مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا حج و عمرہ
اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دو یا تین حج کئے اورہجرت کے بعد صرف ایک حج ۱۰ھ/میں کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور و معروف ہے ۔ (ترمذی،حدیث:۸۱۵)
حج کے علاوہ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے چار عمرے بھی ادا فر مائے ۔ جیساکہ روایت ہے کہحضرت قتادہ نے جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کتنے حج کئے؟تو آپ نے فرمایا:ایک حج اور چار عمرے۔ایک عمرہ ذی القعدہ میں۔دوسراعمرۃ الحدیبیہ۔تیسرا وہ عمرہ جو آپ نے حج کے ساتھ ادا فر مایا ۔ چوتھا عمرۃ الجعرانہ ۔ (ترمذی،حدیث:۸۱۵، بخاری،حدیث:۱۷۷۸،مسلم، حدیث:۱۲۵۳)
حج چونکہ تین طرح کے ہوتے ہیں۔حج افراد،حج تمتع اور حج قران۔حج افراد کا معنی ہوتا ہے صرف حج کرنا۔حج تمتع کا مطلب عمرہ ادا کر کے احرام کھول دینا اور پھر حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرنااور حج قِران کا مطلب حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد بدستور احرام پر قائم رہنا اور حج سے فارغ ہونے کے بعد احرام کھولنا ۔
اب اس میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج افراد کیا تھا یا حج تمتع یا حج قران ؟ اس بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ علیہما کی تحقیق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج قران کیا تھا اور امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج افراد کیا تھا اور ان کے علاوہ بعض دوسرے علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج تمتع کیا تھا۔کتب احادیث میں ہر ایک کی تائید میں احادیث طیبہ موجود ہیں ۔ لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو حج قران کے دلائل زیادہ قوی اور مضبو ط دکھائی دیتے ہیں ۔کیو نکہ اس بارے میں بیس سے زائد صحیح او رصریح احادیث مبارکہ ہیں جن سے یہ صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ قِران کیا تھا ۔ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔باقی حقیقت حال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّمخوب جانتے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : انہوں نے حج کا عمرہ کے ساتھ قران کیا اور اس کے لئے ایک(قسم کا) طواف کیا اور کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے بھی اسی طرح کیا تھا ۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے چار عمرے کئے (۱) عمرۃ الحدیبیہ (۲) حدیبیہ کے اگلے سال اس عمرہ کی قضا (۳) عمرۃ الجعرانہ (۴) وہ عمرہ جس کا حج کے ساتھ قِران کیا ۔ (سنن ابو داود،حدیث:۱۹۹۳۔۱۹۹۴،چشتی)
تر مذی و نسائی میں ہے کہ جس سال حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے حج کیا اس سال حضرت سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس عمرہ اور حج قران پر گفتگو کر رہے تھے ۔ ضحاک نے کہا کہ قران وہی شخص کرے گا جو احکام الہیہ سے جا ہل ہو گا۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ(جو ان دس صحابہ میں سے ہیں جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فر مایاتھا) نے کہا : اے بھتیجے! تم نے اچھی بات نہ کہی۔ضحاک نے کہا کہ : حضرت عمر اس سے منع فر ماتے تھے ۔ حضرت سعد نے فر مایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے قران کیا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ قران کیا ۔ (ترمذی،حدیث:نسائی،حدیث:۲۷۳۴)
مروان بن الحکم کہتے ہیں کہ : میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ انہوں نے سنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے ۔ اللھم لبیک بحج و عمرۃ ۔ (یعنی قران کرنے والے کی طرح ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : آپ اس قران سے باز نہیں آتے (یعنی کیا وجہ ہے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر مایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو حج اور عمرہ کے ساتھ تلبیہ کرتے ہوئے سنا ہے ۔اس لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بات کو آپ کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتا ۔ (سنن نسائی ،حدیث :۲۷۲۲،بخاری،حدیث:۱۵۶۳)
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی مانتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج قران کیا تھا ۔ اب ہم کچھ ایسی روایتیں بھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں جن میں خود حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنے حج کی وضا حت فر مائی ہیں ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا ۔ میں نے ان کے ساتھ کچھ چاندی حاصل کی ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہا کہ : میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رنگے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا اور وہ گھر میں خوشبو بھی لگائی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ : آپ کو کیا ہوا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنے اصحاب کو حلال ہونے کا حکم دیا اور وہ حلال ہو گئے (یعنی آپ حلال کیوں نہیں ہوئے؟) حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے احرام کی نیت کی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے پوچھا کہ : تم نے کیا کیا ؟ میں نے کہا کہ : میں نے احرام میں نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے احرام کی نیت کی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : میں نے ہدی (یعنی قر بانی کا جانور) روانہ کردیا ہے اور قران کا احرام باندھا ہے ۔ (سنن ابو داود،حدیث:۱۷۹۷،چشتی)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے عرض کیا : کیا وجہ ہے کہ لوگ حلال ہوگئے اور آپ اپنے عمرے سے حلال نہیں ہوئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے ہدی میں قلادہ(پٹہ) ڈال دیا ہے اور سر کے بالوں کو چپکا لیا ہے ۔ میں اس وقت تک عمرہ سے حلال نہیں ہوں گا جب تک حج سے حلال نہ ہو جائوں ۔ (بخاری،حدیث:۱۵۶۶ ۔ مسلم، حدیث: ۱۲۲۹ ابوداود، حدیث: ۱۸۰۶)
اس حدیث شریف سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج قران کیا تھا کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم عمرہ سے اس وقت تک حلال نہ ہوئے جب تک کہ حج سے حلال نہ ہو گئے اور ایسا حج قران ہی میں ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی روایتیں ہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود اپنے حج کی وضا حت کرتے ہوئے “قران” فر مایا ۔ ان سب کے باوجود تینوں طریقے کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ کسی بھی طریقے سے کرے درست ہے البتہ وہ لوگ جو حج کی طاقت رکھتے ہوئے حج نہیں کرتے ان کی بڑی مذمت آئی ہے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جو طاقت ہونے کے باوجود حج نہ کرے تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر۔ ( ترمذی،حدیث: ۸۱۲)
اللہ تعالی ہم سب کو ایمان وادب کے ساتھ زیارت حر مین شریفین کی سعادت سے بار بار بہرہ ور فر مائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment