Sunday, 1 July 2018

درس قرآن موضوع آیت ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ

درس قرآن موضوع آیت ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ

وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوۡا مِنْہَا حَیۡثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَسَنَزِیۡدُ الْمُحْسِنِیۡنَ ۔ ﴿سورۃ البقرہ آیت نمبر 58﴾

ترجمہ : اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤپھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہواور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں ۔

وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ : اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہوجاؤ ۔ اس شہر سے ’’بیتُ المقدس‘‘ مراد ہے یا اَرِیحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور وہ اسے خالی کر گئے تھے ،وہاں غلے میوے بکثرت تھے ۔ اس بستی کے دروازے میں داخل ہونے کا فرمایا گیا اور یہ دروازہ ان کے لیئے کعبہ کی طرح تھا اور اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا گناہوں کی معافی کا سبب تھا ۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ’’حِطَّۃٌ ‘‘ کہتے جائیں (یہ کلمہ استغفار تھا) انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی اورسجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھنے کی بجائے مذاق کے طور پر’’حَبَّۃٌ فِی شَعْرۃٍ ‘‘ کہنے لگے جس کا معنیٰ تھا: بال میں دانہ ۔ اس مذاق اور نافرمانی کی سزا میں ان پر طاعون مسلط کیا گیا جس سے ہزاروں اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔ (تفسیرخازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸،۱/۵۶، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۵۳، تفسیر عزیزی (مترجم) ،۱/۴۵۶-۴۵۷،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر در منثور میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : (١) امام عبد الرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ ادخلوا ھذہ القریۃ ‘‘ میں قریہ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ (٢) وکیع الفریابی، عبد بن حمید ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ ’’ ادخلوا الباب ‘‘ میں باب سے مراد ہے تنگی دروازہ۔ ’’ سجدا ‘‘ سے مراد ہے ’’ رکعا ‘‘ یعنی رکوع کی حالت میں ’’ وقولوا حظۃ ‘‘ سے مراد ہے ’’ مغفرۃ ‘‘ یعنی مغفرت طلب کرتے ہوئے (لیکن) وہ اپنے سرین کے بل (گھسٹتے ہوئے) داخل ہوئے اور مذاق کرتے ہوئے (حطۃ کی بجائے) حنطۃ کہنے لگے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ’’ فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لہم ‘‘۔ (٣) امام ابن جریر نے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ ادخلوا ھذہ القریۃ ‘‘ سے بیت المقدس کے دروازوں میں سے وہ ایک دروازہ مراد ہے جس کو ’’ حطۃ ‘‘ کہا جاتا تھا۔ (٤) امام وکیع، الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے الکبیر میں اور ابو الشیخ نے ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ ان سے کہا گیا لفظ آیت ’’ ادخلوا ھذہ القریۃ ‘‘ یعنی اپنے سروں کو جھکاتے ہوئے داخل ہوں ’’ وقولوا حطۃ ‘‘ اور حطۃ کہتے رہو مگر وہ کہنے لگے ’’ حنطۃ حبۃ حمیرا، فیہا شعیرۃ ‘‘ یعنی گیہوں کا سرخ دانہ جس میں جو ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ’’ فبدل الذین ظلموا ‘‘۔ (٥) امام ابن جریر، طبرانی، ابو الشیخ اور حاکم نے ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ (الفاظ) کہے ’’ ھطی سمقانا اربۃ مزیا ‘‘ اور یہ عربی زبان میں گیہوں کے سرخ سوراخ والے دانے کو کہتے ہیں جس میں کالے رنگ کا جو ہو۔ (٦) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ وقولوا حطۃ ‘‘ سے مراد ہے کہ (اے اللہ) ہماری خطاؤں کو معاف کر دے۔ (٧) امام عبد بن حمید، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ ادخلوا ھذہ القریۃ ‘‘ سے مراد ہے اپنے سروں کو جھکاتے ہوئے ’’ وقولوا حظۃ ‘‘ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ (کہتے ہوئے) ۔ (٨) امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں عکرمہ کے طریق سے ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا کہ ’’ وقولوا حطۃ ‘‘ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ (کہتے ہوئے) (٩) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا کہ دروازہ قبلہ کی طرف تھا۔ (١٠) امام عبد بن حمید ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ حطۃ بیت المقدس کے دروازوں میں سے ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حکم فرمایا کہ (دروازہ میں) داخل ہو جاؤ حطۃ کہتے ہوئے اور دروازہ ان کے لیے چھوٹا کردیا گیا تھا تاکہ سر جھکا کر گزریں (لیکن) جب انہوں نے سجدہ کیا (یعنی سروں کو جھکایا) تو (بجائے حطۃ کے) حنطۃ کہنے لگے۔ (١١) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’ ادخلوا ھذہ القریۃ ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہم بیان کرتے تھے کہ وہ بیت المقدس کے دروازوں میں سے ایک دروازہ تھا لفظ آیت ’’ وقولوا حطۃ نغفرلکم خطیکم ، وسنزید المحسنین ‘‘ فرمایا کہ جو شخص خطا کار ہوگا اس کی خطاؤں کو بخش دیا جائے گا اور جو شخص نیک ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو (اور) زیادہ مقدر فرما دیں گے لفظ آیت ’’ فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لہم ‘‘ فرمایا کہ ان کے لیے ایک حکم بیان کیا گیا تھا پھر انہوں نے جان بوجھ کر حکم الٰہی کی مخالفت کی اور سرکشی کرتے ہوئے اور اللہ کے حکم کے خلاف جرأت کرتے ہوئے۔ نیکی کرنے والوں کی نیکی میں اضافہ (١٢) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ’’ وسنزید المحسنین ‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ جو تم سے پہلے نیکی کرنے والا تھا اس کی نیکیوں کو بڑھا دیا جائے گا اور جو خطا کار ہوگا اس کی خطاؤں کو ہم معاف کر دیں گے۔ (١٣) امام عبد الرزاق، احمد، بکاری، مسلم ، عبد بن حمید، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابو عبیدہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل کو یہ کہا گیا کہ دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے اور ’’ حطۃ ‘‘ کہتے ہوئے داخل ہوں تو انہوں نے حکم کو بدل دیا اور چوتڑوں کے بل گھسٹے ہوئے داخل ہوئے اور وہ (حطۃ کی بجائے) حبۃ فی شعرۃ کیا (یعنی جو میں گندم کا دانہ) (١٤) امام ابن جریر، ابن المنذر نے ابن عباس (رض) سے اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) (دونوں سے) روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ لوگ اس دروازہ میں چوتڑوں کے بل گھسٹے ہوئے داخل ہوئے جس میں ان کو سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے لفظ آیت ’’ حنطۃ فی شعیرۃ ‘‘ کہا۔ (١٥) امام ابو داؤد، الضیاء المقدسی نے المختارہ میں ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرمایا تھا لفظ آیت ’’ وادخلوا الباب سجدا وقولوا حطۃ تغفرلکم خطیکم ‘‘۔ (١٦) امام ابن مردویہ نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ (ایک دفعہ) ہم روات کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساتھ سفر کر رہے تھے جب رات کا آخری حصہ تھا تو ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کو ذات الحنظل کہا جاتا تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ اس رات والی گھاٹی کی مثال اس درواذہ کی سی ہے جس کیبارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ فرمایا تھا لفظ آیت ’’ وادخلوا الباب سجدا وقولوا حطۃ نغفرلکم خطیکم ‘‘ (١٧) امام ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ اس امت میں ہماری مثال نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی طرح ہے اور بنی اسرائیل میں حطۃ کے مکتوب کی طرح ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...