Thursday 12 July 2018

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

0 comments
نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

محترم قارئین : ہم نے نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کا ثبوت جب دیابنہ اور وہابیہ کے اکابرین اور قرآن و حدیث سے پیش کیا تو ایک فیس بکی وہابی مفتی نے لکھا کہ احمد رضا خان (یاد رہے وہابی جنہیں نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ادب و احترام کا خیال نہیں ہے تو بزرگوں کا احترام کب کریں گے) سے ثابت کرو حیرت ہے وہابیہ کی عقل پر یوں دعوے قرآن و حدیث کے اور جب قرآن و حدیث اور ان کے اکابرین کے حوالے پیش کیئے جائیں منکر ہو کر کہتے فلاں سے پیش کرو سو ہم امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل رسالہ پیش کر رہے ہیں جو کہ فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 30 میں موجود ہے پڑھیئے اور دیابنہ و وہابیہ کے فریب سے بچیئے :

رسالہ صلات الصفاء فی نورالمصطفٰی(۱۳۲۹ھ) (نور مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بیان میں صفائی باطن کے انعامات )

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

مسئلہ ۳۸ : از لشکر گوالیار محکمہ ڈاک دربار مرسلہ مولوی نور الدین احمد صاحب ۲۸ذیقعدہ ۱۳۱۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہ مضمون کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے پیدا ہوئے اوران کے نور سے باقی مخلوقات ، کس حدیث سے ثابت ہے اوروہ حدیث کس قسم کی ہے ؟بینوا توجروا(بیان کرواجر پاؤگے۔ت)

الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
اللھم لک الحمد یانور یانور النور یانور اقبل کل نور ونورا بعد کل نور یامن لہ النور وبہ النور ومنہ النور والیہ النور وھو النورصل وسلم وبارک عی نورک المنیر الذی خلقتہ من نورک و خلقت من نورہ الخلق جمیعا وعلٰی اشعۃ انوارہٖ واٰلہٖ واصحابہٖ نجومہٖ واقمارہٖ اجمعین (اٰمین)

اے اللہ !تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں، ا ے نور کے نور ، اے نور ہر نور سے پہلے اور، اے نور ہر نور کے بعد۔اے وہ ذات جس کے لئے نور ہے ، جس کے سبب سے نور ہے، جس سے نور ،جس کی طرف نور ہے اوروہی نور ہے ۔ درود وسلام اوربرکت نازل فرما اپنے نور پرجوروشن کرنے والاہے ۔ جس کو تو نے اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ اورتمام مخلو ق کو اس کے نور سے پیدا فرمایا۔ اوراس کے انورا کی شعاعوں پر اور اس کے آل واصحاب پر جو اس کے ستارے اورچاند ہیں۔ سب پر۔ اے اللہ !ہماری دعا کو قبول فرما۔(ت)

امام اجل سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شاگرد اورامام ابجل سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے استاذ اورامام بخاری وامام مسلم کے استاذ الاستاذ حافظ الحدیث احد الاعلام عبدالرزاق ابو بکر بن ہمام نے اپنی مصنف میں حضرت سیدنا وابن سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی : قال قلت یارسول اللہ بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیئ خلقہ اللہ تعالٰی قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہٖ فجعل ذٰلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ تعالٰی ولم یکن فی ذٰلک الوقت لوح ولا قلم ولاجنۃ ولا نار ولا ملک ولاسماء ولاارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انسی، فلما اراداللہ تعالٰی ان یخلق الخلق قسم ذٰلک النور اربعۃ اجزاء فخلق من الجزء الاول القلم ، ومن الثانی اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع اربعۃ اجزاء فخلق من الجزء الاول حملۃ العرش ومن الثانی الکرسی ومن الثالث باقی الملائکۃ ، ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء ، فخلق من الاول السمٰوٰات، ومن الثانی الارضین ومن الثالث الجنۃ والنار ، ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء الحدیث ۱؂بطولہ۔
یعنی وہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی : یارسول اللہ !میرے ماں باپ حضور پر قربان ،مجھے بتا دیجئے کہ سب سے پہلے اللہ عزوجل نے کیا چیز بنائی ، فرمایا: اے جابر!بیشک بالیقین اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، وہ نور قدرت الٰہی سے جہاں خدا نے چاہا دورہ کرتارہا ۔ اس وقت لوح ، قلم ، جنت ، دوزخ ، فرشتے ، آسمان ، زمین ، سورج، چاند ، جن ، آدمی کچھ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالٰی نے مخلوق کو پیدا کرناچاہا اس نور کے چار حصے فرمائے ، پہلے سے قلم، دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے کے چار حصے کئے، پہلے سے فرشتگان حامل عرش ، دوسرے سے کرسی، تیسرے سے باقی ملائکہ پیدا کئے ۔ پھر چوتھے کے چار حصے فرمائے ، پہلے سے آسمان ، دوسرے سے زمینیں ، تیسرے سے بہشت دوزخ بنائے ، پھر چوتھے کے چار حصے کئے ، الٰی آخر الحدیث۔
(۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱و۷۲)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶و۴۷)
(تاریخ الخمیس مطلب اللوح والقلم مؤسسۃ شعبان ۱ /۱۹و۲۰)
(مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۲۱)
(مدارج النبوۃ قسم دوم باب اول مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۲،چشتی)

یہ حدیث امام بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ مین بنحوہٖ روایت کی ، اجلہ ائمہ دین مثل امام قسطلانی مواہب لدنیہ اور امام ابن حجر مکی افضل القرٰی اورعلامہ فاسی مطالع المسرات اورعلامہ زرقانی شرح مواہب اورعلامہ دیاربکری خمیس اورشیخ محقق دہلوی مدارج وغیرہا میں اس حدیث سے استناد اور اس پر تعویل واعتماد فرماتے ہیں ، بالجملہ وہ تلقی امت بالقو کا منصب جلیل پائے ہوئے ہے تو بلاشبہ حدیث حسن صالح مقبول معتمد ہے ۔ تلقی علماء بالقبول وہ شے عظیم ہے جس کے بعد ملاحظہ سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہوتو حرج نہیں کرتی ، کما بیناہ فی ''منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین '' (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ''منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ''میں اس کو بیان کیاہے ۔ت)
لاجرم علامہ محقق عارف باللہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں : قد خلق کل شیئی من نورہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کما وردبہ الحدیث الصحیح۲؂ ۔ بے شک ہر چیز نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنی ، جیسا کہ حدیث صحیح اس معنی میں وارد ہوئی ۔ (۲؂الحدیقۃ الندیۃ المبحث الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۳۷۵)
ذکرہ فی المبحث الثانی بعد النوع الستین من اٰفات اللسان فی مسئلہ ذم الطعام۔
اس کو علامہ نابلسی نے نوع نمبر ساٹھ جو کہ زبان کی آفتوں کے بیان میں ہے کہ بعد، کھانے کی برائی بیان کرنے کے مسئلہ کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے ۔(ت)

مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں ہے : قد قال الاشعری انہ تعالٰی نور لیس کالا نواروالروح النبویۃ القدسیۃ لمعۃ من نورہ والملائکۃ شرر تلک الانوار وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ وغیرہ مما فی معناہ ۱؂۔

یعنی امام اجل امام اہلسنت سید نا ابوالحسن اشعری قدس سرہ (جن کی طرف نسبت کر کے اہل سنت کو اشاعرہ کہا جاتاہے ) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نور ہے نہ اورنوروں کی مانند اورنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح پاک اسی نور کی تابش ہے اورملائکہ ان نوروں کے ایک پھول ہیں ، اوررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرا نور بنایا اورمیری ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی ۔ اوراس کے سوا اورحدیثیں ہیں جو اسی مضمون میں وارد ہیں۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم ۔ (۱؂ مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۵)

مسئلہ ۳۹ :از ٹانڈہ ضلع مرادآباد مرسلہ مولوی الطاف الرحمن صاحب پیپسانوی ۱۴شعبان ۱۳۱۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعض مولود شریف میں جو نور محمدی کو نور خدا سے پیداہوا لکھا ہے اس میں زید کہتاہے بشرط سحت یہ متشابہ کے حکم میں ہے اورعمرو کہتاہے یہ انفکاک ذات سے ہوا ہے ۔
بکر کہتاہے کہ یہ مثل شمع سے شمع روشن کرلینے کے ہوا ہے ۔
اورخالد کہتاہے متشابہات میں مذہب اسلم رکھتا ہوں اورسالم کو برا نہیں جانتا، اس میں چون وچرا بیجا ہے ۔ بینوا توجروا(بیان کرو اوراجر پاؤ گے ۔ت)

الجواب : عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : یاجابر ان اللہ خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ۔ ذکرہ الامام القسطلانی فی المواہب ۱؂ وغیرہ من العلماء الکرام۔
اے جابر!بیشک اللہ تعالٰی نے تمام عالم سے پہلے تیرے نبی کانور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ (امام قسطلانی نے اس کو مواہب لدنیہ میں اور دیگر علماء کرام نے ذکر کیا ہے ۔ت) ۔ (۱؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱،چشتی)

عمرو کا قول سخت باطل وشنیع وگمراہی فظیع بلکہ سخت ترامر کی طرف منجّر ہے ، اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ کوئی چیز اس کی ذات سے جدا ہوکر مخلوق بنے ، اورقول زید میں لفظ ''بشرط صحت''بوئے انکار دیتاہے ، یہ جہالت ہے ، باجماع علماء دربارئہ فضائل صحت مصطلحہ محدثین کی حاجت نہیں ، مع ہذا علامہ عارف بلالہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ۔ علاوہ بریں یہ معنٰی قدیماً وحدیثاً تصانیف وکلمات ائمہ وعلماء واولیاء وعرفاء میں مذکور ومشہور وملقّٰی بالقبول رہنے پر خود صحت حدیث کی دلیل کافی ہے، فان الحدیث یتقوی بتلقی الائمۃ بالقبول کما اشارالیہ الامام الترمذی فی جامعہ وصرح بہ علماؤنا فی الاصول۔

اس لئے کہ حدیث علماء کی طرف سے تلقی بالقبول پاکر قوی ہوجاتی ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے ، اورہمارے علماء نے اصول میں اس کی تصریح فرمائی ہے ۔(ت)

ہاں اسے باعتبار کنہ کیفیت متشابہات سے کہنا وجہ صحت رکھتاہے ، واقعہ نہ رب العزت جل وعلی نہ اسکے رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نور سے نورمطہر سید انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیونکر بنایا، نہ بے بتائے اس کی پوری حقیقت ہمیں خود معلوم ہوسکتی ہے ، اوریہی معنٰی متشابہات ہیں۔
بکر نے جوکہا وہ دفع خیال ضلال عمر و کے لئے کافی ہے ، شمع سے شمع روشن ہوجاتی ہے بے اس کے کہ اس شمع سے کوئی حصہ جدا ہوکر یہ شمع بنے اس سے بہتر آفتاب اوردھوپ کی مثال ہے کہ نور شمس نے جس پر تجلی کہ وہ روشن ہوگیا اورذات شمس سے کچھ جد ا نہ ہوا مگر ٹھیک مثال کی وہاں مجال نہیں ، جو کہا جائے گا ہزاراں ہزار وجوہ پر ناقص وناتمام ہوگا، بلاشبہ طریق اسلم قول خالد ہے اور وہی مذہب ائمہ سلف رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم

مسئلہ ۴۰ : پیش نظر رہے یہ بات کہ میں کوئی عالم وفاضل نہیں ہوں کہ بحث ومباحثہ کا خیال درمیان میں آئے ، فقط دریافت کرنے کی غرض سے فدویا نہ لکھتاہوں تاکہ میری عقیدے میں جو کچھ غلطی ہو وہ صحیح ہوجائے ، مجھ کو ایسا معلوم ہے کہ تمام مخلوقات انسان کا یہ حال ہے کہ غلاظت آلودہ پیداہوتے ہیں مگر خدانے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ان سب باتوں سے محفوظ رکھا اورتمام مخلوقات پر ان کو بزرگی عنایت فرمائی ہے ۔ اگر یہ بات سچی ہے تو حدیث شریف کے معنٰی مجھ کو یوں معلوم ہیں ، ملاحظہ فرمائے گا: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا جابر ان اللہ خلق نورنبیک من نورہ۱؂ٖ۔

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اے جابر!تحقیق اللہ تعالٰی نے پیدا کیا ذات نبی تیرے کو اپنے نور سے ۔
(۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول اول المخلوقات المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱و۷۲)

مثال چراغ کی جو جناب نے فرمائی ہے اس میں مجھ کو شک ہے ، چاہتاہوں کہ شک دور ہوجائے ، مثلاً ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کیا اوردوسرے چراغ سے اور بہت سے چراغ روشن کئے گئے ، پہلے اور دوسرے میں کچھ کمی نہیں آئی ، یہ آپ کا فرمانا صحیح اور بجا ہے لیکن یہ سب چراغ نام اورذات اورروشنی میں ہم جنس ہیں یا نہیں اوریہ سب مرتبہ برابر ہونے کارکھتے ہیں یا نہیں ؟بینوا توجروا(بیان کرو اجر پاؤ۔ت)

الجواب : نجاست سے آلودہ پیدا ہونے میں سب مخلوق شریک نہیں ، تمام انبیاء علیہم السلام پاک ومنزہ پیداہوئے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ حضرات حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی صاف ستھرے پیدا ہوئے ۔ نور کے معنی فضل کے نہیں ۔ مثال سمجھانے کو ہوتی ہے نہ کہ ہر طرح برابری بتانے کو۔ قرآن عظیم میں نورالٰہی کی مثال دی کمشکوٰۃ فیہا مصباح۲؂ (جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے ۔ ت)کہاں چراغ اورقندیل اورکہاں نوررب جلیل ، (۲؂القرآن الکریم ۲۴ /۳۵) ۔ یہ مثال وہابیہ کے اس اعتراض کے دفع کو تھی کہ نورالٰہی سے نور نبوی پیدا ہواتو نور الٰہی کا ٹکڑا جداہونا لازم آیا، اسے بتایا گیا کہ چراغ سے چراغ روشن ہونے میں اس کا ٹکڑا کٹ کر اس میں نہیں آجاتا۔ جب یہ فانی مجازی نور اپنے نور سے دوسرا نور روشن کردیتاہے تو اس نورالٰہی کا کیا کہنا، نور سے نور پیدا ہونے کا نام وروشنی میں مساوات بھی ضرور نہیں، چاند کا نورآفتاب کی ضیاء سے ہے ، پھر کہاں وہ اورکہاں یہ ، علم ہیئت میں بتایاگیا ہے کہ اگر چودھویں رات کے کامل چاند کے برابر نوے ہزار چاندہوں تو روشنی آفتاب تک پہنچیں گے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (رسالہ مکمل ہوا) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔