سوا ر کھ کر دبایا اور اسے قتل کر دیا اس کا بچہ قدموں میں گرا اور وہیں خون میں لت پت ہو گی ۔ صبح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں کیس آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا میں اسے اللہ کی قسم یاد دلاتا ہوں بتائے جس نے یہ عمل کیا ، نابینا صحابی کھڑے ہو ئے ، حالت اضطراب میں لوگوں کو پھلانگتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے حاضر ہو گئے ، عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اس کا مالک ہوں یہ آپ کے بارے میں بکواس وگستاخی کیا کرتی ، میں نے روکا ، منع کیا مگر یہ باز نہ آئی ، اس سے میرے دو موتیوں کی طرح بیٹے ہیں اور یہ میری رفیقہ تھی گذشتہ رات اس نے جب گستاخی کا سلسلہ شروع کیا تو سُوا لے کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا حتیٰ کہ ختم ہو گئی ، آپ ا نے فرمایا : الا اشھدوا ان دمھا ھدر گواہ ہو جائو اس کا خون ضائع ہے۔ (سنن ابو دائود ،۴۳۶)(سنن نسائی ،۷:۱۰۷) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے ایک خطمی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہجو کی تو فرمایا کون ہے جو اسے سنبھالے ؟ اسی کی قوم سے ایک آدمی نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہوں ، اس نے جا کر اسے ٹھکانے لگا دیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اطلاع دی گئی تو فرمایا : لا ینطح فیھا عنزان ۔ (الکامل لابن عدی،۲:۱۴۵،چشتی) ’’اس میں کسی کو اختلاف اور نزاع نہیں ‘‘۔

امام واقدی رحمۃ اللہ علیہ نے غزوہ بدر کے آخر میں اشعار نقل کرتے ہو ئے لکھا مجھے عبد اللہ بن حارث نے اپنے والد سے بیان کیا ، عصماء بنت مروان یزید بن زید حصن خطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اذیت دیتی تھی ، اسلام پر طعن اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت پر ابھارنے کے لئے شعر کہتی ، حضرت عمیر بن عدی بن خرشہ بن امیہ خطمی رضی اللہ عنہ کو اس بارت میں خبر ہو ئی تو انہوں نے یہ نظر مانی اے اللہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بدر سے با خیر یت مدینہ آجائیں گے تو میں اسے ضرور ٹھکانے لگاٶں گا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جیسے ہی واپس آئے حضرت عمیر بن عدی رات کو اس کے ہاں داخل ہو گے وہاں اس کے ارد گرد بچے سوئے ہو ئے تھے ایک بچہ دودھ پی رہا تھا اسے ہاتھ سے پیچھے کیا اور تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے ۔ نمازصبح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ادا کی جیسے ہی آپ ا نے سلام پھیرا ، حضرت عمیر کو بلا کر فرمایا اقتلت بنت مروان ؟ بنت مروان کو تم نے ٹھکانے لگایا ہے ؟ عرض کیا ، میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر فدا ، میں نے کیا ہے ، ساتھ ڈرے کہ میں نے بغیر پوچھے ایسا کر دیا ہے عرض کیایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھ پر کچھ لازم تو نہیں ؟ فرمایا لا ینتطح فیھا عنزان ’’اس میں تو دوسری کوئی رائے ہی نہیں ‘‘پھرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی’’ اگر تم ایسا شخص دیکھنا چا ہو جس نے غائبانہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت کی تو عمیر بن عدی کو دیکھو ‘‘۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی فرمایا ، اسے کون ٹھکانے لگائے گا ، حضرت خالد ص نے عرض کیا بندہ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔ (مصنف عبد الرزاق)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک یہودی عورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کیا کرتی تھی ۔ ایک شخص نے اسے قتل کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کے خون کا بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں نہیں دلوایا ۔ (سنن ابی داؤد۔چشتی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی اور ایک منافق فیصلے کیلئے آئے ۔ ان دونوں کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پہلے فرما چکے تھے لیکن منافق نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فیصلے تو تسلیم نہ کیا تو حضرت عمرص نے اس منافق کی گردن اڑا دی ۔ مقتول کے ورثاء نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا ۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کوئی قصاص مقرر نہ فرمایا ۔ بلکہ آپ کو اسی واقعہ کے بعد ’’فاروق‘‘ کا لقب عطا کیا گیا ۔ گستاخ رسول کی سزا آئمہ امت و بزرگان دین کی نظر میں : امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : من سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم او شتمہ او عابہ او تنقصہ قتل مسلما کان او کافرا ولا یسطاب ۔ (الصارم المسلول صفحہ نمبر ۵۲۶،چشتی)
گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسلم ہو یا غیر مسلم واجب القتل ہے اس پر اجماع امت ہےیہ صدرِ اول کے مسلمانوں یعنی صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا  اجماع ہے ۔ (الصّارم المسلول مترجم صفحہ نمبر 23)
جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں تحقیر و تنقیص کا ارتکاب کیا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اسے قتل کر دیا جائے گا اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کل من شتم النبی او تنقصہ مسلما کان او کافرا فعلیہ القتل ۔ (الصارم المسلول صفحہ نمبر ۵۲۵۔چشتی)
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وایما رجل مسلم سب رسول ا او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر با اللہ وبانت منہ زوجہ۔(کتاب الخراج ص ۱۸۲) ترجمہ : کوئی بھی مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دے یا آپ کی تکذیب کرے یا عیب جوئی کرے یا آپ کی شان میں کمی کرے اس نے یقینا اللہ کا انکار کیا اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ (جد ا ہو گئی) ۔

قاضی عیاض علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں : ہر شخص جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی اور آپ کی طرف عیب منسوب کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس کے متعلق اور نسب وحسب اور آپ کے لائے ہو ئے دین اسلام یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عادات کریمہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص وکمی منسوب کی یا اشارۃً کنائۃً آپ کی شان اقدس میں نا مناسب وناموزوں بات کہی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کسی شے سے گالی دینے کی طریق پر تشبیہہ دی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان وعظمت وتقدس اور رفعت کی تنقیص وکمی چاہی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام و مرتبے کی کمی کا خواہش مند ہو یا عیب جوئی کی تو فھو سب والحکم فیہ حکم الساب لیقتل ۔ (الشفا ء ج ۲ ص ۲۲) ’’یہ شخص سب وشتم کرنے والا ہے اس میں گالی دینے والے کا حکم ہی جاری ہو گا اور وہ یہ کہ قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔ امام احمد بن سلمان نے فرمایا : من قا ل ان النبی کان اسود یقتل (الشفا ء ج ۲ ص ۶۳۹) ’’جس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رنگ سیاہ ہے وہ قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔

امام ابو بکر بن علی نیشا پوری فرماتے ہیں : اجمع عوام اہل العلم علی ان من سب النبی یقتل قال ذالک مالک بن انس واللیث واحمد واسحاق وھو مذہب الشافعی وھو منتھیٰ قول ابی بکر ۔ (الصارم المسلول درالمختار ۲۳۲) ’’سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے نبی اکرم ا کو سب وشتم کیا وہ قتل کیا جائے گا ۔ جن آئمہ کرام نے یہ فتوی دیا ان میں امام مالک امام لیث امام احمد وامام اسحاق شامل ہیں یہی امام شافعی کا مذہب ہے اور یہی حضرت ابو بکر صدیق کے قول کا مدعا ہے ‘‘۔ تنویر الابصار اور در مختار فقہ حنفی کی بڑی مستند کتابیں ہیں ان میں یہ عبارت در ج ہے : کل مسلم ارتدفتو بتہ مقبولۃ الا الکافر بسب نبی من الانبیاء فانہ یقتل حدا ولا تقبل توبتہ مطلقاً ‘‘ ۔ (در المختار جلد ۴ صفحہ ۲۳۱) ’’جو مسلمان مرتد ہو اس کی توبہ قبول کی جائے گی سوائے اس کافر ومرتد کے جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کو گالی دے تو اسے حداً قتل کر دیا جائے گا اور مطلقا اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی ‘‘۔

امام ابن سحنون مالکی نے فرمایا : اجمع المسلمون ان شاتمہ کافر وحکمہ القتل ومن شک فی عذابہ وکفرہٖ کفر (در المختار جلد ۴ صفحہ ۲۳۳) ’’مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ حضور نبی ا کو گالی دینے والا کافر ہے اور اس کا حکم قتل ہے جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ کافر ہے ‘‘۔

امام ابن عتاب مالکی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے ادبی اور گستاخی کرنے والے کے لئے سزائے موت کا فتویٰ دیا ہے : الکتاب والسنۃ موجبان ان من قصد النبی باذی او نقص معرضا او مصر حاوان قل فقتلہ واجب فھدا الباب کلہ مماعدہ العلماء سبا او تنقصا وجب قتل قائلہ لم یختلف فی ذالک متقدمھم ولا متاخرھم ۔ ’’قرآن وسنت اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایذا کا ارادہ کرے صریح وغیر صریح طور پر یعنی اشارہ وکنایہ کے انداز میں آپ کی تنقیص کرے اگرچہ قلیل ہی کیوں نہ ہو تو ایسے شخص کو قتل کرنا واجب ہے اس باب میں جن جن چیزوں کو آئمہ وعلماء کرام نے سب وتنقیص میں شمار کیا ہے آئمہ متقدمین ومتاخرین کے نزدیک بالاتفاق اس کے قائل کا قتل واجب ہے ‘‘۔

امام ابن الھمام حنفی کا فتوی : والذی عند ی من سبہ او نسبہ مالا ینبغی الی اللہ تعالیٰ وان کانوا لا یعتقد ونہ کنسبۃ الولدالی اللہ تعالیٰ وتقدس عن ذالک اذا اظھرہ یقتل بہ وینتقض عھدہ ۔ (فتح القدیر ج ۵ ص ۳۰۳) ’’میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ ذمی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا غیر مناسب چیز اللہ تعالیٰ کی طر ف منسوب کی جو کہ ان کے عقائد سے خارج ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹے کی نسبت حالانکہ وہ اس سے پاک ہے جب وہ ایسی چیز کا اظہار کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس کا عہد ٹوٹ جائے گا ‘‘۔

امام ابو سلیمان خطابی کا فتویٰ : لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما ۔ (الشفاء ۲ ص ۹۳۵) ’’میں مسلمانوں سے کسی ایک فرد کو بھی نہیں جانتا جس نے گستاخ رسول کی سزائے قتل کے واجب ہو نے میں اختلاف کیا ہو جبکہ وہ مسلمان بھی ہو ۔

ا بو بکر الجصاص کا فتوی : ولا خلاف بین المسلمین ان من قصد النبی صلی اللہ بذالک فھو فمن ینتحل الاسلام انہ مرتد یستحق القتل ۔ (احکام القرآن للجصاص ج ۳ ص ۱۰۹،چشتی) ’’مسلمانوں کے مابین اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت وایذا کا قصد کیا حالانکہ وہ خود کو مسلمان بھی کہلواتا ہو تو ایسا شخص مرتد اور مستحق قتل ہے ۔

امام حصکفی کا فتویٰ : من نقص مقام الرسالۃ بقولہ بان سبہ او بفعلہ بان بغضہ بفعلہٖ قتل حدا ۔ (درالمختار ۴ص ۲۳۲) ’’جس شخص نے مقام رسالت مآب ا کی تنقیص وتحقیر اپنے قول کے ذریعے بایں صورت کہ آپ کو گالی دی یا اپنے فعل سے اس طرح کہ دل سے آپ سے بغض رکھا تو وہ شخص بطور حد قتل کر دیا جائے گا ‘‘۔ علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : واذا کان کذالک وجب علینا ان ننصر لہ ممن انتھک عرضہ والانتصار لہ با لقتل لان انتھاک عرضہ انتھاک دین اللہ ۔ (الصارم المسلول ص ۲۱۱) ’’اور جب یہ حقیقت ہم پر لازم ہے کہ حضور ا کی خاطر اس شخص کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں جو آپ کی شان میں گستاخی کرے اور احتجاج یہ ہے کہ اسے قتل کردیں اس لئے آپ ا کی عزت کو پامال کر نا اللہ کے دین کی اہانت کرنا ہے ‘‘۔

فتاوٰی حامدیہ میں ہے : فقد صرح علماء نافی غالب کتبھم بان من سب رسول اللہ ا أو احدا ً من الانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام وااستخف بھم فانہ یقتل حدا ولا توبۃ لہ اصلاً سواء بعد القدرۃ علیہ والشھادۃ او جاء تایباً من قبل نفسہ لا تہ حق تعلق بہ حق البعد فلا یسقط بالتوبۃ کسائر حقوق الآدمیین ووقع فی عبارۃ البزازیہ ولو عاب نبیاً کفر (فتاوٰی حامدیہ صفحہ ۱۷۳) ’’ہمارے علماء کرام نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کرے یا انبیاء کرام میں سے کسی بھی نبی کی توہین کرے ۔ یا ان کا استخفاف کرے تو اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا ۔ اس کی توبہ اصلاً قبول نہیں ۔ خواہ گرفتار ہونے اور شہادت پیش ہونے بعد توبہ کرے یا گرفتاری اور شہادت سے قبل از خود توبہ کر لے بہر صورت اس کی توبہ مقبول نہیں ۔ کیونکہ یہ ایسا حق ہے جس کے ساتھ حق عبد متعلق ہو چکا ہے ۔ لہذا انسانوں کے تمام حقوق کی طرح یہ حق بھی توبہ سے ساقط نہیں ہو گا اور بزازیہ کی عبارت میں ہے جو شخص کسی نبی پر عیب لگائے وہ اس کے سبب کا فر ہو جائے گا ‘‘۔

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل پر صحابہ کا اجماع

علامہ ابن تیمیہ مذکورہ مسئلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اجماع کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ اما اجماع الصحابہ فلان ذالک نقل عنھم فی قضا یا متعددۃ ینتشر مثلھا ویستفیض ولم ینکر ھا احد منھم فصارت اجماعا (الصارم المسلول ۲۰۰) ’’مذکورہ مسئلے پر اجماع صحابہ کا ثبوت یہ ہے کہ یہی بات گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم واجب القتل ہے ان کے بہت سے فیصلوں سے ثابت ہے مزید برآں کہ ایسی چیز مشہور ہو جاتی تھی لیکن اس کے باوجود کسی صحابی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا جو اس کی بین دلیل ہے ‘‘۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں : من اذی رسول اللہ بطعن فی شخصہ ودینہ او نسبہ او صفتہ من صفاتہ او بوجہ من وجوہ الشین فیہ صراحۃ وکنایۃ او تعریضا او اشارۃ کفرو لعنھم اللہ فی الدنیا واعد لہ عذاب جہنم (۱ تفسیر مظہری ج ۷ صفحہ ۳۸۱) ’’جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اشارۃ وکنائۃ صریح وغیر صریح طریق سے عیب کی جملہ وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صفات میں سے کسی ایک صفت میں ، آپ کے نسب ، میں آپ کے دین میں یا آپ کی ذات مقدسہ کے متعلق کسی قسم کی زبان طعن دراز کی تو وہ کافر ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اس پر لعنت کی اور اس کے لئے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

اندلس کے فقہائے اسلام نے ابن حاتم طلیلی کو قتل کرنے اور سولی چڑھانے کا فتویٰ دیا کیونکہ اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں بے ادبی وگستاخی وتحقیر تنقیص اور اتخفاف کا مرتکب ہونے کی معتبر شہادتیں موصول ہوئی تھیں ۔ اس نے ایک مناظرے کے دوران گستاخانہ لہجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یتیم اور ختن حیدر (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کا سسر کہا تھا ۔

جمیع امت مسلمہ کا فیصلہ

امام ابو بکر الفارسی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کرنے والے کو حد قتل کرنے کو اجماع امت کا قول کہا ہے : قد حکیٰ ابو بکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی القتل کما ان حد من سب غیرہ الجلد وھذا لا جماع الذی حکاہ محمول علی الصدر الاول من الصاحبۃ والتابعین اوانہ ارادا جماعھم علی ان ساب النبی یجب قتلہ اذا کان مسلما ۔ (الصار م المسلول صفحہ ۳)

امام ابو بکر فارسی رحمۃ اللہ علیہ جو اصحاب شافعی میں سے ہیں انہوں نے امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع بیان کیا ہے کہ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی تو اس کی سزا حد اً قتل ہے جس طرح کہ کسی غیر نبی کو گالی دینے والے کی سزا (حد) کوڑے لگانا ہے یہ اجماع صدر اول کے یعنی صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجماع پر محمول ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دینے والا اگر مسلمان ہے تو اس کے وجوبِ قتل پر اجماع ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...