Thursday, 2 November 2023

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کا ہر پرہیزگار میری آل ہے

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا ہر پرہیزگار میری آل ہے




محترم قارئینِ کرام : قرآنِ کریم میں ہے : وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَا كَانُوْۤا اَوْلِیَآءَهٗؕ-اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ الأنفال آیت نمبر 34)
ترجمہ : اور انہیں کیا ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ کرے وہ تو مسجدِحرام سے روک رہے ہیں اور وہ اس کے اہل نہیں اس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں مگر ان میں اکثر کو علم نہیں ۔

صحیحین میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : إن آل أبي فلان ليسوا لي بأولياء، إنما وليي الله وصالح المؤمنين ، ولكن لهم رحم أبلها ببلالها ۔
ترجمہ : فلاں کی اولاد میرے اولیاء نہیں ہیں ، میرے ولی تو اللہ تعالی ، اور نیک مؤمنین ہیں ، لیکن ان کےلیے رحم ( قرابت) ہے جس کی تری سے میں اسے  تر کرتا رہوں گا ۔  یعنی ان سے صلہ رحمی اور ان کے حقوق ادا کرتا رہوں گا ۔ (صحيح البخاري، باب تبل الرحم ببلالها، 8/ 6، رقم الحدیث 5990 دار طوق النجاة، ط: الأولى، 1422هـ،چشتی)(صحيح مسلم، باب موالاة المؤمنين ومقاطعة غيرهم والبراءة منهم، 1/ 197، رقم الحدیث:215، دار إحياء التراث العربي، واللفظ للبغوي)

​الأدب المفرد للبخاری ، المستدرك للحاكم اور کئی کتب میں صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن أوليائي منكم المتقون ۔ (الأدب المفرد للبخاری، باب القوم من أنفسهم ص: 40)، دار البشائر الإسلامية بيروت، ط: الثالثة، 1409،چشتی)(المستدرك للحاكم، تفسير سورة الأنفال، 2/ 358، رقم الحدیث:٣٢٦٦، دار الكتب العلمية – بيروت، ط: الأولى، 1411ھ)

اس كے علاوه بھی  بہت سے شواہد ہیں ، انہی شواہد کی بنا پر  امام محمد زرقانی رحمة اللہ علیہ نے مختصر المقاصد الحسنة میں اس حدیث کو سند کے اعتبار سے ”حسن لغیرہ“ قرار دیا ہے ۔ (مختصر المقاصد الحسنة للزرقاني (ت 1122)، حرف الألف، ص: 47، المكتب الاسلامي، 1401ھ)

امام بخاری رحمة ﷲ علیہ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ یوں قائم کیا ہے : هَلْ يُصَلَّی عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ؟
ترجمہ : کیا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسروں پر درود بھیجے ؟

اور پھر اس باب کے تحت یہ حدیثِ مبارکہ لائے ہیں : عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ کَانَ إِذَا أَتَی رَجُلٌ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم بِصَدَقَتِهِ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِي أَوْفَی ۔
ترجمہ : حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : اے اللہ! اس پرصلوٰۃ (رحمت) نازل فرما ۔ میرے والد ماجد صدقہ (ہدیہ) لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : اے اللہ ! آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت) بھیج ۔ (بخاري، الصحيح، 5: 2339، رقم: 5998، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة،چشتی)(مسلم، الصحيح، 2: 756، رقم: 1078، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)

امام ابو داؤد رحمة ﷲعلیہ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا ہے : الصَّلَاةِ عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرے پر درود بھیجنا ۔

اور اس باب کے ضمن میں درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کی ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِرضی الله عنهما  أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَی زَوْجِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلَّی ﷲُ عَلَيْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئی کہ میرے لیے اور میرے خاوند کےلیے دعا فرمائیں تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ تم پر اور تمہارے خاوند پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرمائے ۔ (أبي داؤد، السنن، 2: 88، رقم: 1533، دار الفکر،چشتی)(ابن حبان الصحيح، 3: 197، رقم: 916، مؤسسة الرسالة بيروت)

لہٰذا یہ بات تو طے ہوئی کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر درود و سلام بھیج سکتے ہیں لیکن ہمیں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ آقا  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پوری امت کے صالحین کو شامل کرنا چاہیے تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے سب کو زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل ہوں ۔ جیسے ہم پڑھتے ہیں : اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِهِ وَ صَحْبِهِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ ۔ یعنی جوبھی درود وسلام بھیجیں اُن میں جب ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود وسلام بھیجیں گے تو آل محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں امت کے سارے صالحین آ جائیں گے ، جو درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ ؟ فَقَالَ : کُلُّ تَقِيٍّ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا ، آل محمد کون ہیں ؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری امت کا) ہر پرہیزگار میری آل ہے ۔ (المعجم الأوسط، 3: 338، رقم: 3332، دار الحرمين القاهرة،چشتی)(مجمع الزوائد، 10: 269، بيروت، القاهرة: دار الکتاب)

حدثنا جعفر بن إلياس بن صدقة الكباش المصري ، حدثنا نعيم بن حماد ، حدثنا نوح بن ابي مريم ، عن يحيى بن سعيد الانصاري، عن انس بن مالك ، قال:" سئل النبي صلى الله عليه وسلم: من آل محمد؟، فقال: كل تقي، وقال: وتلا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن اولياؤه إلا المتقون سورة الانفال آية 34"، لم يروه عن يحيى بن سعيد، إلا نوح. تفرد به نعيم
ترجمہ : سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون سے ہیں ؟ فرمایا : ہر متقی مومن ۔ پھر یہ آیت پڑھی : إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُوْنَ ۔ (سورہ انفال آیت نمبر 34) ۔ بے شک اس کے دوست صرف متقی ہیں ۔ (معجم صغير للطبرانی كِتَابُ الْمَنَاقِبُ حدیث نمبر: 845)(صحيح لغيره)(أخرجه ابن حبان فى صحيحه برقم : 6931)(النسائي فى الكبریٰ برقم : 8416 ، 8417)(أحمد فى مسنده برقم : 651 ، 681 ، 19610 ، قال شعيب الارناؤط صحيح لغيره)(أبو يعلى فى مسنده برقم : 567)(البزار فى مسنده برقم : 492)(أخرجه الطبراني فى الكبير برقم : 4053 ، 4985)(أخرجه الطبراني فى الأوسط برقم : 1966 ، 2109)(أخرجه الطبراني فى الصغير برقم : 175)(أخرجه ابن أبى شيبة فى مصنفه برقم : 32754)

اس روایت  کے اصل الفاظ جو کتبِ احادیث میں ملتے ہیں،  وہ یہ ہیں :  "آل محمد كل تقي" یعنی ہر نیک و متقی شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہے ۔

اور ایک روایت میں "آل" کے متعلق سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : كل تقي من أمة محمد " یعنی امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) کا ہر متقی میری آل ہے ۔

​ یہ روایت  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے  المعجم الأوسط للطبراني ،  الفوائد لتمام ، مسند الفردوس للدیلمي اور ديگر كتبِ حديث میں وارد ہوئی ہے ۔ ​(المعجم الأوسط للطبراني: 3/338، رقم الحدیث: 3332، دار الحرمين القاهرة)(الفوائد لتمام الرازي: 2/ 216، رقم الحدیث: 1567، مکتبة الرشد1418ھ،چشتی)(مسند الفردوس للديلمي،1/ 318، رقم الحدیث: 1692، دار الباز1306ھ)

محدثين علیہم الرحمہ كی تصریحات کے مطابق اس  روایت کی تمام سندیں ضعیف ہیں ، حافظ سخاوی نے  المقاصد الحسنة میں ، اورعلامہ  عجلونی نے کشف الخفاء میں اس روایت  کے ضعف کی صراحت  کے بعد اس کے  شواہد بھی ذکر فرمائے ہیں  ۔ (المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الهمزة، ص: 40، رقم الحديث: 3، دار الكتاب العربي، ط: الأولى، 1405 هـ)(کشف الخفاء، حرف الهمزة، 1/18، رقم الحدیث:17، مكتبة القدسي القاهرة: 1351ھ)

قرآنِ کریم میں ہے : إن أولياؤه إلا المتقون ۔ (سورہ الأنفال آیت نمبر 34)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء تو متقین کے سوا کوئی نہیں ۔

صحیحین میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : إن آل أبي فلان ليسوا لي بأولياء، إنما وليي الله وصالح المؤمنين، ولكن لهم رحم أبلها ببلالها ۔
ترجمہ : فلاں کی اولاد میرے اولیاء نہیں ہیں ، میرے ولی تو اللہ تعالی ، اور نیک مؤمنین ہیں ، لیکن ان کے لیے رحم ( قرابت) ہے جس کی تری سے میں اسے  تر کرتا رہوں گا ۔  یعنی ان سے صلہ رحمی اور ان کے حقوق ادا کرتا رہوں گا ۔ (صحيح البخاري، باب تبل الرحم ببلالها، 8/ 6، رقم الحدیث:5990، دار طوق النجاة، ط: الأولى، 1422هـ،چشتی)(صحيح مسلم، باب موالاة المؤمنين ومقاطعة غيرهم والبراءة منهم، 1/ 197، رقم الحدیث:215، دار إحياء التراث العربي، واللفظ للبغوي)

​الأدب المفرد للبخاری ، المستدرك للحاكم اور کئی کتب میں صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن أوليائي منكم المتقون ۔ (الأدب المفرد للبخاری، باب القوم من أنفسهم، (ص: 40)، دار البشائر الإسلامية – بيروت، ط: الثالثة، 1409)(المستدرك للحاكم، تفسير سورة الأنفال، 2/ 358، رقم الحدیث:٣٢٦٦، دار الكتب العلمية – بيروت، ط: الأولى، 1411ھ)

اس كے علاوه بھی  بہت سے شواہد ہیں ، انہی شواہد کی بنا پر  امال محمد زرقانی رحمة اللہ علیہ نے مختصر المقاصد الحسنة میں اس حدیث کو سند کے اعتبار سے ”حسن لغیرہ“ قرار دیا ہے ۔ (مختصر المقاصد الحسنة للزرقاني (ت 1122)، حرف الألف، ص: 47، المكتب الاسلامي، 1401ھ)

​اس حدیث کے مطلب میں علماء کے کئی اقوال ہیں ، جن میں سے دو مشہور ہیں : ⬇

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں اور اہل بیت میں جو نیک و متقی ہو گا ، وہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ (المنهاج في شعب الإيمان، أبو عبد الله الحَلِيمي (المتوفى: 403 هـ)، باب في تعظيم النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وإجلاله وتوقيره، 2/ 141دار الفكرالطبعة: الأولى، 1399 هـ)

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتِ اجابت ، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والی امت میں جو بھی متقی ہے ، وہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ (تفسير الراغب الأصفهاني، سورة البقرة: 49، 1/ 184، كلية الآداب، ط: الأولى، 1420 هـ)

​پہلے قول کا صحیح محمل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ لیا جائے کہ  میرے کامل و مکمل "آل"  وہی ہیں جو نیکو کار ہوں گے ،  باقی بھی دنیاوی احکامات کے اعتبار سے "آل" میں شامل تو ہیں ، یعنی ان کےلیے زکواۃ لینا ناجائز ہے ، اور نسبی شرافت کے اعتبار سے بھی وہ متقین کے ساتھ شریک ہیں ،  لیکن "آل" کہلوانے کا حقدار وہی ہے جو متقی بھی ہو ، اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو پہلے عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی ہے ۔ دوسرے قول کا صحیح محمل یہ کے اس سے مراد روزِِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے تمام متقین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی "آل" میں شمار کیے جائیں گے ، اس کی تائید اس ایک صحيح روایت سے ہوتی ہے ، جس میں "إن أوليائي منكم المتقون" کے ساتھ "يوم القيامة" كا اضافہ ہے ۔ (السنة لأبي بكر بن أبي عاصم الشيباني (المتوفى: 287هـ)، 1/ 93، رقم الحدیث 213، المكتب الإسلامي، ط: الأولى، 1400ھ،چشتی)

آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے اگر کوئی شخص سواد اعظم یا عقیدہ صحیحہ سے باہر ہو جائے یا کسی بھی باطل عقائد رکھنے والی جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس صورت میں وہ آلِ رسول نہیں کہلائے گا ۔ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد جس کا عقیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماتحت ہو ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہو ۔ لہٰذا جس کا عقیدہ خراب ہو وہ آلِ رسول نہیں ہو سکتا ۔ آلِ سے مراد اولاد نہیں ہے بلکہ پیروی کرنے والا ہے ۔ لہٰذا ہر وہ مسلمان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا ہے ، اطاعت کرتا ہے ۔ اس کا عقیدہ درست ہے وہ آلِ رسول ہے ۔ آل سے مراد پیروی و اتباع کرنے والا ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالی نے بے شمار مقامات پر فرمایا : (آل فرعون) لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو فرعون کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو فرعون کی پیروی کرتے ہیں ۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال دی کہ وہ آپ کی آل میں سے نہیں ہے وہ ابن رسول تو تھا لیکن آل رسول نہ تھا کیونکہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی نہ کی ۔ ان کے عقیدہ کو چھوڑ دیا ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هُوْد آیت نمبر 46)
ترجمہ : ارشاد ہوا اے نوح علیہ السلام بے شک تیرا گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔

علامہ زبیدی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : کسی شخص کے اہل (بیوی) اور اس کے عیال (اولاد) کو اس شخص کی آل کہتے ہیں اور اس شخص متعین اور احباء کو بھی آل کہتے ہیں ‘ حدیث میں ہے : سلمان ہمارے آل بیت سے ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : ” کداب ای فرعون “ اس میں آل فرعون سے مراد اس کے متبعین ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : صدقہ محمد اور آل محمد کےلیے جائز نہیں ہے ۔ امام شافعی علیہ الرحمہ نے کہا : اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل ہی وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور صدقہ کے بدلہ میں ان کو خمس دیا گیا ‘ اور یہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : آپ کی آل کون ہیں ؟ فرمایا : آل علی ‘ آل جعفر ‘ آل عقیل اور آل عباس رضی اللہ عنہم ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : آل محمد کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ہر تقی (متقی) ۔ آل کا استعمال غالبا اشراف میں ہوتا ہے ‘ اس لیے آل اسکاف (موچیوں کی آل) نہیں کہا جائے گا اگرچہ اہلِ اسکاف کہا جاتا ہے ‘ نیز اس کی اضافت اعلام ناطقین کی طرف ہوتی ہے نکرہ ‘ زمان اور مکان کی طرف اس کی اضافت نہیں ہوتی ‘ اس لیے آل رجل ‘ آل زمان یا آل مکان نہیں کہا جائے گا ‘ اس کی اصل اھل ہے اور اس کی تصغیر اھیل آتی ہے ۔ (تاج العروس ج 7 ص 216‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ 1306 ھ)

امام ابن جریر طبری علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ آل فرعون سے مراد فرعون کے اہل دین اور اس کے متبعین ہیں ۔ (جامع البیان ج 1 ص 212‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ 1409 ھ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کے متعلق تین قول ہیں ‘ آپ کے متبعین ‘ اور آپ کی ازواج اور آپ کی ذریت ‘ اور مومنین میں سے آپ کے نسبی قرابت دار اور یہ آل علی ‘ آل علی ‘ جعفر ‘ آل عقیل ‘ آل عباس اور آل حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (ہدایہ اولین صفحہ 206)

آل سے آپ کے متبعین ہونے پر دلیل یہ ہے کہ قرآن میں جہاں آل فرعون کا لفظ آیا ہے اس سے فرعون کے متبعین اور اس کے اھل دین مراد ہیں اور حضرت نوح علیہ السلام سے ان کے بیٹے کے متعلق فرمایا : انہ لیس من اھلک ، انہ عمل غیر صالح ۔ (سورہ ھود آیت 46)
ترجمہ : بیشک وہ آپ کے اھل سے نہیں ہے ‘ بیشک اس کے عمل نیک نہیں ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ابو جہل اور ابولہب کو آپ کی آل اور اہل نہیں قرار دیا جاتا حالانکہ آپ کے اور ان کے درمیان نسبی قرابت داری ہے ۔

امام مسلم علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ آواز بلند فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سنو ! فلاں شخص کی آل میرے ولی نہیں ہیں ‘ میرا ولی اللہ ہے اور نیک مومن میرے ولی ہیں ۔ (صحیح مسلم ج 1 ص 115‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1375 ھ) ۔ اس حدیث کو امام بخاری علیہ الرحمہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (صحیح بخاری ج 2 ص 886‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ)

امام بیہقی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ امام عبدالرزاق علیہ الرحمہ سے روایت کرتے ہیں ۔ ایک شخص نے ثوری سے پوچھا : آل محمد کون ہیں ؟ ثوری نے کہا : اس میں لوگوں کا اختلاف ہے ‘ بعض نے کہا : اہل بیت ہیں اور بعض نے کہا : جو آپ کی اطاعت کرے اور آپ کی سنت پر عمل کرے وہ آپ کی آل ہے ‘ امام بیہقی علیہ الرحمہ نے کہا : امام عبدالرزاق علیہ الرحمہ کا بھی یہی قول ہے اور یہی رائے حق کے مشابہ ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا کہ کشتی میں ہر جوڑے میں سے دو کو اور اپنے اہل کو سوار کرو ‘ حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا : میرا بیٹا بھی میرے اھل سے ہے ‘ تیرا وعدہ حق ہے اور تو احکم الحاکمین ہے ‘ فرمایا : اے نوح ! بیشک تمہارا بیٹا تمہارے اہل سے نہیں ہے ‘ اس کے عمل نیک نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی وجہ سے حضرت نوح کے بیٹے کو ان کے اہل سے نکال دیا۔ (سنن کبری ج 2 ص 152‘ مطبوعہ نشرالسنۃ ‘ ملتان)

نیز امام بیہقی علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل آپ کی امت ہے ۔ (سنن کبری ج 2 ص 152‘ مطبوعہ نشرالسنۃ ‘ ملتان)

امام طبرانی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں ؟ فرمایا : ہر متقی شخص ۔ (معجم صغیر ج 1 ص 115 مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ مدینہ منورہ ٗ 1388 ھ،چشتی)

حافظ الہیثمی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو درج کر کے لکھا ہے : اس میں نوح بن ابی مریم ایک ضعیف راوی ہے ۔ (مجمع الزوائد ج 10 ص ‘ 269 مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ 1402 ھ)

امام بیہقی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو ایک اور سند سے روایت کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں ابوھرمز بصری ایک ضعیف روای ہے ۔ (سنن کبری ج 2 ص ‘ 152 مطبوعہ نشرالسنۃ ‘ ملتان)

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے ۔ (الشفاء ج 2 ص 66 مطبوعہ عبدالتواب اکیڈمی ‘ ملتان)

حافظ سیوطی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو امام ابن مردویہ ‘ طبرانی اور بیہقی علیہ الرحمہ کے حوالوں سے اپنی تفسیر میں درج کیا ہے ۔ (الدر المنثور ‘ ج 3 ص 183‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ النجفی ایران)

ہر چند کہ اس حدیث کی سند میں ایک ضعیف روای ہے لیکن یہ تعداد اسانید کی وجہ سے حسن لغیرہ ہو گئی اور فضائل اور مناقب میں حدیث ضعیف کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے ‘ نیز اس حدیث کی تائید اس سے ہوتی ہے امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوگ اپنے اپنے صدقات لے کر آتے تو آپ فرماتے : اے اللہ ! آل فلاں پر صلوۃ نازل فرما ‘ سو میرے والد آپ کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو آپ نے فرمایا : اے اللہ ! آل اوفی پر صلوۃ نازل فرما ۔ (صحیح بخاری ج 1 ص ‘ 293 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1381 ھ،چشتی)

اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر صلوۃ پڑھی جاتی ہے اور آپ کا آل ابی اوفی پر صلوۃ پڑھنا اس کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی آپ کی آل میں ہیں ۔

نیز امام حاکم علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نیک مسلمان ہمارے اہل بیت سے ہیں ۔ (المستدرک ج 3 ص 598 دار الباز مکہ مکرمہ )
اس حدیث میں بھی اس پر دلالت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مر متبع اور صالح مومن آپ کی آل سے ہے ۔

آل کے متعلق دوسرا قول ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت اور آپ کی ازواج ‘ اس کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام مسلم روایت کرتے ہیں : ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم آپ پر کسی طرح صلوۃ پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا : تم کہو : اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ نازل فرما اور آپ کی ازواج اور آپ کی ذریت پر ‘ جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر صلوۃ نازل فرمائی ہے ۔ (صحیح مسلم ج 1 ص 175‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1375 ھ،چشتی)

اس حدیث میں آپ نے آل کی جگہ ازواج اور ذریت کا ذکر فرمایا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی ازواج اور آپ کی ذریت بھی آپ کی آل ہیں۔
علامہ نووی لکھتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کون ہیں ؟ ازہری اور دیگر محققین کا مختار یہ ہے کہ تمام امت آپ کی آل ہے ‘ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت (ازواج) اور آپ کی ذریت ہے ۔ (صحیح مسلم ج 1 ص ‘ 175 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1375 ھ،چشتی)

آل کے متعلق تیسرا قول ہے : مومنین میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبی قرابت دار ‘ یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب آپ کی آل ہیں ‘ اس پر دلیل یہ حدیث ہے : امام مسلم علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن ابی علی رضی اللہ عنہما نے صدقہ کی ایک کھجور اپنے منہ میں رکھ لی ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھوڑو ‘ چھوڑو ‘ اس کو پھینک دو ‘ کیا تم کو علم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ؟ ۔ (صحیح مسلم ج 1 ص 344۔ 343‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1375 ھ)

حضرت عبداللہ بن حارث بن نوفل ہاشمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ صدقات لوگوں کا میل ہیں اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے حلال نہیں ہیں ۔ (صحیح مسلم ج 1 ص 345۔ 344‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ 1375 ھ)

لہٰذا آلِ رسول وہی ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا ۔ جس کا عقیدہ درست ہو گا ۔ جس نے عقیدہ صحیحہ چھوڑ دیا اتباع رسول چھوڑ دی وہ آل رسول میں سے نہیں ہو گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کے بارے میں مختلف اقوال ہیں : ⬇

(1) آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے  ۔

(2) دوسرا قول یہ ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد آپ کی اولاد اور بیویاں ہیں ۔

(3) تیسرا قول یہ ہے کہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد قیامت تک آنے والے آپ کے پیروکار ہیں ۔

(4) چوتھا قول یہ ہے کہ آل سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امت کے متقی و پرہیزگار لوگ ہیں ۔

مذکورہ بالا اقوال میں سے پہلا قول راجح ہے ۔

اہل بیت کا مصداق اور مقام ، تطہیر اہلِ بیت اور مودۃ فی القربی کا صحیح مطلب : القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع میں ہے : واختلف في ‌المراد بآل محمد ههنا فالأرجح أنهم من حرمت عليهم الصدقة ۔ وقيل ‌المراد بآل محمد أزواجه وذريته ۔ وقيل ‌المراد بالآل جميع الأمة أمه الإجابة ۔ وقيده القاضي حسين والراغب بالاتقياء منهم ، وعليه يحمل كلام من أطلق ويؤيده قوله تعالى (إن أولياؤه إلا المتقون) ۔ (القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع محل الصلاة الباب الأول الفصل الثامن في تحقيق الآل صفحہ 89 دار الريان للتراث)

غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی میں ہے : وعلى آله أي أهله والمراد من آمن به منهم أجمعين ۔ (غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی صفحہ 4 مكتبه نعمانيه)

حضرت صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : سیِّدعالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرود و سلام بھیجنا واجب ہے ، ہر ایک مجلس میں آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا ذکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ایک مرتبہ ، اور اس سے زیادہ مستحب ہے ۔ یہی قول معتمد ہے اور اس پر جمہور ہیں ، اور نماز کے قعدہ اَخیرہ میں بعد تشہد درود شریف پڑھنا سنت ہے ، اور آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے تابع کرکے آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے آل و اصحاب ودُوسرے مؤمنین پر بھی دُرود بھیجا جاسکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ و سلَّم کے نامِ اَقدَس کے بعد ان کو شامل کیا جاسکتا ہے اور مستقل طور پر حضورکے سوا ان میں سے کِسی پر درود بھیجنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ : درود شریف میں آل و اصحاب کا ذکر متوارث ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل کے ذکر کے بغیر مقبول نہیں۔ درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی تکریم ہے۔ علماء نے اَللّٰہُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ کے معنٰی یہ بیان کئے ہیں کہ یا ربّ! محمد ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو عظمت عطا فرما،دنیا میں ان کا دین بلند اوران کی دعوت غالب فرما کر اوران کی شریعت کو بقا عنایت کرکے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کرکے اور اوّلین و آخرین پر اُن کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر اُن کی شان بلند کرکے ۔مسئلہ: درود شریف کی بہت برکتیں اور فضیلتیں ہیں، حدیث شریف میں ہے: سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ جب درود بھیجنے والا مُجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دُعائے مغفرت کرتے ہیں۔مسلم کی حدیث شریف میں ہے:جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار بھیجتا ہے۔ ترمذی کی حدیث شریف میں ہے: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے ۔ (تفسیر خزائن العرفان)

اَنبیاء عَلَیْھِمُ السَّلام اور فِرِشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام اِسْتِقْلالاً یا اِبتداءً لکھنا یابولنا شرعاً دُرُست نہیں ہے ۔ عُلما نے اسے اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص لکھا ہے ۔ چُنانچہ صَدْرُ الشَّریعہ مُفْتی امجد علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  : کسی کے  نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا ، یہ انبیا و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے ۔ مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام ۔  نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے ۔ (بہار شریعت ، ۳  /  ص۴۶۵)

اَلبتَّہان کی تَبْعِیَّت میں غیر نبی پر دُرُود و سلام بھیجا گیا ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ چُنانچہ فقیہ مِلَّت حضرت علاَّمہ مولانا مُفْتی جلالُ الدِّین اَمجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداءً نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔ (فتاوی فیض الرسول ، ۱ / ۲۶۷)

حضرت امام بدرُ الدِّین عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً ‘‘ (عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ، ۶ / ۵۵۶،چشتی)

مشہور شافعی بُزُرگ حضرت امام مُحی الدِّین نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَائِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ۔ (شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ، ۴ / ۱۸۵، الجزء السابع)

ان دونوں عبارتوں کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ ، اُن کے اَصحاب ، امام مالک ، امام شافعی اور اکثر عُلماء علٕہم الرحمہ کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی ، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جا سکتی ہے ۔ یعنی یوں نہیں کہا جائے گا :  اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں کہا جا سکتا ہے : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے ، اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں جہاں باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں صَلاۃ کے مَعْنی میں ہے ۔

اِمام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کےلیے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کےلیے رضی اللہ عنہم کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رحمة اللہعلیہم  یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رضی اللہ عنہم کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ ۲۳ / ۳۹۰)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...