Tuesday 17 July 2018

وسیلہ باالذات کا جواز علمائے دیوبند اور مفسرین و محدثین کرام کی نظر میں

0 comments
وسیلہ باالذات کا جواز علمائے دیوبند اور مفسرین و محدثین کرام کی نظر میں

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : بعد از وصال بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے اور اس طرح دعا کرنا اے اللہ اس بزرگ کے وسیلہ سے جائز ہے۔(ملفوظات حکیم الامت جلد 21 صفحہ 26 انفاس عیسی حصّہ اوّل)
توسل کی حقیقت یہ ہے کہ اے اللہ فلاں شخص میرے نزدیک آپ کا مقبول ہے اور مقبولین سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ محبت ہے " المرء مع من احب " پس میں آپ سے اس رحمت کو مانگتاہوں. پس توسل میں یہ شخص اپنی محبت کو اولیاء اللہ کے ساتھ ظاہر کرکے اس محبت پر رحمت و ثواب مانگتا ہے اور محبت اولیاء اللہ کا موجب رحمت اور ثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے . (ملفوظات حکیم الامت جلد 21 صفحہ 26 انفاس عیسی حصّہ اوّل)
اور توسل کی تیسری صورت یہ ہے کہ کسی مقبول مخلوق کی برکت کیساتھ اللہ تعالی سے مانگے اور اسے جمہور علماء کرام نے جائز قرار دیا ہے ۔ (بوادرالنوادر ص 761)

وسیلہ بالذات کا حلم اور اسکی حقیقت

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام اور صلحاء کرام علیہم الرّحمہ کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا مانگنا شرعا جائز ، بلکہ قبولیت دعا کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے مستحسن اور افضل ہے قرآن مجید کے اشارات احادیث مبارکہ کی تصریحات اور جمھور اہلسنت و جماعت حصوصا اکابرین علماء کی عبارات سے اس قسم کا توسل بلاشبہ ثابت ہے .

جو شخص دنیا میں موجود نہیں اسکا وسیلہ جائز ہونے کی دلیل قرآن کریم سے

و لما جاءھم کتاب من عنداللہ مصدق لما معھم و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا ۔ (پارہ نمبر 1 آیت 89)
حضرت علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ مفتی بغداد لکھتے ہیں : نزلت فی قریظۃ والنضیر کانوا........الخ
ترجمہ : یہ آیت کریمہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ اوس اور خزرج کے خلاف آنحضرت ص کی بعثت سے پہلے آپ ص کے وسیلہ سے فتح طلب کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس رض اور قتادہ رض فرماتے ہیں
( تفسیر روح المعانی ج 1 ص 320،چشتی)

علامہ محلی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : آپ ص کی بعثت سے پہلے یہود کافروں کے خلاف اللہ تعالی سے مدد مانگتے تھے اور یہ کہتے تھے
یقولون اللھم انصرنا علیھم باالنبی المبعوث اخرالزمان .
ترجمہ : اے اللہ ھماری مدد کر دشمن کے خلاف آخری نبی ص کے واسطے سے.
(تفسیر جلالین ص 13) ، یہی تفسیر ان تفاسیر میں بھی موجود ہے . (تفسیرکبیر...... ج 3 ص 180)(تفسیر ابن جریر طبری..... ج1 ص 455)(تفسیربغوی.....ج1ص58)(تفسیرقرطبی....ج2ص27)(تفسیر البحرالمحیط.... ج1ص303)(تفسیرابن کثیر...ج1 ص 124)(تفسیرابی السعود.... ج 1 ص 128)(تفسیرمظہری... ج1ص94)(تفسیر روح المعانی...ج1 ص 319)(تفسیر ابن عباس.... ص13) (تفسیرخازن....ج1ص64)(تفسیرمدارک...ج1ص32)(تفسیر درمنثور....ج1ص88)(تفسیر تبصیرالرحمن عربی....ج1ص 52)(تفسیرصفوۃالتفاسیر.....ج1ص 77)(تفسیرعزیزی....ص329)(تفسیر موضح القرآن ....ص 15)( تفسیر معارف القرآن از کاندھلوی....ج1ص177)(تفسیرجواہرالقرآن ..ص49)(بدائع الفوائد لابن قیم حنبلی....ج4 ص 145)(المنحۃالوھبیۃ لعلامہ داودبن سلیمان البغدادی الحنفی.....ص 31،چشتی)

اصول فقہ میں یہ لکھا ہے اللہ عز و جل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر پہلی شریعتوں اور لوگوں کے عمل کو بلا انکار کے بیان کریں تو وہ ہم پر بھی لازم ہیں . ( نورالانوار ص 216) اس ضابطہ کو مولف تسکین القلوب نے ص 76 میں اور نداۓ چق نے 101 پر تسلیم کیا ہے .

ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ضروری کام کے سلسلہ میں آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ( غالبا بوجہ مصروفیت) نہ تو اس کی طرف توجہ فرماتے اور نہ اسکی حاجت براری کرتے وہ شخص عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو کی جگہ جاؤ اور وضو کرو پھر مسجد میں جاکر دو رکعت پڑھو پھر کہو اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جو نبی الرحمۃ ہیں. اسی روایت کے آخر میں اس کی تصریح ہے کہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور دعا کی برکت سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کی تعظیم و تکریم بھی کی اور اس کا کام بھی پورا کر دیا . (معجم کبیر و شفاء السقام ص 124، 125، وفاء الوفاء ج 2 ص 220، 221)(امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں " والحدیث صحیح ، معجم صغیر ص 104)(علامہ منذری رح بھی انک ی تائید کرتے ہیں ، الترغیب والترھیب ج 1 ص 242)(علامہ ابن حجر مکی فرماتے ہیں " رواہ الطبرانی بسند جید حاشیہ ابن حجر مکی علی الایضاح فی مناسک الحج للنووی ص 500 طبع مصر،چشتی)

علامہ اشرف علی تھانوی صاحب اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس سے توسل بعدالوفات بھی ثابت ہوا اور علاوہ ثبوت بالروایہ کے درایۃ بھی ثابت ہے کیونکہ روایت اول کے ذیل میں جو توسل کا حاصل بیان کیا گیا ہے وہ دونوں حالتوں میں مشترک ہے ۔ ( نشرالطیب ص 1253) ، اسی طرح کا مفہوم شفاء السقام للسبکی ص 125 میں اور وفاء الوفاء للسمہودی ج 2 ص 420 میں بھی ہے ۔
مندرجہ ذیل علماء کرام بھی اس وسیلہ کو جائز قرار دیتے ہیں
علامہ سمہودی...... وفاءالوفاء ج 2 ص 422
علامہ تاج الدین سبکی شافعی..... شفاءالسقام ص 120
علامہ آلوسی حنفی.....روح المعانی ج 6 ص 128
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی..... حجۃاللہ البالغہ
شاہ محمداسحق محدث دہلوی......مائۃ مسائل ص 35
شاہ اسماعیل دہلوی ..... تقویۃ الایمان ص 95
مولانا عبدالحئ لکھنوی ..... مجموعہ فتاوی ج 3 ص 23
علامہ حسین علی دیوبندی ...بلغۃ الحیران ص 354
مفتی عزیرالرحمٰن .... فتاوی دارالعلوم دیوبند ج 5 ص 431، 423، 424 ، 441
علامہ رشیداحمد گنگوہی .....فتاوی رشیدیہ ج 1 ص 78
مفتی محمد شفیع ... معارف القرآن ج 1 ص 42، 44
اکابر علماۓ دیوبند..... المھند علی المفند

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا توسل جائز ہے اسی طرح صالحین علیہم الرّحمہ کا توسل بھی جائز ہے چنانچہ : امام ابو عبداللہ محمدبن محمدالعبدری الفاسی المالکی الشھیر بابن الحاج المتوفی 737 ھ...... مدخل ج 1 ص 255 طبع مصر، علامہ ابن حجر مکی.... حاشیہ ابن حجرمکی علی الایضاح فی مناسک الحج للنووی ص طبع مصر ، علامہ آلوسی ... روح المعانی ج 6 ص 128 میں اس کی صراحت فرماتے ہیں . اور مفتی محمد شفیع . معارف القرآن ج 1 ص 42، 44 ۔ اور اکابر علمائے دیوبند..... المھند علی المفند میں)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔