Sunday, 22 July 2018

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا خلق عظیم حصہ سوم

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا خلق عظیم حصہ سوم

زید بن سعنہ نامی یہودی آقا علیہ السلام کو دیئے گئے قرض کی قبل از وقت واپسی کا مطالبہ لے کر حاضر ہوا ۔ اس وقت قرض کی ادائیگی کا اہتمام آقا علیہ السلام کے پاس نہ تھا لیکن وہ یہودی مزید مہلت دینے کے لئے تیار نہ ہوا ۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم بیٹھ جاؤ میں تمہارے پاس ہی بیٹھا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے قرض کی واپسی کا سامان پیدا نہ فرمادے۔ نماز ظہر کا وقت تھا، اس دن کی ظہر سے لے کر اگلے دن کی فجر تک پانچ نمازوں کا وقت آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم صرف اس کی تالیف قلب اور اطمینان کے لئے گھر نہ گئے، نہ آرام فرمایا، اس کے پاس بیٹھے رہے تاکہ اس کو یہ وہم نہ ہوکہ مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو طعن و تشنیع کرنے لگے اور برا بھلا کہنے لگے کہ اس نے کل سے آقا علیہ السلام کو روک رکھا ہے اور انہیں تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا خبردار میرے رب نے مجھے کسی غیر مسلم پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے سے منع کررکھا ہے۔ اس نے زیادتی کی ہے تو کوئی بات نہیں، میرا اخلاق اور میرا منصب اجازت نہیں دیتا کہ میں اس سے بداخلاقی کروں ۔ اس نے آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے جب یہ کلمات سنے اور آپ کا حسن اخلاق اور طرزِ عمل دیکھا تو اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہا باخدا میں نے جو آپ کے ساتھ سلوک کیا اس کا ایک سبب تھا۔ میں یہودی ہوں، میں نے تورات میں پڑھ رکھا تھا کہ نبی آخرالزماں تشریف لائیں گے۔ ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔ ان کا مولد شہر مکہ ہوگا، ان کی ہجرت گاہ شہر مدینہ ہوگی۔ ان کی حکومت ملک شام کی حدوں تک پھیل جائے گی۔ ان کا کردار یہ ہوگا کہ نہ تو ان کی زبان میں ترشی ہوگی، نہ ان کے دل میں سختی ہوگی، نہ ان کی گفتگو میں کوئی سختی ہوگی، نہ فحش گو ہوں گے، نہ بے ہودہ بات کریں گے، نہ کسی کی زیادتی کا جواب زیادتی سے دیں گے۔ میں نے چونکہ تورات میں یہ اوصاف پڑھے تھے لہذا اس پڑھی ہوئی روایت کا امتحان لینے آیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی محمد بن عبداللہ اور وہی رسول آخرالزماں ہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان لوں۔ میں نے آپ کو سچا پایا ۔ (مشکوٰة المصابيح، 3 : 268، 5832)

نوٹ : اس پیراگراف کے تمام حوالہ جات نمبرز کے حساب سے آخر میں دیے گے ہیں : ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتاہے اسے اخلاق کہاجاتاہے ۔ یہ رویہ پسندیدہ اور شریفانہ ہے تو اسے حسنِ اخلاق کہاجائے گا۔ اگر نا پسندیدہ اور غیر مہذب ہے تو اسے بداخلاقی کہاجائے گا۔ اخلاق کا پوری زندگی پر اثر پڑتاہے۔ اس کی اہمیت کے مختلف پہلوہیں۔ قرآن وحدیث میں ان کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور اہل ایمان کو ان پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایاگیاہے کہ مومن انتہائی مہذب اور شائستہ ہوتاہے، دیانت دار اور امانت دار ہوتا ہے،کذب بیانی اور دروغ گوئی سے اس کی زبان آلودہ نہیں ہوتی۔ وہ کسی کے ساتھ مکر و فریب اور دغابازی نہیں کرتا،متوضع اور خاک سار ہوتاہے، نخوت اور گھمنڈ کا مظاہرہ نہیں کرتا، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں سے احترام سے پیش آتاہے، مظلوموں کی داد رسی کرتاہے۔ بیوی، بچوں، قرابت داروں اور پڑوسیوں کے حقوق اداکرتاہے۔اس طرح کی اخلاقی خوبیاں ایک مومن کی پہچان ہیں۔ ان کے بغیر ایک مومن صادق کا تصورنہیں کیاجاسکتا۔ رسول اللہ ﷺ اعلی اخلاق کے پیکر قرآن مجید نے جن اعلی اخلاقی اوصاف کا ذکر کیاہے، رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس کا عملی نمونہ تھی۔حضرت عائشہؓسے ہشام بن عامر نے درخواست کی کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔ انہوں نے جواب دیا:کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟میں نے عرض کیا کہ ہاں پڑھتاہوں۔ فرمایا:ان خلق نبی اللہ کان القرآن۔ ۱؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عین قرآن تھے۔ جن اعلی اخلاق کا قرآن میں ذکر ہے وہی رسول اللہ ﷺ کے اخلاق تھے۔ آپ کی زندگی ان کا عملی نمونہ تھی یہی بات ایک اور حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ کان خلقہ القرآن۔ ۲؎ آپ کے اخلاق مکمل قرآن تھے۔ حسن خلق کی فضیلت حسن خلق کی فضیلت میں بکثرت احادیث مروی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان المومن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ قائم الیل وصائم النھار ۳؎ ’’بے شک مومن اپنے حسن اخلاق کے ذریعہ وہ مقام حاصل کرلیتاہے جو قائم اللیل اور صائم النہار کا ہے‘‘۔ ’قائم اللیل‘ اس شخص کو کہاجاتاہے جو اپنی رات نماز تہجد میں گزارے،صائم النہار‘وہ جو دن میں مستقل روزے رکھے۔ یہاں نفل نماز اور روزوں کا ذکر ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسنِ اخلاق بڑی سے بڑی نفل عبادات کے برابر ہے۔ حسن کلام اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے جن اہم باتوں کا عہد لیاتھا ان میں ایک یہ تھی: وقولوا للناس حسنا (البقرہ:۸۳) ’’لوگوں سے اچھی طرح بات کہو‘‘۔ اس سے حسن کلام کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ مخاطب کو اپنے سے قریب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔اس میں نرمی، محبت، تہذیب و شائستگی جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ فلاں عورت کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتی اور روزے رکھتی ہے۔ صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے، لیکن (بدخلق ہے) اپنی زبان سے پڑوسیوں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔ آپ نے فرمایا وہ جہنم میں جائے گی۔ اس شخص نے کہا اے اللہ کے رسول اللہﷺ ایک دوسری عورت ہے۔ کہاجاتاہے کہ اس کے ہاں (نفل) نمازوں اور روزوں کا زیادہ اہتمام نہیں ہے۔ تھوڑا صدقہ پنیر جیسی چیز کا کردیتی ہے۔ لیکن (پڑوسیوں سے اس کا رویہ اچھاہے)اپنی زبان سے انہیں تکلیف نہیں دیتی۔ آپ نے فرمایا: وہ جنت میں جائے گی۔ ۴؎ حدیث میں زبان کوقابو میں رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت سہل بن سعدؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من یضمن لی مابین لحییہ ومابین رجلیہ أضمن لہ الجنۃ۔ ۵؎ ’’جوکوئی مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان(زبان) ہے اور اس چیز کی جو اس کے دو پیروں کے درمیان(شرم گاہ) ہے تومیں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔ ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے زبان او رعفت و عصمت کی حفاظت پر جنت کی ضمانت دی ہے۔ اس سے بڑی ضمانت اور کس کی ہوسکتی ہے؟ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کو میرے بارے میں سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟آپ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا اس سے۔ ۶؎ یہ درحقیقت زبان کے استعمال میں انتہائی محتاط رہنے کی ہدایت ہے۔ زبان کی حفاظت اسی وقت ہوگی جب کہ آدمی اذیت رسانی، لاف زنی، لایعنی، لغو اور بے دینی کی باتیں جیسی خرابیوں سے اسے محفوظ رکھے۔ غصہ سے اجتناب قرآن مجید میں اہل ایمان کے بارے میں ایک جگہ فرمایا وہ زمین و آسمان جیسی وسعت والی جنت کے مستحق ہوں گے۔ ان کی جو خوبیاں بیان ہوئی ہیں ان میں یہ تین خوبیاں بھی ہیں۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّہُ یُحِب ُّالْمُحْسِنِیْنَ (آل عمران:۱۳۴) ’’وہ غصہ کو پی جاتے ہیں، لوگوں کی زیادتی کو معاف کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتاہے‘‘۔ جب کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے یا اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ بے قابو ہوجاتاہے اور غیظ و غضب کا مظاہرہ کرنے لگتاہے۔ لیکن اہل ایمان کی خوبی یہ ہے کہ کوئی اپنے قول و فعل سے ان کو اذیت پہنچاتاہے، بدزبانی کرتاہے یا ان پر دست درازی کرتاہے تو فطری طور پر انہیں تکلیف تو ہوتی ہے اور غصہ بھی آتاہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ غصہ کا تلخ گھونٹ پی جاتے ہیں،۔ یہی نہیں بلکہ اس سے آگے وہ عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ غصہ نہ ہونا اور تحمل و برداشت سے کام لینا بڑی خوبی ہے۔ اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے کو معاف کودیاجائے۔ اس سے اونچا مقام یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیاجائے۔ اس کی مدد کی جائے جو فائدہ پہنچایاجاسکتاہے پہنچایا جائے۔ حدیث میں کہا گیاہے کہ انسان کی اصل جرأت و شجاعت مادی نہیں اخلاقی ہے۔ حضرت ابوھریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب۔ ۷؎ ’’طاقت ور (پہلوان) وہ نہیں ہے جو (مقابل کو)پچھاڑدے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے‘‘۔ غصہ پر قابو پانا اللہ تعالی کو بہت محبوب عمل ہے۔ اس سے وہ بے حد خوش ہوتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماتجرع عبدافضل عنداللہ من جرعۃ غیظ یکظمھا ابتغاء وجہ اللہ تعالی۔۸؎ ’’بندے نے ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیا جو اللہ کے نزدیک اس گھونٹ سے افضل اور برتر ہو جو اس نے اللہ کی رضا کی طلب میں غصہ کو فرو کرکے نوش کیا‘‘۔ بعض جامع احادیث بعض احادیث بڑی جامع ہیں۔ ان میں سے ہر حدیث میں ایک سے زیادہ اعلیٰ اخلاق اور ان کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اس طرح کی چند حدیثیں یہاں پیش کی جارہی ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: من ترک الکذب، وھو باطل۔ بنی لہ فی ربض الجنۃ ومن ترک المراء وھو محق بنی لہ فی وسط الجنۃ ومن حسن خلقہ بنی لہ فی اعلاھا۔۹ ’’جو کذب بیانی ترک کردے۔ اس لیے کہ جھوٹ بہرحال باطل عمل ہے، اس کے لیے جنت کے کنارے مکان بنایاجائے گا۔ جو حق پر ہونے کے باوجود نزاع اور جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایاجائے گا اور جس کے اخلاق اچھے ہوں اس کے لیے جنت کے بلند ترین مقام پر مکان بنایاجائے گا۔‘‘ ایک اور حدیث میں یہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انا زعیم ببیت فی ربض الجنۃ لمن ترک المراء وان کان محقا وببیت فی وسط الجنۃ لمن ترک الکذب وان کان مازحا و ببیت فی اعلیٰ الجنۃ لمن حسن خلقہ ۱۰؎ ’’میں ضامن ہوں جنت کے احاطہ میں مکان کا اس شخص کے لیے جو جھگڑا ترک کردے چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔ میں ضامن ہوں جنت کے وسط میں مکان کا جو جھوٹ چھوڑدے، چاہے وہ مذاق ہی کیوں نہ کررہاہو۔ اور میں ضمانت دیتاہوں جنت کے سب سے اونچے مقام پر مکان کی جو اپنا اخلاق بہتر کرلے۔‘‘ ان دونوں حدیثوں میں تھوڑا سافرق ہے کہ کس شخص کو جنت کا ابتدائی درجہ حاصل ہوگا اور کون وسط ِجنت کا مستحق ہوگا۔ یہ راوی کے بیان کا فرق بھی ہوسکتاہے۔ اس سے قطع نظر یہ بات مشترک ہے کہ جس شخص کا دامن دروغ گوئی سے پاک ہو اور جو نزاع اور فساد سے دور رہے وہ جنت کا حق دار ہوگا۔ آدمی کا جب کسی سے تنازعہ ہوتاہے تو خود کو برحق ثابت کرنے کے لیے وہ کذب بیانی سے کام لیتاہے۔کذب بیانی بہر حال غلط ہے۔اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی۔مذاق میں بھی اس سے بچنا چاہیے۔ جو شخص جھگڑے اور فساد سے دامن کش رہے اور اس کے لیے اپنا حق چھوڑنے کے لیے بھی تیار ہوجائے وہ نقصان اٹھاکر معاشرہ کو بگاڑسے بچاتاہے۔اس سے آگے جس کی زندگی حسن اخلاق سے آراستہ ہو اور جو ہر قدم پر اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دے اس کا مقام سب سے آگے ہے۔ جس کسی میں یہ تمام خوبیاں یا ان میں سے ایک خوبی بھی ہوتو رسول ﷺ نے اس کے لیے جنت کی ضمانت لی ہے۔ اس سے بڑی ضمانت اور کس کی ہوسکتی ہے؟ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أضمنوا لی ستاً من أنفسکم أضمن لکم الجنۃ۔ أصدقوا إذا حدثتم، واوفوا إذا وعدتم، وأدوا إذا ائتمنتم، واحفظوا فروجکم، وغضوا أبصارکم وکفوا أیدیکم۔ ۱۱ ’’تم اپنی طرف سے مجھے چھ باتوں کی ضمانت دو۔ میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتاہوں۔ جب بولو تو سچ بولو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو، جب تمہارے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اسے ادا کردو۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرواور اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔‘‘ یہ وہ اخلاقی خوبیاں ہیں جن سے انسان جنت کا مستحق ہوتاہے۔ یہاں ان کی تھوڑی سی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔ ۱۔ ’بولوتو سچ بولو‘صداقت اور راست بازی تمہاری پہچان ہو۔دروغ گوئی سے تمہاری زبان کبھی آلودہ نہ ہو۔بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔ حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ صداقت کی پابندی سے اللہ تعالی کے ہاں انسان’ صدّیق ‘ یاصادق القول قرار پاتاہے اور مستقل کذب بیانی سے اسے ’کذّاب‘ بڑا دروغ گو کا لقب دیاجاتاہے۔اسی لحاظ سے ان کا انجام بھی ہوگا۔حضرت عبداللہ بن مسعود راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: علیکم بالصدق فان الصدق یھدی إلی البر، وإن البر یھدی إلی الجنۃ، وما یزال الرجل یصدق ویتحری الصدق حتی یکتب عنداللہ صدیقا وإیاکم والکذب فإن الکذب یھدی الی الفجور وإن الفجور یھدی إلی النار وما زال الرجل یکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا۔ ۱۲ ’’سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلو، اس لیے کہ سچائی نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ بندہ سچ بولتاہے اور اس کے لیے سخت محنت کرتاہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے ’صدّیق‘لکھ دیاجاتاہے۔ تم جھوٹ سے بچو، کیوں کہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتاہے اور فسق و فجور جہنم تک پہنچاتاہے۔ بندہ مستقل جھوٹ بولتاہے اور جھوٹ ہی کے لیے سعی و جہد کرتارہتاہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اسے ’کذّاب‘ لکھ دیاجاتاہے۔‘‘ ۲۔وعدہ کرو تو پورا کر اور تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے اداکردو۔ یہ دونوں خوبیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ قرآن نے اہل ایمان کے اوصاف میں ان کا ایک ساتھ ذکر کیاہے۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُون (المعارج:۳۲ ) ’’جو اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ‘‘ امانت کئی طرح کی ہوتی ہے۔ راز کی بات بھی امانت ہے۔ مال کی امانت بھی ہوتی ہے۔ بیوی بچے کسی کی نگرانی میں ہوں تو وہ بھی امانت ہے۔ عہدہ و منصب اور حکومت بھی امانت ہے۔ اگر آدمی کو یہ اطمینان ہوکہ اس کی امانت محفوظ ہے، اس میں خیانت نہ ہوگی تو وہ سکون کے ساتھ عرصۂ حیات میں اپنی تگ و دو جاری رکھ سکتا اور ترقی کرسکتاہے۔ اسی طرح آدمی کا یہ اطمینان کہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی نہ ہوگی، جو عہد و پیمان ہواہے وہ لازما پورا ہوگا تو وہ بے خوف و خطر معاملہ کرسکتا اور آگے بڑھ سکتاہے۔ اس سے پورے معاشرے میں امن و سکون کا ماحول ہوگااور ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ ۳۔اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو اور اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔ حفاظت اس چیز کی کی جاتی ہے جو بہت قیمتی ہو اور اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔ عفت و عصمت بڑاگراں بہا اخلاقی سرمایہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی حفاظت کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن نے اہل ایمان کی ایک سے زیادہ مقام پر ستائش کی ہے: وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِیْنَ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاء ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُون (المومنون:۵،۷۔المعارج:۲۹،۳۰) ’’جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے یا اپنی باندیوں کے (کسی اور ذریعہ سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتے)اس پر ان کی ملامت نہیں ہے۔ ہاں جو اس کے علاوہ کسی اور کا خواہش مند ہو تو یہی لوگ اپنی حد سے نکلنے والے ہیں۔ ‘‘ مطلب یہ کہ اللہ کے نیک بندے اپنی عفت و عصمت کی نگہداشت کرتے ہیں کہ کہیں یہ آبگینہ ٹوٹ نہ جائے۔ وہ اپنے جنسی جذبہ کو ختم کرکے ترک دنیا اور رہبانیت کی راہ نہیں اختیار کرتے، بلکہ جائز حدود میں اس کو پورا کرتے ہیں۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیاجاسکتا۔ عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کی نگاہیں بھٹکنے نہ پائیں۔ نگاہ کی آوارگی سے قلب آلودئہ معصیت ہوتاہے۔ اس سے زنا اور بدکاری کی راہیں کھلتی ہیں۔ اس وجہ سے قرآن نے غضّ ِبصر اور عفت و عصمت کی حفاظت کا ایک ساتھ حکم دیاہے۔ قُل ْلِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور:۳۰، ۳۱) ’’اے پیغمبر!مومنوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور بے شک اللہ جو کچھ یہ کرتے ہیں اس کی خبر رکھتاہے۔مومنات سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ ‘‘ اس سے عفت اور پاک دامنی کے لیے غضّ بصر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ۶۔’اپنے ہاتھ روکے رکھو‘ اللہ نے طاقت دی ہے اور زورِ بازو عطاکیاہے تو کسی پر دست درازی نہ کرو۔ تمہارا وجود دنیا سے ظلم و جور مٹانے کے لیے ہے، تمہارے ہاتھ کبھی ظلم سے آلودہ نہ ہوں۔ مظلوم کی حمایت میں کمر بستہ رہو اور ظالم کو چیرہ دستی سے باز رکھو۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ ایک بار میں اپنے غلام کو مار رہاتھا۔ پیچھے سے آواز آئی :ابومسعود!جان لو! تمہیں اس غلام پر جتنی قدرت حاصل ہے اللہ تعالی اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتاہے۔ پلٹ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول(ﷺ)اب یہ غلام آزاد ہے۔ اللہ مجھ سے خوش ہوجائے۔ آپ نے فرمایا: اگر تم یہ اقدام نہ کرتے تو جہنم کی آگ کی لپیٹ میں آجاتے۔ ۱۳؎ یہ ان اخلاق عالیہ کی ایک جھلک ہے جن کی قرآن و حدیث میں تعلیم دی گئی ہے۔دعاہے کہ ہماری زندگیاں ان سے آراستہ ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ان پر جو بشارتیں دی ہیں ان کے حق دار ہوں۔ حواشی ۱۔ مسلم کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب جامع صلوۃ اللیل الخ۔ حدیث نمبر:۷۴۶) ۲۔مسند احمد:۷؍۳۹ حدیث نمبر۲۵۲۸۵) ۳۔ابودائود کتاب الادب، باب حسن الخلق۔ ۴۔ مشکوۃ، کتاب الآداب، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق بحوالہ احمد، بیہقی) ۵۔ رواہ الترمذی، مشکوۃ حدیث نمبر ۴۸۶۲ ۶۔بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان۔ حدیث نمبر:۶۴۷۴ ۷۔ بخاری کتاب الادب، باب الحذر من الغضب۔ مسلم کتاب البر والصلۃ، باب فضل من یملک نفسہ عندالغضب ۸۔ مسند احمد ۲؍۱۲۸، حدیث نمبر:۶۰۸۱ ۹۔ترمذی، ابواب البر والصلۃ۔باب ماجاء فی المراء، حدیث نمبر:۱۹۹۳ ۱۰۔ ابو دائود، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق۔ حدیث نمبر۴۸۰۰) ۱۱۔ مسند احمد:ج ۲؍۲۸۴، حدیث نمبر ۶۰۸۱۔ ورواہ ابن ابی الدنیا وابن حبان فی صحیحہ والحاکم والبیھقی وقال الحاکم صحیح الاسناد۔ اس کی سند میں کسی قدر سقم ہے۔ اس کے راوی مطلب بن عبداللہ کا حضرت عبادہؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح:۸؍۶۰۷۔ اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کی صحت قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ ۱۲۔ بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب قبح الکذب وحسن الصدق و فضلہ،حدیث نمبر۶۶۳۹۔ ۱۳۔ مسلم، کتاب الأیمان، حدیث نمبر:۴۳۰۸)(الحمد للہ مضمون مکمل ہوا)(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...