Wednesday, 11 July 2018

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں

لفظ نبی کا ایک مادہِ اشتقاق ’’نَبَا، اَلنَّبْوَةُ‘‘ ہے۔ اَلنَّبْوَه کا معنی ’’الْاِرْتِفَاع‘‘ ’’جس کو بلندی ملی‘‘ ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے نبی کا مطلب ’’تمام مخلوق سے اعلیٰ‘‘ ہے۔ یعنی اِنَّهُ شُرِّفَ عَلٰی سَائِرِ الْخَلْق’’ اسے ساری مخلوق میں سب سے بلند بنایا جاتا ہے‘‘۔ گویا نبی کی ذات اتنی بلند ہوتی ہے کہ ہر شے ان کے تابع ہوجاتی ہے۔ آقا علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے ساری کائنات اور ساری مخلوقات پر بلندی عطا کی۔ قرآن مجید میں فرمایا : تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ م مِنْهُمْ مَّنْ کَلَّمَ اﷲُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ ۔ (البقرة:253) ۔ ترجمہ : یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی) ۔

جملہ انبیاء کرام میں سے وہ ہستی جن کو تمام درجات میں سب پر بلند کردیا وہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، جن کے بارے میں ارشاد فرمایا : وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ۔ (الانشراح:4) ۔ ترجمہ : اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا ۔

پس ساری خلق اور ساری کائنات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلند ہیں ۔ اللہ کی خلق میں سے ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ سے نیچے ہے خواہ وہ عالم جمادات ہو یا عالم نباتات، عالم حیوانات ہو یا جنس و انس و ملائک، کائنات ارض و سماء کی ہر شے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند ہیں اور ہر شے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ صرف نیچے ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے۔ آیئے سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس کے چند مظاہر کا مطالعہ کرتے ہیں : عالم جمادات بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے ۔ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب پر قدرت و بلندی، تصرف و اختیار عطا فرمایا۔ اس تناظر میں ہمیں اپنے عقائد بھی درست رکھنے چاہئیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بشریت میں مبعوث کیا ، لہذا وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ نہیں، بلکہ کل کائناتِ جن وانس اور کائنات بشریت و نورانیت میں ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع بھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و اختیار میں بھی تھی ۔ یہ وہ مقام ہے کہ ساری کائنات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل تصرف کی مثال نہ کبھی پہلے تھی اور نہ کبھی ہوگی ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ کَانَ عَلَی حِرَاءٍ هُوَ وَاَبُوْبَکْرِ رضی الله عنه وَعُمَرَ رضی الله عنه وَعُثْمَانَ رضی الله عنه وَعَلِیَ رضی الله عنه وَطَلْحَة رضی الله عنه وَالزَّبِيْر رضی الله عنه فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةِ وَ فِيْ رَوَايَةٍ فَرَجَفَ بِهِمْ وَ فِيْ رَوَايَةٍ فَتَحَرَّکَ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ فَقَالَ النَّبِیُّ: اهْدَاَ وَفِيْ رَوَايَةِ اسْکُنْ حِرَاء. فَمَا عَلَيْکَ اِلاَّنَبِیٌّ اَوْ صَدِيْقٌ اَوْ شَهِيْدٌ ۔ (مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، 4 / 1880، رقم : 2417) ۔ (صحيح بخاری، کتاب المناقب، 3 / 1348، رقم:3483،چشتی)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی اور ایک روایت میں ہے کہ پہاڑ کو وجد آیا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ ہلنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور فرمایا اے حراء ٹھہر جا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حرا ساکن ہوجا ۔

ایک روایت میں احد پہاڑ کا ذکر بھی آیا ہے۔ اس پہاڑ کا حرکت کرنا دراصل اس شرف پر فخر و انبساط کی وجہ سے تھا جو دنیا کی معزز ترین ہستیوں کے اس پر تشریف فرما ہونے کی وجہ سے اسے نصیب ہوا تھا۔ وہ پہاڑ وجد میں آگیا کہ آج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین میرے اوپر ہیں اور ان کے اصحاب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پس ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ بھی جوش مسرت سے وجد آگیا ۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پہاڑ کے حرکت کرنے پر آقا علیہ السلام نے دعا نہیں کی کہ باری تعالیٰ یہ پہاڑ زلزلہ کی وجہ سے حرکت کررہا ہے، اس کی اس حرکت کو روک دے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پہاڑ پر قدم مارا اور اُسے حکم دیا کہ ٹھہر جا۔ پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تصرف و اختیار کی بدولت فوری رک گیا ۔
جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت وہاں کفار موجود نہیں تھے کہ ان کو نبوت کی صداقت دکھانے کی دلیل کے طور پر یا ان کے مطالبے پر پہاڑ کی حرکت کو روکا گیا کہ انہوں نے کہا ہو کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ کرکے دکھادیں۔ خلاف عادت کام کا کفار مطالبہ کرتے ہیں اور نبی اپنی نبوت کی صداقت کی دلیل کے طور پر انہیں دکھاتا ہے۔ اب یہاں نہ ابوجہل ہے نہ ابولہب یہاں کوئی کافر و مشرک بھی نہیں۔ کسی نے مطالبہ بھی نہیں کیا صرف مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ساتھ کھڑے ہیں۔ اب یہاں نبوت کی صداقت کی دلیل دکھانا مقصود نہیں بلکہ پہاڑوں پر بھی موجود تصرف کا اپنے غلاموں کے سامنے ایک اظہار ہے۔ ایک پہاڑ تو درکنار کائنات کے تمام پہاڑ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہیں ۔
اسی حدیث مبارکہ سے نبی کے دوسرا معنی ’’غیب کی خبریں بتانے والا‘‘ کی ایک دلیل بھی میسر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بھی خبر دی جنہیں مستقبل میں شہادت کا مرتبہ حاصل ہونا تھا۔ ابھی اُن کی شہادت نہیں ہوئی مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے علم غیب کے ذریعے ان کی شہادت کی خبر بھی دی جن کی شہادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے 23 سال بعد ہوئی اور ان کی شہادت کی خبر بھی دی جن کی شہادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے تقریباً 50 سال بعد ہوئی ۔
حضرت عمر کی شہادت 23 ہجری میں ہوئی۔ حضرت عثمان کی شہادت 35 ہجری میں ہوئی۔ حضرت علی کی شہادت 40 ہجری میں ہوئی۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت زبیر بن عوام کی شہادت 36 ہجری میں ہوئی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شہادت 32 ہجری میں ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کی شہادت 55 ہجری میں ہوئی۔ گویا اس وقت حراء/ احد پر ساتھ موجود تمام صحابہ کی شہادت آقا علیہ السلام کے اس ارشاد کے بعد ہوئی ۔
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب کے آخری انجام کی بھی خبر ہے، شہادت کی بھی خبر ہے اور ہر ایک کے احوال کی بھی خبر ہے ۔

غزوہ بدر کے دوران حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی، وہ آقا علیہ السلام کے پاس آئے۔ عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میری تلوار ٹوٹ گئی، اب میں کیا کروں؟ آقا علیہ السلام کے قریب کھجور کے درخت کی چھوٹی سی خشک سوکھی ہوئی لکڑی پڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اٹھاکر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا: اس سے لڑو۔ حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : فَاِذَا هُوَ سَيْفٌ اَبْيَضُ طَوِيْل ۔ (الواقدی فی المغازی، 1 / 93) ۔ ترجمہ : میں نے اسے ہاتھ میں لیا تو) وہ سفید رنگت کی لمبی تلوار بن گئی ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف سے درخت کی ٹہنی کو تلوار میں بدل دیا اور یہ صرف اسی لڑائی کے وقت تک تلوار نہ رہی بلکہ ہمیشہ کے لئے تلوار بن گئی۔ حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ اس تلوار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ دیگر غزوات میں شریک ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ مرتدین کے خلاف جہاد میں شہید ہوئے اور وہ تلوار اس وقت بھی ان کے پاس تھی ۔ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدَهُ حَتّٰی هَلَکَ ۔ (الواقدی فی المغازی، 1 / 93) ۔ ترجمہ : یہ تلوار حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک ان کے پاس موجود رہی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لکڑی کی ماہیت اور اس کی خلقت کو بدل دیا۔ خلقت کو بدل دینا اور لکڑی کو سالہا سال کے لئے دائماً سٹیل کی تلوار میں بدل دینا یہ شانِ تخلیق و تکوین ہے۔ آقا علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اتنی بلندی دی کہ لکڑیوں کو چاہیں تو تلواریں بنادیں اور ایک لمحے کے لئے نہیں بلکہ دائماً اس کی ماہیت کو بدل دیں ۔
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ اس لکڑی کو صحابہ ’’العون‘‘ کا لقب دیتے تھے۔ یعنی اس لکڑی کو ’’رسول اللہ کی مدد‘‘ کے نام سے یاد کرتے۔ صرف یہی ایک واقعہ نہیں بلکہ سیرت کی کتب میں ہمیں ایسے بے شمار مظاہر ملتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی صحابی کو درخت کی شاخ/ٹہنی عطا کی تو وہ دائماً تلوار بن گئی۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ قدرت حاصل تھی کہ جس شے پر توجہ کردیں اس شے کی خلقت، ماہیت اور نیچر کو بدل کے رکھ دیں ۔

کفار کے مطالبے پر کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے کھجور کے درختوں کی ٹہنیاں اپنی جگہ سے ٹوٹ کر زمین پر گرتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آکر سجدہ کرتیں اور واپس جاکر اپنی جگہ پر جڑ جاتیں۔ اس معجزے کو دیکھ کر کئی کفار نے اسلام بھی قبول کیا۔ ایسے واقعات بے شمار ہیں۔ اس موقع پر ان کو بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ میں تو یہ بیان کررہا ہوں کہ جہاں کسی نے مطالبہ نہیں کیا، معجزہ دکھانے کی حاجت نہیں، روزمرہ کے معاملات ہیں، وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تصرفات و اختیارات صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ظاہر فرما رہے ہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا : انْقَادِی عَلَیَّ بِاِذْنِ اللّٰهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ، الَّذِی يُصَانِعُ قَائِدَهُ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کرو، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہوگیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں درختوں کو ملادیا اور فرمایا : الْتَئِمَا عَلَیَّ بِاِذْنِ اللّٰهِ فَالْتَأَمَتَا. اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے ۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کررہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لارہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے ۔ (اخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الزهد والرقائق، باب: حديث جابر الطويل، وقصة ابی اليسر، 4 / 2306، الرقم:3012،چشتی)

اسی طرح کا ایک واقعہ یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاجت کے لئے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھ سے فرمایا : ائْتِ تِلْکَ الْأَشَاءَتَيْنِ ۔ ’’ان دو درختوں کو بلا لاؤ‘‘۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا : اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَاْمُرُ کَمَا اَنْ تَجْتَمِعَا فَاجْتَمَعَتَا ۔ ’’تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ ایک جگہ جمع ہوجاؤ۔ وہ دونوں جمع ہوگئے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ذریعہ پردہ فرمایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا : ائْتِهِمَا فَقُلْ لَهُمَا لِتَرْجِعْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمَا اِلَی مَکَانِهَا ۔ ’’جاؤ ان دونوں سے کہو کہ اپنی جگہ پر لوٹ جائیں‘‘۔ میں نے ان سے جاکر کہا تو وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے ۔ (مسند احمد بن حنبل، 4 / 172، الرقم:17595)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف دنیا کے درختوں اور پہاڑوں پر ہی تصرف نہ تھا بلکہ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تصرف حاصل ہے۔ اس کی دلیل استنِ حنانہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ دینے کے لئے باقاعدہ منبر بنایا گیا تو آپ نے کھجور کے خشک تنے سے ٹیک لگاکر خطبہ دینا چھوڑ دیا۔ کھجور کا خشک تنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جدائی کو برداشت نہیں کرپایا اور روپڑا۔ اسے چپ کروانے کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منبر سے نیچے تشریف لائے ۔ حَتّٰی اَخَذَهَا فَضَمَّهَا اِلَيْهِ فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِیِّ الَّذِيْ يُسَکَّتُ حَتَّی اسْتَقَرَّتْ ۔ ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے ستون کو پکڑ کر ساتھ لگالیا، ستون اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگا جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے قرار مل گیا‘‘۔(البخاری فی الصحيح، کتاب البيوع، 2 / 738، رقم:1989)

توجہ طلب بات یہ ہے کہ مردہ درخت تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم پاک سے مس ہونے کے سبب اس مردہ درخت میں بھی جان آگئی اور شعور آگیا۔ اس کو بھی پتہ چل گیا کہ آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے جدا ہوگئے ہیں اور دوسرے منبر پہ کھڑے ہیں۔ اس میں جان بھی آگئی، زندگی بھی آگئی، آنکھیں بھی آگئیں، احساس بھی آگیا اور رونا بھی آگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے جدا ہوگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سینے سے لگایا تو سسکیاں لے لے کر چپ ہونا بھی آگیا۔ یہ سارے حواس اور سارے شعور صرف جسم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مس نے اُسے عطا کردیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیکھجور کے تنے سے مخاطب ہوکر فرمایا : اخْتَرْ اَنْ اَغْرِسَکَ فِی الْمَکَانِ الَّذِيْ کُنْتَ فِيْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَاِنْ شِئْتَ اَنْ اَغْرِسَکَ فِی الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ اَنْهَارِهَا وَ عُيُوْنِهَا فَيَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَيَاْکُلَ اَوْلِيَاءُ اللّٰهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ ۔
ترجمہ : تم چاہو تو میں تمہیں اسی جگہ دوبارہ لگادوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ویسے ہی سرسبز و شاداب ہوجاؤ جیسا کہ کبھی تھے اور اگر چاہو تو (میری اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے کچھ عرصہ سرانجام دی ہے) تمہیں جنت میں لگادوں، وہاں تم جنت کی نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری نشوونما بہترین ہوجائے اور تم پھل دینے لگو اور پھر اولیاء اللہ، تمہارا پھل کھائیں، اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایسا کردیتا ہوں ۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم: 21295، جلد: 5، ص: 138،چشتی)

یہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختیار ملاحظہ کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا نہیں کررہے، کسی ایک روایت میں بھی دعا کا لفظ نہیں آیا کہ اللہ اسے ایسا کردے بلکہ براہ راست کھجور کے تنے سے کہا کہ اگر تو چاہے تو میں تجھے دنیا میں ہی سرسبز و شاداب کردوں اور اگر چاہے تو تجھے جنت میں لگادوں۔ عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم یہ ہے کہ یہ اختیار اور قدرت اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کررکھی تھی کہ چاہے تو دنیا میں کھجور کے درخت کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں لگادیں۔ جنت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے، دنیا بھی اختیار میں ہے ۔ اس درخت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان دونوں آپشنز کو سنا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے جنت میں لگادیں تاکہ نبی اور ولی بھی میرا پھل کھائیں ۔
فَزَعَمَ اَنَّهُ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ لَهُ: نَعَمْ قَدْ فَعَلْتُ. مَرَّتَيْنِ فَسَاَلَ النَّبِیَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اخْتَارَ اَنْ اَغْرِسَهُ فِی الْجَنَّةِ.
ترجمہ : راوی کا بیان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دو مرتبہ فرمایا: ہاں میں نے ایسا کردیا۔ بعد ازاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھجور کے اس تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگادوں ۔ یعنی صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استنِ حنانہ کو دونوں آپشنز دینے کے بعد اس کو دوبار یہ کیوں فرمایا کہ ہاں میں نے کردیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے میری بات سن لی اور کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب یہاں نہیں جنت میں لگادیں اور وہاں آپ بھی پھل کھائیں اور اولیاء بھی پھل کھائیں تو میں نے اس کو کہا نعم فعلت فعلت میں نے تمہیں جنت میں لگادیا۔ میں نے تمہیں جنت میں لگادیا ۔
کھجور کا تنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے لگ گیا تو اس کے صلہ میں اس کو اتنا شعور آگیا کہ اس نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔ یہ نہیں کہا کہ دنیا میں ہرا بھرا کردیں بلکہ آخرت میں اولیاء و صالحین کو ترجیح دی۔ ایک درخت آخرت کو ترجیح دے رہا ہے جبکہ ہم انسان اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہوکر بھی دنیا کو آخرت پر ترجیح دیئے ہوئے ہیں۔ ہم سے کتنے ہیں جنہیں کھجور کے درخت جیسا شعور مل گیا ہو۔۔۔؟ کتنے ہیں جنہوں نے دنیا کی نعمتوں کو آخرت کی نعمت پر ترجیح دے دی ہو۔۔۔؟ہمیں بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق سے اسی طرح کا شعور حاصل کرنا ہوگا کہ ہم بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے لئے اپنے ذاتی مفادات کو قربان کردیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ فَصَلّٰی قَالُوْا يَارَسُوْلَ اللّٰهِ رَأَيْنَاکَ تَنَاوَلُ شَيْئًا فِی مَقَامِکَ ثُمَّ رَأَيْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ؟ قَالَ اِنِّی أُرِيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَکَلْتُمْ مِنْهُ مَابَقِيَتِ الدُّنْيَا ۔
ترجمہ : (ایک مرتبہ) رسول اللہ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا اور آپ نے نماز کسوف پڑھائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی قدر پیچھے ہٹ گئے؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جنت دکھائی گئی میں نے اس میں سے ایک خوشہ پکڑ لیا۔ اگر اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس سے کھاتے رہتے (یعنی وہ ختم نہ ہوتا) ۔ (صحيح بخاری ، کتاب صفة الصلاة، 1 / 261، رقم : 715،چشتی)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خیال سے جنت کے پھل امت کے لئے لینے کا عمل ترک فرمادیا کہ کہیں امت محنت مزدوری کرنا ترک نہ کردے اور صرف جنت کے اسی پھل پر اکتفا کر بیٹھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند کیا کہ امت محنت، مزدوری اور مشقت کرے، کبھی کھانے کو ملے اور کبھی بھوک ملے تاکہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اس سے مانگے اور اس کا قرب حاصل کرسکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارو تصرف کا یہ عالم ہے کہ جنت کے درخت کے پھلوں کے خوشے اگر لانا چاہتے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ بھی لاکر دے سکتے تھے اور قیامت تک وہ پھل ہمارے اندر رہتے۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ بعض اہل العلم کو اس حدیث کے بارے ایک مغالطہ ہے اور وہ اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت نہیں بلکہ جنت کی تصویر دکھائی گئی تھی۔ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ توبہ کریں، یہ نادانی کی بات ہے۔ آقا علیہ السلام کی فہم پر معاذ اللہ ان لوگوں نے اتنا شک کرلیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی جنت اور جنت کی تصویر میں فرق نہ کرپائے۔ یہ فرق تو ایک عام آدمی بھی کرسکتا ہے۔ اگر تصویر نظر آئے تو جان لیتا ہے کہ یہ تصویر ہے۔ تصویر کے درخت کے پھلوں کو پکڑنے کے لئے ایک بچہ بھی ہاتھ نہیں ڈالتا، اس بچے کو بھی پتہ ہے کہ یہ تصویر ہے اور تصویر کے درخت اور پھلوں پہ ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا ۔ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم پر معاذ اللہ تہمت کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں اپنی اس سوچ پر توبہ کرنی چاہئے۔ اگر وہ تصویر ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درخت کے خوشوں کو پکڑنے کے لئے ہاتھ نہ بڑھاتے اور یہ نہ فرماتے کہ اگر اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے (یعنی وہ ختم نہ ہوتا)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تصویر کے لئے نہیں کہے بلکہ اصل جنت اور اصل درختوں کے پھلوں کے خوشے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تھے۔ امت کو بتادیا کہ میرے تصرف و اختیار کا یہ عالم ہے کہ اگر جنت کے درختوں کو بھی دنیا میں آکر لگانا چاہوں تو لگا سکتا ہوں اور قیامت تک تم اس کا پھل کھاؤ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و اختیار اور عظمت و رفعت کا یہ عالم ہے کہ اللہ کے بعدکائنات کی ہر شے نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع بلکہ آقا علیہ السلام کے تصرف و اختیار میں ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تخلیق الماء پر بھی تصرف حاصل تھا۔ جب کبھی وضو کا پانی صحابہ کے پاس نہ رہتا، خواہ وہ غزوہ ہو یا کوئی سفر، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین سو کی تعداد میں ہوں یا حدیبیہ کی طرح پندرہ سو کی تعداد میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر جگہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے لئے پینے اور وضو کے پانی کا اپنے تصرف سے بندوبست فرمایا۔ یہ واقعات متعدد مرتبہ پیش آئے اور ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی کفار کے مطالبے پر پیش نہیں آیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے مقام پر ہمارے پاس نہ پینے کا پانی تھا اور نہ وضو کا پانی تھا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: کسی کے پاس چھاگل ہے، جس میں کوئی دوچار قطرے ہی پانی کے ہوں، ایک صحابی چھاگل لے کے آگئے، اس میں دوچار قطرے پانی کے تھے ۔
فَوَضَعَ يَدَهُ فِی الرِّکْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ اَصَابِعِهِ کَاَمْثَالِ الْعُيُوْنِ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّاْنَا قُلْتُ کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ لَوْکُنَّا مِائَةَ اَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً ۔ (صحيح بخاری کتاب المناقب، 3 / 1310، رقم: 3383،چشتی)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دست مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان جوش مار کر نکلنے لگا ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کرلیا (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہوجاتا جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے ۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ بعض علماء آج کل اس طرح کی تمام احادیث کو ’’تکثیر المائ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ یہ تھا کہ تھوڑا پانی بڑھ گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تکثیر الماء نہیں بلکہ تخلیق الماء ہے۔ تھوڑا پانی دست مبارک ڈالنے سے بذات خود بڑھ جائے اس کو تکثیر الماء ’’پانی کا بڑھ جانا‘‘ کہتے ہیں۔ یاد رکھ لیں کہ پانی بڑھ جانے کا لفظ حدیث کی کسی عبارت میں نہیں آیا۔ حدیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کی انگلیوں سے پانی کے چشمے ابل پڑے۔ تھوڑا پانی نہیں بڑھا بلکہ پانی کے چشمے دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھوٹے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے پانی مانگا، آپ نے پتھر پر اپنا عصاء مارا اور پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ چشمے پتھروں سے ہی پھوٹتے ہیں مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصاء سے چشموں کا پھوٹنا معجزہ اس لئے بنا کہ وہ خشک پتھر تھے جبکہ دوسری طرف آقا علیہ السلام کے تصرف کا یہ عالم تھا انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انسانی جسم سے پانی کے چشمے پھوٹے ہوں۔ لیکن آقا علیہ السلام نے چھاگل پر ہاتھ رکھا اور انگلیوں سے چشمے پھوٹے اور اتنا پانی میرے آقا علیہ السلام کی انگلیوں سے نکلا کہ کہتے ہیں کہ ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو بھی کافی رہتا۔ یہ تکثیر الماء القلیل یعنی کم پانی کو بڑھا دینا نہ تھا بلکہ اپنے تصرف و اختیار سے انگلیوں سے پانی کے چشمے پیدا کردینا تھا۔

غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے قافلہ پریشان تھا۔ تیس ہزار صحابہ تھے، پندرہ ہزار اونٹ تھے، دس ہزار گھوڑے تھے۔ کل ملاکر تقریباً پچپن ہزار نفوس تھے۔ اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی چھاگل جس میں پانی کے چند قطرے تھے، اس پر ہاتھ رکھا ۔ فَنَبَعَ الْمَاءُ مِنْ بَيْنِ اَصَابِعِهِ ۔ تو پانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ پڑا ، اتنا پانی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں سے نکلا کہ پچپن ہزار نفوس اس سے مستفید ہوئے ۔ (صحيح بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجهاد، 2 / 974،رقم:2581)
یہ پانی کہاں سے پیدا ہوگیا جو پچپن ہزار نفوس پی گئے؟ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے حاصل تصرف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی کو بڑھاتے نہ تھے بلکہ پانی پیدا فرمادیتے تھے اور چند قطروں کو پچپن ہزار نفوس کی ضرورت کے لئے کافی رہنے والا پانی بنادیتے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کا یہ عالم بھی تھا کہ نہ صرف پانی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طعام بھی تخلیق فرمادیتے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ سفر اتنا طویل تھا کہ کھانے کو کچھ نہ رہا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سینکڑوں کی تعداد میں بھوکے تھے، پریشان ہوئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آگئے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے کو کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يَا اَبَاهُرَيْرَة رضی الله عنه هَلْ مَعَکَ شَئیٌ ؟ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیا تمہارے پاس کھانے کیلئے کچھ ہے ۔ انہوں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے پاس چھوٹی سی ایک تھیلی ہے، اس میں کچھ کھجوریں ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لے آؤ۔ میں اس تھیلی کو لے کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آگیا۔ اس میں سے اکیس کھجوریں نکلیں، وہ کھجوریں آقا علیہ السلام نے دستر خوان پر رکھ دیں۔ فرمایا : دس، دس آدمیوں کے گروہ میرے پاس آتے جائیں۔ آقا علیہ السلام بلاتے گئے، دس دس آدمی آتے گئے، کل اکیس کھجوریں تھیں۔ ہر گروہ آتا گیا اور پیٹ بھر کے کھاتے گئے۔ اس طرح سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ان اکیس کھجوروں میں سے کھلا دیا ۔
سوال یہ ہے وہ کھجوریں بڑھتی ہوئی نظر تو نہیں آرہیں۔ اکیس تھیں دیکھتے ہی دیکھتے پچیس، یا چالیس، پچاس، سو نہیں بنیں۔ بڑھ نہیں رہیں بلکہ اکیس کی اکیس ہی پڑی ہیں اور سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لشکر کھا رہا ہے۔ وہ کھجوریں کہاں سے پیدا ہورہی ہیں؟ دراصل یہ کھجوریں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق فرمارہے ہیں ۔ جب سارے صحابہ اور لشکریوں نے پیٹ بھر لیا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ان کھجوروں کو اپنی تھیلی میں ڈال کر اپنے پاس محفوظ کرلو، جب زندگی میں کبھی بھی ضرورت پڑے نکال کر کھاتے رہنا، تقسیم کرتے رہنا، مہمانوں، پڑوسیوں اور محلے داروں کو کھلاتے رہنا، کبھی ختم نہ ہوں گی لیکن کھول کر کبھی نہ دیکھنا۔ صرف تھیلی سے جتنی ضرورت پڑے نکالتے رہنا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اکیس کھجوریں میں نے تھیلی میں واپس ڈال دیں۔ آقا علیہ السلام کی حیات طیبہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اڑھائی سال، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دس سال، حتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارہ سال گزر گئے۔ میں اسی تھیلی میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور لوگوں کو کھلاتا رہا۔ تھیلی بھی اتنی چھوٹی تھی کہ میں نے اسے اپنی کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا پچیس سال تک کھجوریں کھاتا رہا، تقسیم کرتا رہا۔ حتی کہ دو سو وسق کھجوریں ہم نے خود کھائیں، پچاس وسق کھجوریں صدقہ و خیرات کیں۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر ہونے والی افراتفری کے دوران وہ تھیلی گم ہوگئی۔ وگرنہ نسلوں تک، صدیوں تک وہ کھجوریں ختم نہ ہوتیں ۔ (مسند احمد بن حنبل، 2 / 352، رقم:8613) ۔ (دلائل النبوة للبيهقی، 6 / 110،چشتی)
ایک وسق 240 کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔ میں نے حساب لگایا تو یہ کل وزن جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ساڑھے اکتیس ہزار کلو قریباً 787 من بنتا ہے۔ پچیس سال میں اکیس کھجوریں تھیلی میں جوں کی توں رہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و تخلیق الطعام کے باعث 787 من کھجوریں اس چھوٹی سی تھیلی سے نکلتی رہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ رب العزت نے وہ تصرف عطا کیا کہ جس شے کو اشارہ کردیتے اور جو فرمادیتے وہی چیز ہوجاتی۔ دنیا و آخرت سب کچھ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و قدرت میں ہے۔ لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک سے ایسی نسبت قائم کرلو جیسی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قائم کی تھی ۔ نتیجتاً تمہاری تقدیریں بدل جائیں گی ، ان شاء اللہ ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ بھی ملاحظہ کریں کہ ان کو پتہ بھی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھی تو ظاہراً کھانے کے لئے کچھ موجود نہیں مگر اس کے باوجود پانی نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگتے۔۔۔ کھانا نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگتے۔۔۔ بارش نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگتے۔۔۔ قحط ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر سوال کرتے۔۔۔ ان کو پتہ تھا کہ رب کائنات نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری کائنات کا مالک و متصرف بنایا ہے اور انہیں امرِ تکوین عطا کر رکھا ہے۔ اتنا تصرف، اختیار اور قدرت دی ہے کہ جس شے کو اشارہ کردیں، جو چاہیں وہ شے وہی بن جائے ۔

نہ صرف عالم نباتات، جمادات، حیوانات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے بلکہ ہر شے حتی کہ پوری کرہِ ارضی پر بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصرف ہے۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ : ایک شخص مسلمان ہوا اور آقا علیہ السلام کا کاتب بن گیا، اس کو لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ اس لئے وحی کی کتابت کرتا تھا۔ بعد میں بدبخت دنیاوی مفاد میں مرتد ہوگیا اور مشرکین سے جاملا اور آقا علیہ السلام کی گستاخی کرنے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی وحی میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے لگا۔ آقا علیہ السلام تک بات پہنچی آقا نے ایک جملہ فرمایا : اِنَّ الْاَرْضَ لَمْ تَقْبَلْهُ ۔ زمین اس کو قبول نہیں کرے گی ۔
اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ بلند نہیں کئے کہ یااللہ اسے زمین قبول نہ کرے بلکہ واضح انداز میں فرمادیا کہ زمین اسے ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب وہ شخص مرا، ہم اس کو دفن کرتے تھے، زمین اٹھا کر اس کی لاش کو باہر پھینک دیتی تھی۔ پھر لوگ دوبارہ دفن کرتے تھے مگر قبر اُسے اٹھا کر باہر پھینک دیتی تھی ۔ دَفَنَّاهُ مِرَارً فَلَمْ تَقْبَلْهُ الْاَرْضُ ۔ ہم نے کئی بار اس کو دفنایا مگر زمین نے اس کو قبول نہیں کیا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 / 120،رقم:12236)
اسلئے کہ جو شخص ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمت لگائے تو زمین کیسے گوارا کرے کہ ایسے شخص کو اپنے دامن میں لے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے وفائی کی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو مالک و متصرف اور مالک و مختار ہیں ۔

کائنات ارض و سماوی کی ہر شے پر حضور بلند ہیں اور ہر شے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و اختیار میں ہے چاہے وہ ارضی ہو یا سماوی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شانِ تخلیق و تکوین کے سبب سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : مدینہ میں ایک دفعہ طویل قحط ہوگیا، جانور مرنے لگے، کھیتیاں تباہ ہوگئیں۔ جمعہ کا دن آیا، میرے آقا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم مرگئے، ہماری کھیتیاں اجڑ گئیں، جانور مرگئے، کچھ نہیں بچا۔ آپ نے بارش کے لئے دعا فرمائی۔ ابھی منبر سے نیچے بھی تشریف نہیں لائے تھے کہ اسی وقت بادل آگئے اور بارش شروع ہوگئی۔ صحابہ کہتے ہیں کہ بارش اس قدر جلد اور تیز ہوئی کہ ہم نے دوران خطبہ ہی بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے ہوئے دیکھے۔ پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ اگلا جمعہ آگیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ پھر وہ اعرابی یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارے گھر گر گئے، رستے بند ہوگئے، بارش تھمنے کو نہیں آرہی۔ آقا علیہ السلام نے اس کی بات سنی اور مسکرادیئے۔ پھر (اپنے سراقدس کے اوپر بادل کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے اسے حکم) فرمایا : حَوَا لَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا ، ’’ اے بادلو ہمارے اردگرد برسو، ہمارے اوپر نہ برسو‘‘۔(صحيح بخاری، کتاب المناقب، 3 / 1313،رقم:877،چشتی)
صحابی کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نے بادلوں کی طرف دیکھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹتے چلے گئے اور مدینہ شہر سے ہٹ گئے اور اردگرد برستے رہے ۔ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَاَنَّهُ اِکْلِيْلٌ ۔ اسی وقت بادل مدینہ کے اوپر سے ہٹ کر چاروں طرف یوں چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے) ۔
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : فَمَا جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ يُشِيْرُ بِيَدِهِ اِلٰی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّمَاءِ اِلَّا تَفَرَّجَتْ حَتّٰی صَارَتِ الْمَدِيْنَةُ فِی مِثْلِ الْجَوْبَةِ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دست مبارک سے آسمان پر جس طرف اشارہ فرماتے، ادھر سے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ تھالی کی طرح (صاف) ہوگیا‘‘۔(بخاری، کتاب الاستسقاء، 1 / 349،رقم:986)
حتی کہ اردگرد مہینے تک بارش برستی رہی، جو ملحقہ علاقوں سے آتا وہ اس بات کی گواہی دیتا لیکن مدینے پر بادل لوٹ کر نہ آئے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصرف زمین و آسمان، دنیا و جنت، جمادات و نباتات، بادلوں و بارشوں، کنکریوں اور خشک زمینوں پر بھی ہے۔ آقا علیہ السلام کا یہ تصرف و اختیار اعلان نبوت سے پہلے بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت سے ہی ہر شے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست تصرف میں تھی۔ امام سیوطی الخصائص الکبریٰ میں بیان کرتے ہیں کہ : جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر تین سال تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی حضرت شیما آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر بکریوں کو چرانے لے گئیں۔ حضرت حلیمہ سعدیہ پریشان ہوئیں اور کہا بیٹی شیما! میرے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دور دھوپ میں کہاں لے گئی تھی، حضرت شیما نے کہا : يَا اُمَّه مَاوَجَدَ اَخِی حَرَّا رَأَيْتُ غُمَامَةً تُظِلُّ عَلَيْهِ اِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ وَاِذَا سَارَ سَارَتْ حَتَّی انْتَهَی اِلَی هَذَا الْمَوْضِعِ قَالَتْ: أَحَقَّا يَابُنَيَّة قَالَتْ: أَيْ وَاللّٰهِ ۔ ’’امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نہیں لگی: بادل ان پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے‘‘۔ (السيوطی فی الخصائص الکبریٰ، 1 / 58،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف میں یہ سب کچھ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے وقت سے ہی دے دیا تھا۔

غزوہ حنین میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار صحابہ کرام پر مشتمل تھی۔ اس پر بعض صحابہ کے ذہن میں خیال آیا کہ آج ہماری تعداد بہت زیادہ ہے، آج دشمن ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں ہوا : لَقَدْ نَصَرَکُمُ اﷲُ فِيْ مَوَاطِنَ کَثِيْرَةٍلا وَّيَوْمَ حُنَيْنٍلا اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَيْئًا وَّضَاقَتْ عَلَيْکُمُ الاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ ۔ بے شک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اور (خصوصاً) حنین کے دن جب تمہاری (افرادی قوت کی) کثرت نے تمہیں نازاں بنا دیا تھا پھر وہ (کثرت) تمہیں کچھ بھی نفع نہ دے سکی اور زمین باوجود اس کے کہ وہ فراخی رکھتی تھی، تم پر تنگ ہوگئی چنانچہ تم پیٹھ دکھاتے ہوئے پھر گئے۔(التوبة:25)
مسلمانوں کا دھیان اپنی کثرت کی طرف چلا گیا اور وہ اس پر نازاں ہوگئے۔ اس ایک لمحے کے لئے مسلمانوں کا دھیان بشری کمزوریوں کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی سے ہٹ گیا، نتیجتاً وقتی طور پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ صحابہ کی اکثریت مخالف سمت سے کثرت سے آنے والے تیروں کے سبب پیٹھ پھیر کر بھاگ اٹھی، پانسہ پلٹ گیا، قدم اکھڑ گئے۔ آقا علیہ السلام اس تمام صورت حال میں ایک وقت تک خاموش رہے تاکہ اپنی کثرت اور اپنی جنگی مہارت پر ناز کرنے والے اپنی مہارت اور کثرت کا انجام دیکھ لیں۔ اللہ پاک نے بھی انتظار کیا لیکن رب چاہتا نہیں تھا کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور غلاموں کو شکست ہو۔ یہ ایک عارضی وقت، لمحہ اور دورانیہ تھا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوچکی تھی اور کفار فتح یاب ہوگئے تھے۔ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابِ مِنَ الْاَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوْهَهُمْ فَقَالَ شَاهَتِ الْوُجُوْهُ.’’(اس وقت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) پھر زمین سے خاک کی ایک مٹھی اٹھاکر دشمن کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا ان کے چہرے قبیح ہوگئے‘‘۔(مسلم فی الصحيح، کتاب الجهاد والسير، 3 / 1402، رقم:1777)
تیس ہزار کی تعداد میں کفار کا لشکر تھا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹھی بھر مٹی و کنکریاں ان کی طرف پھینکیں۔ وہ کنکریاں تیس ہزار کفار کی آنکھوں میں اور سروں پر ضرب لگانے لگیں۔ کفار ان کنکریوں سے بچنے کے لئے بھاگنے لگے۔ جن کنکریوں کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھینکا تھا، وہ زمین پر نہ گرتیں بلکہ جو کنکری جس کو لگی تھی وہ کنکری اس کے بھاگنے پر اس کے پیچھے بھی دوڑنے لگی اور اس کے گھر پہنچنے تک ہتھوڑوں کی طرح اس کے سر پر برستی رہی۔ کفار کہتے ہیں:فَمَا خُيِّلَ اِلَيْنَا اِلَّا اَنَّ کُلَّ شَجَرَةٍ وَحَجَرٍ فَارِسٌ يَطْلُبُنَا قَالَ ثَقَفِیُّ فَاَعْجَرْتُ عَلٰی فَرَسِيْ حَتّٰی دَخَلْتُ الطَّائِفَ.’’ہمیں ایسے لگا کہ ہر پتھر کنکری اور ہر درخت (کا خشک ٹکڑا) ایک گھڑ سوار ہے جو ہمیں تلاش کررہا ہے۔ ثقفی نے کہا: میں نے خوفزدہ ہوکر گھوڑے کو تیز دوڑایا حتی کہ میں طائف پہنچ گیا (لیکن وہ کنکریاں ہمارے گھروں تک ہمارا تعاقب کرتی رہیں)‘‘۔(البخاری، فی التاريخ الکبير، 6 / 310، رقم:2492،چشتی)
یعلی بن عطاء روایت کرتے ہیں کہ : لَمْ يَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ اِلَّا امْتَلاَتْ عَيْنَاهُ وَفَمُهُ تُرَابًا وَسَمِعْنَا صَلْصَلَةً بَيْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ کَاِمْرَارِ الْحَدِيْدِ عَلَی الطَّسْتِ الْحَدِيْدِ.’’ہم میں سے ایک بھی آدمی ایسا نہ بچا جس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے نہ بھر گیا ہو۔ ہم نے زمین و آسمان کے درمیان ایسی گونج سنی جیسے لوہے کو لوہے کی پلیٹ پر رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔(احمد بن حنبل فی المسند، 5 / 286، رقم:22520)
ان کنکریوں کو آنکھیں کس نے دیں کہ اس ایک ایک کنکری نے ایک ایک کافر کو پہچان لیا۔۔۔ اس کنکری کو یہ شعور کس نے دیا۔۔۔؟ اس کنکری کو یہ بصارت کس نے دی۔۔۔ اور مسلسل مارنے کی طاقت کس نے دی۔۔۔ اور ان کفار کو ان کے گھروں تک پہنچانے کا احساس کس نے دیا۔۔۔؟ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ان کنکریوں کے مارنے سے شکست ہوگئی بلکہ بات بہت آگے کی ہے اور وہ یہ کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک لگنے اور آپ کی توجہ ہونے سے وہ کنکریاں زندہ ہوگئیں۔ حضرت عیسیٰؑ کے معجزے سے تو مردہ انسان زندہ ہوتے تھے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک اگر پتھروں، کنکریوں کو مس کرگئے تو کنکریاں باشعور زندگی پاگئیں اور ان کو آنکھیں مل گئیں ۔ اس واقعہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امت کو بھی پیغام دے دیا کہ کوئی شخص اپنی مہارت و تعداد پر بھروسہ نہ کرے، نہ مال و دولت پر بھروسہ کرے بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ سب کچھ آقا علیہ السلام کے در سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل و تصدق سے ہی ملتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اس مسئلہ کو یعنی اختیارات مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنے کے لئے ذاتی اور عطائی کا فرق سمجھنا نہایت ضروری ہے، جب ذاتی اور عطائی کا فرق سمجھ میں آجائے تو ان شاء اللہ تعالٰی امید ہے کہ منکرین اس مسئلے کو آسانی سے سمجھ سکیں گے، ہمارا اہلِ سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو بھی عطا ہوا وہ سب عطائی ہیں، اور جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علم غیب یا تصرّفات ذاتی کا قائل ہو وہ مسلمان ہی نہیں ۔ قرآن و احادیث میں جہاں کہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب یا اختیارات کی نفی معلوم ہوتی ہے وہاں اس نفی سے مراد ذاتی ہے نہ کہ عطائی ذاتی اور عطائی کے اس اصول کو مدنظر رکھیں تو غلط فہمیاں دور جائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...