اللہ تعالیٰ کی عطاء سے انبیاء علیہم السّلام و اولیاءاللہ علیہم الرّحمہ کے اختیارات
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّـٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَـه ، اِلَّا هُوَ ۖ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْـرٍ فَـهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ ۔
ترجمہ : اور (اے مخاطب!) اگر اللہ تمہیں کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے سوا اس ضرر کو دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تمہیں کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ بہت حکمت والا بہت خبر رکھنے والا ہے۔ (سورہ الانعام: 18-17)
اس آیت میں یہ فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی مصیبت اور ضرر کو دور نہیں کرسکتا، حالانکہ انسان کبھی خود اپنی کوشش سے مصیبت کو دور کرلیتا ہے، کبھی اس کے دوست اور رشتہ دار اس مصیبت کو دور کردیتے ہیں، انسان بیمار پڑ جاتا ہے تو ڈاکٹر دوا کے ذریعہ اس کی بیماری اور تکلیف کو دور کردیتا ہے، قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام عموماً اور ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً گناہ گاروں کی شفاعت فرما کر ان سے عذاب کی مصیبت کو دور کریں گے، بلکہ آپ نے دو گناہ گاروں کی قبر شاخ کے دو ٹکڑے نصب کرکے ان سے برزخ کا عذاب دور کردیا ۔ (صحیح بخاری:216)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دکھتی ہوئی آنکھ میں ، حضرت سلمہ بن اکوع کی ٹوٹی ہوئی پنڈلی میں اور حضرت زید بن معاذ کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ میں لعاب دہن لگایا اور ان سے دنیا کی تکلیف کو دور کردیا اور وہ شفایاب ہوگئے ۔ (شفاء، ج 1، ص213)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضرت علی کی آنکھوں کی شفا کی حدیث روایت کی ہے۔ (صحیح البخاری، ج4، رقم الحدیث: 3701)
نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سلمہ بن اکوع کی ٹوٹی ہوئی پنڈلی کی حدیث بھی روایت کی ہے۔ (ج5، رقم الحدیث: 4206)
اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کے لئے حضرت عبداللہ بن عتیک گئے اور اس مہم میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ اس طرح درست ہوگئی کہ کبھی ٹوٹی ہی نہ تھی ۔ (صحیح البخاری، ج 5، رقم الحدیث: 4039،چشتی)
ایسے بہ کثرت واقعات ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی کرامتوں سے بھی لوگوں کی بیماریاں اوران کے مصائب دور ہوجاتے ہیں اور یہ تمام امور اس آیت کے مخالف ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذاتی قدرت سے اپنے بندوں کے مصائب اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے، اس کے برخلاف لوگ جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ان کی مشکلات میں کام آتے ہیں اور ان کے مصائب کو دور کرتے ہیں، وہ اللہ کی توفیق اور اس کی دی ہوئی طاقت سے کرتے ہیں اور دواؤں میں شفا کی تاثیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ وہ محض سبب ہیں شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ چاہے تو بغیر دوا کے شفا دے دے اور اگر وہ نہ چاہے تو کسی دوا سے شفا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے تصرف کرتے ہیں۔ بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور گناہ گاروں کی شفاعت کرتے ہیں اور تنگ دستوں کو غنی کرتے ہیں اور ان افعال کی ان کی طرف نسبت کرناجائز ہے۔ قرآن مجید میں ہے : وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّا ٓاَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ ۔ (سورۃ التوبہ : 74)
ترجمہ : اور ان کو صرف یہ برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا ۔
دیکھیے حقیقت میں غنی کرنے والا صرف اللہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا‘‘ سو معلوم ہوا ایسا کہنا جائز ہے۔ البتہ! یہ اعتقاد ضروری ہے کہ اللہ نے اپنی ذاتی قدرت سے غنی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے غنی کیا۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے : وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذْیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ ۔ (الاحزاب:37)
ترجمہ : اور جب آپ اس شخص سے کہتے تھے جس پر اللہ نے انعام فرمایا اور آپ نے (بھی) انعام فرمایا ۔
ظاہر ہے کہ اللہ منعم حقیقی ہے اور آپ نے اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے انعام فرمایا، مگر اللہ تعالیٰ نے انعام کرنے کی نسبت دونوں کی طرف کی ہے اور حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے حضرت مریم علیہا السّلام سے کہا : قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلاَماً زَکِیًّا ۔ (مریم:19)
ترجمہ : (جبرائیل نے) کہا میں تو صرف آپ کے رب کا فرستادہ ہوں، تاکہ میں آپ کو پاک بیٹا دوں ۔
حقیقت میں بیٹا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بیٹا دینے کی نسبت حضرت جبرائیل کی طرف کی ہے، کیونکہ اللہ نے حضرت جبرائیل کو اس کا سبب اور ذریعہ بنایا تھا۔ انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں سے بھی بیٹا ہوجاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں ۔ (مسند احمد، ج4، ص128، 127، المعجم الکبیر، ج18، ص 252، مسند البزار، ج3، ص113، موارد الظمآن، ص515، المستدرک، ج2، ص200، حلیہ الاولیاء، ج4، ص89، دلائل النبوۃ، ج2، ص 130، شرح السنہ، رقم الحدیث: 3626، مصابیح السنہ، ج4، ص38،چشتی)
اور قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کی دعا منظور فرمالے تو ان کی دعا سے بھی اولاد ہوسکتی ہے، لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کی درخواست کی جائے، کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کریں کہ ہمارا فلاں مطلوب پورا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اولیاء کرام کی ایسی عزت، وجاہت اور مقبولیت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرم اور فضل سے ان کی دعا قبول فرما لیتا ہے اور رد نہیں فرماتا۔ اس نے خود فرمایا ہے کہ میں اپنے مقرب بندہ کو جب اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے سوال کو رد نہیں کرتا۔ (صحیح البخاری، ج 7، رقم الحدیث: 243)
حدیث میں بھی غنی کرنے کا اسناد اللہ اور رسول دونوں کی طرف کیا گیا ہے ۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ ص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا، آپ کو بتایا گیا کہ ابن جمیل، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے صدقہ دینے سے منع کیا ہے ۔ نبی کریمصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا ابن جمیل کو تو صرف یہ بات ناگوار ہوئی ہے کہ وہ فقیر تھا تواللہ اور اس کے رسول نے اس کو غنی کردیا اور رہا خالد تو تم اس پر ظلم کرتے ہو، اس نے اپنی زرہ محفوظ رکھی ہے اور اس کو جہاد سبیل اللہ کے لئے وقف کیا ہوا ہے، اور رہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے عم (محترم) ہیں ۔ جتنا صدقہ ان پر واجب ہے ان سے اتنا وصول کیا جائے (یعنی ان کے بلند رتبہ کی وجہ سے ان سے دگنی زکوٰۃ وصول کی جائے ۔
ان تصریحات سے واضح ہوگیا کہ حقیقتاً بلا واسطہ اور بالذات مصائب کو دور کرنے والا اور نعمتیں عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے مقربان خدا، خصوصا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بھی عذاب اور مصائب کو دور کرتے ہیں اور دنیا اورآخرت میں غنی اور شاد کام کرتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment