Tuesday 17 July 2018

اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ،غیر اللہ کا تصور، اور خارجی طریقہ کار

0 comments
اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ،غیر اللہ کا تصور، اور خارجی طریقہ کار

ایک مخصوص طرز فکر کے حامل لوگ وہ قرآنی آیات جو سراسر کافروں مشرکوں اور ان کے بتوں سے متعلق ہیں ۔ انہیں اولیاء اللہ (اللہ تعالی کے مقرب و مقبول بندوں) پر چسپاں کرکے خود کو موحد (توحید پرست) اور اولیاءاللہ کو بارگاہ الہیہ سے بطور وسیلہ نیازمندانہ التماس کو " شرک " کا مرتکب ٹھہرا تے ہیں ۔ ادبیات کے سیکشن میں ایک ایسے ہی مسئلے کے جواب میں کچھ معروضات پیش کی ۔ جوکہ الگ سے جامع مضمون بن جانے کی وجہ سے قرآن و سنت کے سیکشن میں بھی ارسال کرنا مناسب معلوم ہوا ۔

شرک اور وسیلہ کی حقیقت

سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ مسلمان جب بھی مانگتا ہے وہ اللہ تعالی سے مانگتا ہے۔ غیر اللہ سے کبھی نہیں‌مانگتا ۔ جونہی غیر اللہ سے مانگے گا وہ دائرہ اسلام سے نکل کر مشرک ہوجائے گا۔ اب اللہ تعالی سے مانگنے کی کئی صورتیں خود قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ جنہیں بالعموم وسیلہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ وسیلے کے انکاری ہوکر سیدھا اللہ سے مانگنا ہی ایمان سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ تعالی نے خود اپنی جانب آنے کے لیے مختلف وسیلے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (المائدہ 35) ۔ ترجمہ : اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ ۔
نص قرآنی سے وسیلہ اختیار کرنے کا حکم ثابت ہوجانے کے بعد وسیلہ کا انکار کفر بن جاتا ہے ۔

قرآن حکیم میں انبیائے کرام علیہم السّلام کا مختلف مواقع پر وسیلہ اختیار کرنے کے واقعات ملتے ہیں جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض اپنی نابینا آنکھوں‌ پر لگائی تو انکی بینائی واپس آگئی ۔
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ۔ (سورہ یوسف) ۔ ترجمہ : پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔
اب بینائی دینے یا لوٹانے والا تو اللہ رب العزت ہی ہے لیکن قرآن حکیم میں نبی کی قمیض کو وسیلہ بنا کر بینائی ملنے کا بیان ہے ۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی تبرکات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے وسیلہ اختیار کرنے کی کثیر روایات ہیں ۔ وسیلہ بذات خود ایک وسیع موضوع ہے جو کہ طویل وقت کا متقاضی ہے ۔ قرآن و حدیث میں اولیاء اللہ یعنی اللہ تعالی کے دوستوں کی کیا شان ہے ۔ اور اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اہل ایمان مدد کرسکتا ہے یا نہیں ؟ یا کیا ایسا کرنا براہ راست شرک ہوجاتا ہے ؟ کیا مقربین الہیہ کے وسیلے سے دعا مانگنا شرک ہے یا اسلام میں‌جائز ہے ؟ نیز یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کافروں ، مشرکوں سے متعلق آیات کو اہل ایمان، اللہ تعالی کے مقرب بندوں اور اولیاء اللہ پر چسپاں کرنا تاریخ اسلام میں کس طبقے کا وطیرہ رہا ہے اور اس طبقے کی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نزدیک کیا حیثیت ہے ؟

اللہ تعاليٰ نے خود انبیاء و اولیاء کو ولی اور نصیر (مددگار) بنایا

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔ (سورۃ المائدة، 5 : 55)
ترجمہ : بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں ۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَـئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۔ (سورۃ الانفال، 8 : 72)
ترجمہ : بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں ۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔
(سورۃ التوبة، 9 : 71)
ترجمہ : اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے ۔

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورۃ التحريم، 66 : 4)
ترجمہ : اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔

متقین و صالحین کی دوستی و نسبت قیامت کے دن بھی قائم رہے گی

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ۔ (سورۃ الزخرف، 43 : 67)
ترجمہ : سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (یعنی فرامین نبوی :saw: کے مطابق انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی) ۔

مدد مانگنے یا مدد کرنے کا قرآنی تصور

حضرت عیسی و موسی علیھما السلام کا اللہ کے علاوہ مدد مانگنا : قال من انصاری الی اللہ قال الحواریون نحن انصاراللہ ۔ ( سورہ آل عمران آیت 52)
ترجمہ : (حضرت عیسی علیہ السلام نے) کہا ۔ اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو ان کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں ۔
اس آیت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ میرا مددگار کون ہے۔ حضرت مسیح نے غیراللہ سے مدد طلب کی۔ اللہ تعالی کے مقرب نبی براہ راست اللہ سے مانگنے کی بجائے اپنے دوستوں سے مدد مانگ رہے ہیں اور انکے حواری انہیں مدد کا وعدہ بھی دے رہے ہیں ۔

حضرت موسٰی علیہ السلام کو جب تبلیغ کے لئے فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو عرض کیا : واجعل لی وزیرا من اھلی ھرون اخی اشدد بہ ازری (سورہ طہ آیت 30-29) ۔ ترجمہ : اے اللہ ! میرے بھائی کو نبی بناکر میرا وزیر کردے میری کمر کو ان کی مدد سے مضبوط کر دے

قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ ۔ ترجمہ : (حضرت یعقوب کے بیٹے) بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، بیشک ہم ہی خطا کار تھے ۔
گناہوں‌ کی مغفرت طلب کرنا ۔ براہ راست اللہ تعالی سے ہے اور مغفرت عطا کرنا بھی اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے ۔ لیکن حضرت یعقوب کے بیٹے یہ درخواست اپنے والد کو وسیلہ بنا کر کررہے ہیں ۔ اور حضرت یعقوب نے بھی نہیں‌فرمایا کہ یہ شرک ہے بلکہ آپ نے فرمایا میں جلد ہی تمھارے لیے استغفار کرتا ہوں ۔ رب تعالٰی نے بھی یہ نہ فرمایا کہ تم نے میرے سوا سہارا کیوں لیا میں کیا کافی نہیں ہوں۔ بلکہ ان کی درخواست منظور فرمالی ۔ معلوم ہوا کہ بندوں کا سہارا لینا سنت انبیاء علیہم السّلام ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے توحید پرست حضرات کو انبیائے کرام علیھم السلام سے بھی بڑھ کر توحید کی سمجھ آگئی ہے کہ انبیائے کرام تو اپنے ساتھیوں سے مدد مانگتے رہے اور اللہ تعالی نے اسے شرک نہ کہا بلکہ امت مسلمہ کے لیے سبق کے طور پر قرآن کا حصہ بنا دیا ۔ اور ہمارے توحید پرست حضرات مسلمانوں‌ پر شرک کے فتوے لے کر چڑھ دوڑٰیں ۔

انبیائے کرام کو حضور (علیہم السّلام) کی مدد کرنے کا حکم الہی

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا ۔ (آل عمران۔ 81)
ترجمہ : اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور تم ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا ؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا ۔

مومنین کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى ۔ (سورہ المائدہ ۔ 2)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو ۔

غیر اللہ کون ؟

ثابت ہوا کہ اہل ایمان کا باہم مدد طلب کرنا اور مدد کرنا شرک نہیں‌ ۔ البتہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ضرور ہے اور غیر اللہ وہ ہوتے ہیں جو اللہ کے انکاری، اللہ سے غافل اور اللہ سے دور کردینے والے ہوں ۔

اولیائے کرام (اللہ کے ولی بندے) کی شان احادیث میں

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ قَالَ : مَنْ عَادَي لِي وَلِيّاً، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيِ بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي، يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّي أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحَْبَبْتُهُ : کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِها، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وإنْ سَأَلَنِي، لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِيْذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيئٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَاءَتَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں (اللہ تعالی) اس (بندے) کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں
اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں ۔ (البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : التواضع، 5 / 2384، الرقم : 6137، وابن حبان في الصحيح، 2 / 58، الرقم : 347، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 219، باب (60)، وفي کتاب الزهد الکبير، 2 / 269، الرقم : 696،چشتی)

قربان جائیں کہ اللہ تعالی اپنے ولی کی شان کس طرح بلند فرما رہا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ایک ایک لفظ کو بغور پڑھ کر اپنے گریبان میں جھانک کر خود سے پوچھیں کہ کہیں ہم دلوں‌میں بغضِ اولیا رکھ کر اللہ تعالی سے براہ راست جنگ تو نہیں کررہے ؟ (معاذ اللہ ) اللہ تعالی اپنے مقرب و محبوب بندوں کے ہاتھ ، پاؤں، کان ، آنکھیں بن جاتا ہے۔ وہ کیسے بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالی اپنی شان کے لائق بہتر جانتا ہے اللہ تعالی اپنے مقربین ولیوں کی کوئی دعا رد نہیں‌ فرماتا ۔

قرآن مجید کی کافروں کے بتوں سے متعلق آیات کا انبیاء و اولیا پر اطلاق کرنا خوارج کا شیوہ ہے ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ و تعبیر سے گمراہی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ خوارج و گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا۔ خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (خوارج کو) بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی کافروں مشرکوں کے بتوں والی آیاتِ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ بالکل قابلِ مذمت ہے ، خوارج وہ بدبخت ہیں جنہوں نے حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے۔

خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے ۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا ۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا : کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ . ’’کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939
3. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171)
اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے ۔

محترم قارئین : اس موضوع پر مزید بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن ہمیں اسلام کے اصل تصور کو سمجھنے کے لیے قرآن و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آئمہ اسلاف علیہم الرّحمہ کے اقوال و افعال کی روشنی میں کلی طور پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیئے ۔ نہ کہ ایک طرف کی چند آیات یا چند احادیث کو ایک طبقہ پیش کرتا رہے۔ جبکہ دوسری نوعیت کی آیات و احادیث دوسرا طبقہ پیش کرتا رہے ۔ بلکہ اعتدال وانصاف کا راستہ اِختیار کرتے ہوئے ہمیں بظاہر مختلف و متضاد نظر آنے والے قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا باہم ربط و تطبیق تلاش کرنی چاہیے تاکہ اسلام کا کلی اور جامع تصور سامنے آسکے ۔ لہٰذا حق یہی ہے کہ کفار و مشرکین کے بتوں اور جھوٹے معبودوں سے متعلق آیات کو انہی تک محدود رکھا جائے اور انکا اطلاق اللہ تعالی کے محبوب انبیائے کرام ، مقرب ولیوں اور متقین پر نہ کیا جائے ۔ کیونکہ اولیاء اللہ تعالی مخلوق کو خالق سے ملانے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی انکی زبان سے نکلی ہوئی دعاؤں کو کبھی رد نہیں‌فرماتا ۔ اور اسی طرح قرآن حکیم ، نماز ، روزہ ، عبادات، درود و سلام ، صدقہ و خیرات ، نسبت اولیائے کرام یہ سب اللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہوتے ہیں ۔ ان امور پر بے دھڑک شرک کا فتوی لگا دینا ظلم و جہالت ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔