مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نرمی وشفقت،ایثار و تحمل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر Moderation اعتدال و توازن آتا ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ وہی معاشرے مستحکم، پرامن، متوازن اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں جو اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور شدید مصائب و آلام کے حالات میں صبرو استقامت اختیار کرنا ہے ۔
اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو آداب و اخلاق خود سکھائے۔ ارشاد فرمایا : خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ (الاعراف : 199)
ترجمہ : آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ۔ (الاعراف : 199)
یعنی اگر بداعمال، بداخلاق اور ناروا سلوک کرنے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادتی کریں تو آپ ان سے اعراض کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام ! اللہ رب العزت کے اس حکم کی کیا منشاء ہے؟ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں پیغام بھیجنے والے مولا کے پاس جاکر اس کا معنی دریافت نہ کروں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام واپس گئے ۔ اللہ رب العزت سے اس آیت کریمہ کا معنی پوچھ کر واپس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : يامحمد! ان الله تعالیٰ يامرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک ۔
ترجمہ : (یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اس شخص کوجو آپ پر زیادتی کرے، معاف فرمادیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے، آپ اس کو عطا فرمائیں۔ جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں ۔ (قرطبی، تفسير قرطبی،7 : 345)
یعنی اگر کوئی خونی رشتہ دار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادتی کرے، رشتے کو کاٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کٹے ہوئے خونی رشتے کو حسن اخلاق سے جوڑ دیں، سوسائٹی کا کوئی شخص اگر کسی زیادتی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حق سے محروم کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اپنی سخاوت کے باعث اسے عطا کرنے سے گریز نہ کریں اور اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے درگزر کرتے ہوئے معاف کردیں، انتقام نہ لیں ۔
قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کرام کے صبر کی مثال دیتے ہوئے اخلاق حسنہ کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ۔
ترجمہ : پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کیے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا ۔ (الاحقاف : 35)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بڑے خوش اخلاق تھے ، ایک روز مجھے کسی ضرورت کے لئے بھیجا ، میں نےکہا خدا کی قسم نہیں جاؤں گا اور میرے دل میں تھا کہ جو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دیا ہے اس کے لئے ضرور جاؤں گا ( حضرت انس ؓ اس وقت بچے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں ہی رہا کرتے تھے ،)پھر میں نکلا اور میرا گذر کچھ بچوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے ، ( میں وہاں رکا ہوا تھا ) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اچانک میرے سر کے بال پیچھے سے پکڑے ، جب میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہنستا ہوا پایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا انس تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے تم کو بھیجا تھا ، میں نےکہا جاؤں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ ( مشکوۃ،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اس وقت سے کی ہے جب میں آٹھ برس کا تھا ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت دس برس تک کی آپ نے کبھی بھی مجھے کسی بات پر ملامت نہیں کیا ، اگر اہل بیت میں سے کسی نے ملامت کیا بھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اس کو چھوڑ دو اگر تقدیر میں کوئی بات ہوتی ہے توو ہ ہو کر رہتی ہے ۔ ( مشکوۃ)
ایک روایت میں ہے کہ زید بن شعنہ پہلے یہودی تھے ، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ نبوت کی نشانیو ں میں سے کوئی ایسی نہیں رہی جس کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نہ دیکھ لیا ہو ، سوائے دو علامات کے جس کے تجربے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی تھی ، ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غصے پر غا لب ہو گا ، دوسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ کوئی جتنا بھی جہالت کا برتاؤ کرے گا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تحمل اسی قدر زیادہ ہو گا ، میں ان دونوں کے امتحان کا موقع تلاش کرتا رہا ، اور آمد ورفت بڑھاتا رہا ، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حجرے سے باہر تشریش لائے حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ تھے ایک بدوی شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میری قوم مسلمان ہو چکی ہے اور میں نے ان سے مسلمان ہو جانے کے بعد رزق کی فراوانی کا وعدہ کیا تھا ، جبکہ ابھی قحط کی حا لت ہے ، مجھے ڈر ہے کہیں وہ اسلام سے نہ پھر جائیں اگر ان کی کچھ اعانت کر دی جائے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا انہوں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت تو کچھ موجود نہیں ، زید (جو اس وقت تک یہودی تھے اس منظر کو دیکھ رہے تھے ) کہنے لگے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ فلاں شخص کے باغ کی اتنی کھجوریں وقت معّین پر مجھے دے دیں تو میں پیشگی قیمت ادا کر دیتا ہوں اور وقت ّ معیّن پر کھجور لے لوں گا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا البتہ اگر باغ کی تعیین نہ کرو تو میں معاملہ کر سکتا ہوں ، میں نے اس قبو ل کر لیا اور اس کے بدلے کھجوروں کی قیمت اسّی مثقال سونا دے دیا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وہ سونا اس بدوی کے حوالے کر دیا اور اس سے کہا کہ انصاف کی رعایت رکھنا اور اس سے ان کی ضرورت پوری کرنا ۔ زید کہتے ہیں جب کھجوروں کی ادائیگی میں دو تین دن باقی رہ گئے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے ساتھ جن میں حضرت ابو بکر، عمر ، عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے ، کسی جنازے کی نماز سے فارغ ہو کر ایک دیوار کے قریب تشریف فرما تھے ، میں آیا اور آپ کے کرتے اور پلّو کو پکڑ کر نہایت ترش روئی سے کہا اے محمد!آپ میرا قرض ادا نہیں کرتے ، خدا کی قسم میں تم سب اولاد عبد المطلب کو اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ بڑے نادہندہ ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصہ سے مجھے گھُورا اور کہا اے خدا کے دشمن یہ کیا بک رہا ہے ؟ خدا کی قسم اگر مجھے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ڈر نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہایت سکون سے مجھے دیکھ رہے تھے اور تبسّم کے لہجے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عمر میں اور یہ ایک اور چیز کے زیادہ محتاج تھے ، وہ یہ کہ مجھے حق ادا کرنے میں خوبی برتنے کو کہتے اور اس کو مطالبہ کرنے میں بہتر طریقے کی نصیحت کرتے ،جاؤ اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دو اور جو تم نے اسے ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں اس کو بیس صاع ( تقریباًٍ دو من کھجوریں ) زیادہ دینا ، حضرت عمر مجھے لے گئے اور پورا مطالبہ اور بیس صاع کھجوریں زیادہ دیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہ بیس صاع کیسے ،حضرت عمر ؓ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہی حکم ہے ، زید نے کہا عمر تم مجھے پہچانتے ہو ،؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں ۔ میں نے کہا کہ میں زید بن شعنہ ہوں ، انہوں نے کہا جو یہود کا بڑا علامہ ہے؟ میں نے کہا ہاں وہی ہوں انہوں نے کہا اتنا بڑا آدمی ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تم نے یہ کیسا سلوک کیا ؟ میں نے کہا علامات نبوت میں سے دو علامتیں ایسی رہ گئی تھیں جن کے تجربے کا مجھے موقع نہیں ملا تھا ، ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حلم آپ کے غصے پر غالب ہو گا اور دوسری یہ کہ ان کے ساتھ جہالت کا برتاؤ ان کے حلم کو بڑھائے گا ، اب ان دونوں کا بھی امتحان کر لیا اور اب میں آپ کو اپنے اسلام کا گواہ بنا تا ہوں ،اور میرا آدھا مال امت محمدیہ پر صدقہ ہے ، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے ، اس کے بعد بہت سے غزاوات میں شریک ہوئے اور غزوۂ تبوک میں شہید ہوئے ۔ ( جمیع الفوائد ، خصائل نبوی،چشتی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ جا رہا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گردن مبارک میں سخت کناروں والی نجرانی چادر تھی ، ایک اعرابی آیا اور اس چادر کو پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کھینچنے لگا اور چادر کو سختی سے لپیٹنے لگا ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گردن مبارک کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گردن اس سخت چادر کی وجہ سے چھیل گئی تھی ، اس کے بعد اس اعرابی نے کہا ، اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیجئے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کی طرف دیکھ تبسّم فرمایا اور مجھے اس کو دینے کا حکم دیا ۔ (مدارج النبوۃ)
ایک مرتبہ مکہ میں قحط پڑا لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہوئے ابو سفیان جو ان دنوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سخت ترین دشمن تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں آئے اور کہا" محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تم لوگوں کو صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے اپنے خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے ، اگرچہ قریش کی ایذارسانیا ں اور شرارتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں لیکن ابو سفیان کی بات سن کر حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فوراً دعا کے لئے دست مبارک اٹھا ئے ،اللہ تعالٰی نے اس قدر بارش نازل فرمائی کہ جل تھل ہو گیا ، اور قحط دور ہو گیا ۔ ( صحیح بخاری :تفسیر سور ہ ٔ دخان)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جزاک اللہ خیرا
ReplyDelete