Friday, 20 July 2018

عظیم سپہ سالار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

عظیم سپہ سالار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک بہترین سپہ سالار ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں اٹھائیس جنگوں میں حصہ لیا ۔ جن کو غزوہ کہتے ہیں اور جن میں آپ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کن مقاصد کے خاطر ،کن حالات میں،کس کے ساتھ اورکن شرائط و آداب کے ساتھ اپنے فو جیوں کو لڑایا ۔یہ سب نہ جاننے کی وجہ سے لوگ طرح طر ح کے الجھنوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔اور پھر ایسی بے سروپا باتیں کرنے لگتے ہیں جو ان کی جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہیں ۔اس لئے ہم پہلے ان امور کی قدرے وضاحت پیش کرتے ہیں پھرآپ کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوگی کہ کیسے دنیاوی ساز وسامان اور مادی وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جگہ فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑے ۔اور بحیثیت سپہ سالار ایسی کامیابی حاصل کی جو دنیا کے کسی سپہ سالار کو حاصل نہ ہوئی اور نہ ہوگی ۔
کن حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ فر مای : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بندوں کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ان کے رب سے جوڑنے کی تحریک شروع فرمائی جس کے نتیجے میں وہ خوش نصیب لوگ جن کی جبینوں میں سعادت کا نور چمک رہا تھا انہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کرلی ۔ اور جھوٹ،دغا ،فریب،لوٹ مار،عہد شکنی،غصب ،مردار خوری ،شراب نوشی اور ان کے علاوہ ان تمام برائیوں کے نہ کرنے کا پکا عہد کر لیا جو کبھی وہ شوق سے کیا کرتے تھے بلکہ اس کو اپنی عزت وشان کا ذریعہ سمجھتے تھے۔پھر کیا تھا،ان پر ظلم وستم کاپہاڑ ڈھایا جانے لگا،کسی کو چلچلاتی دھوپ میں گرم زمین پر لیٹا کر اتنا مارا جاتا کہ وہ لہولہان ہوجاتے پھر ان کے سینوں پر پتھر رکھ کر انہیں دن بھر سوکھنے کے لئے چھوڑ دیا جاتااور کسی کے سینے میں تیرو سنان کے نشتر چبھوئے جاتے ۔کسی کو گا لیاں دی جاتیں اور کسی کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ۔کسی کی ننگی پیٹھ پر کوڑے مارے جاتے اور کسی کے جسم پر منوں وزنی گندگی ڈال کر قہقہہ لگایاجاتا۔آئے دن ظلم وستم کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جاتے اور اس طریقے سے مسلمانوں کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ستایا جاتا ۔ تیرہ سال تک مصائب و آلام کے اس بے رحم طوفان کا بے مثال صبر وتحمل کے ساتھ سا منا کرتے رہے پھر آخر کار روز روز کے ظلم وستم سے تنگ آکر اپنی زندگی بھر کی کمائی ، زمین ، جائیداد اور دکان ومکان سب چھوڑ کر اپنے وطن سے چار سو پینسٹھ کلو میٹر دور یثرب (مدینہ طیبہ) نامی بستی میں جاکر پناہ گزیں ہونے کا ارادہ کر لیا مگر ان کے دشمنوں کو یہ بھی گوارا نہ ہو اکہ کوئی شخص آسانی سے وہاں چلا جائے چنانچہ اس ہجرت کے دوران انہیں بے پناہ مشقتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ کسی کے بچے اور بیوی کو روک کر اکیلے جانے پر مجبور کیا گیا تو کسی کوجان سے مارنے کی کوشش کی گئی ۔اس زمانے میں یہ سفر ایک مہینے میں طے کیا جاتا تھا مگراس سفر کے دوران ان کے جسم پر پہنے ہوئے کپڑوں کے سوا کوئی اور کپڑا نہ تھا ،نہ ان کے ساتھ کھانے اور پینے کا کوئی انتظام تھا۔ مگر اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار بھی نہ تھا آخر کار انہوں نے اپنے رب کے سہارے اس سفر کو مکمل کیا اور مدینہ طیبہ میں آکر پناہ گزیں ہوگئے۔
مگر ان کے دشمنوں نے ان تمام تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی ان کے لئے کافی نہ سمجھا تو اب اپنے جذبئہ عداوت کو تسکین دینے کے لئے دھمکیوں اور فوجی قوتوں سے ڈرانا شروع کیا اور انہیں وہاں بھی چین و سکون کا سانس نہ لینے دیا تب ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقا تلونکم ولا تعتدو ان اللہ لایحب المعتدین۔خدا کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ۔اور حد سے تجاوز نہ کرو بے شک اللہ تعالی حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (سورۃ البقرۃ ،پ۲،ع۷ ،چشتی)

اور ان مظلوم ستم رسیدہ مسلمانوں کو طاقت کاجواب صبر کے بجائے طاقت سے دینے کی اجازت دی گئی۔اور ان سے کہا گیا کہ لڑو، قتل کرو،ان ظالموں کے پنجہ استبداد کو مڑوڑو۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جنگوں کے مقاصد: مگر ساتھ ہی یہ وضاحت کردی گئی کہ تمہارا لڑنا اپنے غضبانی جذبے کی تسکین کے لئے نہ ہو ،دشمن کے زر وجواہر پر قبضہ کرنے کے لئے نہ ہو، اپنی حکومت واقتدار قائم کر نے کے لئے نہ ہو۔بلکہ تمہارا مقصد صرف حق کی سر بلندی ہو،امن و سکون کا قیام ہو،ظلم وجبر کو ختم کرنا ہو،مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے آزاد کرنا ہو،راست وپاکبازی کو پھیلانا ہو،صداقت کا پر چم لہرانا ہو، جہالت و غباوت کی تاریکیوں کو ختم کرنا ہو،قافلئہ انسانیت کو برائیوں کے دلدل سے نکال کر اعمال صالحہ کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہو وغیرہ ۔ انہیں مقاصد کو اللہ تعالی نے لفظ فی سبیل اللہ سے بیان فر مایا ۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کس کے ساتھ جنگ کی ؟ : ان اعلیٰ اور نیک مقاصد کے حصول کے لئے کن لوگوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی اس کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا : الذین یقاتلونکم ۔ صرف ان سے جو تمہارے ساتھ لڑتے ہیں ۔ تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے جھوٹے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اپنی طاقت کے بل بوتے پوری دنیا میںکالاراج چلانا چاہتے ہیں کمزوروں اور ناتوانوں کو اپنے جیسا انسان ماننے کے لئے تیا ر نہیں ہوتے ہیں اور دنیا کے امن وسکون کو غارت کرکے اسے جہنم بنانا چاہتے ہیں ۔ صرف انہیں سے لڑو ۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنگ کے آداب : مگر اس شرط کے ساتھ کہ : ’لاتعتدوا‘ تم حد سے آگے نہ بڑھو۔یعنی جب جنگ کا بازار گرم ہو، جذبات اپنے شباب پر ہو،انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہوں،اس وقت بھی حد سے مت گزرو۔ بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور کسانوں کو قتل مت کرو(جبکہ یہ نہ لڑ رہے ہوں)کسی کو قتل کرنے کے بعد اس کے کان،ناک وغیرہ کاٹ کر اس کی شکل مت بگاڑو،کھیتیوں اور درختوں کو بر باد مت کرو،عبادت گاہوں اور ان کے مقدس مقامات کو منہدم مت کرو۔ کیونکہ : ان اللہ لایحب المعتدین ۔ بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کوپسند نہیں فر ماتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ان آداب کو بجا لایا اور اپنے غلاموں کو بھی اس کی تلقین فر مائی چنانچہ اس بارے میں متعدد احادیث میں سے کچھ انصاف پسند قارئین کے نذر ہیں :
رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجاہدین کے ایک لشکر کو الوداع کہتے ہوئے یوں وصیت فر مائی: اللہ کا نام لے کر اور اس کے نام کی بر کت کے ساتھ سفر جہاد پر روانہ ہوجائو۔کسی بوڑھے شخص کو،کسی بچے کو،کسی عورت کو ہر گز قتل نہ کرنا۔اور خیانت نہ کرنا۔غنائم کو اکٹھا کرنااور حالات کو درست کرنے کی کوشش کرنا،دشمن کے ساتھ بھی احسان کرنا بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ایک دوسرے لشکر کو رخصت کرتے ہوئے حضور نے آخری وصیت یوں فر مائی:اللہ کانام لے کر راہ خدا میں جہاد کے لئے روانہ ہوجائو۔اللہ کے دشمنوں کو تہ تیغ کرنا ۔خیانت نہ کرنا ،کسی سے دھوکہ نہ کرنا،کسی مقتول کی لاش کا مثلہ نہ کرنا،اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کے سالار اعظم حضرت خالد بن ولید سے ارشاد فر مایا:بچوں کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی مزدور کو قتل کرنا ۔ یہاں تک کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے صحابہ کو اس طرح وصیت فر مایا کرتے تھے کہ:وہ سر سبز کھیتوں کو برباد نہ کریں ،درختوں کو نہ کاٹیں ،کمزوروں،بچوںاور عورتوں کو قتل نہ کریں ۔ان مردوں کو بھی قتل نہ کریں جو جنگ کے سلسلے میں کوئی رائے نہیں دیتے اور کسی طرح جنگ میں شرکت نہیں کرتے ۔ (ضیاء النبی،جلد۳؍ص:۲۸۵۔۲۸۶،چشتی)

سوچئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کون ہے جو اپنے دشمن کی فوجوں کے ساتھ ایسا رحیمانہ و کریمانہ سلوک کرنے کی ھدایات دیا ہو یا دیتا ہو ؟ اول تا آخر داستان جنگ وجدال کی پوری تاریخ کھنگا ل ڈالئے ۔آپ کو کوئی ایسا سپہ سالار نظر نہیں آئے گا ۔ یہ صرف اللہ کے اس محبوب بندے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی شان تھی کہ جس نے جنگ جیسی خوفناک چیز کو بھی رحم وکرم کا آئینہ دار بنادیا ۔ سچ فر مایا تھا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہ : انا نبی الرحمۃ انا نبی الملحمۃ ۔ میں رحمت کا پیغامبر ہوں ۔ میں جنگ کا علمبردار ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جنگ بھی نوع انسانی کے لئے سراپا رحمت واحسان تھی ۔ کیا فتنہ و فساد کی آگ بجھانا ، مظلوموں کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کرنا ، اور ایسے بدبخت لوگوں کے ہاتھ اور منھ میں لگام لگا کر دنیا میں امن وامان قائم کرنا نوعِ انسانی کے لئے رحمت نہیں ؟ ضرور ہے ۔
آپ تصور کر سکتے ہیں کہ : مسلمانوں کو جن سنگین حالات سے دوچار ہونا پڑا ، ان سب کے باوجود اگر آپ جنگ نہ کرتے تو پھر کیا ہوتا،دشمن آگے بڑھ کر ہر حق پرست کا گلا دبوچ دیتا ،ایک طبقہ ظالموں کے ظلم کی چکی میں پستا رہتا اور دوسرا طبقہ ان پر ظلم کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا رہتا اور آخر کاران حق پرستوں کو فنا کے گھاٹ اتاردیا جاتا یا ایک ایسے عقیدے کو جنہیں انہوں نے اپنی آزاد عقل وفہم کا استعمال کر کے اپنا یا تھا ترک کر دینا پڑتا اس طرح سے حریت فکر کی آزادی دنیا سے ختم کردی جاتی اور ہمیشہ کے لئے دنیا سے صدائے حق بلند کرنے والوں کو نیست ونابود کردیا جاتا۔
آپ اس قائد ورہنما کے بارے میں کیا کہیں گے جو فقط اپنے کو امن پسند اور صلح دوست کہلانے کی ہوس میں اپنے تمام ساتھیوں کو ظلم کی بھینٹ چڑھنے دیا اور پھر خود بھی ڈوبا اور اپنے ساتھیوں کو بھی لے ڈوبا ؟۔ایسی غداری اپنی قوم کے ساتھ کوئی چیمبر لین تو کر سکتا ہے لیکن کوئی حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے جانثاروں سے کوئی ایسی امید رکھے تو وہ خوفناک جہالت میں مبتلا ہے۔جس سے اسے فوراََ نکل آنا چاہئے۔
آج لوگ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جنگوں پر چیں بجبیں ہیں۔انہیں اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے جنگ کے نام پر انسانیت کو کیا تحفہ دیا ہے۔آپ صرف دو نوںجنگ عظیم کا حال ہی دیکھ لیجئے جو یورپ کے دانشوروں اور حکمرانوں کا عظیم کارنامہ ہے۔ان دونوںجنگوں میں مال ودولت ،پر امن شہریوں کی تباہی،ہزاروں بارونق شہر کی ویرانی اور دیگر تمام تر نقصانات کو چھوڑ کر صرف انسانی جانوں کا جو عظیم نقصان ہواوہی سن لیجئے ۔ اتحادی ممالک برطانیہ اورامر یکہ وغیرہ کا جانی نقصان ایک کڑوڑ چھ لاکھ پچاس ہزار ہے ۔فر یقین کا مجموعی جانی نقصان ڈیڑھ دو کروڑکے قریب ہے صرف روس کے پچھتر لاکھ فوجی مارے گئے ،جاپان کے پندرہ لاکھ پچاس ہزار فوجیوں نے اپنی قیمتی زندگی کو جنگ کی کالی دیوی کے چرنوں میں بھینٹ چڑھایا ۔ (انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا،جلد۲۳ ؍ص:۷۹۳، ایڈیشن:۱۹۶۲۔ ضیاء النبی،جلد سوم،ص:۲۸۲،چشتی)

اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں

غزوہ بدر : رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوا۔مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے ۔

غزوہ احد : شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان نے 3000 کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیامسلمانوں نے احد کے مقام پر یہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔اس وجہ سے اسے غزوہ احد کہا جاتا ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے ۔مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولیدنے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے،مسلمانوں کی بے خبری کا فائدہ اٹھایا اور پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا ۔

غزوہ خندق (احزاب) : شوال ۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے تمام عرب سے جنگ جو جمع کرکے مسلمانوں سے جنگ کا ارادہ کیا۔ مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ چنانچہ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے ۔

غزوہ بنی قریظہ : ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔

غزوہ بنی مصطلق : شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے ۔

غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی ،جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے ۔

جنگِ موتہ : جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے ۔

فتح مکہ : رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی ۔کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی ۔

غزوہ حنین : شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی ۔

تبوک : رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے ۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی ۔ (ماخوذ : سیرت ابن اسحاق المعروف سیرت ابن ہشام ، ضیاء النبی ، انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا ، مدارج النبوۃ ، معارج النبوۃ ، مواہب الدنیہ و دیگر)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...