استمداد اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ
اﷲ تعالی بالذات و حقیقی مددگار ہے اور اس کے بندے اس کی عطا سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو بندوں کا مدد کرنا غیر حقیقی ہے حقیقت میں مدد اﷲ تعالٰی ہی فرماتا ہے یہ بندے تو صرف سبب ہیں کیونکہ دنیا اسباب کی جگہ ہے اﷲ تعالی نے ہر چیز کا ایک سبب مقرر فرمایا ہے جیسے بارش کیلئے بادل، روشنی کے لئے سورج، کھیتی باڑی کے لئے اس کے اسباب الغرض ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے جیسے موت دینا یہ اﷲ تعالی کی شان مبارک ہے مگر کہا جاتا ہے کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا تو کیا حقیقۃ پولیس والوں نے انہیں موت دی ہے تو ہر مسلمان یہ ہی کہے گا کہ اﷲ تعالی نے ہی حقیقۃ انہیں موت دی ہے یہ تو صرف سبب بنے ہیں اسی طرح موت کا فرشتہ بھی حقیقۃ موت نہیں دیتا بلکہ وہ بھی سبب ہے اور اﷲ کے حکم و قدرت سے ہی موت دیتا ہے تو کیا یہ کہنا شرک ہوا کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا اسی طرح کوئی مریض مر رہا ہو اور ڈاکٹر اس کا علاج کر کے بچالے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کو موت کے منہ سے بچا لیا یا ڈاکٹر نے اسے نئی زندگی دی ہے تو کیا یہ کہنا بھی شرک ہوگا حالانکہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہوتا ہے حقیقۃ ڈاکٹر نے بچایا ہے اسی طرح ہم لوگوں کا یوں کہنا ’’ بارش یا سیلاب نے تباہی مچادی ‘‘اور اسی طرح کے مختلف جملے تو ان تما م جملوں میں ہم صرف سبب کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر یہ تمام کام اﷲ تعالی کے حکم سے ہیں اسی طرح ہمارا انبیا ء واولیاء کرام سے مدد مانگنا بھی اسی معنی پر ہے کہ حقیقی مدد اﷲ ہی کی ہے مگر یہ تو صرف سبب ہیں وسیلہ ہیں اور صفات الہی کا مظہر ہیں لہذا یہ بھی شرک نہیں ہے اور خود پروردگار عزوجل نے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا اﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدوا اﷲ توابا رحیما ۔اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول، تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں گے ۔ (القرآن الکریم پارہ نمبر 5 )
کیا اللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا ۔ پھریہ کیوں فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضرہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تو یہ دولت ونعمت پائیں گے۔ یہی ہمارا مطلب ہے۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے کہ اﷲ تعالی اپنے حبیب کی شان عظمت ورفعت بتلانا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ تم کبھی بھی ڈائریکٹ مت ہونا بلکہ حضور کے وسیلہ سے ہی رب کی بارگاہ عالی میں آنا تو تم رب کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاؤ گے ۔
قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ۱ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ۱ وَ اشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ (سورہ العمران ۵۲)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو
کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے۔ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے ۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ
تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔ ( سورہ مائدہ ۵۵)
’’فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰیہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ۱ وَ الْمَلآیِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ ‘‘ترجمہ کنزالایمان:تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔[سورہ تحریم آیت ۴]
:وتعاونوا علی البر والتقوٰی آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔ (القرآن الکریم)
کیوں صاحب ! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقا محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا ۔
جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے’’إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم‘‘[جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰] اور اسی حدیث کو علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں نقل فرما یا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
اور اگر کوئی بدمذہب پھر اس بات کو نہ ماننے اور کہے کہ جو بھی غیر اﷲ سے مدد مانگے خواہ کسی بھی عقیدے سے مانگے تو اس نے شرک کیا تو اس سے کہیے کہ جناب آپ ان حضرات کے بارے میں بھی مشرک ہونے کے فتوی لیکر آئیں اور انہیں بھی مشرک کہیں جنہوں نے انبیاء واولیاء کرام سے مدد مانگنے کو جائز فرمایا ہے اور خود مدد بھی مانگی ہے ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا : لیت شعری چہ می خواہند ایشاں باستمداد وامداد کہ این فرقہ منکر ند آں را آنچہ مامی فہمیم ازاں این ست کہ داعی دعاکنند خدا وتوسل کند بروحانیت این بندہ مقرب را کہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدا کہ بدہد مسؤل ومطلوب مرا اگر ایں معنی موجب شرک باشد چنانکہ منکر زعم کند باید کہ منع کردہ شود توسل وطلب دعا از دوستانِ خدا درحالت حیات نیز واین مستحب است باتفاق وشائع است در دین و آنچہ مروی و محکی است از مشائخ اہل کشف دراستمداد از ارواح کمل واستفادہ ازاں، خارج از حصراست ومذکور ست درکتب و رسائل ایشاں ومشہور ست میاں ایشاں حاجت نیست کہ آنرا ذکرکنیم وشاید کہ منکر متعصب سود نہ کند اور اکلماتِ ایشاں عافانا اللہ من ذٰلک کلام دریں مقام بحد اطناب کشید بر غم منکراں کہ درقرب ایں زماں فرقہ پیدا شدۃ اند کہ منکر استمداد واستعانت را از اولیائے خدا ومتوجہاں بجناب ایشاں را مشرک بخدا عبدۃ اصنام می دانند و می گویند آنچہ می گویند اھ ملتقطا۔
ترجمہ : نہ معلوم وہ استمداد وامداد سے کیاچاہتے ہیں کہ یہ فرقہ اس کامنکر ہے۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا خدا سے دعا کرتا ہے او ر اس بندہ مقرب کی روحانیت کو وسیلہ بناتا ہے یا اس بندہ مقرب سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست ! میری شفاعت کیجئے اور خدا سے دعا کیجئے کہ میرا مطلوب مجھے عطا فرمادے اگر یہ معنی شرک کا باعث ہو جیسا کہ منکرکا خیال باطل ہے تو چاہئے کہ اولیاء اللہ کو ا ن کی حیات دنیا میں بھی وسیلہ بنانا اور ان سے دعا کر انا ممنوع ہو حالانکہ یہ بالاتفاق مستحب ومستحسن اور دین معروف ومشہور ہے۔ ارواح کاملین سے استمداد اور استغفار کے بارے میں مشائخ اہل کشف سے جو روایات و واقعات وارد ہیں وہ حصر و شمار سے باہر ہیں اور ان حضرات کے رسائل وکتب میں مذکور اور ان کے درمیان مشہور ہیں، ہمیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شائد ہٹ دھرم منکر کے لیے ان کے کلمات سود مند بھی نہ ہو خدا ہمیں عافیت میں رکھے اس مقام میں کلام طویل ہوا اور منکرین کی تردید وتذلیل کے پیش نظر جو ایک فرقہ کے روپ میں آج کل نکل آئے ہیں اور اولیاء اللہ سے استمداد واستعانت کا انکار کرتے ہیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں توجہ کرنے والوں کو مشرک و بت پرست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں ۔ (اشعۃ اللمعات باب حکم الاسراء جلد۳فصل ۱ص۶۰۱مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر،چشتی)
جزا کم اﷲ عن ذٰلک مرافقتہ فی جنتہ وایانا معکما برحمۃ انہ ارحم الراحمین وجزا کم اﷲ عن الاسلام واھلہ خیر الجزاء ، جئنا یا صاحبی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زائرین لنبینا وصدیقنا وفاروقنا ونحن نتوسل بکما الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیشفع لنا الٰی ربنا ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی آپ دونوں صاحبوں کو ان خوبیوں کے عوض اپنی جنت میں اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہمیں بھی، بیشک وہ ہر مہر والے سے زیادہ مہر والا ہے۔ اللہ آپ دونوں کو اسلام واہل اسلام کی طرف سے بہتر بدلہ کرامت فرمائے، اے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں یارو! ہم اپنے نبی اور اپنے صدیق اور اپنے فاروق کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آپ دونوں سے توسل کرتے ہیں تاکہ حضور ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں ۔ (الاختیار والتعلیل مراقی الفلاح فتاوی عالمگیری)
اپنے مشائخ حدیث وطریقت سے اجازت حاصل کرتے ہیں زیادہ نہ سہی یہی دعائے سیفی جس کی نسبت شاہ ولی اﷲ نے لکھاکہ میں اپنے شیخ سے اخذ کی اور اجازت لی اسی کی ترکیب میں ملاحظہ ہوکہ جواہرخمسہ میں کیالکھاہے:نادعلی ہفت باریاسہ باریایکبار بخواند وآں اینست نادعلیا مظھرالعجائب تجدہ عونالک فی النوائب کل ھم وغم سینجلی بولایتک یاعلی یاعلی یاعلی۔نادعلی سات باریاتین باریاایک بارپڑھو اوروہ یہ ہے: پکارعلی کو جوعجائب کے مظہرہیں تو ان کو اپنے مصائب میں مدد گار پائے گا، ہرپریشانی اور غم ختم ہوگا آپ کی مدد سے یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (فتوح الغیب ضمیمہ جواہرخمسہ مترجم اردو نادعلی کابیان مطبعہ دارالاشاعت کراچی ص۴۵۳،چشتی)
علامہ رشید احمد گنگوہی سے کسی نے سوا ل کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟ ’’ یا رسول اﷲ انظر حالنا یا حبیب اﷲ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا ‘
یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العمم
تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳صفحہ ۵ )
علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اسکو نہ دئے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی اﷲ نے انہیں دی اور اﷲ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہوجائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے ) حی ہو(زندہو) یا میت (مردہ ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴صفحہ ۹۹)
منکرین استمداد اولیاء سے میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا حضرات جو استمداد اولیاء کے قائل ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ بھی مشرک ہیں یا معاذاللہ ان کو چھوٹ حاصل ہے ؟ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment