لفظ نبی اور شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم
قرآن اور لفظ نبی کا تذکرہ
قرآن مجید میں اللہ تعاليٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جابجا ’’النبی‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا۔ ارشاد فرمایا : يٰـاَيّهَا النَّبِيّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا.(الاحزاب:45)
’’اے نبِيّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا بناکر بھیجا‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَ الْاُمِّيَ.(الاعراف:157)
(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) ‘‘۔
اگر لفظ ’’نبی‘‘ اور نبوت کے معنی اور مفہوم کی روشنی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان نبوت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو لفظِ ’’نبی‘‘ کے اندر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی شانوں کا تذکرہ موجود ہے۔
لفظ نبی کا ایک معنیٰ ہے غیب کی خبریں دینے والا
اگر لفظ نبی کو نَبَاءَ سے مشتق سمجھیں تو نبی کا معنی ہے غیب کی خبر دینے والا۔ اگر لفظ نبی بروزنِ فَعِيْلٌ بمعنی فاعل ہو تو اس کا معنی ہوگا کہ : يَکُوْنَ مُخْبِرًا اَمَّا اَطْلَعَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ . ترجمہ : اللہ تعاليٰ نے اپنے جس غیب پر انہیں مطلع کیا ہے، اس غیب کی خبریں لوگوں کو دینے والا۔
اسی لئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ : وَمَا هُوَ عَلَی الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ. (التکوير:24)
ترجمہ : اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔
’’اَلنَّبُوّات‘‘ میں علامہ ابن تیمیہ نے اس معنی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔اگر لفظِ ’’نبی‘‘ بروزن فَعِيْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہو تو نبی کا مطلب ہے: اَنَّ اللّٰه تَعَالٰی اَطْلَعَهُ غَيْبِهِ فَيَکُوْنُ النَبِيّ.
ترجمہ : اللہ تعاليٰ نے جس ذات کو اپنے غیب پر مطلع کیا ہو، اپنے غیب کی اطلاع دی ہو اس کو نبی کہتے ہیں۔
نبی کا ایک معنیٰ ہے گمراہی سے نکالنے والا
تہذیب اللغہ اور تحریر المطالب (شرح عقیدہ ابن حاجب) میں لفظِ ’’نبی‘‘ کے مادہ اشتقاق ’’نَبَاءَ‘‘ کے حوالے سے ’’خروج‘‘ کا معنی بھی آیا ہے۔ صاحب تحریر المطالب شرح عقیدہ ابن حاجب پر خروج کے اعتبار سے اس کا معنی لکھتے ہیں کہ : خَرَجَ مِنْ بَلَدٍ اِلٰی بَلَدٍ اُخْرٰی خَرَجَ مِنْ اَرْضِ اِلٰی اَرْضِ اُخْرٰی.
ترجمہ : ایک جگہ سے کوئی نکل کر دوسری جگہ چلا جائے، ایک حال سے نکل کر دوسرے حال میں چلا جائے۔
اس معنی کے لحاظ سے نبی کا معنی ہوگا : اَلَّذِيْ اَخْرَجَ النَّاسَ مِنَ الضَّلَالَةِ اِلٰی الْهُدی.
ترجمہ : وہ ذات جس نے لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت میں پہنچادیا۔ وہ ذات جس نے لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال دیا، ان کو خروج کردیا اور ہدایت کی روشنی میں لے گئے، اس کو نبی کہتے ہیں۔
نبی کا ایک معنیٰ ہے تمام مخلوق سے اعليٰ
لفظِ ’’نبی‘‘ کے دوسرے مادہِ اشتقاق ’’نَبَا، اَلنَّبْوةُ‘‘، کے اعتبار سے بھی لفظِ نبی کے مختلف معانی ہیں۔ اَلنَّبْوةُ کا معنی ہے: اَلْاِرْتِفَاع جس کو بلندی ملی‘‘۔ اسی سے اَلنَّبَاوَة ہے یعنی جومقام بلند ہو۔ زمین سے بلند ٹیلہ، بلند مینار یا بلند جگہ جو دور سے نظر آئے، جس کو دیکھ کر لوگ ہدایت پائیں، بھولے ہوئے راستہ پائیں۔ اس شے کی بلندی کی وجہ سے اس کو نَبْوٰی کہتے ہیں۔ ائمہ لغت کا کہنا یہ ہے کہ اس وجہ سے اس سے النَّبُوَّة اخذ کیا ہے۔ اس سے لفظ نبی نکلا ہے۔ نبی کو اس معنی کے لحاظ سے اس لئے نبی کہتے ہیں کہ : اِنَّهُ شُرِّفَ عَلٰی سَائِرِالْخَلْقِ’’اُسے ساری مخلوق میں سب سے بلند بنایا جاتا ہے‘‘۔
نبی کو وہ شان، عظمت، بلندی، شرف اور رفعت دی جاتی ہے کہ ان کا مقام کل کائنات انسانی اور خلق میں سب سے بلند ہوتا ہے۔ اس کی ذات کی بلندی کو دیکھ کر لوگ اسے آئیڈیل بناتے ہیں اور اس سے راستہ پاتے ہیں۔
ابن الاعرابی نے اَلنَّبْوةُ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اَلْمُرْتَفِعُ مِنَ الْاَرْضِ زمین پست ہوتی ہے، ایک ہی لیول میں ہوتی ہے اور وہ چیز، پہاڑ، ٹیلہ، مینار یا عمارت جو زمین کی پستی کو چھوڑ کر بلند ہوجائے، اس کو ’’نَبْوَة‘‘ کہتے ہیں۔اس معنی کی رُو سے
اَلنَّبِيّ هُوَا الْعَلَمُ مِنْ اَعْلَامِ الْاَرْضِ الَّتِيْ يُهْتَدٰی بِهٰا ۔ ’’نبی اس ذات کو کہتے ہیں جس کا مقام و مرتبہ سب سے اونچا ہو اور لوگ اسے دیکھ کر رہنمائی پائیں‘‘۔
گویا نبی کو نبی اس لئے کہتے ہیں اللہ تعاليٰ اسے ساری مخلوق پر بلندی، عظمت اور رفعت عطا کرتا ہے۔ پس اسی عظمت اور علو مرتبت کی وجہ سے وہ نبی کہلاتا ہے۔
قاضی عیاض کہتے ہیں:هُوَ مَرْتَفَعَ مِنَ الْاَرْضِ وَمَعْنَاهُ اَنَّ لَهُ رُتْبَةً شَرِيْفَةً وَمَکَانَةً نَبِيْهَا.
’’وہ ذات جو ساری مخلوق ارضی اور ساری مخلوق سماوی سے بلند ہوتی ہے۔ اسے اتنا بلند رتبہ، بلند مقام اور وہ شرف و عظمت عطا کی جاتی ہے کہ ہر شے اس کی عظمت کے نیچے ہوجاتی ہے‘‘۔
نبی کا ایک معنیٰ راستہ بھی ہے
مادہ اشتقاق ’’نَبَا‘‘ کے اعتبار سے نبی کا ایک معنی ’’طریق‘‘ (راستہ) بھی ہے۔ تمام لغت کی کتب نے اسے بیان کیا ہے کہ : اَلنَّبِيّ هُوَ الطَّرِيْقُ وَالْاَنْبِيَاءُ طُرُقُ الْهُدٰی.
ترجمہ : نبی راستے کو کہتے ہیں، انبیاء وہ ذوات ہیں جو بھولے ہوؤں کو ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں۔
نبی کی ذات ایک نئی راہ اور نئی طرز دیتی ہے۔ جب لوگ بھولے ہوئے، بھٹکے ہوئے اور گمراہ ہوتے ہیں، انہیں نہ اپنی پہچان ہوتی ہے اور نہ اپنے خالق کی پہچان ہوتی ہے۔۔۔ نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے اور نہ دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی معرفت ہوتی ہے۔۔۔ وہ محظ گمراہی، لاعلمی، بے خبری، جہالت اور ضلالت میں ہوتے ہیں۔ لغت کے اس معنی کے اعتبار سے ان حالات میں نبی کی ذات خود راستہ ہوتی ہے۔ جب نبی مبعوث ہوتا ہے تو بھولے ہوئے انسانوں کو راستہ دکھا دیتا ہے۔ اس نبی کی ذات، سیرت، وجود، عمل، طور طریقے اور اسوہ و شعار میں خود ایک راستہ ہوتا ہے جو بھولے ہوؤں کو حق کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ نبی ایسا راستہ دکھاتا ہے کہ بندے کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خالق و مالک کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ اپنے اور دوسرے لوگوں کے درمیان رشتے کی نوعیت کی پہچان کے ساتھ ساتھ وہ اچھے برے کو بھی جان جاتا ہے۔ گویا ایک کامل ہدایت کا راستہ دے دینے والے اور انسانیت کے لئے خود راستہ بن جانے والے کو نبی کہتے ہیں۔
ابومعاذ النحوی نے قدیم لغتِ عرب کا ایک قول نقل کیا ہے کہ مَنْ يَضُلُّنِيْ النَّبِی اَيْ اَلطَّرِيْق. یعنی کسی نے پوچھنا ہو کہ میں بھولا ہوا ہوں، کوئی مجھے راستہ دکھا دے تو راستہ پوچھنے کے لئے کہتے: مَنْ يَضُلُّنِيْ عَلَی النَّبِی یعنی کوئی مجھے نبی دکھادے۔ نبی دکھانے کا مطلب یہ ہوتا کہ میں بھولا ہوا ہوں کوئی مجھے سیدے راستے پر چلادے۔ پس نبی کا وجود خود سیدھا راستہ ہوتا ہے۔
اسی لئے قرآن مجید نے کہا:اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ
ترجمہ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ خود وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ہے۔
نبی کی ذات ایک طرف تمام مخلوق میں سب سے بلند ہوتی ہے اور دوسری طرف نبی وہ ہے جس سے لوگ راستہ پائیں۔ اس کا معنی یہ بھی ہے کہ ایسا راستہ، طریقہ اور وسیلہ جو لوگوں کو اللہ تک لے جائے گویا لوگوں کو اللہ سے ملانے کے راستے اور واسطے کو بھی نبی کہتے ہیں۔
نبی کا ایک معنیٰ جدا ( علیحدہ ) بھی ہے
لفظ اَلنَّبْوةُ، اَلنَّبَاوَة سے نبی کا ایک اور دلچسپ معنی بھی ہے۔ وہ معنی ہے اَلْجَفْوَہ ’’جدائی، علیحدگی‘‘۔ اس معنی کی رو سے نبی کا معنی ہے وہ ذات جو جدا اور علیحدہ ہو۔قرآن مجید میں ہے کہ : تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ.(السجدة: 16،چشتی)
ترجمہ : ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں ۔
اس آیت مبارکہ میں بستر سے جدا کے لئے تَتَجَافٰی کا لفظ استعمال کیا جو اَلْجَفْوٰی سے ہے۔ نبوت کا ایک معنی یہی اَلْجفوٰی ہے۔ اس معنی کی رُو سے نبی وہ ہے جو علیحدہ ہو، جو دوسروں سے جدا ہو۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کس طرح دوسروں سے جدا ہوتا ہے؟ اس معنی کی رو سے جدائی دو طرح کی ہے : ( 1 ) ذاتی طور پر دوسروں سے جدا ۔ ( 2 ) معاشرتی رسوم و رواج سے علیحدہ ۔
( 1 ) ذاتی طور پر دوسروں سے جدا : نبی کی اپنی ذات میں علیحدگی اور جدائی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں پیکر بشریت ہوتا ہے مگر باقی بشروں سے جدا ہوتا ہے، عالم بشریت سے علیحدہ ہوتا ہے۔ نبی کے وجود انسانی اور پیکر بشریت میں خود ایک جدائی اور علیحدگی ہوتی ہے۔ یہ مقامِ نبوی جو انہیں دوسروں سے جدا کرتا ہے بایں طور ہے کہ بشری پیکر ہونے کے باوجود وہ بشریت کے وصف سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بشری تھا مگر سایہ نہ تھا، ہر بشری اور انسانی وجود کا سایہ ہوتا ہے، سائے کے بغیر کوئی وجود نہیں۔ جب پیکر بشری ہو مگر سایہ نہ ہو تو بشری پیکر رکھنے کے باوجود بشریت سے جدا ہوگئے۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آتا تھا مگر پسینے میں بدبو نہ تھی بلکہ خوشبو تھی، لہذا اپنے پیکر بشری میں دوسروں سے جدا ہوگئے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسم رکھتے تھے مگر اس پر مکھی نہ بیٹھتی تھی۔۔۔ انسانی جسم تھا، جسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل فاقوں سے ساری زندگی گزاری اور کبھی کمزوری نہ ہوئی۔۔۔ اس پیکر نبوت کی آنکھیں تھیں، آنکھیں صرف آگے دیکھنے کے لئے ہوتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں جس طرح آگے دیکھتی تھیں اسی طرح پیچھے بھی دیکھتی تھیں۔۔۔ ہماری آنکھیں روشنی میں دیکھتی ہیں، اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتیں مگر آقا علیہ السلام کا پیکر بشریت طیبہ ایسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں اندھیرے میں اسی طرح دیکھتیں جس طرح اجالے میں دیکھتیں۔۔۔ تمام پیکران بشریت کے لعاب دہن سے امراض پیدا ہوتے ہیں، جراثیم پیدا ہوتے ہیں مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسے اپنا لعاب دہن لگا دیتے تو اس کو شفا مل جاتی، اندھے کو بینائی مل جاتی، بیماروں کی امراض دور ہوجاتیں۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم بشریت سے تھے مگر بشری خصائص سے جدا اور علیحدہ ہوگئے تھے۔ بشری پیکر رکھ کر اس طرح بشری خصائل سے الگ ہوئے کہ عالم نور کے ملائکہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوؤں کے برابر نہ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرشی ہوکر عرشیوں سے بھی اونچی شان کے حامل ہوگئے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات کے اعتبار سے دوسروں سے علیحدگی اور جدائی کی شان ہے۔
( 2 ) معاشرتی رسوم و رواج سے علیحدہ : ایک علیحدگی اور جدائی کی شان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی بھی ہے جس کا تعلق اس اجتماع اور معاشرت کے ساتھ تھا جس میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہتے تھے۔ وہ جدائی یہ ہے کہ جس معاشرے میں آقا علیہ السلام کی بعثت ہوئی، اس معاشرے کا عالم یہ تھا کہ لوگ قتل و غارتگری کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر نسلیں قتل ہوجاتی تھیں، پڑھنے لکھنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ جہالت، ظلم، جبر، بربریت مسلط تھی۔ نفرتیں عام تھیں، انسانیت کی کوئی قدر اور عزت نہ تھی۔ خون خرابہ اور دشمنی و عداوت عام تھی۔ قبیلوں میں اگر لڑائی ہوجاتی تو دو دو سو سال جنگیں چلتی تھیں اور ہزارہا لوگ مارے جاتے اور انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔
ایسے معاشرے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ جدائی بایں طور سامنے آئی کہ آپ اس قتل و غارت کے معاشرے میں پیکر امن بن کر تشریف لائے۔ وہ معاشرہ جس میں انسان کی عزت و تکریم کا کوئی تصور نہ تھا، آقا علیہ السلام اس معاشرے میں رہے اور اس معاشرے کے برے رسم و رواج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انسان کی تکریم و عظمت کا سبق دیا۔۔۔ قتل و غارتگری سے منع کیا۔۔۔ ان پڑھوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا۔۔۔ دشمنی کرنے والوں کو محبت کرنا سکھایا۔۔۔ خون خرابہ کرنے والوں کو خون کی حفاظت کرنا سکھایا۔۔۔ عزتیں لوٹنے والوں کو عزت بچانا سکھایا۔۔۔ پورے معاشرے میں جبر اور بربریت کرنے والوں کو رحمت کا طریقہ سکھایا۔ اس طرح معاشرے کی جو روش اور طریقہ تھا، آقا علیہ السلام اس طریقہ اور روش سے علیحدہ ہوتے ہوئے اس اجتماع اور معاشرے کی خصلتوں سے جدا ہوگئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی معاشرے میں پیدا ہوئے، اسی معاشرے میں بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری۔ اس معاشرے میں شب و روز گزارے جہاں طاقتور، کمزور کو غلام بنالیتے تھے، انہیں کوڑوں سے مارتے تھے، انہیں پتھروں کی سزا دیتے اور آگ میں جلادیتے، چھوٹی چھوٹی بات پر قتل کردیتے۔ پوری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے اس معاشرے میں گزاری۔ اس دور میں کوئی جدید تہذیب نہ تھی، کوئی ماڈرن کلچر نہ تھا، میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روم، مصر اور بابل نہیں گئے، وہ کتابوں اور انٹرنیٹ کا دور بھی نہ تھا۔ وہی معاشرہ ہی ہر ایک کا استاد تھا مگر اس معاشرے میں جنم لینے کے باوجود آقا علیہ السلام نے اس معاشرے کو اپنا استاد نہیں بنایا بلکہ خود اس معاشرے کے استاد بن گئے، اس معاشرے کے معلم، مرشد، ہادی اور رہبر بنے اور اس طرح معاشرے کی روش سے جدا ہوگئے۔ کردار، آئیڈیاز، فکر، سوچ، تعلیم اور عمل کی یہ جدائی اور علیحدگی بایں طور سامنے آئی کہ اس معاشرے کو امن اور رحمت کا مرکز بنا دیا۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment