شرک کسے کہتے ہیں ؟
لفظ شرک مصدر مشتق ہے اسکی اصل ، ش ، ر ، ک ، ہے لغت میں اس کے معنی حصہ یا سانجھے کے ہیں یہ لفظ مختلف سیاق وسباق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہ باب مفاعلہ سے بزنس پارٹنر شپ کے لیئے شراکتی کاروبار کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور باب تفعیل سے ایامِ تشریک مشہور لفظ ہے ۔
لفظ شرک بارگاەِ الوہیت میں حصہ یا برابری کے سیاق پر کہا جاتا ہے یعنی اللہ کے مقابلے پر کسی مخلوق کو خدا یا پھر خدا کی خدائی میں حصہ دار کہا جائے تو شرک کہا جاتا ہے شرک کی تعریف میں دو گروە ہیں پہلے ایک گروە کی تعریف پڑھیے :
(1) اللہ کی صفات مخلوق میں ماننا شرک کہلاتا ہے ۔
واضح رہے کہ شرک یہ تعریف تعریف ایسی کتابوں میں ہے جن میں وحدانیت کے نام پر شانِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کا مزاک اڑایا گیا ۔ خیر تعریف آپ نے پڑھ لی مگر اس تعریف میں ایک مسئلہ ہے وە یہ کہ جب ہم اللہ کی صفات غیر اللہ یعنی مخلوق میں دیکھتے ہیں تو شرک کا تدارک ممکن نہیں رہتا مثال کے طور پر :
اللہ سمیع ہے میں اور آپ بھی سمیع ہیں
اللہ بصیر ہے میں اور آپ بھی بصیر ہیں
یعنی اللہ بھی سنتا ہے میں اور آپ بھی سنتے ہیں
اللہ بھی دیکھتا ہے میں اور آپ بھی دیکھتے ہیں
تو کیا فرق رہا ؟
الوہیت تو ہر طرح کی مثلیت سے پاک ہے پھر یہ کیسے ؟
چلیں یہ عقل کی اختراع ہے میں کچھ امثال قرآن سے دیتا ہوں :
(1) الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العٰلَمينَ ۔ ترجمہ : تمام تعریفیں اللە کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ (سورہ فاتحہ)
وَقُل رَبِّ ارحَمهُما كَما رَبَّيانى صَغيرًا(الأسر) ۔ ترجمہ : اے اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرما بلکل ویسے جیسے انہوں نے مجھے پالا میرے بچپن میں ۔
لیجیے جناب یہاں "رب" کا لفظ اللە کی صفت بھی ہے اور ماں باپ کی بھی مگر ہیں دونوں قرآن سے اور ماں باپ کو "رب" اللہ ہی نے خود فرمایا ہے نہ کہ کسی اور نے ۔
(2) وَنَحنُ أَقرَبُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَريدِ (سورہ ق) ۔ ترجمہ : اور اللە ان کی شہ رگ سے زیادە قریب ہے ۔
النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم ۔ (سورہ الاحزاب) ۔ ترجمہ : نبی صلی الله علیہ وسلم موٴمنوں کی جان سے زیادە قریب ہیں ۔
اس مثال میں اللە بھی قریب ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم بھی اور اصولِ تفسیر کے علماٴ کہتے ہیں کہ "اولی" اقرب سے زیادە قرابت کے معنی رکھتا ہے ۔ لیجیے یہاں کہانی ہی اور ہے کیا کہا جاۓ گا ؟
(3) إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ۔ (سورہ البقرة) ۔ ترجمہ : بے شک اللە بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيم ۔
بے شک تمہارے پاس تشریف لاۓ اللہ کے رسول تمہارے ہی میں سے جو تمہارا مشقت میں پڑنا گوارە نہیں کرتے اور مومنوں پرمہربان ہیں اور رحم کرنے والے ۔ (سورہ توبہ)
لیجیے جناب ادھر تو اللہ عز و جل بھی رؤف و رحیم ہے اور اللہ عز وجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بھی رؤف و رحیم ۔
(4) لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ ۔ (سورہ الأنعام) ۔ ترجمہ : کوئی عبادت کے لائک نہیں مگر الله (جو) ہر چیز کا خالق ہے ۔
أَنّى أَخلُقُ لَكُم مِنَ الطّينِ (سورہ اٰل عمران) ۔ ترجمہ : عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ بے شک میں پیدا کرتا ہوں مٹی سے (پرندے) ۔
لیجیے جناب الله فرماتا ہے ہر چیزکو میں پیدا کرتا ہوں عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں میں پیدا کرتا ہوں ۔ ہے بھی قرآن کیا کہا جائے گا ؟ شرک ؟ نہیں بلکہ يه تو عین توحید ہے ۔
اہلِ مناطقہ سے ایک عرض ہے کہ ذرە ان آیات کو باالترتیب قضیہ اول اور قضیہ دوم پہ رکھ کر اقتضاۂ حال کا حال تو لکھیں ذرە میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کتنے بیس سو ہوتا ہے ۔ تو یقینا آپ کتابوں میں کی گئی غلط شلط تعریف کاحال دیکھ ہی چکے ہونگے اب آپ علمائے حق کی کی ہوئی تعریف پڑھیے اور اس تعریف اور اس من گھڑت شرک کی تعریف میں علمی فرق دیکھیئے :
(2) اللہ تعالیٰ جیسی صفات غیر اللہ میں ماننا خدا یا خدائی میں حصے دار سمجھ کر ۔
اگر آپ نے توجہ سے پڑھی ہے تعریف تو یقینا مزید وضاحت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیوں کہ حق کی خوبی یہی ہے اسے سمجھایا نہیں جاتا بلکہ سمنجھ آجاتا ہے خود ہي ۔
اب آپ پہلے ایک اصطلاح سمجھیئے : جس کے بعد آپ بآسانی سمجھ سکیں گے کہ پیچھے جو آیات میں نے بطورِ تمثیل ذکر کی ہیں ان میں اشکال جو هے وه کیسے حل ہو گا ۔ ایک ہوتا ہے حقیقت دوسرا ہوتا ہے مجاز ۔ اس اصطلاح کو یوں سمجھیئے کہ اوریجنل ڈاکومنٹس کو حقیقت اور فوٹو کاپی کو مجاز کہتے ہیں ۔
تعریف کچھ یوں ہے : اما الحقيقة فاسم لكل لفظ اريد به ما وضع له وحكمه وجود ماوضع له خاصا كان المكلفون و اما المجاز فاسم لما اريد به غيرما وضع له لمناسبة بينهما
وحكمه وجود مااستعيرله خاصاكان او عاما ۔ (متن نورالانوار صفحہ 98-99،چشتی)
ترجمہ : ہر وە شئی جس کا نام اس میں موجود خاصیت کی وجہ سے رکھا گیا ہو اسے حقیقت کہتے ہیں اور اگر کسی اور شیئ میں اسی طرح کی عارضی صفت پائی جاۓ اسے مجاز کہتے ہيں ۔ الفاظ کے فرق سے میر قطبی میں بھی یہی لکھا ہے ۔ (میر قطبی ص نمبر 183 طبع قدیم دہلی)
اب ان مثالوں کو سمجھیئے کہ حقیقی طور رب اللہ ہی ہے مگر پالنے کی مماثلت میں ماں باپ بھی کو اللہ نے رب فرمایا ہے ۔ ایسے ہی حقیقی خالق اللہ وحدە لا شریک ہے مگر اللہ کے عطا کردە معجزە سے عیسی علیہ السلام بھی پیدا کرتے تھے ۔ اسی طرح تمام امثال حقیقت اور مجاز کے تحت ہیں ۔ اسی قانون کے تحت انبیا علیہم السلام یا اولیاٴ سے استمداد اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو سکتی اللہ کی عطا کے سوا نا ممکن ہے تو پھر کیا اعتراض ہے کسی کو اللہ تعالیٰ کےمحبوب صلی الله علیہ وسلم کے مشکل کشا ہونے پر ؟ کہ وە ذاتی نہیں عطائی ہے من اللہ ہے اور جب مان ہی اللہ کا دیا ہوا رہے ہیں تو شرک کیسا ؟
ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ معطی و انا قاسم ۔ یعنی اللہ دیتا ہے اور میں بانٹتا ہوں ۔ (صحیح بخاری)
یقین ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شرک کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جیسی صفات نہ کہ اللہ کی صفات غیر اللہ میں ماننا شرک ہوتا ہے ۔
قرآن میں اسی طرح اللہ جیسی صفات کو کسی بت یا بندے میں ماننے سے منع کیا گیا ہے قرآن نے شرک کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں مضمون پہلے ہی کافی طویل ہو گیا ہے اب صرف اجمالی طور ذکر کرکے مثال پش کردیتا ہوں :
(1) شرک بمعنی حصه
أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ ۔ (سورہ فاطر) ۔ ترجمہ : کیا ان بتوں کا آسمانوں میں حصہ ہے؟
اسی طرح سورە روم میں آیت نمبر ٢٨
سورەٴ زمر آیت نمبر ٢٩
سورەٴ نساٴ آیت نمبر ١١٢
سورەٴ بقرە آیت نمبر ٢٢١
سورەٴ توبہ آیت نمبر ١٧
(2) دوسرا معنی شرک بمعنی سانجھہ یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا یہ کفر سے خاص ہے اور قرآن میں یہ معنی سب سے زیادە مراد لیا جاتا ہے مثال : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فيما اتهُما ۔ (سورہ الأعراف) ۔ ترجمہ : اور ان دونوں نے برابر کردی وە نعمت جو رب نے انہیں دی ۔
اس کے علاوە
سورەٴ انعام آیت نمبر ١٢٨
سورەٴ لقمان آیت نمبر ١٣
سورەٴ یوسف آیت نمبر ١٠٢
وغیرہم سینکڑوں آیات میں شرک خاص مراد ہے
(3) تیسرا معنی یہ ہے کہ خود زمانے کو موثر ماننا یہ بعض مشرکین کا عقیدە تھا اس زمانے میں جن کو دھریہ یا نیچری کہا جاتا ہے ۔
وَقالوا ما هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ۔ (سورہ الجاثية) ۔ ترجمۃ وە بولے خدا تو نہیں ہےمگر یہی دنیا ہے کہ ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں اور انكو علم نہیں ۔
وە آیات جن میں عالم کے عجائبات پرغور و فکركا حکم ہے اِنہیں دھریے قسم کے لوگوں کے لیئے ہیں ۔
(4) چوتھا یہ کہ ہر چیز کا خالق تو اللہ ہے مگر وە وە ایک بار پیدا کر کے تھک گیا ہے ۔ (نعوذ با اللہ)
اور اب جہان کو چلانے والے ہمارے بت ہیں مشرکین مکہ میں کچھ لوگ بھی يه عقیدە رکھتے تھے ۔ جس کی تردید میں یہ آیات نازل ہوئیں : وَلَقَد خَلَقنَا السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ ۔ (سورہ ق)
ترجمہ : اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمیں اور کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکاوٹ نہ ہوئی ۔
اسی مضمون کی دیگر آیات ان سورتوں میں موجود ہیں
سورەٴ ق آیت نمبر ١۵
سورەٴ احقاف آیت نمبر ٣٣
سورەٴ یٰسین آیت نمبر ٨٦
(5) شرک کی پانچویں قسم کہ عالم کا مالک و خالق تو اللہ تعالیٰ ہے مگر اتنے بڑے جہان کو وە اکیلا نہیں چلا سکتا جیسے دنیا میں بادشاە محکمے بانٹ دیتے ہیں وزیروں کو ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ بتو میں خاص کر دیئے ہیں بارش ٬ رزق ٬ دھوپ ٬ہوا وغیرە کے لیئے اس عقیدے کے رد کے لیئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَما يُؤمِنُ أَكثَرُهُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِكونَ ۔ (سورہ يوسف)
ترجمہ : ان مشرکین میں بہت سے ایسے ہیں جو کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں مگر شرک کرتے ہوئے ۔
اس قسم کے مشرکین کےلیئے مزید ان آیات میں تنبیہات ہیں
سورەٴ عنکبوت آیت نمبر ٦١
سورەٴ مومنون آیت نمبر ٨٨
سورەٴ زخرف آیت نمبر ٩
سورەٴ مومنون آیت نمبر٨۵
اور بہت سی دیگر آیات تو دوستو شرک تمام حقیقت فقیر نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے
ان میں کوئی آیت نہ انبیا علیہم السّلام کو پکارنے کو شرک قرار دیتی ہے نا اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی مشکل کشائی کو تو عجیب ہیں وە لوگ جو محض جہالت کے کے زور پر شرک کا رٹہ لگاتے ہیں اور میں یقین سے کہتا ہوں اگر آپ اس بندے سے شرک تعریف ہی پوچھ لیں تو چپ لگے گی کہ کبھی منہ نہ کھلے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکو کاروں میں رکھے اور جملہ فتنوں سے بچائے آمین۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment