Thursday, 19 July 2018

بعثت سے پہلے زندگیِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

بعثت سے پہلے زندگیِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بعثت سے پہلے اپنے نبی ہونے کا علم تھا، اعلان نبوت سے پہلے یعنی چالیس سال سے پہلے اپنے نبی ہونے کا علم تھا قر آن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے، قر آن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَo فَمَن تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۔ (سوره انفال3: 81.82)

ترجمہ : اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (اب پوری نسل آدم کے لئے تنبیہاً فرمایا:) پھر جس نے اس (اقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے تمام انبیاء کرام کی ارواح سے عالم ارواح میں وعدہ لیا کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی نبوت کا اقرار کریں گے اور آپ کی نبوت پر ایمان لائیں گے ۔

تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نبوت بھی اس شرط سے ملی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لائیں گے، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو عالم ارواح میں بھی نبی تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ تھا بلکہ سب انبیاء کو بھی آپ کی نبوت کا پتہ تھا ۔ چالیس سال کی عمر میں مشیت الہی سے نبوت کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح بہت ساری احادیث سے بھی ثابت ہے کہ آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا کہ وہ کب سے نبی ہیں ترمذی شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا : متی وجبت لک النبوة : قال صلی الله عليه و آله وسلم کنت نبيا و آدم بين الروح والجسد ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی الله عليه و آله وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی الله عليه و آله وسلم آپ کو نبوت کب ملی؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’وَاٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ‘‘ آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جان نہیں ڈالی گئی تھی۔ یہ روایت ترمذی شریف کی ہے اور علامہ ابو عیسیٰ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ انہیں الفاظ میں حضرت میسرہ سے ایک حدیث مروی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کو روایت کیا اور امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں یہ حدیث روایت کی اور حاکم نے اس کی تصحیح فرمائی ۔ (مواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۶)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور وہ اپنے والد مکرم حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کر تے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ’’میں پیدائش آدم علیہ السلام سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے پروردگار کے حضور میں ایک نور تھا ۔ (انسان العیون جلد ۱ صفحہ ۲۹)

ایک اعتراض : اس روایت میں خلق آدم علیہ السلام سے صرف چودہ ہزار برس پہلے حضور صلی الله عليه و آله وسلم کے نور پاک کا ذکر ہے۔ حالانکہ بعض روایتوں میں اس سے بہت زیادہ سالوں کا ذکر بھی وارد ہے۔ یہ تعارض کیسے رفع ہو گا ۔

جواب یہ ہے کہ : حدیث میں چودہ ہزار برس کا ذکر ہے ۔ اس سے زیادہ کی نفی نہیں ۔ لہٰذا کسی دوسری روایت میں چودہ ہزار سے زیادہ سالوں کا وارد ہونا تعارض کا موجب نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله عليه و آله وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا، آپ کی عمر کتنے سال ہے؟ عرض کیا، حضور! اس کے سوا میں کچھ نہیں جانتا کہ چوتھے حجاب عظمت میں ہر ستر ہزار برس کے بعد ایک ستارہ طلوع ہوتا تھا جسے میں نے اپنی عمر میں ستر ہزار مرتبہ دیکھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، اے جبرائیل! میرے رب کی عزت و جلال کی قسم! وہ ستارہ میں ہوں ۔ (انسان العیون جلد ۱ صفحہ ۲۹، روح البیان جلد ۳ صفحہ ۵۴۳،چشتی)

یعنی ابھی آدم علیہ السلام کا خمیر تیار ہو رہا تھا تو میں نبی تھا ابھی ان کی تخلیق ہو رہی تھی تو میں نبی تھا ۔ اسی طرح بے شمار احادیث موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے نبی ہونے کا علم تھا چالیس سال کی عمر میں اظہار نبوت فرمایا۔

انسانیت کی تاریکی اور عرب کی شب دیجوری میں آفتاب نور عام ۱۲ ربیع الاول دوشنبہ کی صبح صادق کو پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا، ولادت کے بعد آپ کے شفیق و کریم دادا محترم حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے تین دن بعد شرفاء قریش کی دعوت کی اور آپ کا نام نامی ا سم گرامی محمد تجوویز کیا، سیرت نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے، کہ آپ نے یہ نام پیدائش کے فوراً بعد مولود مسعود کو کعبہ میں لے جا کر رکھا تھا، لیکن بعد میں آپؐ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ نے فرشتہ سے بشارت پاکر آپؐ کا نام احمد رکھا، ان دونوں نام بارگاہ ایزدی او ر دربار رسالت میں اتنا محبوب ٹھہراکہ: آپؐ کی شفاعت کانام احمد،آپؐ کے لواء کا نام محمد،اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ’’حمادون ‘‘ کہلاتی ہے ۔ خیال رہے کہ آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ چوبیس سال کی عمر میں جب کہ آپ بطن مادر میں تھے ؛ انتقال ہو چکا تھا ، یعنی آپؐ نے یتیمی کی حالت میں آنکھیں کھولیں ، لیکن دادا محترم نے آپؐ کے لئے شفیق باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے، بہترین پرورش کا انتظام کیا اور محض چار سال کی عمر میں آپ کی والدہ حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا بھی داغ مفارقت دے گئیں، جس کے بعد کلی طو پرعبدالمطلب ہی آپ کی نگہداشت و پرداخت کی ذمہ دار ی سمبھالنے لگے۔ (تاریخ خضری:۱؍۶۲)

مشیت الہی دیکھئے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی ۸ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کے دادا محترم کا بھی انتقال ہو گیا، جس کا اثر اس قدر ہوا ؛کہ جب عبدالمطلب کو مقام’’ حجون‘‘ میں دفن کر نے کیلئے لے جایا جارہا تھا،تو آپ سسک سسک کر رو رہے تھے، ظاہر ہے کہ :آپ سے ایک ایسا شفیق داد جدا ہورہاتھا، جس نے آپ کو یتیمی میں سینہ سے لگا کر، دل میں گداز و حرارت پیدا کی تھی، آپ ہی نے مکہ میں دستور کے مطابق بہتر سے بہتر پرورش کی فکر کرتے ہوئے، دیہی علاقوں میں رضاعت کا بندوبست کیا تھا،جس کی سعادت دائی حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے حق میں آئی تھی،جو خود اپنا قصہ یوں بیان کرتی ہیں کہ :وہ بہت ہی زیادہ قحط سالی، پریشان حالی، ضعف سالی،وقت کی ماند اور تھکن سے ٹوٹ چکی تھیں، لیکن یہ آپ ہی سعادت و خوش بختی تھی کہ سہیلیاں بھی رشک کر نے لگیں۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی تربیت میں کوئی کسر نہ رکھی اورآپ کو عمدہ اخلاق سے مزین کرتی رہیں، ہرچھ مہینہ کے بعد آپ کی والدہ کے پاس لے جاتیں اورماں کی ممتا کی چھاوں میں کچھ گزر بسر کرنے کے بعد اور شفقت مادری کی ٹھنڈی وپر سکون لمحات کے بعد واپس لے آتیں، یہاں تک کہ جب مدت رضاعت مکمل ہوئی ؛تب بھی آپ کو اتنا لگاؤ ہوگیا تھا کہ انہیں اپنے سے جدا کرنے کو تیار نہ ہوئیں، اور اپنی کھلی آنکھوں سے سعادت مندی کا نظارہ کرنے بعدمزید اپنے ساتھ رکھنے کی خواہش کی اور واپس لے گئیں، جہاں آپ ؐ نے بارہ سال کی عمر میں بکریاں چرائی تھی، اور عربی زبان کی فصاحت، دیہی علاقوں کی زندگی اور اس کی خصوصیات نیز رضاعی بھائی، بہنوں کی محبت اور بچپن کی حسین لمحات گزارے تھے، پھر آپ جب ہوشیار اور سمجھدار ہوگئے، اور بعض ایسے واقعات پیش آئے جو فطرت وعادت کے خلاف تھے، جس نے آپ کے رضاعی بھائی، بہنوں پر خاصا اثر ڈالا تھا، ایسے میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو آپ کی والدہ کے سپرد کردیا۔ واضح رہے کہ بکریاں چرانا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ حکمت الہی اور مکہ کا رواج تھا اور حقیقتاً عالم انسانی کی غلہ بانی کا دیباچہ تھا ۔ (ابن ہشام:۱؍۱۶۲ ومابعدھا،چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے قصوں 8 میں ایک قصہ ’’حرب فجار‘‘ کا بھی مشہور ہے،یہ وہ جنگ ہے جو اسلام سے پہلے قریش اورقیس عیلان کے درمیان ہوئی تھی،ابتداءً قیس غالب رہے، پھر قریش، بالآخر صلح پر جنگ کا خاتمہ ہوا، اس جنگ کی قیادت ابو سفیان کے دادا، اور یزید کے پرداداحرب بن امیہ کر رہے تھے، جوکہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا،چونکہ کہا جاتا ہے ؛ کہ قریش اس میں حق پر تھے، اسی لئے آپ نے بھی شرکت کی، لیکن ابن ہشام نے یہ صراحت کی ہے کہ :آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا یا، اسی لئے اس جنگ کو فجاراس لئے کہاجاتا ہے کہ اس جنگ میں حرم اور حرام مہینے دونوں کو پامال کیاگیا تھا۔ ایسے ہی مختلف واقعات و حالات سے دوچار ہوتے ہوئے اور عام بچوں سے دور؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی سر پرستی و نگرانی میں پرورش پا رہے تھے، اگر کوئی غیر شرعی امر ہوتا ؛تو آپ کی آنکھ لگ جاتی یا آپ بے ہوش ہو جاتے، چنانچہ مشہور ہے کہ ؛جب چچا نے بناء کعبہ کے وقت دھوپ کی تپش اور گرماہٹ سے بچنے کے لئے ازار کھول کر سر سے باندھنے کو کہا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اونگھ آگئی ۔ (ابن ہشام:۱؍۱۸۴ تا۱۸۶۔ قلب جزیرۃ العرب:۳۶۰۔ تاریخ خضری:۱؍۶۳،بخاری:باب بنیان الکعبۃ۔ ۱؍۵۴۰)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے دوست تھے جیسے ابوبکر،ضمام بن ثعلبہ اور تجارت میں آپ کے ساتھی قس بن سائب تھے، جنہوں نے آگے چل کر اسلام بھی قبول کیا، اور آپ کی تعریف میں عمدہ کلمات کہے۔ نیز آپ ان اقعات میں شریک ہوتے تھے جس میں اکابرین شریک ہوتے، جن میں ’’حلف الفضول‘‘ کا واقعہ مشہور ہے،کہ جب جنگ فجار کے بعد عرب کے لوگ ٹوٹ چکے تھے، تب ایک دوسرے کی دیکھ بھال، نصرت و اعانت،ہمدردی و محبت، جا لوٹ کھسوٹ اور جنگوں سے دست برداری کے لئے عبداللہ بن جدعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے اور ایک ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں قریش یعنی بنی ہاشم، بنی عبدالمطلب،بنی اسد بن عبدالعزی،بنی زہرۃبن کلاب اور بنو تیم مرۃ وغیرہ شامل تھے،جس کی شروعات زبیر بن عبالمطلب نے کی، اس حلف سے آپ کو اتنا لگاؤ تھا کہ نبوت کے بعد بھی آپ اسے یاد کرتے اور اسے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر گردانتے اور کہتے :اگر مجھے اب بھی اس حلف کی طرف بلایا جائے ؛تو میں لبیک کہونگا (ابن ہشام:۱؍۱۳۳،۱۳۵،چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے شریف النفس، نرم خو، انسان دوست اور حسن اخلاق کے پیکر تھے، مکہ مکرمہ میں آپ کی شرافت، عزت اور انت داری کا یہ عالم تھا کہ ؛لوگ آپ کو امین و صادق کہہ کر پکارتے تھے اور امانتیں رکھواتے تھے، اس سلسلہ میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ؛کعبہ کی تعمیر پختہ نہ ہونے کی وجہ سے، برسات کے موسم میں گرجاتی، اہل مکہ نے اسے پختہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب مقدس پتھر یعنی ’’حجر اسود‘‘ کو اس کے مقام پر رکھنے کی نوبت آئی، تو اس اعزاز کو پانے کے لئے قبیلے آپس میں جھگڑ نے لگے، تلواریں سوت لی گئیں، قریب تھا کہ ایک دوسرے کی گردن اڑادیں، خون کے پیالوں میں ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے کی قسمیں کھائی جانے لگیں، تب ہی ایک بزر گ ابو امیہ بن مغیرہ نامی نے یہ رائے دی کہ ؛جو کوئی مکہ میں صبح سویرے داخل ہوگا وہی ہمارے مقدمہ کا فیصل ہو گا۔ خدا کا یہ فیصلہ ہو اکہ سب سے پہلے مکہ میں آپؐ ہی داخل ہو ئے، شرفاء قریش منتظر تھے، آپ کو دیکھتے ہی خوش و خرم کہہ اٹھے :’’ھذالامین رضیناہ،ھذا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘یہ تو امین و صادق ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، ….آپؐ نے اس نزاع کافیصلہ اس حکیمانہ انداز میں فرمایا ؛کہ تاریخ ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے، آپؐ نے ایک چادر منگوائی، اس پر حجر اسود کو رکھا اور ہر قبیلہ کے سرداروں سے کہا کہ :اس چادر کے ایک ایک کونے کو تھام لیں، !لیکن جب پتھر حجر اسود کی جگہ پر پہونچ گیا، تو آپ نے بنفس نفیس اسے اس مقام پر رکھ دیا۔ (دیکھئے : (سیرت ابن ہشام:۱؍۱۹۲تا ۱۹۷،فقہ السیرۃ:۲۶،۶۳،بخاری:باب فضل مکۃ وبنیانھا:۱؍۲۱۵،تاریخ خضری:۱؍۶۴،۶۵)

یہ بات یقینی ہے کہ ہر ایک کو مستقبل اور بود و باش کی فکر ہوتی ہے، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا بوڑھے اور لاغر ہوگئے تھے اور ممالک کا سفر و تجارت سے قاصر ہوگئے تھے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجارت کا بار اپنے شانوں پر اٹھایا اور شام و بصری کے سفر پر نکل پڑے، لیکن صرف آپ کا ہی سرمایہ اور مال کافی نہ تھا، آپ کو اور زیادہ مال اور تجارت کے سلسلہ میں مزید اقدام کرنے کی ضرورت تھی، ایسے میں ایک خاتوں جن کا نام خدیجہ بن خویلد تھا،جو مکہ کے بڑے تاجروں میں تھی، جن کا سامان تجارت اہل قریش کے برابر ہوتا تھا، انہوں نے آپؐ سے دوگنی آمدنی کے بدلہ بیرونی تجارتی سفر کا مطالبہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرمایا اور پورے تین مہینہ بعد بہت زیادہ فائدہ کے ساتھ لوٹے، اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ مال لوٹایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وہ کمالات اور خوبیاں تھیں جنہیں دیکھ کر حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ سے شادی کا راداہ ظاہر کیا جو کہ اپنے معاشرہ وقبیلہ کی سب سے زیادہ باوقار اور باعزت خاتون تھیں، حالانکہ آپ ۲۵ سالہ نوجوان اور ۴۰ سالہ خاتون تھیں، اور اس سے قبل دو شادیاں کر چکی تھیں اور کئی بچوں کی ماں بھی تھیں، چونکہ آپ شریفانہ کرداراور کریمانہ خصائص کی حامل خاتوں تھی،ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام کو شرف قبولیت بخشا، اورحضرت خدیجہ ہی کے گھر پر ۵۰۰ درہم اور روایتوں کے مطابق ۲۰ اونٹ مہرپر، چچا محترم حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا،اس طرح آپ نے ازدواجی زندگی میں قدم رکھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل زندگی تو ہادی عالم و نبی آخر الزماں ہونا تھا،ایسے میں دنیوی زندگی میں الجھنا اور اس سے دل لگی کرنا آپ کے شایان شان نہیں تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل دنیا ومافیھا سے بے زار،خلوت ، تنہائی اور رب حقیقی کے جستجو میں منہمک ہوگیا ، تاریخ میں آتا ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام تر سہولیات کے باوجود ہمیشہ دل میں ایک درد لئے پھرتے ، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنہا زندگی گزارنا شروع کی اور مکہ سے دور جاکر ایک پہاڑ پر جسے غار حرا کہتے ہیں ؛ وہاں جا کر مختلف قسم کی فطری عبادتوں اور مراقبوں میں مشغول رہنے لگے۔ (ابن ہشام:۱؍۱۸۹،۱۹۰۔ فقہ السیرۃ:۵۹۔ تلقیح الفھوم:۷،چشتی)

دراصل یہ علم ربانی اور بعثت نبوی کا دیباچہ اور با ر رسالت کے لئے تیار ہونا تھا، یہ موسی ؑ کی چلہ کشی اور عیسی کی تکبیر مسلسل کا جز تھا، جو نہ صرف سابقہ انبیاء علیہم السلام بلکہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی لازمہ بنا اور ساتھ ہی انسانیت کے لئے علم کے راستہ میں سر دھن نے اور اپنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیاوی مشغلوں سے للہیت و ریاضت کا پابند بنانے کا پیغام بھی ٹھہرا ۔

بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق عبادت کرتے تھے جبکہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی فکر اور رائے سے عبادت کرتے تھے ۔ لمافی قولہ تعالی ( النحل :۱۲۳): ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۔ وفی التفسیر المنیر (۷۶۳/۱۴): امرالنبی باتباع ملۃ ابراھیم علیہ السلام فی عقائد الشرع واصولہ من الدعوۃ الی التوحید للہ والتحلی بفضائل الاخلاق لااتباع فی الفروع ۔ وفی عمدۃ القاری (۶۱/۱): اختلف فیہ علی ثمانیۃ اقوال احدھا انہ کان یتعبد بشریعۃ ابراھیم علیہ السلام …… الخامس قیل ماکان صفۃ تعبدہ اجیب بان ذلک کان بالتفکر والاعتبار کاعتبار ابیہ ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام ۔ وفی سیرۃ النبی لابی الفداء (۳۹۱/۱): قیل شرع ابراھیم علیہ السلام وھوالاشبہ الاقوی ۔ راجح قول کے مطابق نبوت سے قبل کئے ہوئے کام بھی سنت کہے جائیں گے ۔

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کَانَ أَوَّلَ مَا بُدِءَ بِهِرَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْیَا الصَّادِقَةُ فی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرَی رُؤْیَا إِلَّا جَاءَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إلیه الْخَلَاءُ فَکَانَ یَلْحَقُ بِغَارِ حِرَاءٍ فَیَتَحَنَّثُ فیه۔۔۔حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِیْ غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَکُ ۔۔۔فَقَالَ (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الذی خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ من عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ) ۔۔۔(عَلَّمَ الْإِنْسَانَ ما لم یَعْلَمْ) فَرَجَعَ بها رسول اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حتی دخل علی خَدِیجَةَ فقال زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی فَزَمَّلُوهُحتی ذَهَبَ عنه الرَّوْعُ قال لِخَدِیجَةَ أَیْ خَدِیجَةُ ما لی لقد خَشِیتُ علی نَفْسِی فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قالت خَدِیجَةُ کَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللّٰهِ لَا یُخْزِیکَ اللّٰه أَبَدًا فَوَاللّٰهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الحدیث وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِینُ علی نَوَاءِبِ الْحَقِّ ۔
ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے سچے خواب دکھائے گئے۔ چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ بیداری میں صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہو جاتا۔ پھر آپ کو تنہائی پسند آنے لگی۔ اس دور میں آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں آپ عبادت کیا کرتے۔۔۔۔ (یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا) یہاں تک کہ ایک دن جب کہ آپ غار حرا میں تھے تو دفعتاً حق آشکار ہوا۔ چنانچہ آپ کے پاس فرشتہ آیا ۔۔۔ اور اس نے کہا '' پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز) تخلیق کی، انسان کو جمے ہوئے خون سے تخلیق کیا ، پڑھیے! آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے (انسان کو) قلم کے ذریعے سے تعلیم دی ۔۔۔ اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کے ساتھ گھر آئے، تو گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھوں اور گردن کا گوشت پھڑک رہا تھا۔آپ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا تم لوگ مجھے چادر اُڑھا دو، انھوں نے چادر اُڑھا دی ۔ پھر جب آپ کی گھبراہٹ ختم ہوئی ، تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے کہا، اب کیا ہو گا،مجھے تو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے، پھر آپ نے انھیں ساری بات بتائی۔ تو انھوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: بخدا، اللہ آپ کو کبھی رسوانہ کرے گا، اِس لیے کہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، آپ ناداروں کو کما کردیتے ہیں، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں، آپ راہِ حق کے آفت زدوں کی مدد کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری، رقم ۴۹۵۳، صحیح مسلم، رقم ۴۰۳)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...