Saturday 28 July 2018

رشتہ دار سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آئینے میں

0 comments
رشتہ دار سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آئینے میں

آج کے اس پر آشوب دور میں ایک رشتہ دار دولت و ثروت کی بہتات کے سبب فلک بوس عمارتوں میں داد عیش دے رہاہے ان کے بچے دنیا کی اعلی ترین ملبوسات زیب تن کر رہے ہیں ، لذیذ کھانوں اور میوہ جات سے سیراب ہو رہے ہیں اور دنیا کی ہر نو پید دلچسپیوں سے صبح و شام لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔مگر ان کی نظروں کے سامنے اس کے رشتہ دار بھوک سے بلک رہے ہیں ان کے بچے فاقہ کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں ان کے بدن پر معمول کا لباس بھی نظر نہیں آرہاہے اس کے باوجود ان کے دل کے اندر ان کے دکھ درد کو بانٹنے کا کوئی جذبہ نظر نہیں آتا بلکہ بسا اوقات ان کی غریبی اور مفلسی کی وجہ سے ان سے رشتہ کاٹ لیا جاتا ہے اور قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود پہچاننے تک سے انکا ر کر دیا جاتاہے۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ عجیب درد و کرب سے کراہ رہاہے ۔

ایسی صورت حال میں معاشرے کو درد وغم اور مصا ئب و آلام سے کوئی نکال سکتا ہے ،تو وہ مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی پاکیزہ سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اعلی تعلیمات ہے۔اس لئے ذیل میںرشتہ داروں کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی سیرت اور آپ کی پاکیزہ تعلیمات پیش کی جاتی ہے جو ہمارے لئے بہترین نمو نہ عمل ہے۔
رشتہ داروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ہمدردیاں: آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا ابو طالب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوشحال نہ تھے ۔اکثر تنگی کا سا منا رہتا تھا ،مکہ میں جب قحط پڑا تو اس سے ان کی مالی حالت اور کمزور ہوگئی، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے آپ کی یہ تکلیف نہ دیکھی گئی،حضور اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور اس بات کی ترغیب دی کہ ہمیں مل کر جناب ابو طالب کا بوجھ بانٹ لینا چا ہئے ،ان کا ایک بیٹا میں لے لیتا ہوں ،اس کی پرورش میں کروں گا ۔ایک لڑ کا آپ لے لیں ،اور اس کی پرورش کی ذمہ داری آپ اپنے ذمے لے لیں اس طر ح ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔

چنا نچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور حضرت عباس ابو طالب کے پاس گئے اور اپنے آنے کا مقصد بتایا۔جناب ابو طالب کے چار بیٹے تھے، طالب ، عقیل ، جعفر،علی۔انہوں نے کہا :طالب اور عقیل کو آپ میرے پاس رہنے دیں اور باقی بچوں کے بارے میں جو آپ لوگوں کی مرضی ہو کریں ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو سب سے کم عمر تھے ۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ان کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور جعفر کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ لے گئے۔(ضیاء النبی،جلد دوم،صفحہ:۲۲۹۔۲۳۰،چشتی)
ان کے علاوہ جو بھی رشتہ دار تھے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم زندگی بھر ان کی خیر خواہی کرتے رہے ۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے دودھ کے رشتہ داروں کو بھی کبھی فراموش نہ کیا ۔چنانچہ قحط سالی کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رضاعی والدین کی مصیبتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ عطا فر مایا۔اس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے خود بھی اپنے رشتہ داروں کی تکلیف کو بانٹا اور دوسرے کو بھی اس نیک کام پر ابھارا۔اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم عطا فر مایا:چنانچہ ذیل میں اس سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی کچھ تعلیمات نہایت اختصار کے ساتھ تحریر کیا جاتی ہیں۔آپ انہیں پڑ ھئے اور عمل کیجئے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : رحم (یعنی رشتہ) رحمن سے مشتق ہے اور اللہ تعالیٰ نے رشتہ کے بارے میں فر مایا ہے کہ:جو تجھے ملائے گا میں اسے ملائوں گا اور جو تجھے کاٹے گا اسے میں کاٹوں گا ۔ (بخاری،حدیث:۵۹۸۸، مسلم،حدیث:۲۵۵۷)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کیا کہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم مجھے ایسا کام بتائے کہ اگر میں اس کو کروں تو جنت میں داخل ہو جائوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایاکہ:سلام کو پھیلائو،کھانا کھلاو ، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرواور رات کو جب سب لوگ سو جائیں تو اٹھ کر نماز پڑھو اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاو ۔ (المستدرک للحاکم، حدیث:۷۲۷۸)

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فر مایا:میں اللہ ہوں ،میں رحمن ہوں ،رحم (یعنی رشتہ) کو میں نے پیدا کیا اور اس کانام میں نے اپنے نام سے مشتق کیا لہذا جو اسے ملائے گا میں اسے ملائوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا ۔ (المستدرک للحاکم،حدیث:۷۲۶۹۔۷۲۷۰،چشتی)

حضرت عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں درازی (یعنی برکت)ہو اور رزق میں کشادگی ہو اور بری موت سے محفوظ رہے،وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (المستدرک للحاکم،حدیث :۷۲۸۰، بخاری،حدیث:۵۹۸۵،۵۹۸۶ واللفظ للمستدرک،چشتی)

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا : رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ (بخاری ،حدیث:۵۹۸۴،مسلم،حدیث:۲۵۵۶)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ:اپنے نسب کو پہچانو تاکہ صلہ رحم کرو کیونکہ اگر رشتے کو کاٹا جائے تو اگر چہ قریب ہو وہ قریب نہیں ہے اور اگر جوڑا جائے تو دور نہیں ہے اگر چہ دور ہو ۔ (المستدرک للحاکم، حدیث:۷۲۸۳)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ملاقات کرنے کے لئے گیا تو میں نے جلدی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا دست مبارک پکڑ لیا اور حضور نے بھی میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ۔پھر فر مایا:اے عقبہ! دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق یہ ہیں کہ:تم اس کو ملائو جو تمہیں جدا کرے اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو ،اور جو یہ چاہے کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو وہ اپنے رشتہ والوں کے ساتھ صلہ رحمی(یعنی اچھا سلوک)کرے ۔ (المستدرک للحاکم،حدیث:۷۲۸۵،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا کہ:صلہ رحمی اس کا نام نہیں کہ بدلہ دیا جائے ،یعنی اس نے اس کے ساتھ احسان کیا تو اس نے بھی اس کے ساتھ کردیا بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اُدھر سے کاٹا جاتا ہے اور یہ جوڑتا ہے ۔ (بخاری،حدیث :۵۹۹۱،مسلم،حدیث:۲۹۰۸)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ان پاکیزہ تعلیمات پر عمل کر کے ہی معاشرے کو جنت نشاں بنایا جا سکتا ہے اور ان تعلیمات سے ترک تعلق کے نقصانات بالکل روشن اور واضح ہیں۔اس لئے ایک اچھا رشتہ دار وہی ہے جو مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ان تعلیمات کے مطابق اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور نہ یہ کہ صرف وہ کرتا ہے تب یہ کرتا ہے ۔ نہیں، بلکہ یہ اس وقت بھی حسن سلوک کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ اس کے رشتہ دار نہیں کرتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔