Monday 9 July 2018

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلّم

0 comments
نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلّم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اصل اور تخلیق کے اعتبار سے اللہ تعالٰی کے نور ہیں جنہیں ان کے خالق و معبود عزّوجل نے تمام مخلوق سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا،اور انسانوں کی ہدائت اور راہنمائی کےلئے لباس بشریت میں تمام نبیوں رسولوں (علیھم الصلٰوۃ والسلام) کے بعد اس دنیا میں آپکا ظہور فرمایا، اس لحاظ سے آپ نوری بشر ، بے مثل بشر ، اور سیّد البشر ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم)

بزم آخر کا شمع فروزاں ہوا
نور اوّل کا جلوہ ہمارا نبی
(صلی اللہ علیہ وسلم)

اللہ پاک فرماتا ہے : قَدْ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (بے شک تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب)

تفاسیر کے مطابق اس آیت میں نور سے مراد ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہیں اور کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (روشن کتاب)سے مراد قران مجید ہے ۔ (بیضاوی،صفحہ 111)
تفسی جلالین صفحہ 97 میں ہے نُوۡرٌ ھُوَالنَّبِیُّ نور وہ نبی پاک ہیں ۔

تفسیر ابن عباس (رضی اللہ عنہما) صفحہ 72 میں ہے
نُوۡرٌ رَسُول یَعنِی مُحَمَّدًا نور رسول پاک یعنی حضرت محمد رسول اللہ ہیں ۔

تفسیر صاوی جلد1 صفحہ 275 میں ہے : سُمُِی َنوُراً ۔ ۔ ۔ لِاَ نَّہ اَصلُ کُلِّ نُورٍ حِسِّی وَّ مَعنوِیٍّ نبی پاک علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام مبارک نور رکھا گیا کیونکہ آپ حسّی اور معنوی نور کی اصل ہیں ۔

وَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا پارہ 22 آیت 46 ، اور اللّٰہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب ۔

مختصر تفسیر : سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے جیسا کہ سورۂ نوح میں '' وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِراَجاً ''اور آخِرِ پارہ کی پہلی سورۃ میں ہے'' وَجَعَلْنَا سِرَاجاً وَّھَّاجاً '' اور درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوّت نے پہنچائی اور کُفر و شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نُورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خَلق کے لئے معرفت و توحیدِ الٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضلالت کے وادیٔ تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوّت سے ضمائر وبصائر اور قلوب و ارواح کو منوّر کیا ، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالَم تاب ہے جس نے ہزارہا آفتاب بنا دیئے اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنھما نے دربار رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ (علیک الصلٰوۃ والسلام) میرے ماں باپ آپ پر قربان مُجھے خبر دیجئے کہ تمام اشیاء سے پہلے اللہ تعالٰی نے کسے پیدا فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"اے جابر! بے شک اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا ۔ یہ حدیث پاک امام بخاری کے اُستاذ محدث عبدالرزاق نے اپنی تصنیف میں روایت کی اور یہ اس میں با سند موجود ہے اور سند صحیح ہے ، اس حدیث پاک کے مزید حوالہ جات درج ذیل ہیں :
(1) الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق،چشتی)
(2) الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )المواھب اللدنیّہ بالمنح المحمدیّہ
الجزء الاول
(3) علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر
(4) العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون
(5) امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری
( متوفی ١١٢٢ ھجری )شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی
(6) المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی
( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس
(7) حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ
(8) مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ

منافقین بھی مانتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم انور کی بدولت مکہ مکرمہ میں ایک عام پہاڑ جبل نور بنا اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تشریف آوری سے یثرب مدینہ منورہ بنا، محبوب خدا کی دو شہزادیاں حضرت رقیہ اور اُم کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہما ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عقد میں آنے کی وجہ سے ان کا لقب ذوالنورین (دو نوروں والا) ہوا ، اس لقب کو صحابہ کرام (علیھم الرضوان) نے کیوں قبول کیا ؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول (جب کہ آپ جھولے میں اور شیر خوار تھے) قرآن مجید نے نقل فرمایا : “اٰتٰنی الکتاب وجعلنی نبیا”
ترجمہ : “اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا”
لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی پیدائشی نبی ہوتے ہیں البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے سبب اس کا اعلان و اظہار بعد میں کرتے ہیں.
بلاتشبیہہ و تمثیل پاکستان ایٹمی طاقت بہت پہلے بن چکا تھا مگر اس کا اعلان اس نے بہت بعد میں کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب اس نے اعلان کیا ہے تو اسی وقت سے وہ ایٹمی طاقت کا مالک ہے.
اس بارے میں امام ترمذی علیہ الرحمہ نے صحیح سند سے درج ذیل حدیث روایت کی ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا : متٰی وجبت لک النبوۃ ؟ ترجمہ : یا رسول اﷲﷺ آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی ؟ رحمت عالم نور مجسمﷺ نے ارشاد فرمایا : “واٰدم بین الروح والجسد” ترجمہ : ’’اس وقت جبکہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے ۔ (ترمذی، مسند احمد، مستدرک للحاکم،چشتی)

عَنْ عُمَرَ رضي اﷲ عنه قاَلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السَّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
ایک اور روایت میں حضرت عمر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔امام سیوطی اور ابن کثير نے فرمایا کہ اسے امام ابونعيم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.اور ایک روایت میں حضرت عامر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ : أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : أَلاَ تُعْطِيْنِي شَيْئًا أَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ : فَأَفْرَجُوْا لَهُ، حَتَّی جَلَسَ، قَالَ : أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ : أَخَذَ اﷲُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَلاَ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} الأحزاب، 33 : 7 وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابو مریم (سنان) رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور جو مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ تو لوگوں نے کہا : رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، بے شک جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے اس شے کا علم ہو جائے، فرمایا : اس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی علاماتِ نبوت میں سے پہلی چیز کیا تھی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام عليہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (عليہ السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔اسے امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔
(طبراني في المعجم الکبير، 22 / 333، الرقم : 835، وفي مسند الشاميين، 2 / 98، الرقم : 984، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 397، الرقم : 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 323،چشتی)

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِکَ، دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَی قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذَلِکَ تَرَی أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صلوات اﷲ عليهم أجمعين.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
ترجمہ : حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں، لوحِ محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں۔اس حديث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے ۔ (أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 127.128، الرقم : 17190، 17203، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 90، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 168، والطبری في جامع البيان، 28 / 87، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، 4 / 361، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وفي الدر المنثور، 1 / 334)

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2 : 129[، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
ترجمہ : حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے ۔ (ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال:واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان)

اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلّم کی تمام اُمت کو شیطان کے فتنوں سے بچائے ۔ آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔